برادرِ بزرگ ڈاکٹر محمد حفیظ خان کی یاد میں
1920ء تا 2013ء
میرے بڑے بھائی ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب کے پانچ بیٹوں سےسب سے بڑے بیٹے تھے۔ آپ 4؍جون1920ء کو گاؤں چک سان ( ضلع گو جرانوالہ، پاکستان ) میں پیدا ہو ئے، والد مشرقی افریقہ میں محکمہ صحت میں ڈیوٹی پرتھے۔ حفیظ، والدہ، دادی محترمہ محمد بی بی اور ماموں غلام محمد صاحب کی نگرانی میں گاؤں میں پلے بڑھے، مذہبی تعلیم انہی سے حاصل کی، (غلام محمد فوج کے محکمہ مال سے ریٹائر ہو کر گاؤں کی مسجد میں امام الصلوٰۃ اور بچوں کو قرآن کریم پڑھاتے تھے)
تعلیم
حفیظ کوپانچ سال کی عمر میں گاؤں سےتین میل دور کوٹ سعد اللہ پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا، جہاں سے پانچویں جماعت پاس کی۔8-9سال کی عمر میں والدہ کے ساتھ خا لہ زاد بھا ئی نور احمد کی معیت میں افریقہ والد کے پاس گئے، جہاں پا نچ سال رہے۔ اگلی کلاسوں کی کتابیں ساتھ لے گئے تھے، وقت ضائع کیے بغیراباجی سے کو چنگ لیتے رہے۔ اس دوران اللہ تعالیٰ نے چھوٹا بھائی محمد منیر عنایت کیا، جب منیر چارسال عمر کا ہوا تو دونوں بھائی تعلیم کے لیے والدہ کے ساتھ واپس ہندوستان گا ؤں آ گئے۔
منیر کو کوٹ سعداللہ پرائمری سکول میں داخل کرا دیا گیا، جبکہ حفیظ گاؤں سے دس بارہ میل دور مڈل سکول میترانوالی، ضلع سیالکوٹ میں داخل ہوئے، ہرروز صبح سائیکل پر گھر سے نکلتے اور شام کو گھر بارہ میل کا سفر کر کے لوٹتے۔ آٹھویں پاس کرنے کے بعد میٹرک گوجرانوالہ گورنمنٹ ہائی سکول سے پاس کیا۔ دونوں بھائی ہر سال موسمِ گرما کی چھٹیوں میں کو چنگ کے لیے والد صاحب کے رشتہ دار مولوی مدد علی، جو عربی کے استاد تھے کے پاس شرقپور چلے جاتے۔ میٹرک کے بعد بھائی جان اسلامیہ کالج لاہور میں ایف ایس سی میڈیکل میں داخل ہو گئے، جبکہ بھائی منیر مولوی مدد علی کے پاس ٹھہر کر میٹرک کی تیاری کر تے رہے۔
اباجی کی قبولیتِ احمدیت
اباجی نے 1920ء میں افریقہ میں احمدیت قبول کر نے کی سعادت حاصل کی۔ اور رشتہ داروں کو احمدیت قبول کرنے کی دعوت بذریعہ خطوط دی، سب احمدیت کی مخالفت میں ابا جی کے خلاف بھڑک اُ ٹھے جن کا سر خیل مو لوی مدد علی تھا۔ بھائی حفیظ اور منیر، دونوں مولوی کی تحویل میں زیرِ تربیت تھے، اباجی ان کے بارے میں بڑے فکر مند تھے۔ افریقہ میں احبابِ جماعت سے مشورہ کر نے کے بعد 1941ءمیں اباجی نےبچوں کو تعلیم کے لیے قادیان چھوڑ نے کا ارادہ کیا۔ ابا جی کوقادیان میں جماعت کی مدد سے محلہ دارالرحمت میں خان ارجمند صاحب کے گھر کا آدھا حصہ کرائے پر مل گیا تھا۔ افریقہ سے آتے ہو ئے آپ نے بھائی حفیظ کو لکھا میں تمہاری والدہ اور بھائی بہنوں کو لےکرقادیان فلا ں فلاں تاریخ کو پہنچ رہا ہوں، قادیان میں ہمارا ایڈریس یہ ہو گا، لیکن بہتر ہو گا تم ہمیں لاہور ریلوے اسٹیشن پر فلاں تاریخ کو آکر ملو، تمہاری والدہ تم دونوں سے سخت اداس ہے۔ وہاں سےہم اکٹھے قادیان آئیں گے۔
خط ملتے ہی بھائی جان لا ہور سے چھٹی لےکر بھائی منیر کو لینے شرقپورپہنچے، مو لوی مدد علی نے دونوں کو بٹھا کر احمدیت کے بارے میں غلط سلط باتیں بتاکر خوب جماعت کے خلاف بھڑکا دیا۔ موسم گرما کی برساتوں کا مو سم شروع ہو چکا تھا، گاڑیاں بند تھیں۔ دونوں بھائی بس کے ذریعے شرقپور سے لاہورپہنچنے، آگے دریائے راوی میں سیلاب تھا۔ کالا شاہ کاکو ریلوے اسٹیشن پر اترے اور سامان اٹھائے گہرے پانی سے گزرتے ہوئے شام کے وقت تھکے ہارے لاہور اسٹیشن پہنچے، گاڑی کبھی کی قادیان کے لیے روانہ ہو چکی تھی۔ جیسے تیسےاسٹیشن پر رات گزاری، صبح قادیان کے لیےگاڑی پکڑی، دیے ہو ئے پتے پر پہنچے، والدین کی دونوں کو بخیرو عافیت دیکھ کر جان میں جان آئی، بھائی بہنوں سے ملے، اس طرح خدا تعالیٰ کے فضل سے ساری فیملی اکٹھی ہو گئی۔
قادیان میں
مو لوی کی یاوہ گوئی کے زیر اثر حفیظ قادیان میں کم سے کم وقت گزارنا چاہتے تھے، گھر پہنچتے ہی اباجی کو بتایا میرا کل امتحان ہے میں صبح کی گاڑی سے لاہور جا رہا ہوں، پھر چھٹیوں میں زیادہ رہنے کے لیے آؤںگا۔ ابا جی سمجھ گئے، مولوی کے زیرِ اثر کار روائی ہو رہی ہے۔ قادیان ریلوے اسٹیشن پر اترنے سے لےکربھائی جان قادیان میں ہر چیز کا بغور مطالعہ کر رہے تھے۔ صبح گلی میں صَلِّ عَلیٰ کرتے بچوں کی مترنم آواز سے آنکھ کھل گئی۔ اباجی نےجلدی سے ناشتہ کر کے اسٹیشن پہنچنے کا یاد دلایا۔ جبکہ بھائی جان نے دل میں کچھ اور ہی فیصلہ کیا ہوا تھا، کہنے لگے میں پھر امتحان دے لوںگااور قادیان میں مزید کچھ دن ٹھہر گئے۔
اگلے دن ماسٹر صاحب (ماسٹر عبدالرحمٰن صاحب مہر سنگھ) بچوں کو پڑھانے کےلیے تشریف لا ئے۔ ابا جی نے دونوں بیٹوں سے تعارف کرایا، اور دونوں کو اپنے ساتھ لےجاکر قادیان کی سیر کرا نے کی درخواست کی، مجلس مشاورت کا اجلاس ہو رہا تھا اسےبھی دِکھلا نے کا کہا، اورمنع کیا کہ خود ا نہیں کچھ نہ کہیں۔ چنانچہ دو نوں بھائی ما سٹر صاحب کے ساتھ مختلف جگہوں پر گئے، بہشتی مقبرہ دیکھا، عام ساصاف ستھرا قبرستان، دوسرے قبرستانوں سے بر عکس قبریں سلیقے سے قطاروں میں، مختلف قسم کے درختوں اور موسمی پھولوں سے سجا ہوا، جگہ جگہ دعائیہ بورڈ، مرد اور باپردہ خواتین قبروں پر دعا کےلیےآ جا رہے تھے۔ غرضیکہ جوکچھ مولوی سے سنا تھا اس سے بر عکس پایا، نہ کہیں دوزخ نہ جنت اور نہ حوریں! کالج ہال میں مشاورت کا اجلاس ہو رہا تھا، وہاں کچھ اَور ہی سماں تھا، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکی زیارت ہوئی۔ اجلاس میں مسجد برلن کی تعمیر کے لیے مستورات سے چندے کے وعدے لیے جا رہے تھے، مستورات بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی تھیں، کچھ نقد وصولیاں ہو رہی تھیں جن کی ساتھ کے ساتھ رسیدیں دی جا رہی تھیں۔ نہ کو ئی مولویوں کی طرح کی تقریریں نہ نعرے!
الغرض دونوں بھائیوں نے دل ہی دل میں بیعت کرنےکا فیصلہ کیا اور بیعت سے مشرف ہو کر بھائی جان کالج کے لیے لاہور روانہ ہو ئے، اور بھائی منیر نے تعلیم الاسلام ہا ئی سکول میں داخلہ لے لیا، جبکہ دوسرے بہن بھائی پہلے ہی اپنے اپنے سکولوںمیں داخل تھے۔ ابا جی فیملی کو بھائی منیر اور والدہ کی نگرانی میں چھوڑ کر افریقہ چلے گئے۔ بھائی حفیظ ہفتہ پندرہ دن بعد لا ہور سےگھر آتے۔ بھائی جان نے 1945ء میں وصیت کی اور چندہ دینا شروع کر دیا۔ اس طرح بھائی جان کا خدا کے فضل سے احمدیت میں سفر شروع ہو گیا۔
بھائی جان نے امرتسر سے ایف ایس سی کے بعد پانچ سال کا ایل ایم ایس کا کورس کیا۔ اور پھرایم بی بی ایس کا دو سال کا کورس فاطمہ جناح میڈیکل کالج سے پاس کیا۔ کچھ عرصہ بہاولپور میڈیکل سکول میں ڈ مانسٹریٹر رہے۔ 1949ء میں آپ کی پہلی تقرری بطور میڈیکل آفیسر کینال ہسپتال مریدکے ضلع شیخو پورہ میں ہو ئی۔ اور پھر پاکستان کے مختلف ہسپتالوں میں انچارج رہ کر 1971ء میں گورنمنٹ سروس سے ریٹا ئر ہوئے، اور وقف کر کے انچارج نصرت جہاں ہسپتال جیوارا، گیمبیا 1971ءسے1984ءتک رہے، کچھ عرصہ ربوہ میں پرائیویٹ پریکٹس کی، 1991ء میں ٹورانٹو، کینیڈا ہجرت کر کے آ گئے۔ جہاں مختلف جما عتی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے رہے۔ آپ پابندِ نماز، تہجد گزار، اور خدا ترس بزرگ تھے، مریضوں کی مدد کر تے۔ چندہ جات کی ادائیگی میں با قاعدہ تھے۔
زندگی کے چیدہ چیدہ واقعات
1953ءکےجماعت مخالف ہنگامے
ان ہنگامہ خیز دنوں کے متعلق بھائی جان بتاتے تھےکہ علاقے کا سپرنٹنڈنٹ پو لیس راؤنڈ پر ہسپتال آیا تو میں نے اُسے اپنی حفاظت سے متعلق جب کہا، تو اس کا جواب تھا فکر نہ کرو، معمولی بات ہے۔ حالات ٹھیک رہیں گے۔ مگر حالات دن بدن بگڑ تے گئے۔ تمام کاروبار بند، سڑک پرنہ گاڑی نہ موٹر۔ ایک صبح ہما رے کوارٹر کے باہر قریبی فیکٹری کے مزدوروں کی بہت بڑی تعداد دجمع ہو نے لگی۔ ہم نے گھر کی کھڑکیاں اور دروازے بند کر دیے۔ میرا بڑا بیٹا قیصر کھیلتا کھیلتا باہر چلا گیا ظالموں نےاسے پکڑ کر پتوں کے ڈھیر پر بٹھا کر آگ لگا دی، ہمارے ملازم عبدالغفور نے اس کو اُپر سے اُٹھا کر بچا لیا، الحمدللہ۔
ہمارے ہمسائے میں ایس ڈ ی او نہر بہت شریف آدمی تھے، میں ایک شام انہیں ملنے گیا تو پو چھا اگر فسادی ہم پر حملہ آور ہوں تو کیا آپ میرے گھر والوں کو اپنے بنگلے میں پناہ لینے کی اجازت دیں گے؟ اس نے کہا ہاں اجازت ہے، البتہ جب فسادی میرے گھر میں آگئے، تو میں کو ئی مدد نہیں کر سکوںگا، آپ کی مدد کر نے پرمجھے اپنا بھی خطرہ ہے۔ میں آپ کو اپنی گاڑی میں گو جرانوالہ میں ڈپٹی غلام احمدصاحب بھیروی (جو احمدی ہیں)کے پاس پہنچادیتا ہوں۔ میں پٹرول کے لیے ڈرائیور کو لاہور بھجوا چکا ہوں، آپ تیار رہیں۔ 3-4بجے سہ پہر گاڑی لے کر آئے۔ بولے ڈرا ئیور آپ کا دشمن ہے، یہ لاہور برف خانہ چوک کا رہنے والا ہے، اس سے ہو شیار رہیں۔ گاڑی میں ہمیں بٹھا کرہم پر کمبل ڈال دیا۔ روانہ ہو نے سےپہلےمیں نے اپنے نو کر عبدالغفور کو گھرکی چابیاں دیں، سامان وغیرہ اس کے ذمے کیا۔
ایمان کا امتحان
جب ہم گوجرانوالہ روڈ پر سادھوکے شہر پہنچے، تو سڑک پر بہت لو گ کھڑے تھے، ملٹری کے ٹرک لاہور جا رہے تھے۔ اچانک ڈرائیور نے موٹر روک لی اور بولا ڈاکٹر مجھے پتہ ہے تم دوڑ کر جان بچانے جا رہے ہو۔ اگر میں ان لو گو ں کو بتاؤں کہ تم مر زائی ہو تو تمہیں قتل کر دیں۔ مجھے بتاؤ مرزاصاحب سچے تھے؟ اس وقت میں چاہتا تو تھا کہ اعلیٰ جواب دوں جو اُس کے دل پر لگے۔ اُس وقت تیز چمکتا ہوا سورج ہماری دائیں طرف تھا۔ میں نے جواب دیا: مَیں، میری اہلیہ اور بچے قربان ہونےاور قیمہ بننے کے لیے تیار ہیں، جیسا تم نے دھمکی دی ہے، الحمدُ للہ بتاؤان کو ہم تیار ہیں! میں مرزا صاحب کی سچائی اس چمکتے سورج کی طرح سمجھتا ہوں۔ ایک زمانے میں مَیں بھی مرزا صاحب کو بُرا بھلا کہا کر تا تھا۔ مگر جب مجھے حقیقت کا پتہ چلا کہ جو مولوی کہتے ہیں جھوٹ ہے، درا صل یہ ملک دشمنوں کے نمک خوار ہیں، ملک میں بد امنی پھیلانا چاہتے ہیں۔ ڈرائیور بولا: میں سمجھ گیاآپ مرزا کو سچا جا نتے ہیں۔
پھر کچھ بات کیے بغیرہمیں سول لا ئینز میں غلام احمد صاحب (ڈپٹی کلیکٹر انہار) کی کو ٹھی پر چھوڑ گیا۔ ڈپٹی صاحب ہمیں مل کر خوش ہو ئے، (میں حفاظت کی خاطر اپنی دو نالی بندوق ساتھ لے آیا تھا۔ ) ہم دس دن ان کے ہاں رہے۔ انہوں نے ہماری بہت خدمت کی۔ انہوں نے بتایا، میرے ہمسائے میں غیر احمدی ڈپٹی کلیکٹر رہتا ہے، اچھا کیا جو ساتھ بندوق لے آئے، اس کے پاس ملاں لوگ آتے رہتے ہیں۔
جان پر حملہ
بھائی جان نے نہایت ایمانداری سے اپنی ڈیوٹی نباہی، کسی قسم کی نا جا ئز سفارش یا رشوت قبول نہیں کی، اس لیے کئی لوگ آپ کے دشمن بن گئے۔ جب آپ کی ٹرانسفر ٹوپی سے پشاور ہوئی، اور آپ ٹرک میں سامان کے ساتھ پشاور روانہ ہوئے۔ راستے میں سڑک نیچے چلی جاتی ہے، اسے پہاڑی علاقے میں اونچائی کی وجہ سےکوٹھا کہتے ہیں۔ ایک رائیفل کی گولی جو اوپر باغ سے آپ کو مارنے کے لیے چلائی گئی تھی، ٹرک کے ایک دروازے سے گزر کر دوسرے دروازے کو پھاڑ کر باہر نکل گئی، اللہ تعالیٰ نے آپ کو بال بال بچا لیا، الحمدللہ۔
وفات
بھائی جان نے خدا تعالیٰ کے فضل سے صحت مند زندگی گزاری ۔ 16؍ اپریل 2013ءکے دن 93؍سال کی عمر میں مختصر سی علالت سے فوت ہو گئے، اور برامپٹن( ٹورانٹو، کینیڈا) کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔
اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن۔
آپ کی اولاد میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں، جو سب جماعتی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
بھائی جان کی بیٹی عزیزہ ناصرہ فوزیہ خالد اپنے والدین کو درجِ ذیل الفاظ میں یاد کر تی ہیں:
انسان بنیادی طور پر جو کچھ پاتا ہے اس میں اس کے والدین کی تربیت، دیکھ بھال اور دعا کا زیادہ اثر ہوتا ہے۔ مجھے تو اس بات کا شدت سے احساس رہتا ہے کہ والدین زندہ ہوں یا دنیا سے رخصت ہو گئے ہوں ان کی دعائیں اولاد کے ساتھ ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسانی رشتوں میں والدین کی جدائی کا احساس زیادہ تنہا اور اداس کر دیتا ہے۔ اگر چہ عمومی طور پر ہم والدہ کو زیادہ مقام دیتے ہیں اور یہ اس کا حق بھی بنتا ہے مگر والد کی حیثیت بھی ایک شجر سایہ دار کی مانند ہوتی ہے۔ والد کا سایہ عملی طور پر بچوں کے اندر زندگی سے لڑنے اور ایک تحفظ کا احساس دیتا ہے۔
میرے والد ڈاکٹر محمد حفیظ خان مرحوم کو دنیا سے رخصت ہوئے سات برس بیت گئے ہیں۔ آپ 16؍اپریل2013ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے تھے ہم سب کو اپنے والد سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا میرے والد کیا ہی کمال کی شخصیت تھے ہمیں فخر ہےکہ ہم ایک ایسے باپ کے بچے ہیں جس نے اپنی محنت، لگن، شوق، دیانت داری اور وفاداری کے ساتھ اپنے قائم کردہ اصولوں، خیالات، سوچ، فکر اور اخلاقی معیاروں کو برقرار رکھتے ہوئے ایک بھر پور زندگی گزاری ہے…۔
ہم سب بہن بھائی آج جو کچھ بھی ہیں اس کے پیچھے ہمارے والدین کی محنت اور دعائیں پیش پیش ہیں…ہمارے والد صاحب حقیقی معنوں میں ایک درویش صفت انسان تھے جنہوں نے اپنے آپ کو ایک سادہ، قناعت پسندی، عاجزی اور صبر کو بنیاد بنا کر اپنے حصہ کی زندگی گزاری اگرچہ ان کی پوری زندگی جدوجہد پر مبنی اور مشکل زندگی تھی مگر کبھی بھی ہم نے انہیں ہمت ہارتے یا اس پر دکھ کرتے ہوئے نہیں سنا ہمیشہ اپنی عاجزی میں خوش رہے اور فخر بھی کیا۔
ہمارے والد ہمارے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے تھے ہمیشہ کہا کرتے تھے بہت پڑھو انسانیت کی خدمت کرو۔ کہا کرتے تھے جو کچھ تمہارے پاس ہے عارضی ہے اور جتنی لوگوں کی مدد کر سکتے ہو ضرور کرو۔ جدوجہد پر یقین رکھو۔ میرے والد، والدہ کے ساتھ گھریلو کاموں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور اس میں کوئی عار محسوس نہیں کیا کرتے تھے…بہرحال والدین کی یادیں ان کے ہونے کا احساس بھی دیتی ہیں اور ہم کو آگے بڑھنے اور زندگی سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی دیتی ہیں۔
احبابِ جماعت سے دعا کی درخواست ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ اور ہم بہن بھائیوں کو ان کے نقش ِ قدم پر چلنے کی تو فیق دے۔ آمین
رَبَّنَا اغْفِرْ لِيْ وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِيْنَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْحِسَابُ
مرحوم بھائی جان مجھ سے عمر میں بیس سال بڑے تھے۔ میرے اور میرے بچوں کے ساتھ نہایت شفقت کا سلوک کرتے تھے۔
٭…٭…٭