قرآنِ کریم کی پیروی سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ۳؍مارچ۲۰۲۳ء)
قرآنِ کریم نے کس طرح خدا تعالیٰ کا چہرہ دکھانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس بات کو صحابہؓ کی زندگیوں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ’’قرآنی تعلیم کا صحابہ کرامؓ پر اثر‘‘ کا ذکر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ جو صدرِ اسلام کا وقت تھا اس زمانہ پر ایک وسیع نظر ڈال کر ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم نے کیونکر ایمان لانے والوں کو مذکورہ بالا ادنیٰ درجہ سے اعلیٰ درجہ تک پہنچا دیا کیونکہ ایمان لانے والے اپنی ابتدائی حالت میں اکثر ایسے تھے کہ جس حالت کو وہ ساتھ لے کر آئے تھے وہ حالت جنگلی وحشیوں سے بدتر تھی اور درندوں کی طرح اُن کی زندگی تھی اور اس قدر بد اعمال اور بد اخلاق میں وہ مبتلا تھے کہ انسانیت سے باہر ہوچکے تھے اور ایسے بےشعور ہوچکے تھے کہ نہیں سمجھتے تھے کہ ہم بداعمال ہیں یعنی نیکی اور بدی کی شناخت کی حس بھی جاتی رہی تھی۔ پس قرآنی تعلیم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت نے جو پہلا اثر اُن پر کیا تووہ یہ تھا کہ اُن کو محسوس ہو گیا کہ ہم پاکیزگی کے جامہ سے بالکل برہنہ اور بداعمالی کے گند میں گرفتار ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ اُن کی پہلی حالت کی نسبت فرماتا ہے اُولٰٓئِكَ كَالْاَنْعَامِ بَلْ هُمْ اَضَلُّ (الاعراف:۱۸۰) یعنی یہ لوگ چارپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی بدتر۔ پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پاک صحبت اور فرقانِ حمید کی دلکش تاثیر سے اُن کو محسوس ہو گیا کہ جس حالت میں ہم نے زندگی بسر کی ہے وہ ایک وحشیانہ زندگی ہے اور سراسر بد اعمالیوں سے ملوث ہے تو انہوں نے رُوح القدس سے قوت پا کر نیک اعمال کی طرف حرکت کی جیسا کہ اللہ تعالیٰ ان کے حق میں فرماتا ہے وَاَيَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُ (المجادلۃ:۲۳) یعنی خدا نے ایک پاک رُوح کے ساتھ ان کی تائید کی۔ وہ وہی غیبی طاقت تھی جو ایمان لانے کے بعد اور کسی قدر صبرکرنے کے بعد انسان کو ملتی ہے۔ پھر وہ لوگ اس طاقت کے حاصل ہونے کے بعد نہ صرف اس درجہ پر رہے کہ اپنے عیبوں اور گناہوں کو محسوس کرتے ہوں اور ان کی بدبو سے بیزار ہوں بلکہ اَب وہ نیکی کی طرف اس قدر قدم اٹھانے لگے کہ صلاحیت کے کمال کو نصف تک طے کر لیا اور کمزوریوں کے مقابل پر نیک اعمال کی بجاآوری میں طاقت بھی پیدا ہو گئی۔‘‘نہ صرف کمزوریاں دُور کیں بلکہ نیکیوں میںقدم بڑھتے گئے۔ ’’اور اس طرح پر درمیانی حالت اُن کو حاصل ہوگئی اور پھر وہ لوگ رُوح القدس کی طاقت سے بہرہ وَر ہوکر اُن مجاہدات میں لگے کہ اپنے پاک اعمال کے ساتھ شیطان پر غالب آ جائیں۔ تب اُنہوں نے خدا کے راضی کرنے کے لئے اُن مجاہدات کو اختیار کیا کہ جن سے بڑھ کر انسان کے لئے متصور نہیں۔ انہوں نے خدا کی راہ میں اپنی جانوں کا خس و خاشاک کی طرح بھی قدر نہ کیا۔ آخر وہ قبول کئے گئے اور خدا نے اُن کے دلوں کو گناہ سے بکلی بیزار کر دیا اور نیکی کی محبت ڈال دی۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۴۲۴-۴۲۵)
پس یہ ہے قرآن کریم کا اُن پر اثر کہ وہ زمین سے اٹھے اور آسمان کے چمکدار ستارے بن گئے جن کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ان میں سے ہر ایک تمہارے لیے راہنما ہے۔ (المشکاۃ المصابیح جلد۳ صفحہ۱۶۹۶ کتاب المناقب باب مناقب الصحابۃؓ حدیث ۶۰۰۹ مطبوعہ مکتب الاسلامی بیروت ۱۹۷۹ء)
قرآنِ کریم کی پیروی سے انسان خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے۔یہ بات بیان فرماتے ہوئے آپؑ فرماتے ہیں:جو شخص قرآنِ شریف کا پیرو ہو کر محبت اور صدق کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے وہ ظِلّی طور پر خدا تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہو جاتا ہے۔ صرف پیرو ہونا شرط نہیں بلکہ محبت اور صدق کو انتہا تک پہنچانا شرط ہے یعنی اس کے احکامات پر مکمل عمل ہو تب وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا مظہر ہوتا ہے۔
پھر فرمایا:یہ سب نتیجہ اُس زبردست طاقت اور خاصیت کا ہوتا ہے جو خدا کے کلام قرآن شریف میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔ وہ زبردست طاقت اور خاصیت کسی اَور کتاب میں نہیں جو کسی قوم کے نزدیک الہامی سمجھی جاتی ہے۔ شاید اس کا یہ سبب ہو کہ وہ کتابیں بوجہ دُور دراز زمانوں کے محرف و مبدل ہوچکی ہیں یا شاید یہ سبب ہو کہ اگرچہ لفظ اُن کے محرف و مبدل نہیں ہوئے مگر معنے بگاڑ دیے گئے ہیں یا شاید یہ سبب ہو کہ خدانے اس آخری زمانےمیں تفرقہ دُور کرنے کے لیے اوردنیا کے تمام لوگوں کو صرف ایک کتاب پر جمع کرنے کے لیے ان تمام پہلی کتابوں کی برکتیں مسلوب کرلی ہیں ورنہ اس کا سبب کیا ہے کہ جس طرح قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی پیروی سے انسان جماعتِ اولیاء اللہ میں داخل ہوسکتا ہے، اُن کتابوں میں یہ خاصیت پائی نہیں جاتی اور یہی وجہ ہے کہ اُن کتابوں کے پیرو اُن کمالات سے منکر ہیں جو انسان کو قرب کے مکان میں حاصل ہوسکتے ہیں بلکہ وہ کرامات اور خرق عادات پر ہنسی ٹھٹھا کرتے ہیں۔ معجزات کو نہ صرف مانتے نہیں بلکہ ان پر ہنسی ٹھٹھا بھی کرتے ہیں اوریہی آج وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے دُور ہو گئے ہیں، مذہب سے دُور ہو گئے ہیں۔ پھر فرمایا :مگر ہم ان پرکوئی ہنسی ٹھٹھا نہیں کرتے۔ کسی پر ہم ہنسی ٹھٹھا نہیں کرتے ہاں ان کی محرومی کو دیکھ کر رونا ضرور آتا ہے۔
اُن کی ہمدردی ہے ہمارے دل میں کہ اللہ تعالیٰ سے دُور جا کر، اُس کی صفات کو بھول کر نئے زمانے کی روشنی کا اپنے غلط رویوں کو نام دے کر دوبارہ جانوروں والی حرکتیں کرنے لگ گئے ہیں اور یہی کچھ ہمیں آج کل مادیت پرستوں میں نظر آتا ہے۔
بہرحال اپنی بات کے تسلسل میں آپؑ آگے فرماتے ہیں کہ میں اس جگہ کچھ گذشتہ قصوں کو بیان نہیں کرتا بلکہ میں وہی باتیں کرتا ہوں جن کا مجھے ذاتی علم ہے۔ مَیں نے قرآن شریف میں ایک زبردست طاقت پائی ہے۔ مَیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں ایک عجیب خاصیت دیکھی ہے جو کسی مذہب میں وہ خاصیت اور طاقت نہیں اور وہ یہ کہ سچا پیرو اس کا مقامات ولایت تک پہنچ جاتا ہے۔ خدا اس کو نہ صرف اپنے قول سے مشرف کرتا ہے بلکہ اپنے فعل سے اس کو دکھلاتا ہے کہ مَیں وہی خدا ہوں جس نے زمین و آسمان پیدا کیا تب اس کا ایمان بلندی میں دُور دُور کے ستاروں سے بھی آگے گذر جاتا ہے۔ چنانچہ میں اس امر میں صاحبِ مشاہدہ ہوں۔ خدا مجھ سے ہمکلام ہوتا ہے اور ایک لاکھ سے بھی زیادہ میرے ہاتھ پراس نے نشان دکھلائے ہیں۔ سو اگرچہ میں دنیا کے تمام نبیوں کا ادب کرتاہوں اور ان کی کتابوں کا بھی ادب کرتا ہوں مگر زندہ دین صرف اسلام کو ہی مانتا ہوں کیونکہ اس کے ذریعہ سے میرے پر خدا ظاہر ہوا۔
پھر آپؑ نے فرمایا کہ جس شخص کو میرے اس بیان میں شک ہو اس کو چاہیے کہ ان باتوں کی تحقیق کے لیے میرے پاس آ کے دو ماہ کے لیے ٹھہرے۔ میں اس کے تمام اخراجات کا جو اس کے لیے کافی ہوسکتے ہیں اس مدت تک متکفل رہوں گا۔ اور فرمایا کہ
میرے نزدیک مذہب وہی ہے جو زندہ مذہب ہے اور زندہ اور تازہ قدرتوں کے نظارے سے خدا کو دکھلاوے ورنہ صرف دعویٰ صحت مذہب ہیچ اور بلا دلیل ہے۔ (ماخوذ ازچشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳صفحہ ۴۲۷-۴۲۸)