رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ ہالینڈ 2019ء

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

اس رپورٹ کو بآواز سننے کے لیے یہاں کلک کیجیے:

جلسہ سالانہ ہالینڈ کے دوسرےروز کی روئیداد، حضورِ انور کا غیر از مہمانوں سے بصیرت افروز خطاب

………………………………

28؍ستمبر2019ء بروزہفتہ

…………………………………

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صبح ساڑھے چھ بجے جلسہ گاہ میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزاپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔

صبح حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دفتری ڈاک ملاحظہ فرمائی اورہدایات سے نوازا۔ حضورِانور مختلف دفتری امور کی انجام دہی میں مصروف رہے۔ آج کے پروگرام کے مطابق مستورات جلسہ گاہ میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا لجنہ جلسہ سے خطاب تھا۔

آج لجنہ کے جلسہ گاہ میں صبح کے اجلاس کا آغاز دس بج کر چالیس منٹ پر حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا العالی کی زیرصدارت ہوا۔ جو دوپہر بارہ بجے تک جاری رہا۔ اس سیشن میں تلاوت قرآن کریم اور اس کے اردو ترجمہ کے علاوہ ایک نظم اور دو تقاریر ہوئیں۔ ایک تقریر اردو زبان میں تھی اور دوسری تقریر ڈچ زبان میں تھی۔ پروگرام کے اختتام کے بعد حضورِانور کی آمد تک کےعرصہ میں بھی بعض لجنہ ممبرز نے نظمیں پیش کیں۔

پروگرام کے مطابق دوپہر ساڑھے بارہ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ جلسہ گاہ میں تشریف لائے۔ صدر لجنہ اماء اللہ ہالینڈ و ناظمہ اعلیٰ نے اپنی نائب ناظمات اعلیٰ کے ساتھ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا استقبال کیا اور خواتین نے اھلاًو سھلاً ومرحبا کہتے ہوئے اپنے پیارے آقا کو خوش آمدید کہا۔

اجلاس کی کارروائی کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ ریحانہ وھاب نے کی۔ بعدازاں اس کا اردو ترجمہ عزیزہ ماریہ حسن زبیر نے پیش کیا۔ اس کے بعد عزیزہ ثوبیہ لغاری صاحبہ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا منظوم کلام

؎ وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا

نام اس کا ہے محمدؐ دلبر میرا یہی ہے

خوش الحانی سے پیش کیا۔

بعدازاں پروگرام کے مطابق حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تعلیمی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے والی 21 طالبات کو اسناد عطافرمائیں اور حضرت بیگم صاحبہ مدظلہا العالی نے ان طالبات کو میڈل پہنائے۔

تعلیمی ایوارڈ حاصل کرنے والی ان خوش نصیب طالبات کے اسماء درج ذیل ہیں۔

1۔ نورین رضا صاحبہ۔ایم ایس سی فزکس۔پنجاب یونیورسٹی لاہور۔
2۔ نورین رضا صاحبہ۔ایم فل فزکس۔پنجاب یونیورسٹی لاہور۔
3۔ امۃ المجیب نیرصاحبہ۔ایم ایس سی Environmental بیالوجی۔نائجیریا۔
4۔ تانیہ سعید۔Primary Education بورڈ کے امتحان میں 98 فیصد نمبر۔
5۔ روشنی نعیم ۔بی ایس سی مائیکروبیالوجی۔جناح یونیورسٹی کراچی۔
6۔ منال بشیر ۔Primary Education بورڈ کے امتحان میں 100 فیصد نمبر۔
7۔ نعمانہ طاہر۔ایف ایس سی پری انجنیئرنگ۔نصرت جہاں کالج ربوہ۔
8۔ زنیرہ چوہدری وڑائچ۔بی ایس سی انٹرنیشنل کمیونیکیشن اینڈ میڈیا ۔UTRECHTہالینڈ۔
9۔ بشریٰ بشارت ۔ایم فل کیمسٹری۔سرگودھا یونیورسٹی پاکستان۔
10۔ عروج کھرل بی ایس سی Geneeskunde۔ ‘‘ERAMUS یونیورسٹی’’۔
11۔نائلہ نیلوفر حفیظ۔ایم ایس سی Tandheelkunde VRIJE یونیورسٹی ایمسٹرڈیم۔
12۔ ظل ھما عباسی ایف ایس سی پری انجنیئرنگ فیصل آباد پاکستان
13۔ Irma Marie-Louise۔ایم ایس سی Geneeskundeیونیورسٹی Van Maatricht۔
14۔ فائقہ احمد۔بی ایس سی سول انجنیئرنگ۔UAE یونیورسٹی۔
15۔ طیبہ سعدیہ۔بی ایس سی سائیکالوجی۔سرگودھا یونیورسٹی پاکستان۔
16۔ Emine Rustemi پرائمری ایجوکیش بورڈ کے امتحان میں 100 فیصد نمبر۔
17۔ شافعیہ محمودGCSE۔8 اے سٹار اور 5 اے۔برنٹ ووڈہائی سکول یوکے۔
18۔ ماریہ چوہدری۔بی ایس سی Zoology۔پنجاب یونیورسٹی لاہور۔
19۔ عدیلہ نعیم چوہدری۔بی ایس سی ایکسرسائز اینڈ ھیلتھ فزیالوجی۔کیلگری یونیورسٹی کینیڈا۔
20۔ نظرین Sahebaliبی اے مڈل ایسٹرن سٹڈیز Leidenیونیورسٹی۔
21۔رویۃ النورCompier ۔ Exceptional Performanceپرائمری ایجوکیشن۔

تعلیمی ایوارڈ کی اس تقریب کے بعد بارہ بج کر پچاس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطاب فرمایا۔

(اس خطاب کا خلاصہ الفضل انٹرنیشنل یکم اکتوبر 2019ء میں شائع ہو چکا ہے۔جبکہ مکمل متن آئندہ کسی شمارے کی زینت بنے گا۔ان شاء اللہ)

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکا یہ خطاب ایک بج کر پینتیس منٹ تک جاری رہا۔ آخر پر حضورِانور نے دعا کروائی۔

اس کے بعد ناصرات اور لجنہ کے مختلف گروپس نے ڈچ، عربی، اردو اور بنگلہ زبان میں ترانے اور دعائیہ نظمیں پیش کیں۔ آخر پر افریقن گروپ نے اپنے مخصوص انداز میں کلمہ طیبہ کاورد کیا۔

بعدازاں دو بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نےمردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے جا کر نمازِظہر وعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

غیر از جماعت مہمانوں سے خطاب

آج مردانہ جلسہ گاہ میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکے ساتھ غیرمسلم اور غیرازجماعت مہمانوں کا ایک پروگرام رکھا گیا تھا۔ اس پروگرام میں مختلف قوموں سے تعلق رکھنے والے 125 مہمانوں نے شرکت کی۔ مہمانوں کی ایک بڑی تعداد ہمسایہ ملک بیلجیم سے آکر بھی شامل ہوئی۔

ان مہمانوں میں نن سپیٹ کے میئر DHR.B Van De Weerd۔ سابق ممبر پارلیمنٹ Patron Ihrc، DHR. Harry Van Bommel۔ فری لانس جرنلسٹ DHR. Ewout Klei، چائیلڈسائیکالوجسٹ Nikita Shahbazi۔ڈچ سپریم کورٹ کی جج Mrs.Dana Baldingerاپنے خاوند کے ساتھ آئیں۔ MR.Herman Meester سکالر Linguistics & Economics۔ جج کریمینل کیسز M.R.Jc.Gillesse۔ پبلک، Mrs Corine Prosecutor Potter، لاہوری جماعت کے چیئرمین DHR. Jahier Khan۔

اس کے علاوہ وکلاء، ڈاکٹرز، ٹیچرز، بزنس مین اور مختلف اداروں اور محکموں میں کام کرنے والے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہوئے۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے چار بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مردانہ جلسہ گاہ میں تشریف لے گئے اور پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم عبداللطیف فرحاخن صاحب نے کی اور بعدازاں اس کا ڈچ زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد ایک مہمان Mr.L.Klappe، Elderman Gemeente Ermelo نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔

موصوف نے کہا۔ آپ لوگ بہت رضاکارانہ کام کرتے ہیں اور معاشرہ کا فعال حصہ ہیں۔ ہمارے علاقہ میں آپ کی جماعت نے کافی کام کیا ہے۔ سال کے آغاز پر وقارِعمل کرتے ہیں۔ ہماری خواہش ہے کہ آپ کی کمیونٹی کے لوگ ہمارے شہر میں آباد ہوتے رہیں۔ ابھی آباد ہونا شروع نہیں ہوئے۔ آپ جب بھی ہمارے شہر آتے ہیں۔ آپ ہمارے ساتھ ایک قسم کا تعلق بناتے ہیں جس سے ہمارے آپس کے پیار اور بھائی چارہ میں اضافہ ہوتا ہے۔ آپ ایک پُرامن جماعت ہیں اور مذہبی آزادی کا صحیح رنگ میں استعمال کرتے ہیں۔

اس کے بعد سابق ممبر پارلیمنٹ Harry Van Bommel صاحب نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا۔ ہم تھائی لینڈ، ملائشیا کے احمدی ریفیوجیز کے حوالہ سے کوشش کررہے ہیں۔ ان کا معاملہ ہالینڈ کی پارلیمنٹ میں بھی اُٹھایا ہے اور ہم انشاء اللہ ان کی مدد کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ یہاں بھی اور یورپ میں بھی راستہ کھلے گا۔ چار ماہ قبل میں خود بھی تھائی لینڈ اور ملائشیا گیا تھا اور ان ریفیوجیز سے ملاتھا۔ یہ وہاں بہت مشکل اور تکلیف دہ حالات میں ہیں۔

بعدازاں میئرGemeente Nunspeet DHR.B.Van De Weerd نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔

موصوف نے کہا: خلیفۃ المسیح کے یہاں آنے پر بہت خوشی ہوئی ہے۔ ہم خلیفہ کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔ جماعت احمدیہ سے ہمارا پرانا تعلق ہے۔ آپ لوگوں کی ہمارے معاشرے میں خاص حیثیت ہے۔ آپ کے پیار،امن، بھائی چارہ کی ہمیں ضرورت ہے۔ آپ کا جلسہ ایک مذہبی جلسہ ہے۔ اس لحاظ سے آپ کا جلسہ بہت خاص ہے۔ ان تین دنوں میں ہم سب اس بات پر غور کریں کہ ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے۔ ہم اپنے معاشرے کو کس طرح بہتر بنا سکتے ہیں۔ اُمید ہے آپ ان سوالوں کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس کے بعد چار بج کر پچاس منٹ پر حضورِانور نے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ جس کا اردو ترجمہ یہاں دیا جارہا ہے۔

خطاب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

تشہد،تعوذ ،تسمیہ اور سورة فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تمام معزز مہمانان! آپ سب پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و سلامتی ہو۔ سب سے پہلے تو میں اپنے مہمانوں کا شکریہ اداکرنا چاہتاہوں جنہوں نے ہماری دعوت قبول کی اور آج ہمارے ساتھ موجود ہیں باوجودیکہ اسلام اوربانی اسلام کے خلاف گزشتہ سالوں سے بہت کچھ بولاجارہاہے۔ درحقیقت اسلام کے متعلق غلط معلومات اور نفرت پھیلانے اور رسولِ کریم ﷺ کے کردار کو داغ دار کرنے کی متفقہ کوشش کی گئی ہے۔ ایک مسلمان کمیونٹی کی طرف سے منعقدہ مذہبی تقریب میں آپ کی شمولیت آپ کی وسعت قلبی اور کشادہ ذہنی کی تصدیق کرتی ہے اور اس فعل پر آپ کا شکریہ اداکرتاہوں۔ میری دعاہے کہ یہ فراخ دلی اورتحمل مزاجی ہمیشہ آپ کے اندر موجود رہے اور مزید پھیلے تاکہ تمام کمیونیٹیز کے لوگ امن اور ایک دوسرے کے ساتھ باہمی محبت و احترام کے ساتھ رہ پائیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہم احمدی مسلمانوں کا پختہ یقین ہے کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی معاملہ ہے۔ یہ تو دل کا معاملہ ہے اور کسی کو دوسرے کے عقائد کے متعلق غلط باتیں کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ کسی کو دوسروں کی مقدس ہستیوں کا مذاق نہیں اُڑانا چاہیے۔ کیونکہ لوگوں سے امتیازی اور نفرت کا سلوک کرنے سے صرف درد اور تکلیف ہی جنم لیتی ہے اور مزید تفریق ہی پیدا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس تحمل اورباہمی عزت و احترام کو سنگِ بنیاد بناکر ہم پُرامن اور ہم آہنگی پر مشتمل معاشرہ تعمیر کرسکتے ہیں۔ جیساکہ میں نے کہاکہ غیر مسلم دنیا میں لمبے عرصہ سے رسولِ کریم ﷺ کی کردار کشی کی جارہی ہے۔ اور یہاں ہالینڈ میں بھی بعض لوگ اسلام کے خلاف نفرت پھیلانے میں پیش پیش ہیں اور یہ لوگ قرآن کریم اور رسولِ کریم ﷺ پر بے ہودہ اور کلیتاً جھوٹے اعتراضات لگارہے ہیں۔ چنانچہ اس حوالہ سے میں جو بھی مختصر وقت میسر ہے اس میں اسلام کی اصل تعلیمات اوربانی اسلام رسولِ کریم ﷺ کے کردار کے حوالہ سے بات کروں گا۔

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے
مکرم L. Klappe صاحب Elderman Gemeente Ermelo شرف مصافحہ حاصل کرتے ہوئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تاہم آگے بڑھنے سے قبل میں عمومی طور پر بتانا چاہوں گاکہ اصل میں ‘امن’ کیا چیز ہے اور کیوں اتنا اہم ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ذاتی سطح پر ‘امن’ایک ایسی چیز ہے جسے پانے کی ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے۔ لیکن وسیع پیمانہ پر ‘امن’ ایک ایسی چیز ہے جس کو حاصل کرنے کا مختلف اقوام اور کمیونٹیز دعویٰ کرتی ہیں۔ ‘امن’ کیا چیز ہے اور ہمیں اس کی کیوں ضرورت ہے؟ میرے خیال میں ‘امن’ کی دو اقسام ہوتی ہیں۔ ایک تو بیرونی امن ہوتاہے اور دوسرا اندرونی امن ہوتاہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اکثر لوگ ظاہری طورپر تو خوش اور مطمئن ہونے کا دکھاواکرسکتے ہیں اور بلا شبہ بیرونی طور پر ان میں سکون نظرآتاہے لیکن وہ اندرونی طور پر سکون سے محروم ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر طاقت ور اور اثر و رسوخ رکھنے والے لوگ اکثر امن کے قیام کی بات کرتے ہیں جبکہ ان کے پاس دنیا کی تمام آسائشیں اور سہولیات مہیاہوتی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ان میں سے بہت سے لوگ یہ تسلیم کرتے ہیںکہ وہ ذہنی سکون کی تلاش میں رہتے ہیں اور وہ ذہنی تناؤ کا شکار رہتے ہیں۔ بیرونی اور دنیاوی نقطہ نظر سے تو ان کے پاس ہر وہ چیز ہوتی ہے جو وہ چاہتے ہیں لیکن پھر بھی ان کے دماغ پریشانی اور خوف سے جکڑے ہوئے ہوتے ہیں اور ان کے دل سکون سے خالی ہوتے ہیں۔ پس حقیقت یہی ہے کہ جب تک کوئی شخص دلی اطمینان حاصل نہ کرلے ان کی دنیاوی آسائشیں بے معنی ہوتی ہیں۔آسان الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ واحد چیز جو پیسہ سے خریدی نہیں جاسکتی وہ اندرونی امن ہے۔ مثال کے طور پر ایک امیر ماں جس کے پاس اپنی ضرورت سے بڑھ کرمال و دولت کی فراوانی ہو مگر اس کا بچہ کہیں گم ہوجائے تو دنیا کی ہر ممکنہ آسائش ہونے کے باوجود وہ دیوانی اور مایوس ہوتی ہے جب تک کہ وہ اپنا بچہ نہیں پالیتی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

افسوس ہے کہ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ہر دو قسم کے ممالک میں دماغی صحت کے مسائل میں مسلسل اضافہ ہورہاہے۔ امیر ممالک میں کافی لوگ مالی طور پر مستحکم ہونے کے باوجود خودکشیاں کررہے ہیں، اعصابی حملوں اور ڈپریشن کا شکارہورہے ہیں۔ اس میں بھی حیرانی والی بات نہیں کہ معاشرے کے کمزور اور بے دست و پا افراد جو اپنی بنیادی ضروریات بھی پوری نہیں کرپارہے اور جو اُن آسائشوں کے حاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں جوکہ دوسروں کو میسر ہیں، ان میں بھی دلی سکون میں کمی عام پائی جاتی ہے۔پس مایوسی اور اندرونی بے چینی امیروں اور غریبوں دونوں میں محسوس کی جاسکتی ہے۔ ایک طرف امیر لوگ جن کے پاس ضرورت کی ہر چیز مہیا ہے وہ دلی سکون سے محروم ہیں تو دوسری طرف ضرورت مند اور غریب اپنے حالات سے پریشان ہیں اور دوسروں کی طرح آرام دہ زندگی کوحاصل کرنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ لوگوں کے بے شک مقاصد اور خواہشیں مختلف ہوں اور بے شک وہ دنیاوی لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوں لیکن دلی سکون حاصل کرنے میں ناکامی کے لحاظ سے سب ایک جیسے ہی ہیں۔

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے
مکرم Harry Van Bommel صاحب ممبر آف پارلیمنٹ شرف مصافحہ حاصل کرتے ہوئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آج کل ناقدین دنیاوی مسائل کی وجہ مذہب اور بالخصوص اسلام کو قرار دینے میں جلدی کرتے ہیں۔ حالانکہ بہت سے لوگ جوکہ اندرونی اضطراب اور بے چینی کا شکارہیں وہ ایسے ہیں جو کلیتاً مذہب سے دور رہ کر زندگی گزاررہے ہیں۔ پس ان کے مسائل کی وجہ سے اسلام یا کسی دوسرے مذہب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایاجاسکتا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ایک مذہبی رہنماہونے کی حیثیت سے میرا پختہ ایمان ہے کہ مذہب دورِ حاضر کے مسائل کی وجہ بننے کی بجائے ان مسائل کا حل ہے۔ اور اسلامی نقطہ نظر سے اس کا حل بہت ہی سادہ ہے۔ رسولِ کریم ﷺ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ حقیقی ذہنی سکون اس بات کا تقاضا کرتاہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو پہنچانے اور اس کے ساتھ ایک تعلق پیداکرے کیونکہ اسلام کے مطابق اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ امن و سکون کا منبع ہے۔ وہ اپنی تمام مخلوقات کے لیے چاہتاہے کہ وہ مذہب اور عقیدہ سے بالاہو کر پرامن زندگی بسرکریں۔ مزید رسولِ کریم ﷺ نے تعلیم دی کہ اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو پالنے والا اور رزق عطاکرنے والاہے۔ وہ صرف مسلمانوں کو نہیں پالتا بلکہ اس کا رحم تمام انسانیت پر محیط ہے خواہ وہ عیسائی ہوں، ہندو ہوں، سکھ ہوں، یہودی ہوں یا دوسرے مذاہب کے ماننے والے ہوں اور اُن پر بھی جو کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے اور اللہ تعالیٰ کے وجود کے انکاری ہیں۔ اسلام مسلمانوں کو تعلیم دیتاہے کہ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی تمام ترقابلیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنائیں۔ اسی لیے رسولِ کریم ﷺ نے اپنے پیروکاروں سے متعدد مرتبہ فرمایاکہ وہ رحم دل بنیں اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے ہوں اور ایک دوسرے پر سلامتی بھیجنے والے ہوں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بانیٔ اسلام ﷺ نے ایک سنہری اصول عطافرمایاکہ ایک حقیقی مسلمان کو چاہیے کہ وہ دوسروں کے لیے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ میرے نزدیک اس سادہ مگر انتہائی گہرے نقطہ پر صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ دوسرے بھی عمل پیراہوں تو یہ معاشرے کے لیے دیرپا امن کا ذریعہ ثابت ہوگا۔ کوئی شک نہیں کہ ہر کوئی اپنے لیے اور اپنے چاہنے والوں کے لیے امن کی خواہش کرتاہے لیکن اگر لوگ یہ دعویٰ کریں کہ وہ اپنے مخالفین اور حریفوں کے لیے چاہتے ہیں کہ وہ امن اور سکون سے زندگی گزاریں تو ان میں سے اکثر جھوٹ بول رہے ہوں گے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس یہ وہ شرافت کا معیار ہے اور فراخ دلی کی روح ہے جس کا اسلام تقاضاکرتاہے۔ اسلام ایک ایسا مذہب اور تعلیم ہے جو بے نفسی کو فروغ دیتاہے اور بنی نوع انسان کو ہرقسم کی خودغرضی ترک کرنے پر زور دیتاہے۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ نے یہ اصول بیان فرمایاکہ انسان کو چاہیے کہ وہ کشادہ دل ہو اور اس کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔ اپنے لیے بہترین کی خواہش کرنے کی بجائے اسے چاہیے کہ دوسروں کے لیے بھی اس کی وہی خواہش ہو۔

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے
مکرم DHR.B.Van De Weerdصاحب میئر آف Gemeente Nunspeet شرف مصافحہ حاصل کرتے ہوئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

افسوس ہے کہ آج کل کی دنیا میں ہمیں اس کے برعکس نظرآتاہے۔ ذاتی مفادات اور لالچ جدید معاشرہ کو کھاچکے ہیں۔ فساد، فتنہ اور جنگ میں اضافہ ہوتاچلاجارہاہے اور عدل و مساوات کے اصول مسلسل نظرانداز کیے جارہے ہیں۔ یہ چیز کئی امیر اور طاقتور ممالک کی خارجہ پالیسیوں سے ظاہر ہورہی ہے۔ حالیہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ بڑی طاقتیں قیامِ امن کے نام پر دوردراز کے علاقوں میں اپنی افواج بھیجتی ہیں لیکن وقت نے یہ ثابت کردیاہے کہ اس کے پیچھے ان کے اصل مقصد ذاتی مفادات اوران کی حفاظت کرنا ہوتاہے۔اس طرح کے اختلافات میں اگر ان کا ایک بھی فوجی مارا جائے تو ماتم شروع ہوجاتاہے اور پھر وہ بدلہ لینے کی قسمیں کھاتے ہیں۔ حالانکہ جب ان کے اپنے بم اور دیگر ہتھیار سینکڑوں بلکہ ہزاروں معصوم شہریوں کی جانیں لینے کا باعث بنتے ہیں تو کسی قسم کے افسوس یا غم کا اشارۃً اظہارتک نہیں کیاجاتا۔ اس قسم کی بے انصافیوں کے نتائج دوررس اور نہایت تباہ کن ہیں۔ مقامی لوگوں کو نظرآرہاہے کہ ان کی زندگیوں کی قدر و قیمت بہت کم ہے بہ نسبت ان لوگوں کی زندگیوں کے جن کا تعلق طاقتور اقوام سے ہے۔ اس قسم کے دہرے معیار اور انسانیت کی کمی کی وجہ سے وہ مایوسی ، غصہ اور نفرت سے مغلوب ہوجاتے ہیں اور پھر ان کے یہ جذبات کسی وقت ابل کر باہر آکر خطرہ بن جاتے ہیں۔ ان قوموں کاامن و تحفظ تباہ ہوچکاہے لیکن باقی دنیا کی یہ بے وقوفانہ سوچ ہوگی کہ اس سے وہ متاثر نہیں ہوں گے۔ بلکہ دنیا اس وقت آپس میں اس قدر جڑی ہوئی ہے کہ ایک جگہ پر ہونے والے مظالم کے نتائج دوسرے ممالک تک بھی جاپہنچتے ہیں اور گزشتہ سالوں میں اس کی کئی مثالیں ہم دیکھ چکے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس اگر ہم اپنی ذاتی زندگیوں اور اجتماعی سطح پر واقعی امن چاہتے ہیں، تو سب سے اہم یہ بات ہے کہ ہم دوسروں کے لیے وہی پسند کریں جو اپنے لیے کرتے ہیں۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ دنیا میں حقیقی امن کی بنیاد کا یہی سادہ سا اصول ہے۔ جہاں تک مذہب کا تعلق ہے، آنحضرتﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ حقیقی امن قائم کرنے کے لیے بنی نوع انسان کو خدا پر ایمان لانا ہوگا، جو کہ امن دینے والا، عظمت والا اور پاکیزگی والا ہے۔ اور پھر اس کی صفاتِ حسنہ کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی کوشش کرنی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بنی نوع انسان کو امن قائم کرنے کے لیے اپنے ذاتی مفادات کو سامنے رکھنےکی بجائے خلوصِ دل سے کوشش کرنی ہوگی۔ یقیناً آج دنیا میں جو زیادہ تر اختلافات ہیں، ان کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ متعلقہ گروہ کی نیتیں خالص نہیں ہیں۔ان کے اعمال اور اقوال میں واضح تضاد ہے اور جہاں انسان کے اعمال اس کے اقوال کا ساتھ نہ دے رہے ہوں، وہاں ہر گز امن قائم نہیں ہوسکتا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ہر حکومت اور ہر سیاسی رہ نما، چاہے وہ امریکہ سے ہوں، چین، روس ، یورپین ممالک سے، مسلم دنیا سے یا کہیں اور سے، یہ تمام جنگ و جدل اور خون ریزی کی مذمت کرتے ہیں۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ مذمت صرف ان کے ذاتی مفادات اور اپنے لوگوں تک ہی محدود ہوتی ہے۔ وہ جو قانون کی بالادستی، انصاف اور انسانی حقوق کے راگ الاپ رہے ہوتے ہیں، جب ان کے مفادات پر حرف آتا ہے تو یہ تمام نعرے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ان پر حملہ کیا جائے یا ان کے حقوق پامال کیے جائیں تو وہ اس ناانصافی پر سخت غم و غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔ جبکہ یہ خود کمزور ملکوں کو نشانہ بنانے اور اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ان ممالک میں خانہ جنگی اور فسادات پھیلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ مختلف گروہوں کو مذاکرات کے لیے مجبور کریں اور انصاف پر مبنی مذاکرات کروائیں، اہم طاقتیں دوسرے ممالک کے تنازعات میں ہمیشہ مداخلت کرتی ہیں اور اس گروہ کو اسلحہ اور فنڈ دیتے ہیں جو کہ ان کے مفادات کا تحفظ کررہے ہوں۔یہ جلتی پر آگ کا کام کررہے ہیں اور نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ معصوم لوگوں بشمول خواتین، بچوں اور بزرگوں کی جانیں ضائع ہورہی ہیں اور ان کے خاندان تکالیف برداشت کرر ہے ہیں۔ شہروں، قصبوں اور دیہاتوں پر حملے ہو رہے ہیں اور انہیں تباہ کیاجارہاہے۔ اس کا ایک ہی نتیجہ نکل سکتا ہے اور وہ یہ کہ مقامی عوام میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور حالیہ سالوں میں جنگوں سے متاثرہ مسلمان ممالک میں یہی بات سامنے آئی ہے۔ کیا وہ بیرونی طاقتیں جو اپنے مفادات کو فوقیت دیتی ہیں، دعویٰ کرسکتی ہیں کہ وہ امن کی سہولت کار ہیں۔مزید یہ کہ کیا اسلام کے ناقدین دنیا میں فساد کے لیے اسلام کو قصور وار ٹھہرا سکتے ہیں؟کیا یہ موجودہ فسادات کا ذمہ دار آنحضرتﷺ کو ٹھہرا سکتے ہیں؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

یہ واضح رہے کہ دنیا میں فساد چاہے وہ مسلمان دنیا میں ہو یا کہیں اور، اس کا اسلام کی تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ ایک طرف تو خودغرض رہنماؤں یا کرپٹ حکومتوں کے مفادات ہیں اور دوسری وجہ باغی اور علیحدگی پسند گروہ ہیں۔ یہ دہشت گردوں اور شدت پسند گروہوں کی گھناؤنی حرکتوں کی وجہ سے ہے جو کہ صرف طاقت میں بڑھنا چاہتے ہیں۔ آج کل دنیا میں فساد کا مرکز بے شک مسلمان ممالک بنے ہوئے ہیں لیکن کوئی بھی یہ انکار نہیں کرسکتا کہ غیر مسلم ممالک نے حل پیش کرنے کی بجائے بگڑے ہوئے حالات کو مزید ہوا دی ہے۔ یہ کہا جاتاہے کہ ان شدت پسند اور دہشت گردوں کو اسلامی تعلیمات شہ دیتی ہیں لیکن یہ واضح رہے کہ ان باتوں میں دور دور تک حقیقت نہیں ہے۔ جیساکہ میں نے کہا کہ رسولِ کریم ﷺ نےسکھایاکہ اللہ تعالیٰ امن و سکون کا منبع ہے اور تمام بنی نوع انسان کوپالنے والاہے۔ اس بات کا ذکر قرآن کریم کی پہلی سورۃ میں ملتاہے ۔ پس یہ کیسے ممکن ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے عدم برداشت کو فروغ دیاہو یا معاشرہ میں تفرقہ کا بیج بویاہو؟ بلکہ آپ ﷺ نے تو اپنی ساری زندگی مختلف مذاہب کے مابین ہم آہنگی کو فروغ دیا اور معاشرہ کی ہر سطح پر، گھر سے لے کر عالمی تعلقات تک، امن پر ہی زور دیا۔ یہ آپ ﷺ کی صرف تعلیمات ہی نہیں تھیں بلکہ آپ ﷺ ان پر عمل پیرابھی تھے۔ آغاز سے ہی رسولِ کریم ﷺ نے امن کا پیغام پھیلایا اور برداشت اور معاشرتی یک جہتی کو فروغ دیا۔ آپ ﷺ نے فرمایاکہ اللہ تعالیٰ تمام لوگوں کے لیے خواہ ان کا تعلق کسی بھی نسل یا مذہب سے ہو کے لیے چاہتاہے کہ وہ امن سے رہیں اورہمیشہ انسانی اقدار کو قائم رکھاجائے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اکثر یہ الزام لگایاجاتاہے کہ اولین مسلمانوں نے جنگیں شروع کیں اور وہ دوسروں کے عقائد کو برداشت نہیں کرتے تھے۔ لیکن تعصب سے پاک اسلامی تاریخ سے ثابت ہوتاہے کہ یہ محض جھوٹے اور غلط اعتراضات ہیں۔ جب اسلام کی بنیاد رکھی گئی تو مسلمان خود مکہ میں ظلم و ستم کا شکار رہے۔ بعض بڑی بے رحمی سے قتل کیےگئے، بعضوں پر وحشیانہ رنگ میں ظلم کیاگیا لیکن مسلمانوں نے صبر کیا اور کبھی بدلہ نہیں لیا۔ ہرممکنہ ظلم اور بے رحمی کو برداشت کرنے کے بعد بعض کمزور مسلمان ایک علاقہ کی طرف ہجرت کرکے چلے گئے جس کو آج کل ایتھوپیا کے نام سے جانا جاتاہے۔ اس کے باجود مخالفینِ اسلام نے مسلمانوں کو سکون کے ساتھ رہنے نہیں دیا بلکہ ان کا پیچھا کرتے ہوئے اس علاقہ کے بادشاہ تک چلے گئے اور بادشاہ سے درخواست کی کہ وہ ان مسلمانوں کو اپنے علاقہ سے نکال دے اور انہیں زبردستی واپس مکہ بھجوادے تاکہ وہ ان پر مکہ میں اپنا ظلم و ستم جاری رکھ سکیں اور اسلام نہ پھیل سکے۔ ان کفارِ مکہ نے بادشاہ کو بتایاکہ مسلمانوں نے ایک نیا عقیدہ گھڑ لیاہے اور وہ بت پرستی کو برابھلا کہتے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایاکہ مسلمان فساد پھیلارہے ہیں اور معاشرے کے امن کو خراب کررہے ہیں۔ بادشاہ نے جب دفاع پیش کرنے کا کہا تو مسلمانوں نے تمام مخلوقات کے پیدا کرنے والے خدائے واحد پر اپنے ایمان کا اظہار کیا۔یہ کہ وہ اُسی خدا کی عبادت کرتے ہیں، لیکن تمام قوموں اور معاشروں سے امن کے خواہاں ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مختلف مذاہب اور اعتقادات رکھنے والوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید اپنے ایمان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ امیر اور طاقت ور لوگوں کو کمزور افراد کے حقوق غصب کرنے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے اور غرباء کو بھی امراء سے نفرت نہیں کرنی چاہیے ۔

بادشاہ نے مخالفین سے پوچھا کہ کیا کبھی مسلمانوں نے جنگ کا آغاز کیا ہے، کیا کبھی جھوٹ بولا ہے، کیا کبھی وعدہ خلافی کی ہے یا کبھی بغاوت پر اُکسایا ہے؟ اس کے جواب میں مخالفین کے پاس اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ مسلمان ان تمام الزامات سے پاک ہیں۔ آنحضرتﷺ اور آپ کے متبعین سے انتہا کی نفرت کے باوجود، اور باوجود اسلام کو فنا کرنے کی خواہش کے مکہ والوں نے گواہی دی کہ بانی اسلام ﷺ نے کبھی غلط بیانی نہیں کی، کبھی وعدہ خلافی نہیں کی اور نہ کبھی ظلم و ناانصافی سے کام لیا ہے۔ انہیں مجبوراً اس بات کا اعتراف کرنا پڑا کہ آنحضرتﷺ اورا ٓپﷺ کے متبعین معاشرہ میں صرف اور صرف پیار اور محبت قائم کرنا چاہتے ہیں اور توحیدِ باری تعالیٰ کی پر امن طور پر تبلیغ کرتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بانی اسلامﷺ سخت ترین مخالفت میں بھی صبر کرتے تھے اور اپنی تکلیف صرف خدائے برتر کے حضور پیش کرتے تھے۔ قرآنِ کریم نے آنحضرتﷺ کا یہ درد بیان کیا ہے کہ میں نے لوگوں کو امن اور فلاح کی طرف بلایا لیکن انہوں نے ظالمانہ رویہ اپنایا۔ مکی دور میں مخالفین کی دشمنی کے باوجود آنحضرتﷺ نے کبھی مسلمانوں پر مظالم کرنے والوں کے خلاف تلوار نہیں اٹھائی۔ نہ ہی آپ نے کبھی مکہ کی انتظامیہ کے ساتھ تعاون میں کمی کی یا کسی بھی طرح بغاوت پر اُکسایا۔ مسلمانوں کا یہ صبر اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کے مطابق تھا جو کہ قرانِ کریم کی سورہ فرقان کی آیت 64 میں ہے۔ اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ مومنین کو مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ ‘اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) سلام ہی کہتے ہیں۔ ’ امن ہی کی بات کرتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

پس اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو صبر کی تلقین کی، چاہے جتنی بھی تکلیف ہو یا اذیت دی جائے۔ مشکلات اور نفرت کے مقابلہ میں مسلمانوں کو یہی حکم دیا گیا کہ اپنے دشمنوں اور مخالفین سے امن کی بات کریں۔ نتیجۃً مسلمانوں کو اذیت دی گئی ، جھٹلایا گیا اور بدنام کیا گیا لیکن پھر بھی انہوں نے خدا کے حکم سے صبر کیا۔ باوجود بدلہ کی طرف قدرتی جھکاؤ کے، انہوں نے دشمنوں کے لیے امن کو ترجیح دی جو کہ وہ اپنے لیے پسند کرتے تھے۔ اور یہ عارضی امن نہیں بلکہ دائمی امن تھا۔ اسی لیے سورہ یونس کی آیت نمبر 26 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ‘‘اللہ تمہیں سلامتی کے گھر کی طرف بلاتا ہے’’۔ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ مسلمانوں کو دائمی امن کے قیام اور لوگوں میں باہمی رواداری کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ لیکن پھر بھی کئی سالوں تک ایذا رسانی کا سامنا رہا۔ پھر جب تکالیف تمام حدود پار کر گئیں تو رسول کریم ﷺ اور ان کے صحابہ مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے۔ پھر بھی دشمنان اسلام نے انہیں امن کے ساتھ نہ رہنے دیا اور ان پر جنگ مسلط کر دی۔ تب سالہا سال ظلم و ستم برداشت کرنے اور اپنے گھروں سے بے گھر کیے جانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے حفاظت کی خاطر قوت کے ساتھ جواب دینے کی اجازت دی۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ جوابی کارروائی کی اجازت بھی اسلام یا مسلمانوں کی حفاظت کے لیے نہیں دی گئی تھی بلکہ قرآن شریف کی سورہ الحج کی آیت 41میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دفاعی جنگ کی اجازت بھی تمام مذاہب کی حفاظت کے لیے، عالمی مذہبی آزادی کے لیے دی گئی جو کہ دشمنانِ اسلام کا ہدف تھا۔ یہ بھی واضح رہے کہ رسول کریم ﷺ نے اپنے تابعین کو ان اصولوں پر سختی سے کاربند رہنے کی ہدایت فرمائی۔ مثال کے طور پر آپ ﷺ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ جنگی قیدیوں سے ملاطفت کا سلوک کیا جائے اور جب بھی ممکن ہو ان کو رہا کر دیا جائے۔ آپ ﷺ نے ہدایت فرمائی کہ کسی بچے، کسی عورت، کسی بوڑھے یا بیمار کو تکلیف نہ دی جائے اور نہ ہی کسی عبادت گاہ کو نقصان پہنچایا جائے اور نہ ہی مذہبی لیڈر کو ہدف بنایا جائے۔ نیز ہدایت فرمائی کہ اگر مخالف پارٹی تھوڑا سا بھی مفاہمت کا اشارہ دے تو فوراً مفاہمت کی طرف رجوع کیا جائے تا کہ قیامِ امن کا کوئی بھی موقع ضائع نہ ہو۔ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جہاں پہلے مسلمانوں کو خونی اور جنگ جُوکہا جاتا ہے ، وہیں آج کئی مغربی اور غیر مسلم اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بات کلیتاً حقیقت سے دور ہے۔ در حقیقت ریسرچ سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی اسلامی دور میں لڑی جانے والی تمام جنگوں میں کام آنے والوں کی تعداد آج کل کے ایک بم سے مرنے والوں کی تعداد کے مقابلہ میں بہت ہی معمولی ہے۔ لہٰذا باہم تصادم اور نفرت کے بیج بونے کی بجائے اسلام نے ہمیشہ مسلمانوں کو نفرت کی دیواریں گرانے اور محبت اور شفقت کے پُل باندھنے کی تلقین کی ہے تا کہ بنی نوع کو تقسیم کرنے کی بجائے متحد کیا جاسکے۔ الغرض معاشرہ کی ہر سطح پر اور مختلف طبقہ کے لوگوں تک مسلمانوں پر امن پھیلانے کی ذمہ داری عائدہے۔ اور اس کی بنیادی وجہ، جو کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں، قرآن شریف کی پہلی سورۃ میں ہی بیان ہوئی ہے اور وہ یہ کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کی ہیں جو کہ تمام جہانوں کا رب ہے۔ اسی طرح، جب خدا بنی نوع انسان کو زندہ اور قائم رکھنے والا ہے تو سچے مسلمانوں کو بھی زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے جیسے بنی نوع سے کینہ اور تنفر رکھیں۔ بلکہ ہماری نفرت فقط محبت، شفقت اور باہمی ہمدردی سے دور ہو سکتی ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ایک عملی مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارے کچھ مذہبی عقائد ہیں ۔ ہمارا اعتقاد ہے کہ خدا ایک ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اسی کی طرف رجوع کریں اور صرف اسی کی عبادت کریں۔ اور اسی طرح ہم قرآن کریم کی ابدی تعلیم کو بھی مانتے ہیں کہ دین میں جبر نہیں۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں دین ہمیشہ سے ہر کسی کا ذاتی معاملہ رہا ہے اور رہے گا ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اسلام کا لفظی مطلب ہے ‘‘امن’’۔ اور قرآن شریف میں ایسی بہت سی آیات ہیں جو بتدریج وضاحت کرتی ہیں کہ مسلمانوں کو ہمیشہ پُر امن رہنا چاہیئے اور دوسروں سے محبت اور عزت سے پیش آنا چاہیئے۔ پس کیسے ہو سکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ جن پر ایسی پُر امن تعلیمات نازل کی گئیں وہ خود ان تعلیمات کے منافی عمل کرتے۔ منصف اور غیر جانبدار تاریخ دان اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے کبھی بھی ظلم روا نہیں رکھا اور نہ کسی کے حقوق تلف کیے۔ بلکہ ہر موقع پر امن ، رواداری اور دوسروں کے حقوق پورے کرنے کی تعلیم دی۔ اور یقینی طور پر ان کی تعلیمات ہی ہمارانصب العین ہیں۔ اور ہم فخر کے ساتھ اس رسول کے امتی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جسے قرآن شریف نے رحمۃ للعالمین کہاہے اور یہی وجہ ہے کہ جماعت احمدیہ کا نعرہ ‘‘محبت سب کے لیے، نفرت کسی سے نہیں’’ہے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

اس مشکل دور میں تمام بنی نوع کو جس چیز کے لیے جدو جہد کرنی چاہیئے وہ ‘‘امن’’ ہے۔ ناقدین اسلام کوچاہیے کہ وہ اسلام اور رسول کریم ﷺ کے خلاف زہر اگلنے کی بجائے اپنے تعصب اور خود غرضی کو ختم کریں ورنہ دنیا میں کشیدگی بڑھتی چلی جائے گی۔ غیر تعلیم یافتہ اور لا علم مسلمان جو اپنی تعلیمات کو صحیح طرح نہیں جانتے، ان کا غم و غصہ غیر معمولی حد تک بڑھ جائے گا۔ جہاں بھی نوجوان طبقہ مایوسی کی حالت کو پہنچتا ہے تو وہ آسانی سے نفرت سے بھرے ہوئے ملّاؤں کا شکارہو جاتا ہے جو پھر ان کے ذہنوں میں زہر بھرتے ہیں۔ آپ کو لازمی طور پر اس کے خلاف اقدام اٹھانے چاہئیں وگرنہ نفرت کا یہ تلخ دائرہ جس نے دنیا کو اندھیر نگری بنا دیا ہے، مسلمانوں کے درمیان امن کو ختم کرتا چلا جائے گا۔ اور باقی ماندہ دنیا میں امن کا حصول ایک خواب بن کر رہ جائے گا۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ یہ وقت کی ضرور ت ہے کہ ہم سب مل کر ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کا خیال رکھیں اور اپنی آئندہ نسلوں کے لیے بہتر مستقبل بنانے کے لیے اپنی کوشش کریں ۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آئیں ہم اپنے تضادات کو ایک طرف رکھ کر معاشرے میں ایک سچے اور دیرپا امن کے لیے کوشش کریں اور اتحاد اور باہمی نیکی کی اساس پر معاشرہ کی بنیاد رکھیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

آپ کا بہت بہت شکریہ۔

…………………………………………………

حضور انور کا خطاب ساڑھے پانچ بجے تک جاری رہا۔ آخر پر حضور انور نے دعا کروائی۔ بعد ازاں کچھ دیر کے لیے حضور انور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔
اس تقریب میں شامل ہونے والے مہمانوں کے لیے شام کے کھانے کا انتظام کیا گیا تھا۔ سوا چھے بجے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مارکی میں تشریف لائے جہاں مہمانوں نے حضور انور کی معیّت میں کھانا تناول کیا۔

کھانے کے بعد مہمان باری باری حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے پاس آتے ، اپنا تعارف کرواتے اور حضور انور سے شرف مصافحہ حاصل کرتے رہے۔ حضور انور از راہ شفقت مہمانوں سے گفتگو فرماتے۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button