اسلام اور آنحضرتﷺ کے خلاف سازشوں کا دفاع مسیح موعودؑ نے کرنا تھا
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
اس زمانے میں اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس مقصد کے لئے مبعوث فرمایا ہے، اور اس زمانے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملے ہوئے اور جس طرح حضرت مسیح موعو د علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اور بعدمیں آپؑ کی تعلیم پر عمل کر تے ہوئے آپؑ کے خلفاء نے جماعت کی رہنمائی کی اور ردّعمل ظاہر کیا اور پھر جو اس کے نتیجے نکلے اس کی ایک دو مثالیں پیش کرتا ہوں تاکہ وہ لوگ جو احمدیوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہڑتالیں نہ کرکے اور ان میں شامل نہ ہو کر ہم یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر کیچڑ اچھالنے کا کوئی درد نہیں ہے، ان پر جماعت کے کارنامے واضح ہو جائیں۔
ہمارا ردّ عمل ہمیشہ ایسا ہوتا ہے اور ہونا چاہئے جس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اسوہ نکھر کر سامنے آئے۔ قرآن کریم کی تعلیم نکھر کر سامنے آئے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر ناپاک حملے دیکھ کر بجائے تخریبی کارروائیاں کرنے کے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مدد مانگنے والے ہم بنتے ہیں۔
اب مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی عشق رسولؐ کی غیرت پردو مثالیں دیتا ہوں۔
پہلی مثال عبداللہ آتھم کی ہے جو عیسائی تھا ۔اس نے اپنی کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق اپنے انتہائی غلیظ ذہن کا مظاہرہ کرتے ہوئے دجّال کا لفظ نعوذباللہ استعمال کیا۔ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کے بارے میں ایک مباحثہ بھی چل رہا تھا، ایک بحث ہو رہی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ سو میں پندرہ دن تک بحث میں مشغول رہا، بحث چلتی رہی اور پوشیدہ طور پر آتھم کی سرزنش کے لئے دعا مانگتا رہا۔ یعنی جو الفاظ اس نے کہے ہیں اس کی پکڑ کے لئے۔ حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں کہ جب بحث ختم ہوئی تو مَیں نے اس سے کہا کہ ایک بحث تو ختم ہو گئی مگر ایک رنگ کا مقابلہ باقی رہا جو خدا کی طرف سے ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی کتاب ’’اندرونہ بائیبل‘‘ میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دجّال کے نام سے پکارا ہے۔ اور مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور سچا جانتا ہوں اور دین اسلام کو مِن جانب اللہ یقین رکھتا ہوں۔ پس یہ وہ مقابلہ ہے کہ آسمانی فیصلہ اس کا تصفیہ کرے گا۔ اور وہ آسمانی فیصلہ یہ ہے کہ ہم دونوں میں سے جو شخص اپنے قول میں جھوٹا ہے اور ناحق رسول کو کاذب اور دجال کہتا ہے اور حق کا دشمن ہے وہ آج کے دن سے پندرہ مہینے تک اس شخص کی زندگی میں ہی جو حق پر ہے ہاویہ میں گرے گا بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔ یعنی راستباز اورصادق نبی کو دجال کہنے سے باز نہ آوے اور بے باکی اور بدزبانی نہ چھوڑے۔یہ اس لئے کہا گیا کہ صرف کسی مذہب کا انکار کر دینا دنیا میں مستوجب سزا نہیں ٹھہرتا بلکہ بے باکی اور شوخی اور بدزبانی مستوجب سزا ٹھہرتی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں جب مَیں نے یہ کہا تو اس کا رنگ فق ہو گیا، چہرہ زرد ہو گیا اور ہاتھ کانپنے لگے تب اس نے بلا توقف اپنی زبان منہ سے نکالی اور دونوں ہاتھ کانوں پر دھر لئے اور ہاتھوں کو مع سر کے ہلاناشروع کیا جیسا ایک ملزم خائف ایک الزام کا سخت انکار کرکے توبہ اور انکسار کے رنگ میںاپنے تئیں ظاہر کرتا ہے اور بار بار کہتا تھا کہ توبہ توبہ مَیں نے بے ادبی اور گستاخی نہیں کی اور پھر بعد میں بھی اسلام کے خلاف کبھی نہیں بولا۔
تو یہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت رکھنے والے شیر خدا کا ردّعمل۔ وہ للکارتے تھے ایسی حرکتیں کرنے والوں کو۔
پھر ایک شخص لیکھرام تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا تھا۔ اس کی اس دریدہ دہنی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کو باز رکھنے کی کوشش کی ۔ وہ باز نہ آیا۔ آخر آپؑ نے دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اس کی درد ناک موت کی خبر دی۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میں فرماتے ہیں کہ خداتعالیٰ نے ایک دشمن اللہ اور رسول کے بارے میں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں نکالتا ہے اور ناپاک کلمے زبان پر لاتا ہے جس کا نام لیکھرام ہے مجھے وعدہ دیا اور میری دعا سنی اور جب مَیں نے اس پر بددعا کی کہ تو خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ 6سال کے اندر ہلاک ہو جائے گا۔یہ ان کے لئے نشان ہے جو سچے مذہب کو ڈھونڈتے ہیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور وہ بڑی درد ناک موت مرا۔
آنحضورﷺ کا اسوۂ حسنہ دنیا کے سامنے پیش کرو
یہی اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے سکھائے کہ اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو سمجھائو۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محاسن بیان کرو، دنیا کو ان خوبصورت اور روشن پہلوئوں سے آگاہ کرو جودنیا کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اور اللہ سے دعا کرو کہ یا تو اللہ تعالیٰ ان کو ان حرکتوں سے باز رکھے یا پھر خود ان کی پکڑ کرے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اپنے طریقے ہیں وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طریقے سے کس کو پکڑنا ہے۔
پھر خلافت ثانیہ میں ایک انتہائی بے ہودہ کتاب’’ رنگیلا رسول‘‘ کے نام سے لکھی گئی۔ پھر ایک رسالے ’’ورتمان‘‘ نے ایک بیہودہ مضمون شائع کیا جس پر مسلمانان ہند میں ایک جوش پیدا ہو گیا۔ ہر طرف مسلمانوں میں ایک جوش تھا اور بڑا سخت رد عمل تھا۔
اس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ خلیفۃ المسیح الثانی نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اے بھائیو! مَیں درد مند دل سے پھر کہتا ہوں کہ بہادر وہ نہیں جو لڑپڑتا ہے۔ وہ بزدل ہے کیونکہ وہ اپنے نفس سے دب گیا ہے۔ اب یہ حدیث کے مطابق ہے غصہ کو دبانے والا اصل میں بہادر ہوتا ہے۔فرمایا کہ بہادر وہ ہے جو ایک مستقل ارادہ کر لیتا ہے اور جب تک اسے پورا نہ کرے اس سے پیچھے نہیں ہٹتا۔ آپؓ نے فرمایا اسلام کی ترقی کے لئے تین باتوںکا عہد کرو۔ پہلی بات یہ کہ آپ خشیت اللہ سے کام لیں گے اور دین کو بے پرواہی کی نگاہ سے نہیں دیکھیں گے۔ پہلے خود اپنے عمل ٹھیک کرو۔ دوسرے یہ کہ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے۔ اسلام کی تعلیم دنیا کے ہر شخص کو پتہ لگے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبیاں ، محاسن خوبصورت زندگی پتہ لگے، اسوہ پتہ لگے۔ تیسرے یہ کہ آپ مسلمانوں کو تمدنی اور اقتصادی غلامی سے بچانے کے لئے پوری کوشش کریں گے۔ اب ہر ایک مسلمان کا عام آدمی کا بھی لیڈروں کا بھی فرض ہے۔ اب دیکھیں باوجود آزادی کے یہ مسلمان ممالک جو آزاد کہلاتے ہیںآزاد ہونے کے باوجود ابھی تک تمدنی اور اقتصادی غلامی کا شکار ہیں۔ ان مغربی قوموں کے مرہون منت ہیں ان کی نقل کرنے کی طرف لگے ہوئے ہیں۔ خود کام نہیں کرتے زیادہ تر ان پر ہمارا انحصار ہے۔ اور اسی لئے یہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کے جذبات سے یہ کھیلتے بھی رہتے ہیں۔ پھر آپؓ نے سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے بھی شروع کروائے۔ تو یہ طریقے ہیں احتجاج کے، نہ کہ توڑ پھوڑ کرنا فساد پیدا کرنا۔ اور ان باتوں میں جو آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کی تھیں سب سے زیادہ احمدی مخاطب ہیں۔
ان ملکوں کی بعض غلط روایات غیر محسوس طریقے پر ہمارے بعض خاندانوں میں داخل ہو رہی ہیں۔مَیں احمدیوں کو کہتا ہوں کہ آپ لوگ بھی مخاطب تھے۔ یہ جو اچھی چیزیں ہیں ان کے تمدن کی وہ تو اختیار کریں لیکن جو غلط باتیں ہیں ان سے ہمیں بچنا چاہئے۔ توہمارا ری ایکشن (Reaction)یہی ہونا چاہئے کہ بجائے صرف توڑ پھوڑ کے ہمیں اپنے جائزے لینے کی طرف توجہ پیدا ہونی چاہئے، ہم دیکھیں ہمارے عمل کیا ہیں، ہمارے اندر خدا کا خوف کتنا ہے، اس کی عبادت کی طرف کتنی توجہ ہے، دینی احکامات پر عمل کرنے کی طرف کتنی توجہ ہے، اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کی طرف کتنی توجہ ہے۔
(باقی آئندہ)