الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

جماعت احمدیہ کے بے لوث فلاحی منصوبے اور سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب کے صدقات جاریہ

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۶؍جنوری ۲۰۱۴ء میں شامل اشاعت مکرم شریف احمد بانی صاحب کے ایک مضمون میں چند فلاحی منصوبوں کا اور اس حوالے سے محترم سیٹھ محمد صدیق بانی صاحب کے صدقاتِ جاریہ کا ذکر کیا گیا ہے۔

عقیل بن عبدالقادر ویلفیئر آئی ہسپتال

مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ خاکسار ۱۹۶۸ء میں روزگار کی تلاش میں کراچی آیا اور یہاں مستقل رہائش اختیار کی۔ اس وقت محترم چودھری احمد مختار صاحب جماعت کراچی کے امیر تھے۔ میرزا عبدالرحیم بیگ صاحب نائب امیر تھے۔ پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے۔ شروع میں تو کاروباری سلسلہ میں قانونی مشاورت کے لیے ان کے پاس آنا جانا رہتا تھا۔ لیکن بعد میں یہ تعلق محبت اور دوستی میں تبدیل ہوگیا۔ ایک بزرگ مولوی صدرالدین صاحب سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے لیکن خدمت خلق کے کاموں کے لیے ہر وقت کمربستہ رہتے تھے۔ ان کو کراچی جماعت کے تمام مستحق اور غریب خاندانوں کا علم تھا اور سب سے ذاتی تعلق تھا۔ سب لوگوں کو مولوی صاحب پر اعتماد تھا کہ ان کے ذریعہ جو امداد ان تک پہنچے گی اس کی تشہیر نہیں ہوگی اور کسی کی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی۔ مولوی صاحب کو مجھ سے محبت تھی۔ مَیں نے ان کو کہہ رکھا تھا کہ جب بھی کوئی خدمت کا موقعہ ہو تو مجھے بتائیں۔ چنانچہ مولوی صاحب کی وساطت سے خدمت خلق کی توفیق مل جاتی تھی۔۱۹۸۲ء کی بات ہے کہ مولوی صاحب تشریف لائے اور کہا کہ امیر صاحب نے ایک خصوصی میٹنگ بلائی ہے اور آپ کو بھی بلایا ہے۔ ابھی میرے ساتھ چلیں۔ چنانچہ میں اسی وقت اٹھ کر ان کے ساتھ روانہ ہوگیا۔ وہ مجھے گلشن اقبال کے ایک میدان میں لے گئے جہاں مکرم امیر صاحب کے ساتھ قریباً پچیس دوست موجود تھے۔ میدان کے گرد چار دیواری تو موجود تھی لیکن عمارت کوئی نہیں تھی۔ امیر صاحب نے بتایا کہ یہ چار ہزار گز کا پلاٹ جماعت نے ہسپتال بنانے کے لیے حاصل کیا تھا۔ اب اس کے چاروں طرف اچھی خاصی آبادی ہوگئی ہے۔ وسائل کی کمی کی وجہ سے ابھی تک جماعت یہاں کوئی ہسپتال بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ جبکہ دوسری طرف مخالفین نے حکومت کو درخواست دے رکھی ہے کہ یہ پلاٹ اُن کو دے دیا جائے تو وہ فوری ہسپتال بنادیں گے۔یہ پلاٹ فضل عمر ویلفیئر سوسائٹی کے نام پر رجسٹرڈ تھا۔ چنانچہ وہاں موجود احباب نے حسب استطاعت وعدہ جات پیش کیے۔ بعد میں وہاں کچھ کمرے بناکر ڈسپنسری جاری کردی گئی۔

غالباً ۱۹۹۶ء میں ایک دن مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب میرے دفتر تشریف لائے اور مجھے اپنے ہمراہ اُسی ڈسپنسری میں لے گئے۔ وہ نامکمل سی چھوٹی سی عمارت شکستہ حالت میں تھی۔ محترم بیگ صاحب نے مجھے بتایا کہ زمین کی قیمت بڑھنے کے ساتھ کئی مخالفین کی اس پلاٹ پر نظر ہے۔اس لیے یہاں ہسپتال کی تعمیر کی فوری ضرورت ہے۔ خاکسار نے عرض کیا کہ آپ اللہ کا نام لے کر کام شروع کروائیں اور عمارت جماعت کے شایان شان عمدہ معیار کی ہونی چاہیے۔ مطلوبہ رقم خاکسار اپنے والد محترم میاں محمد صدیق بانی صاحب کی طرف سے پیش کر دے گا۔ ایک احمدی ڈاکٹر عبدالرحیم صاحب نے اُن آلات کی فہرست بھی بنائی تھی جو ابتدائی طور پر آنکھوں کے ہسپتال کے لیے درکار تھے۔ خاکسار نے درخواست کی کہ اس خدمت کا موقع بھی مجھے ہی دیا جائے۔ چنانچہ خاکسار کی تحریری درخواست پر ۵؍جون ۱۹۹۹ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی طرف سے منظوری کی اطلاع موصول ہوگئی کہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے پیشکش عطیہ برائے عقیل بن عبدالقادر آئی ہسپتال منظور فرمالی ہے۔ چنانچہ ۱۹۹۹ء کے اواخر تک ہسپتال اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہوگیا اور ابتدائی ایکوپمنٹ (Equipment) بھی ہسپتال پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل یہ ہوا کہ ایک احمدی آئی سپیشلسٹ، ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کراچی کے عباسی شہید ہسپتال کے آنکھوں کے شعبہ کے انچارج تھے اور کراچی کے چوٹی کے آنکھوں کے ڈاکٹرز میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے اپنی خدمات ہسپتال کے لیے پیش کردیں۔ بعد میں ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کو خدمت خلق کے اس کام میں اتنا مزا آیا کہ آپ نے عباسی شہید ہسپتال کی ملازمت ترک کرکے پورا وقت اس ہسپتال کو دے دیا۔

المہدی ہسپتال میں صدیق بانی آئی یونٹ

ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب وقفہ وقفہ سے مٹھی کے المہدی ہسپتال جا کر وہاں آئی کیمپ بھی لگاتے تھے جہاں دور دور سے مریض علاج کے لیے آکر مستفید ہوتے تھے۔ ایک دفعہ آپ کی دعوت پر خاکسار بھی اپنے بیٹے کے ہمراہ مٹھی گیا۔کراچی سے صبح نو بجے بذریعہ کار روانہ ہو کر تقریباً چھ یا سات بجے شام مٹھی پہنچے۔ دوران سفر ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ لیزر آپریشن کے لیے سارا ایکوپمنٹ (Equipment) ہر دفعہ کراچی سے ساتھ لے جانا پڑتا ہے اور پھر واپس لانا ہوتا ہے۔ یہ آلات بڑے نازک اور قیمتی ہیں اور دوران سفر ان کی ٹوٹ پھوٹ کا احتمال ہوتا ہے۔ اگر ہمیں یہ قیمتی آلات المہدی ہسپتال میں ہی مہیا ہوسکیں تو ہر دفعہ لانے لے جانے کا خطرہ ہم مول نہ لیں۔ چنانچہ خاکسار نے یہ آلات مہیا کردیے۔ المہدی ہسپتال کے دوکمروں میں ان آلات کے لیے جگہ بنا دی گئی اور اس طرح اس ہسپتال میں صدیق بانی آئی یونٹ کا افتتاح ہوا۔ اس موقع پر خاکسار نے جناب ناظم صاحب ارشاد وقف جدید کی خدمت میں عرض کیا کہ المہدی ہسپتال میں آنکھوں کے شعبہ کے لیے جگہ ناکافی ہے اگر اس کے لیے ایک الگ عمارت بنادی جائے تو خاکسار اس خدمت کے لیے حاضر ہے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے منظوری عطا فرمائی اور ایک شاندار عمارت صدیق بانی آئی یونٹ کے لیے علیحدہ تعمیر ہوگئی جس کا افتتاح محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے ۲۷؍اگست ۲۰۰۶ء کو فرمایا۔

ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب کے ساتھ تین چار دفعہ کراچی سے مٹھی جانے کا مجھے اتفاق ہوا۔ سارے دن کے سفر کے بعد مٹھی پہنچ کر ہم لوگ تھک جاتے تھے اور آرام کرتے تھے جبکہ ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب فوراً ہی مریضوں کو دیکھنے لگ جاتے تھے اور تین چار آپریشن بھی کرڈالتے تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد ڈاکٹر صاحب وفات پاگئے۔ نہایت نفیس اور محبت کرنے والے انسان تھے۔ میں نے اپنی آنکھ کے موتیا کا آپریشن کروانا تھا۔ سارے ٹیسٹ وغیرہ مکمل ہو گئے۔ لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر صاحب آپریشن کی تاریخ نہیں دے رہے تھے۔ میں نے کئی دفعہ پوچھا تو کہنے لگے بانی صاحب مجھے آپ سے اتنی محبت ہے کہ میں آپ کی آنکھ کا آپریشن کرنے کی ہمت نہیں کررہا۔ حالانکہ میں نے ہزاروں آپریشن کیے ہیں لیکن آپ کا آپریشن مَیں نہیں کرسکوں گا۔ میں نے محترم ڈاکٹر خالد تسلیم صاحب سے درخواست کی ہے آپ کا آپریشن وہ کریں گے۔ چنانچہ ربوہ سے ڈاکٹر خالد تسلیم صاحب تشریف لائے اور میرا آپریشن کیا۔ ڈاکٹر صاحب کے اس جذبہ اور محبت کا میرے دل پر بہت گہرا اثر ہے اور میں ہمیشہ ان کی مغفرت کے لیے دعا کرتا ہوں۔

مکرم مرزا عبدالرحیم بیگ صاحب ۱۶؍ستمبر ۱۹۹۹ء کو وفات پاگئے۔ ہسپتال کے لیے کام کرنے والوں میں سب سے زیادہ فعال آپ ہی تھے۔ آپ فضل عمر ویلفیئر سوسائٹی کے چیئرمین بھی تھے۔ میں جب بھی ان کی عیادت کے لیے ان کے گھر جاتا مجھ سے ہسپتال کے بارہ میں ہی گفتگو فرماتے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور محترم بیگ صاحب افتتاح سے پہلے ہی وفات پاگئے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب جب کراچی تشریف لائے ہوئے تھے تو ۲۰؍فروری ۲۰۰۰ء کو انہوں نے ہسپتال کا افتتاح فرمایا۔ بعدازاں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہ شفقت آنکھوں کے شعبہ کو ’’صدیق بانی ونگ‘‘ کا نام دینے کی منظوری عطا فرمائی۔اس ہسپتال کی تین منزلہ شاندار عمارت میں بہترین اعلیٰ معیار کے آلات (Equipment) ہیں جو یورپ اور امریکہ سے درآمد شدہ ہیں۔ یہاں کورنیا کی پیوندکاری بھی ہورہی ہے۔

یہاں آئی بینک کا قیام عمل میں لایا جاچکا ہے۔ جنوری ۲۰۱۲ء میں ایک احمدی نوجوان مکرم احسن کمال صاحب کراچی میں دہشت گردی کا نشانہ بنے۔ انہوں نے آنکھیں عطیہ کرنے کے لیے رجسٹریشن کروائی ہوئی تھی۔ چنانچہ ان کی وصیت کے مطابق عقیل بن عبدالقادر ہسپتال کے توسط سے بغیر کسی معاوضہ کے ان کی دونوں آنکھیں دو ضرورتمند افراد کو لگا دی گئیں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے احسن کمال مرحوم کو دو انسانوں کی زندگیوں میں روشنی کی کرن بننے کی توفیق عطا فرمائی۔ جن دو افراد کو آنکھیں لگائی گئیں وہ دعائیں دیتے ہیں کہ جس شخص نے ہمیں نور دیا اللہ تعالیٰ اسے جنت الفردوس میں جگہ دے اور اس کے ماں باپ کو صبر دے۔

اس ہسپتال کی خاص بات جو اسے دوسرے تمام ہسپتالوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ اس کامعیار کراچی کے کسی بھی بڑے ہسپتال کا مقابلہ کرتا ہے۔ لیکن چارجز اتنے کم ہیں کہ ایک غریب آدمی بھی یہاں علاج کرواسکتا ہے اور اگر کوئی شخص ایسا ہو جو یہ کم سے کم چارجز بھی ادا کرنے کی سکت نہیں رکھتا تو ایسے شخص کا علاج مفت کیا جاتا ہے اور محض پیسوں کی عدم ادائیگی کی وجہ سے آج تک کسی مریض کو واپس نہیں کیا گیا۔ ہسپتال میں فارمیسی اور لیب کی سہولت بھی میسر ہے جہاں انتہائی کم چارجز پر خدمات مہیا کی جاتی ہیں۔ اسی طرح عینکوں کے لیے آپٹیکل شاپ بھی موجود ہے۔ جہاں انتہائی کم قیمت پر عمدہ چشمے دستیاب ہیں۔

بیگم زبیدہ بانی ڈینٹل سرجری

خاکسار نے جماعت کی خدمت میں درخواست پیش کی تھی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے ہسپتال میں کافی جگہ ہے۔ اس کے ایک حصہ میں ایک علیحدہ عمارت تعمیر کرکے وہاں دانتوں کا شعبہ قائم کیا جائے۔ میری درخواست منظور ہوئی اور ایک خوبصورت تین منزلہ عمارت تیار ہوگئی جس میں گراؤنڈ فلور پر لیب اور آپٹیکل شاپ قائم کی گئی۔ دوسری منزل پر دانتوں کا شعبہ ہے۔ بوڑھے اور کمزور مریضوں کی سہولت کے لیے لفٹ کا انتظام بھی ہے اور جنوری ۲۰۱۲ء سے بیگم زبیدہ بانی ڈینٹل سرجری کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہاں بھی ہر غریب آدمی دانتوں کے علاج کی جدید سہولیات سے مستفیض ہوسکتا ہے۔ ہمارا مقصد پیسہ کمانا نہیں ہے بلکہ صرف اور صرف خدمت خلق ہے۔

احمدی ڈاکٹروں سے درخواست ہے کہ وہ خدمت خلق کے جذبہ کے تحت فضل عمر ہسپتال ربوہ، طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ ربوہ اور عقیل بن عبدالقادر ہسپتال کراچی کے لیے وقت نکالیں تو یہ انسانیت کے لیے آپ کی عظیم خدمت ہوگی۔

………٭………٭………٭………

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button