صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے
قرآن کریم کی یہ تعلیم ہرگز نہیں ہے کہ عیب دیکھ کر اسے پھیلاؤ اور دوسروں سے تذکرہ کرتے پھرو بلکہ وہ فرماتا ہے تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ (البلد:۱۸)کہ وہ صبر اور رحم سے نصیحت کرتے ہیں۔ مَرْحَمَہ یہی ہے کہ دوسرے کے عیب دیکھ کر اسے نصیحت کی جاوے اور اس کے لیے دعا بھی کی جاوے۔ دعا میں بڑی تاثیر ہے اور وہ شخص بہت ہی قابل افسوس ہے کہ ایک کے عیب کو بیان تو سو مرتبہ کرتا ہے لیکن دعا ایک مرتبہ بھی نہیں کرتا۔ عیب کسی کا اس وقت بیان کرنا چاہیے جب پہلے کم از کم چالیس دن اس کے لیے رو رو کر دعا کی ہو۔
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۶۰، ۶۱۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
۱۳ برس کا زمانہ کم نہیں ہوتا۔ اس عرصہ میں آپؐ نےجس قدر دکھ اٹھائے ان کا بیان بھی آسان نہیں ہے۔ قوم کی طرف سے تکالیف اور ایذا رسانی میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ ی جاتی تھی اور ادھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صبر اور استقلال کی ہدایت ہوتی اور بار بار حکم ہوتا تھاکہ جس طرح پہلے نبیوں نے صبر کیا ہے توبھی صبر کر اور آنحضرتﷺ کمال صبر کے ساتھ ان تکالیف کو برداشت کرتے تھے اور تبلیغ میں سست نہ ہوتے تھے۔ بلکہ قدم آگے ہی پڑتا تھا اور اصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا صبر پہلے نبیوں کا سا نہ تھا کیونکہ وہ تو ایک محدود قوم کے لیے مبعوث ہو کر آئے تھے۔ اس لیے ان کی تکالیف اور ایذا رسانیاں بھی اسی حد تک محدود ہوتی تھیں لیکن اس کے مقابلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر بہت ہی بڑا تھا کیونکہ سب سے اول تو اپنی ہی قوم آپﷺ کی مخالف ہو گئی اور ایذا رسانی کے درپَےہوئی اور پھر عیسائی بھی دشمن ہو گئے۔
(ملفوظات جلد۷صفحہ ۱۹۸۔۱۹۹۔ ایڈیشن۱۹۸۴ء)
تم اپنے پاک نمونہ اور عمدہ چال چلن سے ثابت کرکے دکھاؤ کہ تم نے اچھی راہ اختیار کی ہے۔ دیکھو مَیں اس امر کے لیے مامور ہوں کہ تمہیں بار بار ہدایت کروں کہ ہر قسم کے فساد اور ہنگامہ کی جگہوں سے بچتے رہو اور گالیاں سن کر بھی صبر کرو۔ بدی کا جواب نیکی سے دو اور کوئی فساد کرنے پر آمادہ ہو تو بہتر ہے کہ تم ایسی جگہ سے کِھسک جاؤ اور نرمی سے جواب دو… مَیں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ صبر کو ہاتھ سے نہ دو۔ صبر کا ہتھیار ایسا ہے کہ توپوں سے وہ کام نہیں نکلتا جو صبر سے نکلتا ہے۔ صبر ہی ہے جو دلوں کو فتح کرلیتا ہے۔ یقیناً یاد رکھو کہ مجھے بہت ہی رنج ہوتا ہے جب میں یہ سنتا ہوں کہ فلاں شخص اس جماعت کا ہوکر کسی سے لڑا ہے۔ اس طریق کو میں ہر گز پسند نہیں کرتا اور خدا تعالیٰ بھی نہیں چاہتا کہ وہ جماعت جو دنیا میں ایک نمونہ ٹھہرے گی وہ ایسی راہ اختیار کرے جو تقویٰ کی راہ نہیں ہے بلکہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ یہانتک اس امر کی تائید کرتا ہے کہ اگر کوئی شخص اس جماعت میں ہوکر صبر اور برداشت سے کام نہیں لیتا تو وہ یاد رکھے کہ وہ اس جماعت میں داخل نہیں ہے۔
(ملفوظات جلد ۴ صفحہ ۱۵۷، ایڈیشن ۱۹۸۸ء)