دُرِّ یتیمﷺ
وہی یتیم بچہ جو کسی وقت بے باپ اور بے ماں کے تھاتمام عالم کا سہارا بن گیا
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’جب رسول کریمﷺکی وفات کا وقت قریب آیا تو آپؐ نے اپنے صحابہؓ کو جمع کیا اور فرمایا دیکھومیں بھی انسان ہوں جیسے تم انسان ہو ممکن ہے مجھ سے تمہارے حقوق کے متعلق کبھی کوئی غلطی ہو گئی ہو اور میں نے تم میں سے کسی کو نقصان پہنچایا ہو۔ ا ب بجائے اِس کے کہ میں خداتعالیٰ کے سامنے ایسے رنگ میں پیش ہوں کہ تم مدعی بنو، میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ اگر تم میں سے کسی کو مجھ سے کوئی نقصان پہنچا ہو تو وہ اِسی دنیا میں مجھ سے اپنے نقصان کی تلافی کرا لے۔ صحابہ ؓکو رسول کریمﷺ سے جو عشق تھااُس کو دیکھتے ہوئے اندازہ لگایاجا سکتا ہے کہ رسول کریمﷺ کے اِن الفاظ سے اُن کے دل پر کتنی چُھریاں چلی ہوں گی اور کس طرح اُن کے دل میں رقّت طاری ہوئی ہو گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ صحابہؓ پر رقت طاری ہوگئی۔ اُن کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے اور اُن کیلئے بات کرنا مشکل ہو گیا۔ مگر ایک صحابیؓ اُٹھے اور انہوں نے کہا۔ یا رسول اللہؐ! جب آپ نے کہا ہے کہ اگر کسی کومیں نے کوئی نقصان پہنچایا ہو تو وہ مجھ سے اِس کا بدلہ لے لے تو میں آپ سے ایک بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ رسول کریمﷺنے فرمایا ہاں۔ جلدی بتاؤ۔ تمہیں مجھ سے کیا نقصان پہنچا ہے۔ وہ صحابیؓ کہنے لگے۔ یارسول اللہؐ ! فلاں جنگ کے موقع پر آپ صفیں درست کروا رہے تھے کہ ایک صف سے گزر کر آپ کو آگے جانے کی ضرورت پیش آئی۔ آپ جس وقت صف کو چیر کر آگے گئے تو آپ کی کہنی میری پیٹھ پر لگ گئی آج مَیں اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ صحابہؓ بیان کرتے ہیں اُس وقت غصہ میں ہماری تلواریں میانوں سے باہر نکل رہی تھیں اور ہماری آنکھوں سے خون ٹپکنے لگا اگر رسول کریمﷺاُس وقت ہمارے سامنے موجود نہ ہوتے تو یقیناً ہم اُسے ٹکڑے ٹکڑے کر دیتے مگر رسول کریمﷺنے اپنی پیٹھ اُس کی طرف موڑ دی اور فرمایا۔ لو اپنا بدلہ لے لو اور مجھے بھی اُسی طرح کہنی مار لو۔ اُس آدمی نے کہا۔یا رسول اللہؐ! ابھی نہیں۔ جب آپ کی کہنی مجھے لگی تھی اُس وقت میری پیٹھ ننگی تھی اور آپ کی پیٹھ پر کپڑا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓ سے فرمایا۔ میری پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دو کہ یہ شخص اپنا بدلہ مجھ سے لے لے۔
جب صحابہؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ پر سے کپڑا اُٹھا دیا تو وہ صحابیؓ کانپتے ہوئے ہونٹوں اور بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ آگے بڑھا اور اُس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ننگی پیٹھ پر محبت سے ایک بوسہ دیا اور کہا۔یا رسول اللہ! کُجا بدلہ اور کُجا یہ ناچیز غلام! جس وقت حضور سے مجھے یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ وقت قریب آ پہنچا ہے جس کے تصور سے بھی ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں تو میں نے چاہا کہ میرے ہونٹ ایک دفعہ اس بابرکت جسم کو مَس کر لیں جسے خدا نے تمام برکتوں کا مجموعہ بنایا ہے۔ پس میں نے اِس کہنی لگنے کو اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کا ایک بہانہ بنایا اور میں نے چاہا کہ آخری دفعہ آپ کابوسہ تو لے لوں۔‘‘(اسوہ حسنہ، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ۱۳۳-۱۳۴)
یہ تھے ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ٰﷺ اور یہ تھی آپؐ کے ساتھیوں کی آپؐ سے محبت۔وہ محمدﷺ جن کے والدین ان کے بچپن میں ہی ا ن سے جدا ہوگئے۔وہ جو ایک یتیم کی حیثیت سے دنیا سےروشناس ہوئے۔ جن کے والد محترم ان کی ولادت سے قبل یا بعض روایات کے مطابق انتہائی بچپن میں ہی انہیں داغ مفارقت دے گئے اور جن کی والدہ مسلّمہ روایات کے مطابق آپ کی کم سنی کے دوران آپ کو تنہا چھوڑ کر اپنے مالک حقیقی کے حضور پیش ہوگئیں۔ اس یتیم بچے نے جب اللہ تعالیٰ کا دامن تھام لیا اور اللہ نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا تو کائنات کی ساری قوتیں اس کے ماتحت کردی گئیں اور اسے دلوں کی سلطنت کا بادشاہ بنا دیا گیا اور لوگ اپنے ماں باپ اور حقیقی قرابت داروں سے بھی بڑھ کر آپﷺ سے محبت کرنے لگے۔
آنحضرتﷺ کے والد کی وفات کب ہوئی؟
ان متواتر صدموں کے دوران اللہ تعالیٰ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر طرح سے مدد فرماتا رہا۔اس نے آپ کی ہرایک محتاجی کو دُور فرمایا اور تمام مشکل حالات میں خود آپ کا سہارا بنا۔ اس عظیم الشان نکتےکو اللہ تعالیٰ سورۃ الضحیٰ کی آیت نمبر سات میں یوں بیان فرماتا ہے کہ اَلَمۡ یَجِدۡکَ یَتِیۡمًا فَاٰوٰی۔ یعنی کیا اس (اللہ) نے تجھے یتیم پاکر اپنے زیر سایہ جگہ نہیں دی تھی؟ آنحضرتﷺ کے والد ماجد حضرت عبد اللہ کی وفات کے حوالے سے عام طور پر مشہور روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ رسول کریم ؐکی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ان کی وفات ہوگئی تھی لیکن بہت سی روایات میں یہ واقعہ آنحضرتﷺ کی ولادت کے بعد کا بھی بیان ہوا ہے۔ (سیرت ابن ہشام جلد۱ مطبوعہ بیروت صفحہ ۹۷)
حضرت مسیح موعودؑ نے اس حوالے سے عموماً دوسری قسم کی روایات کو اختیار فرمایا ہے جیسا کہ آپؑ فرماتے ہیں:’’تاریخ کو دیکھو کہ آنحضرتﷺوہی ایک یتیم لڑکا تھا جس کا باپ پیدائش سے چند دن بعد ہی فوت ہو گیا اور ماں صرف چند ماہ کا بچہ چھوڑ کر مرگئی تھی تب وہ بچہ جس کے ساتھ خدا کا ہاتھ تھا بغیر کسی کے سہارے کے خدا کی پناہ میں پرورش پاتا رہا‘‘۔(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۶۵)
مخالفین احمدیت اس حوالے کو لے کر حضرت مسیح موعودؑ کی اس تحریر پر یہ اعتراض اٹھاتےہیں کہ نعوذباللہ آپؑ نےتاریخ کو غلط بیان کیا ہے کیونکہ آنحضرتﷺ کے والد کی وفات تو آپﷺ کی پیدائش سے پہلے ہوگئی تھی۔اس پر معترضین کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ اور تفسیر کی کتابوں میں رسول پاکﷺ کے والد کی وفات کے حوالے سے دونوں طرح کی روایات موجود ہیں۔بعض تاریخ دان لکھتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کے والد آپؐ کی پیدائش سے پہلے فوت ہوگئےتھے اور بعض اس واقعہ کو پیدائش کے عین بعدکا بیان کرتے ہیں۔علامہ ابن کثیر اس مضمون کے حوالے سے یہ لکھتے ہیں کہ مؤرخین کی اس حوالہ سے دو قسمیں ہیں۔سیرت حلبیہ میں یہ بیان ہے کہ گو بیشتر علماء کا خیال ہے کہ حضرت عبد اللہ کا انتقال آنحضرتﷺ کی ولادت سے پہلے ہوگیا تھا لیکن بہت سی روایات بعد کی بھی بیان ہوئی ہیں۔اسی طرح طبقات ابن سعد میں بھی دونوں خیالات کا ذکر ہوا ہے۔ یوں حضرت عبداللہ کی وفات کے حوالے سے بیان کردہ ان روایات کے مطابق ان کی وفات حضور کی ولادت باسعادت سے بالکل متصل زمانے میں ہوئی۔ خواہ چند دن پہلے کا ہو یا کچھ عرصہ بعد کا۔ (بحوالہ تفسیر ابن کثیر جلد ۵ زیر تفسیر سورۃ الضحیٰ،سیرت حلبیہ جلد اول بیروت صفحہ ۶۳ اورطبقات ابن سعد جزو اول ،لبنان صفحہ ۴۶)
ایامِ رضاعت
آپؐ کی والدہ حضرت آمنہ کے شوہر عبد اللہ کی وفات کے نزدیکی ایام میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک بچہ سے نوازا اور ساتھ ہی ایک خواب کے ذریعہ سے آپ کو اس بچہ کا نام محمد بتایا گیا۔ولاد ت کے بعد آپ نے یہ خواب حضرت عبد المطلب کو سنایا ، اس پر آپ فوراًبچے کو اٹھا کر کعبہ میں لے گئے اور بچے کا نام محمد رکھا۔ مکہ میں اس وقت یہ رواج تھا کہ مائیں بچوں کو خود دودھ پلانے کی بجائے شہر سے باہر دائیوں کے سپرد یہ کام کرتی تھیں تاکہ وہ دیہات کی کھلی آب و ہوا میں پرورش پا سکیں۔ چنانچہ دستور کے مطابق آپ کی پیدائش کے بعد جب دیہات سے کچھ عورتیں بچوں کی تلاش میں مکہ پہنچیں تو تمام عورتوں نے ہی آنحضرتﷺ کو یتیم ہونے کی بنا پر ساتھ لے جانےمیں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ لیکن ان عورتوں میں ایک عورت حلیمہ نامی بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا انتظام کیا کہ اس دن حضرت حلیمہ کو ساتھ لے جانے کے لیے ایک بھی بچہ نہ ملا آخر وہ آپﷺ کو ساتھ لے جانے کے لیے راضی ہوگئیں۔چنانچہ آپﷺ چار سال تک حضرت حلیمہ کے ساتھ رہے اور قبیلہ بنو سعد میں پرورش پائی۔حضرت حلیمہ کو آپﷺ سے بہت ہی پیار تھا جو ہمیشہ قائم رہا اور اس پیار کا اس واقعہ سے بھی پتا لگتا ہے کہ شق صدر کے واقعہ کے بعد حضرت حلیمہ گھبرائی ہوئی آپﷺ کے پاس آئیں اور جلدی سے جھک کر آپؐ کی پیشانی کو بوسہ دیا اور پوچھاکہ بیٹے میری جان تم پر قربان ہو ، تمہیں کیا پریشانی لاحق ہوگئی تھی؟آپﷺنے آپ کو تسلی دی اور کہا اماں جان سب خیر ہے اور پھر تمام واقعہ سے ان کو آگاہ کیا۔ (سیرت حلبیہ جلد۱ صفحہ ۲۹۷)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں: ’’غرض باپ کے بعد آپؐ کو پرورش کے لئے حلیمہ جیسی دائی ملی ، عبد المطلب جیسا محبت کرنے والا داد املا اور پھر جب عبد المطلب فوت ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے چچا ابو طالب کے دل میں آپؐ کی محبت ڈال دی ‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ۱۳ جدید ایڈیشن صفحہ ۱۴۴)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ آپﷺ کے اپنی رضاعی والدہ سے احترام کرنے کے حوالے سے فرماتے ہیں: ’’جو اپنی رضاعی والدہ کے لیے ایسا نرم گوشہ رکھتا ہے وہ اپنی حقیقی والدہ کے لئے تو بلاشبہ ایک مثالی بیٹا ثابت ہوتا مگر یہ مقدر نہیں تھا۔ اللہ اپنی حکمتوں کو بہتر جانتا ہے‘‘۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۴؍ فروری ۲۰۰۰ء مطبوعہ الفضل ربوہ ۲؍مئی ۲۰۰۰ء)
سفرِیثرب اور والدہ کی وفات
حلیمہ سعدیہ کے ساتھ چار سال گزارنے کے بعد حضرت حلیمہ آپﷺ کو آپ کی والدہ کے پاس واپس لے آئیں۔ اس کے بعد دو سال تک آپﷺ اپنی والدہ کی کفالت میں رہے چھ سال کی عمر میں آپﷺ اپنی والدہ کے ہمراہ اپنے رشتہ داروں سے ملنے کے لیے یثرب گئے جہاں تقریباً ایک ماہ قیام کیا۔یثرب سے واپسی پر آپﷺ کی والدہ بیمار ہوگئیں اور ابواء نامی قصبے میں انتقال کر گئیں۔ام ایمن جو آپﷺ کے والد کی خادمہ تھیں وہ آپﷺ کو واپس مکہ لے آئیں اورعبدالمطلب کے سپرد کردیا۔حضرت ام ایمن سے آنحضرتﷺ کا انتہائی محبت کا تعلق تھا ، آپﷺ جب بھی ان سے ملتے تو ہمیشہ اے میری والدہ کہہ کر مخاطب فرماتے۔ (تاریخ الطبری جلد ۱۳ صفحہ ۳۷۵ المنتخب فی کتاب المذیل والذیل/ذکر تاریخ من عرف وقت وفاتہ من النساء…… دارالفکربیروت ۲۰۰۲ء)
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابھی آٹھ سال کے تھے کہ آپؐ کو والدین کی وفات کے بعد ایک تیسرا بڑا صدمہ پہنچا۔آپؐ کے دادا حضرت عبد المطلب جنہیں آپﷺ سے بے حد محبت تھی اسیّ سال کی عمر میں وفات پاگئے۔یہ صدمہ اس کم سن بچہ کے لیے ایک زلزلے سے کم نہ تھا۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ جب آپ کے داداکی وفات ہوئی تو آپﷺ ان کےپلنگ کے پیچھے کھڑے رو رہے تھے۔ حضرت عبد المطلب نے اپنی وفات سے قبل آپﷺ کو آپ کے سگے چچا حضرت ابو طالب کے سپرد فرمایا اور انہیں حضور سے ہمیشہ پیار کا سلوک کرنے کی وصیت کی۔حضرت ابو طالب نے تا دم آخر اس وصیت کے مطابق آپﷺ کا خاص خیال رکھا۔(سیرت حلبیہ جلد ۱ باب۹ صفحہ ۳۵۳)
ابو طالب کی کفالت
عبد المطلب کی وصیت کے مطابق آپﷺ کے چچا نے بڑی عمدگی کے ساتھ آپؐ کی کفالت کی وہ حتی الوسع آپ کو اپنے ساتھ رکھتے اور کبھی بھی ایسا موقع نہ آنے دیتے جس سے آنحضرتﷺ کے دل میں یتیمی کا خیال پیدا ہو۔اس حوالے سے آپﷺ کے بچپن کا ایک مشہور واقعہ تاریخ میں یوں ملتا ہےکہ آپﷺ کی چچی جب کھانا اپنے بچوں میں تقسیم کرتیں تو بچوں میں پہل کے لیے جدو جہد شروع ہوجاتی لیکن آپﷺ بچوں کی یہ حالت دیکھ کر علیحدہ ہوجاتے۔ آپﷺکے چچا نے جب یہ دیکھا تو فوراً گھر میں یہ ہدایت دی کہ آپ کو کھانا الگ سے دیاجایا کرے تاکہ آپ کی حق تلفی نہ ہو۔حضرت ابو طالب نے آپﷺ کانہ صرف بچپن میں بلکہ نبوت کے دعویٰ کے بعد بھی خیال رکھااور آپ کی وفات نبوت کےدسویں سال میں اس وقت ہوئی جب آنحضرتﷺ ۵۰ سال کےہوچکے تھے۔ اسی سال آپﷺ کی عزیز اہلیہ حضرت خدیجہؓ کا بھی انتقال ہوا ، اس وجہ سے یہ سال عام الحزن یعنی ’’غم کا سال‘‘ بھی کہلاتا ہے۔(سیرت حلبیہ جلد ۱ باب ۹ صفحہ۳۶۲)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں:’’ابو طالب کو بھی آپؐ سے بے انتہا محبت تھی ایسی محبت کہ میرے نزدیک دنیا میں بہت کم چچا ہوں گے جنہوں نے اپنے کسی بھتیجے کو اس محبت کے ساتھ پالا ہو‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۱۳ صفحہ ۱۴۴، ایڈیشن ۲۰۲۳ء)
اللہ تعالیٰ نے گھربار کا سامان پیدا فرمادیا
آپؐ کے چچا ابو طالب کی مالی حالت اتنی اچھی نہیں تھی اس لیے آپﷺ نے کام شروع کرنے کا ارادہ کیا اور اپنے چچا کے مشورہ اور خواہش پر تجارت شروع کردی۔آپﷺ ہر کام نہایت ایمان داری سے بجا لاتے تھے۔اس دیانت کی وجہ سے مکہ میں آپؐ صادق اور امین کے لقب سے مشہور ہوگئے۔ آپﷺ کے اچھے اخلاق کے واقعات سن کر حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کے ساتھ نکاح کے لیے پیغام بھجوایا،جسے آپﷺ نے اپنے چچا کے مشورہ کے بعد قبول کرلیا۔نکاح کے وقت آپﷺ کی عمر ۲۵؍سال تھی اور حضرت خدیجہؓ ۴۰؍سال کی تھیں۔حضور کے بیٹے ابراہیم کے علاوہ آپﷺ کی تمام ذریت طیبہ حضرت خدیجہؓ سے ہی پیدا ہوئی۔ ابراہیم حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس شادی کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نہایت ہی نیک اور پاک ساتھی عطا فرمادیا جنہوں نے ہر ایک خوشی اور غم میں آپﷺ کا ساتھ دیا۔چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ گھبرا کرگھر تشریف لائے۔اور اس گھبراہٹ کی حالت میں حضرت خدیجہؓ کوسارا قصہ سنایا،تو انہوں نے آپؐ کو ان الفاظ میں تسلی دی کہ اللہ تعالیٰ کی قسم ! اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا۔کیونکہ آپ رشتہ داری کے تعلقات کا ہمیشہ پاس رکھتے ہیں۔لوگوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں۔دنیا سے معدوم اخلاق حمیدہ کو از سر نو زندہ کررہے ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں۔اور حق کے خلاف پیش آمدہ حوادث کا مقابلہ کرتے اور ستم رسیدوں کی حمایت کرتے ہیں۔(صحیح بخاری باب کیف کان بدء الوحی)
حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں’’ جوان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ایک مالدار عورت کے دل میں آپؐ کی محبت پیدا کر دی اور خود اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان سے شادی کر لوں کیونکہ یہ بہت ہی بلند اخلاق کے مالک ہیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپؐ کے لئے گھر بار کا سامان پیدا کردیا‘‘۔ (تفسیر کبیر جلد ۱۳ صفحہ ۱۴۵، ایڈیشن ۲۰۲۳ء)
بہترین ساتھی
بیوی اور دیگر قریبی رشتہ داروں کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے آنحضرتﷺ کی تالیف قلب کے لیے آپ کو ایسے دوستوں اور ساتھیوں سے بھی نوازا جو ہر معاملہ میں آپ کا ساتھ دیتے تھے، آپ کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے کوشاں رہتے تھے اور دل وجان سے آپ پر فدا تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ کے امیر ترین تاجر ، دیانت دار اور اچھے اخلاق کے مالک انسان تھے اور آپﷺ کے انتہائی قریبی دوست تھے۔آپﷺ نے جب نبوت کا دعویٰ کیا تو آپ بلا جھجک سب سے پہلے مسلمان ہوئے اورآ پ کے حقیقی رفیق بن گئے۔ حضرت مسیح موعودؑ حضرت ابو بکرؓ کی محبت ِرسول کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ ’’ابو بکرؓ سید کونین کی محبت میں فنا ہوچکے تھے۔‘‘(سرالخلافہ، روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۳۳۹)
نیزحضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین چونکہ فوت ہو چکے تھے اس لئے طبعی طور پر آپؐ کو بھی ساتھیوں اور دوستوں کی ضرورت محسوس ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے ابوبکرؓ اور حکیم بن حزام ؓجیسے دوست آپ کو عطا فرما دئیے ‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۱۳ جدید ایڈیشن صفحہ ۱۴۴)
پس یہ تھا اللہ تعالیٰ کا آنحضرتﷺ سے سلوک۔ وہ پاک وجود جو اپنی نوعمری میں ہی اپنے والدین سے محروم ہوگیا خدا تعالیٰ نے اس کی پرورش کے لیے متعدد سامان پیدا فرمادیے۔ا ٓنحضرتﷺ نے بھی خدا تعالیٰ کے اس احسان کے شکر کے طور پر عظیم الشان اخلاق دکھائے اور تمام عالم کے لیے حقوق اللہ اور حقوق العباد میں بہترین نمونہ بن گئے۔حضرت مصلح موعودؓ اس حوالے سے بیان فرماتے ہیں: ’’غرض یہ وہ شخص تھا جو اپنی وفات سے ستاون اٹھاون سال پہلے اپنے گھر کے صحن میں اس لئے خاموش کھڑا رہتا اور گھر کی مالکہ سے دوسرے بچوں کی طرح نہ چمٹتا کہ وہ سمجھتا تھا کہ میرا اس گھر میں کوئی حق نہیں۔ مگر پھر اس حالت میں اتنا عظیم الشان تغیر آگیا کہ یا تو آپؐ ایک یتیم اور بے کس تھے اور یا پھر تمام دنیا کا سہارا آپؐ ہی بن گئے اور تمام دنیا کی ماں آپؐ ہی بن گئے۔ وہی یتیم بچہ جو کسی وقت بے باپ اور بے ماں کے تھا۔ ایک وقت اس پر آیا جب وہ ساری دنیا کا باپ اور ساری دنیا کی ماں بن گیا۔ بلکہ وہی باپ نہیں بنا اس کی بیویاں بھی مومنوں کی مائیں بن گئیں۔ گویا اُبُوَّت صرف آپؐ تک محدود نہ رہی بلکہ آپؐ سے تعلق رکھنے والوں کی عظمت بھی آپؐ ہی کے ذریعہ قائم ہوئی‘‘۔(تفسیر کبیر جلد ۹جدید ایڈیشن صفحہ ۵۵۳)