حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں شاملین جلسہ کو زرّیں نصائح: خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ یکم ستمبر ۲۰۲۳ء
٭…یہ مت خیال کرو کہ صرف بيعت کر لينے سے ہي خدا راضي ہو جاتا ہے۔ يہ تو صرف پوست ہے
٭… ترقي کي ايک ہي راہ ہے اور وہ يہ کہ خدا کو پہچانيں اور اس پر زندہ ايمان پيدا کريں
٭… جو علمي ترقي چاہتا ہے اسے چاہيے قرآن کو غور سے پڑھے
٭…قرآن شريف ايک ديني سمندر ہے جس کي تہ ميں بڑے بڑے ناياب اور بے بہا گوہر موجود ہيں
٭… نماز نشست و برخاست کا نام نہيں ہے۔ نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو لذت اور سرور اپنے اندر رکھتي ہے
٭… طالبِ حق کو ايک مقام پر پہنچ کر ٹھہرنا نہيں چاہيے ورنہ شيطانِ لعين کسي اور جانب لگا دے گا
٭… ہر احمدي کو اعليٰ اخلاق کا اظہار بھي کرنا چاہيے۔ يہي اعليٰ اخلاق ہيں جو اسلام کا پيغام پہنچانے ميں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہيں
خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ یکم ستمبر ۲۰۲۳ء بمطابق یکم تبوک ۱۴۰۲ ہجری شمسی بمقام جلسہ گاہ Messe Stuttgart، جرمني
اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيز نے مورخہ یکم ستمبر۲۰۲۳ء کوجلسہ گاہ بمقام Messe Stuttgart، جرمنی ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔اس خطبہ جمعہ کے ساتھ جماعت احمدیہ جرمنی کے ۴۷ویں جلسہ سالانہ کا افتتاح بھی تھا۔ حضور انورنےمقامی وقت کے مطابق دو بج کرتین منٹ پرلوائے احمدیت لہرایا جبکہ امیر صاحب جرمنی نے جرمنی کا قومی پرچم لہرایا۔ اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی۔
دعا کے بعد دو بج کر ر۹ منٹ پر حضور انور جلسہ گاہ میں تشریف لے آئے ۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت طلحہ کاہلوں صاحب (مربی سلسلہ) کے حصے ميں آئي۔
تشہد،تعوذاور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
الحمدللہ آج جماعت احمدیہ جرمنی کا جلسہ سالانہ چار سال کی پابندیوں کے بعد وسیع پیمانے پر منعقد ہورہا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب شاملینِ جلسہ کو جلسے کے مقاصد کو حاصل کرنے والا بنائے۔ شاملینِ جلسہ اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہمیں دوبارہ ملنے کا موقع ملا ہے تو کچھ مجلسیں لگا لیں گے، ایک دوسرے سے مل لیں گے اور بس۔ نہیں! بلکہ
جلسے کے انعقاد کا ایک بہت بڑا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں بتایا ہے، اور بڑے درد سے اس کا اظہار کیا ہے، وہ مقصد یہ ہے کہ آپ علیہ السلام کی بیعت میں داخل ہونے والے دینی علم سیکھیں، روحانیت میں ترقی کریں۔ اللہ تعالیٰ سے تعلق اور محبت میں بڑھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل پیروی کرنے والے بنیں۔ دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور دین مقدم ہوجائے۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں تمام مخلصین داخلینِ سلسلہ بیعت اس عاجز پر ظاہر ہو کہ بیعت کرنے سے غرض یہ ہے کہ تا دنیا کی محبت ٹھنڈی ہو اور تا اپنے مولیٰ کریم اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت غالب آجائے۔
اس سال جماعت احمدیہ کو جرمنی میں قائم ہوئے سو سال بھی ہوگئے ہیں۔ جرمنی کے احبابِ جماعت اس بات پر خوش بھی ہیں، یقیناً یہ خوشی کی بات ہے کہ آج سے سو سال پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے اسلام کا خوبصورت پیغام اس ملک میں پہنچا۔اس بات پر خوش ہونے کے ساتھ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ان سو سالوں میں ہم نے کیا حاصل کیا؟ ہم نے اپنے ایمانوں کی کس حد تک حفاظت کی؟ جب جماعت یہاں قائم ہوئی تو چند ایک لوگ تھے۔ پھر پاکستان کے حالات بدلے، دنیا کے حالات بدلے، اور بہت سے احمدی اس ملک میں آکر آباد ہوئے۔ بہت سے احمدی اس لیے اس ملک میں آئے کیونکہ احمدی ہونے کی وجہ سے انہیں اپنے ملک میں مذہبی آزادی میسر نہ تھی۔جب یہاں آکر انہیں مذہبی آزادی ملی ہے تو انہیں خاص محنت سے اپنی حالتوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنی چاہیے۔ اگر ہم نے اپنے اور اپنی اولادوں کے اندر یہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تو یہی وہ حقیقی شکرانہ ہے جو اس موقع پر ہمیں ادا کرنا چاہیے۔
اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض ارشادات آپ کے سامنے رکھوں گا، جو ہمیں ہمارے مقصد کی طرف راہنمائی کرنے والے ہیں۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں یہ مت خیال کرو کہ صرف بیعت کر لینے سے ہی خدا راضی ہو جاتا ہے۔ یہ تو صرف پوست ہے۔ پس
جو بیعت اور ایمان کا دعویٰ کرتا ہے اسے اپنے آپ کو ٹٹولنا چاہیے کہ کیا مَیں چھلکا ہی ہوں یا مغز۔ جب تک مغز پیدا نہ ہو ایمان، محبت، اطاعت، بیعت، اعتقاد اور مریدی کا مدعی سچا مدعی نہیں ہے۔
دین کو دنیا پر مقدم رکھنا کیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:میرا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ مسلمان سُست ہو جائیں۔اسلام کسی کو سست نہیں بناتا۔اپنی تجارتوں اور ملازمتوں میں بھی مصروف ہوں مگر میں یہ نہیں پسند کرتا کہ خدا کے لیے ان کا کوئی وقت خالی نہ ہو۔ نمازوں کے وقت پر نمازوں کو نہ چھوڑیں۔ ہر معاملے میں دین کو مقدم رکھیں۔ دنیا مقصود بالذات نہ ہو، اصل مقصود دین ہو۔ پھر دنیا کے کام بھی دین ہی ہوں گے۔
فرمایا :ترقی کی ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ خدا کو پہچانیں اور اس پر زندہ ایمان پیدا کریں۔
دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے متعلق آپ علیہ السلام مزید فرماتے ہیںکہ
دیکھو دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسلام قبول کرکے دنیا کے کاروبار اور تجارتوں میں مشغول ہوجاتے ہیں۔ شیطان ان کے سر پر سوار ہوجاتا ہے۔
میرا یہ مطلب نہیں کہ تجارت کرنی منع ہے، صحابہ تجارتیں بھی کرتے تھے مگر دین کو دنیا پر مقدم رکھتے تھے۔ انہوں نے اسلام قبول کیا تو اسلام کے متعلق سچا علم جو یقین سے ان کے دلوں کو لبریز کردے انہوں نے حاصل کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ کسی میدان میں شیطان کے حملے سے نہیں ڈگمگائے۔
فرمایا:میں زیادہ امید ان پر کرتا ہوں جو دینی ترقی اور شوق کو کم نہیں کرتے۔ جو اس شوق کو کم کرتے ہیں مجھے اندیشہ ہوتا ہے کہ کہیں شیطان ان پر قابو نہ پالے۔ اس لیے کبھی سست نہیں ہونا چاہیے۔ جو علمی ترقی چاہتا ہے اسے چاہیے قرآن کو غور سے پڑھے۔ قرآن شریف ایک دینی سمندر ہے جس کی تہ میں بڑے بڑے نایاب اور بے بہا گوہر موجود ہیں۔
پس
ہمیں جائزہ لینا چاہیے کہ ہم میں سے کتنے ہیں جو باقاعدگی سے توجہ کے ساتھ قرآن کریم پڑھتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں کہ مَیں بار بار اس امر کی طرف ان لوگوں کو جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے اس سلسلے کو کشفِ حقائق کے لیے قائم کیا ہے کیونکہ بدوں اس کے عملی زندگی میں کوئی روشنی اور نور پیدا نہیں ہوسکتا۔ مَیں چاہتا ہوں کہ عملی سچائی کے ذریعے اسلام کی خوبی دنیا پر ظاہر ہو۔ جیسا کہ خدا نے مجھے اس کام کے لیے مامور کیا ہے اس لیے قرآن شریف کو کثرت سے پڑھو مگر نِرا قصّہ سمجھ کر نہیں بلکہ ایک فلسفہ سمجھ کر۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میرا مذہب تو یہ ہے کہ جس کو بلا سے بچنا ہو وہ پوشیدہ طور پر خدا سے صلح کرلے اور اپنی ایسی تبدیلی کرلے کہ خود اسے محسوس ہووےکہ مَیں وہ نہیں ہوں۔
سچے مذہب کی جڑ خدا پر ایمان ہے اور خدا پر ایمان چاہتا ہے کہ سچی پرہیز گاری ہو۔ خدا کا خوف ہو۔ تقویٰ والے کو خدا کبھی ضائع نہیں کرتا۔ وہ آسمان سے اس کی مدد کرتا ہے۔ فرشتے اس کی مدد کو اترتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر کیا ہوگا کہ متقی سے معجزے ظاہر ہوتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:وہ نماز بدیوں سے دور کرتی ہے جو اپنے اندر سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔ وہ نماز یقیناً برائیوں کو دور کرتی ہے۔ نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔ نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔
پس
ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم نمازوں میں سرور حاصل کرتے ہیں۔ کیا ہم مکمل بھروسہ صرف اسباب پر تو نہیں رکھتے۔ اگر ہم نمازوں کی حفاظت کرنے والے ہیں تو ہم بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں، ورنہ قابلِ فکر حالت ہے۔
علم و معرفت میں ترقی اور مرشد و مرید کے تعلقات کے بارے میں حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :مرشد و مرید کے تعلقات استاد اور شاگرد کی مثال سے سمجھ لینے چاہئیں۔ جیسے شاگرد استاد سے فائدہ اٹھاتا ہے اسی طرح مرید اپنے مرشد سے۔ اگر شاگرد اپنے استاد سے تعلق تو رکھے لیکن اپنی تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھائے تو وہ کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا، یہی حال مرید کا ہے۔ پس اس سلسلے میں تعلق پیدا کرکے اپنی معرفت اور علم کو بڑھانا چاہیے۔ طالبِ حق کو ایک مقام پر پہنچ کر ٹھہرنا نہیں چاہیے ورنہ شیطانِ لعین کسی اور جانب لگا دے گا۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر میری بیعت کی ہے تو مجھے حَکم اور عدل تسلیم کرو۔ اس بات پر یقین رکھو کہ جو بات میں کہوں گا خدا تعالیٰ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے مطابق کہوں گا۔فرمایا :جن لوگوں نے میرا انکار کیا ہے اور جو مجھ پر اعتراض کرتے ہیں انہوں نے مجھے شناخت نہیں کیا، اور جس نے مجھے تسلیم کیا اور پھر اعتراض رکھتا ہے وہ اور بھی بدقسمت ہے کہ دیکھ کر اندھا ہوا۔
آپ علیہ السلام اپنے آنے کی غرض اور مقصد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
اصل غرض اور مقصد یہی ہے کہ توحید، اخلاق اور روحانیت کو پھیلاؤں۔ توحید سے مراد یہ ہے کہ خدا ہی کو اپنا مطلوب مقصود اور محبوب اور مطاع تسلیم کرلیا جاوے۔
اخلاق سے مراد یہ ہے کہ جس قدر قویٰ انسان لے کر آیا ہے اسے اپنے اپنے موقعے پر خرچ کیا جاوے۔ یہ نہیں کہ بعض کو بالکل بے کار چھوڑ دیا جاوے اور بعض پر بہت زور دیا جاوے۔ روحانیت سے مراد وہ آثار اور علامات ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ سچا تعلق پیدا ہونے پر مترتب ہوتے ہیں اور یہ کیفیتیں جب تک پیدا نہ ہوں انسان سمجھ نہیں سکتا مگر اصل غرض یہی ہے۔ پس
ہر احمدی کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ توحید کا اس کے دل میں کس قدر جوش ہے۔ اگر یہ جوش ہوگا تب ہی ہم مسجدوں کا حق بھی ادا کرنے والے ہوں گے۔ اسی طرح جب ہم مسجدیں بنا رہے ہیں تو انہیں آباد کرنے کی بھی ایک فکر ہونی چاہیے۔
پھر ہر احمدی کو اعلیٰ اخلاق کا اظہار بھی کرنا چاہیے۔یہی اعلیٰ اخلاق ہیں جو اسلام کا پیغام پہنچانے میں بڑا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔روحانیت کے میدان میں ترقی کا تب پتا چلے گا جب حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے اعلیٰ معیار قائم ہوں گے۔امیر صاحب جرمنی گذشتہ دنوں مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ ہمارا اگلی صدی کا ٹارگٹ کیا ہے؟
پہلی بات تو یہ کہ جن چند باتوں کا مَیں نے ذکر کیا ہے، کیا گزرنے والی صدی میں یہ ہم نے حاصل کرلی ہیں؟
کیا خدا تعالیٰ سے ہمارا پختہ تعلق پیدا ہوگیا ہے؟ کیا ہماری نمازوں کے اعلیٰ معیار قائم ہوگئے ہیں؟ کیا ہم نماز کے اوقات میں دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر نماز کے لیے حاضر ہوجاتے ہیں یا صرف مسجدیں بنانے پر زور ہے؟ کیا ہم قرآن کریم کی تلاوت میں باقاعدہ ہیں؟ کیا ہم قرآنی احکامات کو تلاش کرکے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کیا ہم اپنے بچوں کو دین سے جوڑنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں؟ کیا ہمارے آپس کے تعلقات وہ اعلیٰ معیار حاصل کرچکے ہیں جو رَحَمَآءُ بَیْنَھُمْکا نمونہ دکھانے والے ہیں؟ کیا اعلیٰ اخلاق کے اظہار کے ذریعے ہم غیروں کو اسلام کی طرف راغب کر رہے ہیں؟
پس پہلے تو یہ جائزہ لیں کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے معیاروں کو ہم نے کس حد تک حاصل کرلیا ہے۔ اگر حاصل کرلیا ہے، جو میرے نزدیک ابھی حاصل نہیں ہوا، تو پھر
اگلی صدی کا نیا ٹارگٹ یہی مختصر لائحہ عمل ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں مَیں نے بیان کیا ہے۔
ہم یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ہم نے دنیا کے دل جیتنے ہیں۔ہم نے دنیا کو خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا قائل کرنا ہے۔ دنیا کو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنا ہے۔ پس اس حوالے سے ہم میں سے ہر ایک کو اپنے جائزے لینے چاہئیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ جماعت احمدیہ جرمنی کو نئی صدی میں داخل ہونا چاہیے کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اوراپنی اولادوں اور نسلوں کو بھی یہ تاکید کرتے رہیں گے اور ان کی اس طرح تربیت کریں گے کہ خدا تعالیٰ سے تعلق کی یہ جاگ ایک نسل سے دوسری نسل کو لگتی چلی جائے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
٭…٭…٭