1925ء میں گستاخانہ خاکے کی اشاعت پر اور جماعت احمدیہ کا کُل عالمِ اسلام کی طرف سے تاریخ ساز احتجاج: جدید مورخین کا اعتراف

(آصف محمود باسط)

آج ہم آپ کو تاریخ کے سفر پر 95 سال پیچھے لیے چلیں گے۔

یہ 1925ء کی بات ہے۔ یعنی اس دور کی جب توہینِ رسالتﷺ کا مسئلہ ابھی مذہبی دہشت گردوں کی دکانوں کی زینت نہ بنا تھا۔ اور یہ اُس دور کی بات ہے جب توہینِ رسالتﷺ کے کسی بھی فعل پر جماعت احمدیہ سب سے پہلے آواز اٹھاتی اور ایسےپرامن مگر زبردست طریق سے اٹھاتی کہ اس کی شنوائی ہوتی اور مرتکب ہونے والے شرمندہ ہواکرتے۔

انگلستان کرکٹ میں ہمیشہ سے نام ور رہا ہے۔ 1925ء میں انگلستان کے مشہور کرکٹر Jack Hobbs سے بہت امیدیں وابستہ کرلی گئی تھیں اور امید کی جارہی تھی کہ دورانِ سال وہ نیا ریکارڈ قائم کریں گے۔ 15 اگست کو سمرسیٹ کے خلاف کھیلتے ہوئے انہوں نے 126ویںسینچری بنائی اور اپنے سے پہلے قائم ریکارڈ کو توڑ دیا۔ انگلستان نے ان کی اس کامیابی پر بہت جشن منایا۔ اخبارات ہمیشہ کی طرح اس جشن میں پیش پیش رہے اور ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں ہوش کھو بیٹھے۔

18 اگست 1925ء کے شمارہ میں انگلستان کے مشہور اخبار The Star نے ایک کارٹون شائع کیا جس میں یہ کھلاڑی یعنی Jack Hobbs غیرمعمولی قدوقامت کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کے پیروں کے گرد دنیا کے مشاہیر بونوں کی طرح ہجوم لگائے کھڑے رشک سے اوپر کی طرف Hobbs کے چہرے کو دیکھ رہے ہیں۔ ان مشاہیر میں فخرِ موجودات، پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا خاکہ بھی بنا دیا گیا۔ اس پر ستم یہ کیا کہ اس خاکہ کی کمر سے ایک بڑی سی تلوار لٹکی دکھائی گئی۔

انہی مشاہیرمیںحضرت آدم علیہ السلام کا خاکہ بھی بنایا گیا اور وہ بھی نہایت ہتک آمیز۔ آپ علیہ السلام کا بدنِ مبارک نیم برہنہ اور لنگور سے مشابہ بنایا گیا۔

اس کارٹون کے منظر عام پر آتے ہی احمدیہ مشن لندن کے مبلغ اور جماعت احمدیہ کے برطانیہ میں قائمقام حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ نے فوری نوٹس لیا اور نہ صرف مدیر اخبار The Star کو خط لکھا بلکہ برطانوی حکومت کو بھی اس حرکت پر نوٹس لینے کی طرف توجہ دلائی۔

سب سے پہلے تو آپ نے مدیر اخبارکو چٹھی روانہ کی اور پھر اس احتجاجی چٹھی کی نقول برطانیہ بھر کے اخبارات کو ارسال فرمائیں۔ پھر برطانیہ کے ہوم سیکرٹری (وزیرِ داخلہ) کو احتجاجی چٹھی ارسال کی۔ اس عریضے کے کچھ حصے ذیل میں پیش ہیں :

’’جنابِ عزت مآب

سرزمینِ انگلینڈ کی مسلم آبادی کے ایک بڑے حصہ کا امام ہونے کی حیثیت سے میں یہ نہایت ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی طرف سے اور اُن سب مصری، ہندوستانی اور افریقن مسلمانوں کی طرف سے جو کہ ’سٹار ‘اخبار کے ایک تنفّر اور تحقّر پھیلانے والے کارٹون کے برخلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کے لیے میرے پاس پہنچے، آپ پر ان کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہوا اس خطرناک نفرت و حقارت اور شدید صدمہ کا اظہار کروں جو اخبار مذکور کی 18 اگست؁25کی اشاعت کے ایک کارٹون نے…مسلمانوں کو پہنچایا ہے۔ ‘‘

اس کے بعد مولانا درد صاحب نے کارٹون کی تفصیل بیان کی اور پھر تحریر فرمایا:

’’خدا تعالیٰ کے مقدس نبی حضرت محمدﷺ مسلمانوں کے نزدیک خد اکے بعد سب سے زیادہ متبرک وجود ہیں۔ وہ محبت جو آپ کے لیے مسلم افراد کے قلوب میں ہے، اور وہ تعظیم و تکریم جس کے ساتھ مسلمان آپﷺ کی مقدس یاد ہر وقت دل میں تازہ رکھتے ہیں، رنگت اور نسل اور ملک کے امتیازات کو بالکل بے حقیقت بنا کر آپﷺ کی محبت میں سب کو متفق اور متحد بنادیتی ہے…‘‘

پھر یہ بتا کر کہ اس کارٹون کی اشاعت سے مسلمانوں کے دلوں کو تکلیف پہنچنا ایک فطری امر تھا، تحریر فرمایا:

’’بنابریں میں بڑے زور کے ساتھ اس بے حرمتی اور تذلیل کے خلاف جو نہایت ہی کمینہ پن کے ساتھ ہمارے مقدس آقا اور خدا کے نبیﷺ کے متعلق اس کارٹون کے ذریعہ روا رکھی گئی ہے، صدائے احتجاج بلند کرتا ہوں۔ اور نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ استدعا کرتا ہوں کہ جناب اپنی فوری اور سرگرم توجہ اس اہم معاملہ کی طرف منعطف فرمائیں۔ اور اس ناشائستہ حرکت کے ارتکاب کنندوں کے خلاف قانون کا پورا پورا استعمال کریں۔ تا دنیا کو معلوم ہو جائے کہ برطانیہ اپنی روایتی راستبازی اور غیر جانبداری پر فخر کرنے کاواقعی حق رکھتا ہے۔ جناب کا نہایت ہی مخلص،

اے۔ آر۔ درد، امام مسجد لنڈن‘‘

(اردو ترجمہ ماخوذ از الفضل قادیان، 26؍ستمبر 1925ء۔ خط کااصل انگریزی متن ریویو آف ریلیجنز (انگریزی) کے نومبر 1925ء کے شمارہ میں شائع ہواجس پر اس چٹھی کی تاریخ 26؍اگست 1925ء درج ہے)

اس احتجاجی کارروائی کا ذکر انگلستان کے اخبارات میں خوب زوروشور سے ہوا۔ مثلاً لندن کے مشہور اخبار ’’دی ہیرلڈ‘‘ (The Herald)نے اپنے یکم ستمبر کے شمارہ میں خبر دی جس کی سرخی تھی:

“Muslim Feelings Injured: Set Law in Motion”

اس خبر کا اردو ترجمہ حسبِ ذیل ہے:

’’وزیرِ داخلہ کو احمدیہ مسلم مشن لندن کے امام کی طرف سے ایک احتجاجی چٹھی موصول ہوئی ہے جو انہوں نے انگلستان کے تمام مسلمانوں کی طرف سے تحریر کی ہے۔ یہ احتجاج ایک کارٹون پر ہے جو لندن کے اخبار ’سٹار‘نے Hobbsکی ریکارڈقائم کرنے والی سینچری پر شائع کیا…

مکتوب کا کہنا ہے کہ اس کارٹون نے تمام مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کیا ہے…

آخر پر مکتوب نے وزیرِ داخلہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ قانون کو حرکت میں لائیں تا دنیا کو معلوم ہو جائے کہ برطانیہ اپنی روایتی راستبازی اور غیر جانبداری پر فخر کرنے کاواقعی حق رکھتا ہے۔ ‘‘

(دی ہیرلڈ، یکم ستمبر 1925ء، صفحہ5، کالم 3)

جماعت احمدیہ کے اخبار الفضل، قادیان نے اس خط کو شائع کرتے ہوئے لکھا:

’’ہم اس اہم اور الم ناک واقعہ کی طرف گورنمنٹ ہند کو توجہ دلانا بھی ضروری سمجھتے ہیں تا کہ وہ سرکاری طور پر اپنی مسلمان رعایا کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہوئی ملک معظم کی حکومت کے نوٹس میں یہ بات لائے…کیونکہ رعیت کےجذبات اور خاص کر مذہبی جذبات کی نگہداشت نہایت ضروری ہے۔ اور اس بارے میں تھوڑی سی فروگذاشت بھی بہت خطرناک نتائج پیدا کرسکتی ہے۔ ‘‘

(الفضل قادیان، 26؍ستمبر 1925ء)

جو ہدایات مولانا عبدالرحیم درد صاحب کو اس سلسلہ میں قادیان سے جاتی رہیں، ان کا خلاصہ الفضل کی رپورٹ کے ان الفاظ میں آجاتا ہے:

’’ولایتی اخبارات میں اس قسم کے ذکر سے جہاں اخبار ’سٹار‘کی شرمناک حرکت کا سب لوگوں کو علم ہوگیا ہوگا، وہاں کسی حد تک ان میں یہ احساس بھی پیدا ہو جائے گا کہ مسلمان آنحضرتﷺ کے متعلق کس قدر اخلاص اور عقیدت رکھتے ہیں۔ اور یہ ایسی ضروری بات ہے کہ اگر اہلِ یورپ اسلام کے متعلق اس جہالت اور گمراہی میں گرفتار نہ ہوں جس میں وہ اب ہیں تو مسلمانوں کے مقدس مذہبی جذبات کی اس طرح توہین اور تذلیل کا ارتکاب اس ہمت اور دلیری کے ساتھ نہ کیا کریں۔ یورپین لوگوں کی اس قسم کی ناواقفیت کو دور کرنا اور انہیں مسلمانوں کے معتقدات سے واقف کرنا مبلغین اسلام کا نہایت ضروری اور اہم فرض ہے۔ ‘‘

(الفضل، قادیان، 29؍ستمبر 1925ء)

جماعتِ احمدیہ برطانیہ کے اس پرزور اور پر امن احتجاج پر مسلم دنیا میں بھی اسی طرز پر پُرامن احتجاج کی تحریک پیدا ہوئی۔ چنانچہ مصر کے سب سے موقر اور بارسوخ اخبار ’’الاہرام‘‘کے لندن میں تعینات نامہ نگار نے اپنے ادارہ کو اس کارٹون کی اشاعت اور اُس پر جماعت احمدیہ کے پرزور احتجاجی مراسلہ کی تفاصیل بذریعہ تار روانہ کیں۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نامہ نگار نے جماعت احمدیہ کے مراسلہ کا مکمل متن ارسال کیا تھا کیونکہ یہ مراسلہ اپنی مکمل حالت میں ’’الاہرام‘‘میں شائع کیا گیا۔

ساتھ ہی مصر اور مسلم دنیا کے موقر تعلیمی ادارہ، جامعہ الازہر کی استدعا شاہِ مصر کے نام بھی شائع کی گئی۔ اس خبر کے عربی متن کا اردو ترجمہ حسبِ ذیل ہے:

’’اہرام کے خاص تاروں میں کل ایک تار ہم نے ’’اہرام‘‘کے نامہ نگار کا جو کہ لنڈن میں مقیم ہے، شائع کیا تھا۔ جس میں اس احتجاج کا ذکر تھا جو رئیس بعثۃالاحمدیہ نے جو کہ لنڈن میں ہے برطانیہ کے وزیر داخلہ کو انگریزی اخبار ’سٹار‘ کے اس فکاہیہ کارٹون کے متعلق بھیجا ہے جس میں بعض انبیاء اور بڑے لوگوں کے فوٹو ہیں۔ وہ مراسلہ مفصل طور پر ہمیں اپنی آخری ڈاک میں موصول ہوا جس کا ترجمہ حسبِ ذیل ہے۔ ‘‘

(الاہرام، 4؍ستمبر 1925ء)

اس کے آگے جماعت احمدیہ کے احتجاجی مراسلہ کا مکمل متن شائع کیا گیا۔

مراسلہ کے متن کے بعد علمائے ازہر نے شاہِ مصر سے اس معاملہ میں سفارتی سطح پر کارروائی کرنے کی اپیل کی اور اپنی توقع ظاہر کی کہ وہ’’رسول کریمﷺ کی ذات والا صفات کی اس بے ادبی کے اندفاع میں اور مسلمانوں کی طرف سے اخبار ’سٹار‘کی اس بے شرمی پر سخت ناراضگی کی نیابت‘‘میں بھرپور کردار ادا کریں گے۔ نیز یہ کہ وہ ’’مسلمانوں کی طرف سے مطالبہ کریں گے کہ اس قسم کے اخبار ان حدود و آداب کو ملحوظ رکھیں جو اللہ کے مرسلین کے لیے مقرر ہیں۔ ‘‘

(الاہرام، 4؍ستمبر 1925ء)

جماعت احمدیہ کے احتجاجی مراسلہ کو بنیاد بنا کر اور جماعت احمدیہ کے پرامن احتجاج میں شریک ہوتے ہوئے شاہِ مصر سے مطالبہ کرنے کی اپیل کرنے والے 22 علمائے ازہر کے دستخط اس کالم کے آخر پر شائع کیے گئے۔

بے لگام آزادیٔ صحافت پر پہلا احتجاج اوراس پر خراجِ تحسین

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یورپ میں آزادیٔ صحافت کے نام پر جب مذہبی اقدار کی پامالی کی تخم ریزی ہوئی تو سب سے پہلا احتجاج جماعت احمدیہ مسلمہ کو کرنے کی توفیق ملی۔ اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ تب مسلمانوں کو جماعت احمدیہ کے طرزِ احتجاج سے اتفاق بھی تھا اور ناموسِ رسولﷺ کے لیے آواز اٹھانے کا بہترین طریق بھی جماعت احمدیہ کا طریق ہی معلوم ہوتا تھا۔

اس کارٹون کی اشاعت کی خبر اور اس پر جماعت احمدیہ کے احتجاج کی خبریں ہندوستان میں بھی پہنچیں۔ ظفر علی خان صاحب کا اخبار ’’زمیندار‘‘اگرچہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کی مخالفت پر کمربستہ رہا، مگر اس موقع پر وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہواکہ

حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ

’’مسلمانوں کو مولوی عبدالرحیم درد صاحب ایم اے امام مسجد احمدیہ پٹنی کا شکر گذارہونا چاہیےکہ انہوں نے فی الفور اس شرمناک کارٹون کے خلاف نہایت شدت کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی اور حکومت برطانیہ کے ہوم سیکرٹری کے نام ایک پرزور مراسلہ لکھا جس میں ان جذباتِ غیظ و غضب کی پوری ترجمانی کی جو اس کارٹون سے مسلمانان عالم کے دلوں میں قیامت برپا کررہے ہیں۔ ‘‘

(بحوالہ اخبار زمیندار، شمارہ 19؍ستمبر 1925ء)

اسی طرح جمیعت علماء ہند کے اخبار ’’الجمیعۃ‘‘نے 22؍ستمبر 1925ء کے شمارہ میں لکھا کہ ’’اس ناپاک کارٹون کے متعلق لنڈن کی احمدی جماعت نے جس مستعدی کے ساتھ مسلمانوں کی وکالت کی ہے، وہ قابلِ صدتحسین ہے‘‘۔ یہ بھی لکھا کہ جماعت احمدیہ لندن کے احتجاجی مراسلہ نے ’’انگلستان، ہندوستان اور مصر و افریقہ کے مسلمانوں کی نمائندگی‘‘کا حق ادا کیا۔

چونکہ جماعت احمدیہ سے بغض اور کینہ بہت شدید تھا، اس لیے اس نیکی کے کام کو سراہتے ہوئے بھی ’’الجمیعۃ‘‘ نے ساتھ یہ حدیث درج کردی کہ اِنَّ اللّٰہَ یُؤَیِّدُالدِّیْنَ بِرَجُلٍ فَاجِرٍ۔ تاہم اردو ترجمہ نہ دیا کیونکہ اس سے مقصود صرف اپنے بغض کو رجسٹر کروانا تھا، ورنہ عام ہندوستانی مسلمان (جو بالعموم عربی سے ناواقف تھے) اس گھٹیا پن سے یقیناً اظہارِ نفرت کرتے۔

مگر دیگر ہندوستانی اخبارات جماعت احمدیہ کے ناموسِ رسولﷺ کے تحفظ کے لیے اس اقدام کو سراہتے رہے۔

مولانا محمد علی جوہر کے اخبار ’’ہمدرد‘‘نے 15؍ستمبر کی اشاعت میں لکھا کہ

’’انجمن جماعت احمدیہ لنڈن نے ملک معظم کے ہوم سیکرٹری کی توجہ اس کارٹون کی جانب منعطف کی ہے اور درخواست کی ہے کہ اخبار مذکور کی اس مذموم اور خلافِ انسانیت حرکت کے خلاف قانونی کارروائی جلد سے جلد کی جائے۔ انجمن مذکورہ نے اپنی عرضداشت میں بھی ظاہر کردیا ہے کہ ہندوستان اور دیگر ممالک اسلامی میں اس کارٹون کے پہنچنے پر نفرت و غصہ کا ایک طوفان برپا ہوجائے گا۔ ‘‘

یوپی کے موقر اخبار ’’ہمدم‘‘نے 17؍ستمبر کے شمارے کے اداریہ میں لکھا:

’’ہمیں یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا ہے کہ احمدیہ مشن انگلستان کے مہتمم اور احمدیہ مسجد لنڈن کے پیش امام مسٹر اے آر درد ایم اے نےاخبار’سٹار‘ کی اس گستاخی پر بذریعہ ایک عرضداشت کے ہوم سیکرٹری کو توجہ دلائی ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت جتائی ہے۔ ‘‘

اسی طرح اس دور کے ایک اہم اخبار ’’سیاست‘‘نے لکھا:

’’ہمیں یہ معلوم کر کے اطمینان ہوا ہے کہ احمدیہ مشن انگلستان کے مہتمم اور احمدیہ مسجد لنڈن کے پیش امام مسٹر اے آر درد ایم اے نے اخبار اسٹار کی اس گستاخی پر بذریعہ ایک عرضداشت کے ہوم سیکرٹری کو توجہ دلائی ہے اور اس کے خلاف قانونی کارروائی کی ضرورت جتائی ہے۔ ہم اپنے معاصر کی پرزور تائید کرتے ہیں۔ ‘‘

(سیاست، 23؍ستمبر 1925ء)

جماعتِ احمدیہ نے جو پرزور صدائے احتجاج بلند کی، اس کے اثرات بہت جلد نظر آنا شروع ہوگئے۔

اخبار ’’سٹار‘‘کے مدیر Wilson Popeنے حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ کی احتجاجی چٹھی (جو آپ نے مدیر مذکور کو لکھی تھی) کا جواب 3؍ستمبر کو لکھ کر آپ کو ارسال کیا۔ مدیر ’’سٹار‘‘نے لکھا:

’’ہوم سیکرٹری نے آپ کی اس چٹھی کی ایک نقل مجھے بھیجی ہے جو آپ نے 26 اگست کو 18 اگست 1925ء کے اخبار سٹار میں چھپنے والے ایک کارٹون کے بارے میں ان کو لکھی۔ اس کے متعلق پہلے مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ میں ایک لمحہ کے لیے بھی اس بات کو تسلیم نہیں کرسکتا کہ گورنمنٹ کو اس معاملہ میں دخل دینے کا کوئی حق ہے۔

دوسری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ اگر ہمیں یہ معلوم ہوتا کہ اس کارٹون میں محمد [ﷺ ] کی تصویر کو شامل کرنا ایک طبقے کے مذہبی جذبات کو صدمہ پہنچانے والا ہوگا، تو ہم مطلقاً اسے اخبار میں شائع نہ ہونے دیتے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کارٹون کے ذریعہ مسلمانوں کی دل آزاری مقصود نہ تھی۔ مجھے آپ کے ہم مذہب افراد کی دل آزاری پر افسوس ہے۔ ‘‘

اس پر لندن میں جماعت احمدیہ کےنمائندہ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب دردؓ نے مدیر کو جوابی چٹھی تحریر کی جس میں ان کے اظہار افسوس کو سراہا، مگر ساتھ یہ دبنگ مطالبہ بھی کیا کہ

’’مجھے اس بات سے خوشی ہوئی ہے کہ آپ کو اگر معلوم ہوتا کہ اس کارٹون سے مسلمانوں کے جذبات کو صدمہ پہنچے گا تو آپ ہر گز اسے اپنے اخبار میں شائع نہ کرتے۔ اور پھر اس بات پر بھی مجھے ایک حد تک خوشی ہوئی کہ ایسا ہوجانے پر آپ متاسّف بھی ہیں۔ مگر میں یہ بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس کے متعلق صرف مجھے ایک نجی چٹھی روانہ کردینا کافی نہیں۔ کیونکہ کارٹون سے میری ذاتی اہانت نہیں ہوئی، جس کے لیے ایسی چٹھی کو کافی سمجھ لیا جائے۔ بلکہ یہ تو تمام روئے زمین کے مسلمانوں کے جذبات کے متعلق معاملہ ہے۔ جنہیں اس کارٹون کے سبب ٹھیس لگی۔ اس لیے ضروری ہے کہ جس اخبار کے ذریعہ انہیں زخمی کیا گیا، اسی میں آپ اپنا افسوس شائع کر کے ان کی تسکینِ قلب کریں۔

آپ کا مخلص۔ اے۔ آر۔ درد‘‘

اس پر مدیر اخبار ’’سٹار‘‘نے 9؍ستمبر کے شمارہ میں حسبِ ذیل الفاظ میں معذرت شائع کی:

’’مجھے یہ معلوم کر کے از حد افسوس ہوا ہے کہ [حضرت] محمد [ﷺ ] کی تصویر سٹار کے ایک حالیہ پرچہ میں چھپ جانے کے باعث مسلمانوں کو سخت صدمہ پہنچا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ ’’سٹار‘‘ اپنے قارئین، جن میں ایک کثیر تعداد مسلمانوں کی بھی ہے، کے مذہبی جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتا۔

اس خاکے کا منشا صرف یہ تھا کہ دنیا کی مشہور شخصیات کو اس تصویر میں دکھائے۔ نہ یہ کہ پیغمبرِ اسلام [ﷺ ] کو ایک عظیم مذہب کے بانی کے طور پر پیش کرے جس کے لیے وہ دراصل شہرت رکھتے ہیں۔ ‘‘

(The Star, London۔9ستمبر 1925ء)

امام مسجد فضل لندن نے اس کھلاڑی Jack Hobbs کو بھی چٹھی تحریر کی اور اسے اس کارٹون کی مذمت کرنے کی تحریک کی۔ مولانا درد صاحبؓ نے مسلمانوں کے دل میں آنحضورﷺ کا مقام اور منزلت بیان کرنے کے بعد لکھا:

’’چونکہ یہ کارٹون آپ کے مداحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے بنایا گیا ہے، لہٰذا بطور مشورہ لکھتا ہوں کہ آپ اس کے متعلق عوام میں اپنی ناپسندیدگی اور بیزاری کا اظہار کریں۔ تا کہ دوبارہ ایسی دلیری سے یہ غلطی نہ دہرائی جائے۔

یہ بھی گزارش کرتا ہوں کہ ایک اچھے کھلاڑی کی سی جرأت اس معاملہ میں دکھائیں، ورنہ بصورتِ دیگر آئندہ نسلیں آپ کو صرف ایک کھلاڑی اور بزدلانہ خاموشی اختیار کرجانے والے مجرم کی حیثیت سے یاد رکھیں گی جو ایک ایسے معاملہ میں خاموش رہا، جس میں اس کا اظہار رائے اشد ضروری تھا…‘‘

اس پر کھلاڑی Jack Hobbs کا یہ جواب امام مسجد فضل لندن کو موصول ہوا:

’’Surrey County Cricket Club

Kennington Oval, S.E. 11

1925ء/8/29

جناب عالی!

مجھے یہ جان کر سخت رنج ہوا ہے کہ دی سٹار مورخہ 1925ء/8/18 میں شائع ہونے والے کارٹون سے مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی ہے۔

مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے ’دی سٹار‘ میں شائع ہونے والے مواد یا کارٹون پر کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی میں اس کا ذمہ دار ہوں۔ تاہم مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی ہے کہ ’دی سٹار‘ نے اپنا اظہار تاسف شائع کیا ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ اگر انہیں اور ان کے کارٹونسٹ کو معلوم ہوتا کہ محمد[ﷺ ] کا خاکہ شائع کرنا دل آزاری کا موجب ہوگا، تو وہ اسے شائع نہ کرتے۔

مجھے رنج ہے کہ جہاں میری کامیابی دنیا بھر میں کھیل کے شائقین کے لیے موجبِ راحت ہوئی، وہاں میرے مسلمان دوستوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کا موجب بھی بن گئی۔

کاش، ایسا نہ ہوا ہوتا!

آپکا مخلص [دستخط] J B Hobbs‘‘

(ترجمہ از انگریزی خط مطبوعہ ریویو آف ریلیجنز، شمارہ نومبر 1925ء)

حضرت مولانا عبدالرحیم درد صاحبؓ نے جواب تحریر فرمایا جس میں شکریہ ادا کرنے کے بعد لکھا:

’’میں نے اخبار سٹار کے ناروا فعل کا ہر گز آپ کو ذمہ دار قرار نہیں دیا بلکہ صرف اس قدر گزارش کی تھی کہ آپ عامۃ الناس میں سٹار اخبار کے اس کارٹون سے بیزاری کا اظہار فرمادیں …

آپ کی اس بات سے مجھے ذرا بھی اختلاف نہیں کہ آپ کو سٹار اخبار پر کوئی اختیار حاصل نہیں۔ لیکن پھر بھی میرا خیال ہے کہ آپ اگر ایک حرف بھی اس کارٹون سے بیزاری کے متعلق فرمادیں تو آپ کے مداح آئندہ اس قسم کی غلطی کے ارتکاب سے بچ سکتے ہیں۔

مجھے یقین ہے کہ آپ کے اظہارِ بیزاری سے آپ مسلم دنیاسے خراجِ تحسین حاصل کریں گے اور ان کے مجروح دلوں کے لیے تسکین کا باعث بھی ہوں گے۔ آپ کا مخلص۔ اے، آر، درد۔ 1925ء/9/3‘‘

بعد ازاں سٹار اخبار نے Jack Hobbs کی درخواست پر ان کا مندرجہ بالا خط شاملِ اشاعت کیا اور ان کا اظہار تاسف عامۃ الناس تک پہنچا۔

اخبارات میں اس کثرت سے جماعت احمدیہ کے احتجاج کا چرچا ہوا اور اس پر معذرتیں شائع ہوئیں کہ حکومتی ایوان بھی اس احتجاج پر خاموش نہ بیٹھا رہ سکا۔ چنانچہ وزارتِ خارجہ کی طرف سے امام مسجد فضل لندن کے نام یہ چٹھی موصول ہوئی:

’’مجھے سیکرٹری چیمبرلین [Austen Chamberlain] کی طرف سے ہدایت ہوئی ہے کہ میں آپ کی 27 اگست کی اس چٹھی کے موصول ہونے کی رسید دوں جس کے ساتھ آپ نے اس چٹھی کی نقل بھی بھیجی تھی جو آپ نے اخبار سٹار مورخہ 18 اگست میں شائع ہونے والے ایک کارٹون کے برخلاف صدائےاحتجاج بلند کرنے کی غرض سے وزیر داخلہ کے نام روانہ کی۔

میں آپ پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اس ملک میں گورنمنٹ پریس کے متعلق ازروئے قانون کوئی کارروائی نہیں کرسکتی۔ تاہم مسٹر چیمبرلین نے آپ کی صداہائے احتجاج کو قبول کرتے ہوئے جو ہر چہار اطراف سے گونجیں، غیر سرکاری طور پر اخبار سٹار کے ایڈیٹر سے اس بارے میں گفتگو کی۔ اور اس غیر سرکاری گفتگو کے نتیجے میں ایڈیٹر اخبار مذکور نے اپنے اسی اخبار کی 9 ستمبر کی اشاعت میں جو معذرت شائع کی ہے، اس کی ایک نقل آپ کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں۔ اور امید کرتا ہوں کہ اسے جماعت احمدیہ پسندیدگی کی نظرسے دیکھے گی۔ ‘‘

(الفضل، قادیان، 17؍اکتوبر 1925ء)

جماعت احمدیہ کی تحفظِ ناموسِ رسالتﷺ کی مساعی کا اثر

جماعت احمدیہ نے جس زبردست طریق پر اس کارٹون کے خلاف احتجاج کیا، اس کا اثر معاشرے کے ہر طبقہ پر نظر آیا۔ اس کارٹون کو جدید مغربی پریس میں پیغمبرِ اسلامﷺ کے خاکے بنانے کا پیش خیمہ قرار دیا جاتا ہے۔ یوں اس کے ساتھ ہی جماعت احمدیہ کا احتجاج بھی تاریخ میں اس پہلی کوشش پر سب سے زیادہ پرامن اور سب سے طاقتور احتجاج کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

اخبار کے مدیر Wilson Pope کی معذرتی چٹھی جو انہوں نے لندن احمدیہ مشن کو لکھی اور پھر اپنے اخبار میں شائع کی ہم نے دیکھ لی ہے۔ حکومتی اربابِ اختیار کا مدیر سے غیر رسمی افہام و تفہیم بھی دیکھ لی ہے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اس کارٹون کے خالق David Low کے اس احتجاج پرکیاتاثرات تھے۔

David Low

بہت سال بعد جب David Lowنے اپنی خودنوشت سوانح عمری تحریر کی، تو وہ جماعت احمدیہ کے اس احتجاج کو نمایاں طور پر شامل کیے بغیر نہ رہ سکا۔ جہاں اس نے اس کارٹون اور اس احتجاج کا ذکر کیا ہے، اس کے کچھ حصے ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں :

’’اس کارٹون پر مجھے حیرت انگیز حد تک کثیر تعداد میں تعریفی خطوط موصول ہوئے مگر ساتھ ہی ایک نہایت زبردست احتجاجی خط بھی جو احمدیہ مسلم مشن کی طرف سے لکھا گیا تھا…

اس واقعہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ کسی کارٹونسٹ کی بےدھیانی کس قدر مشکل کا باعث بن سکتی ہے۔

میں نے کبھی محمد [ﷺ ] کے بارے میں سنجیدگی سے نہ سوچا تھا۔ میں کس قدر احمق تھا۔ میں محمد [ﷺ ] کو ایک بے وقوفانہ کارٹون میں شامل کرنے پر سخت شرمندہ ہوا۔ ‘‘

(David Low‘s Autobiographyمطبوعہ 1957ءاز Simon & Schuster, New York)

لندن احمدیہ مشن نے جس طرح ناموسِ رسالت پر اس حملہ پر پرزور احتجاج کیا، اسے سبھی مسلمان حلقوں میں سراہا گیا۔ آج مورخین بھی پلٹ کر دیکھتے ہیں تو اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتے کہ اس احتجاج میں اپنے جذبات کا اظہار اور آئندہ ایسے دل آزار واقعات کا انسداد تھا۔

عصرِ جدید کے مورخین کا اس خراجِ تحسین کا لبِ لباب اس ایک جملہ میں آجاتا ہے:

“Despite the indignation expressed in ۔1925ء, nobody‘s life was threatened, let alone be taken. There was no fatwa.”

ترجمہ: ’’جس زبردست مذمت کا اظہار 1925ء میں کیا گیا، اس میں کسی کو دھمکی تک نہ دی گئی، کجا یہ کہ کسی کی جان ہی لے لی جاتی۔ نہ ہی ایسا کوئی فتویٰ جاری کیا گیا۔ ‘‘

(Outrage: Art, Controversy, and Society مدیرانRichard Howells, Andreea Deciu Ritlivoi, Judith Schachter، مطبوعہ 2012 از Palgrave Macmillan)

ہم نے سرکارِ برطانیہ کی طرف سے لندن احمدیہ مشن کو لکھی جانے والی چٹھی تو اوپر دیکھ لی جس میں انہوں نے اظہار افسوس کے ساتھ ساتھ معاملہ میں سرکاری دخل اندازی سے معذوری کا اظہار بھی کیا تھا۔ اگرچہ چٹھی میں یہ ذکر تو موجود ہے کہ حکومت نے غیر رسمی طور پر مدیر اخبار ’’سٹار ‘‘سے گفت و شنید کی ہے، مگر اس کی تفصیلات درج نہیں۔

تاہم یہ تفصیلات سرکاری ریکارڈ سے حاصل ہو گئیں۔ اس غیررسمی گفت و شنید کا متن جو وزارتِ داخلہ میں زیر بحث آیا، کچھ یوں تھا کہ اخبار کو ان مذہبی احساسات کا علم ہونا چاہیے تھا جو اس کارٹون کی اشاعت سے مجروح ہوسکتے تھے، لہٰذا بہتر تھا کہ ایسے خاکے کو شائع نہ کیا جاتا۔

آج مورخین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ احمدیہ احتجاج کی پُر امن نوعیت ایسی تھی کہ اس کے جواب میں کارٹونسٹ David Low، مدیر اخبارWilson Pope دونوں اپنے کیے پر شرمندہ ہوئے اور حکومت نے بھی جماعت احمدیہ کے صلح جو رویےکو دیکھتے ہوئے غیر رسمی ہی سہی، مگر ادارہ اخبار ’’سٹار‘‘کو ایسے خاکے نہ شائع کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ جدید مورخین کے اس اعتراف کا خلاصہ2020ء، یعنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب کے اس حوالے میں آجاتا ہے:

“This is an interesting response from several perspectives. First, because rather than seeking to defend free speech […] the secretary of state for India Frederick Edwin Smith […] remarked that newspapers should be more aware of this kind of sentiment but, since the paper had already apologized, there was no need to take it further. Smith clearly therefore had no interest in seeking to defend the rights of the newspaper to include any public figure they wished in their cartoon and instead expected that the paper would be aware enough to self-censor. Second, there was enough awareness of Muslim views on depictions of Muhammad that the secretary of state was able to opine on the matter in a manner which suggested that not only were Muslim attitudes to Muhammad depictions common knowledge in government circles but that they were more widely understood as well.”

(Courting Islam: US-British Engagement with Islam since the European Colonial Period, by Sean Oliver-Dee, Lexington Books, London, 2020)

ترجمہ: ’’یہ کئی حوالہ سے دلچسپ ردِ عمل تھا۔ اوّل اس لیے کہ بجائے اخبارات کی آزادیٔ اظہار کا دفاع کرنے کے، وزیرِ مملکت برائے ہند Frederick Edwin Smith نے کہا کہ اخبارات کو ایسے جذبات سے زیادہ بہتر آگاہی ہونی چاہیے۔ لیکن چونکہ اخبار معذرت کرچکا ہے، لہٰذا مسئلہ کو طول دینے کی ضرورت نہیں۔ Smithکو کسی بھی عوامی شخصیت کا کارٹون بنالینے کے حق کے دفاع سے زیادہ اس میں دلچسپی تھی کہ اخبار ات کو خود مواد کے قابلِ اشاعت ہونے یا نہ ہونے کا ادراک ہونا چاہیے۔ دوسرا یہ کہ وزیرِ مملکت نے اپنی رائے کا اظہار اس طور پر کیا کہ حکومتی اداروں میں ہی نہیں بلکہ عوام کی سطح پر بھی محمد [ﷺ ] کے خاکے بنانے پر مسلمانوں کے جذبات سے آگاہی پیدا ہو‘‘۔

جدید مورخین کو اس بات کا بھی اعتراف ہے کہ جماعت احمدیہ تب انگلستان میں بمشکل پہنچی ہی تھی اور ان کی تعداد بھی دوسرے مسلمانوں کی نسبت بہت کم تھی مگر ناموسِ رسالتﷺ پر ایسا زوردار احتجاج دیکھنے کو ملا کہ اس گستاخی کا ارتکاب کرنے والوں کو معذرت کرتے ہی بنی۔ ذیل میں ایک حوالہ نمونۃً پیش ہے:

“Low was surprised by the exaggerated praise for his cartoon, but he was even surprised when an ’indignantly worded protest‘ arrived from the Ahmadiyya Muslim Mission in London. The Mission was just laying the foundations for the capital‘s first mosque, and it took offence at the inclusion of Muhammad as one of the minor statues, looking admiringly up at Hobbs. Wilson Pope wrote to the Mission, and expressed his regrets at the unintentional offence…”

(Showing politics to the people: cartoons, comics and satirical prints, by Nicholas Hiley, included in Using Visual Evidence, Ed. Richard Howells and Robert W Matson, McGraw-Hill OUP, New York, 2012)

ترجمہ:’’Low کو اپنے کارٹون پر مبالغہ کی حد تک ملنے والی داد و تحسین پر بہت حیرت ہوئی، مگر اس سے بھی زیادہ حیرت ایک زوردار مذمتی احتجاج پر ہوئی جو احمدیہ مسلم مشن کی طرف سے موصول ہوا۔ یہ مشن ابھی لندن میں پہلی مسجد کی بنیادیں رکھ ہی رہا تھا مگر اس نے محمد [ﷺ ] کے اس خاکے پر سخت رنج محسوس کیا جو رشک سے Hobbs کی طرف اوپر دیکھ رہا تھا۔ ولسن پوپ [مدیر اخبار] نے مشن سے تحریری طور پر اس نادانستہ رنج دہی پر اظہارِ افسوس کیا۔ ‘‘

اسی مصنف نے یہ بھی لکھا ہے کہ Low کو اس سے قبل بھی کارٹون بنانے میں مذہبی جذبات کو ملحوظ رکھنے کی طرف توجہ دلائی جاچکی تھی، مگر اس نے اسے اس طرح سنجیدگی سے نہ لیا تھا، جس طرح اس موقع پر اسے احساس ہوا۔

شدت پسندی کا رجحان

جماعت احمدیہ کے احتجاج کی تعریف کرتے کرتے مسلمانوں کے بعض حلقوں کو یہ احساس ہوگیا کہ یہ ان کی احمدیہ مخالف پالیسی کے خلاف ہوگا کہ اس احتجاج پر خراجِ تحسین پیش کرکے خاموش بیٹھ رہا جائے۔

چنانچہ ظفر علی خان صاحب نے اپنے اخبار ’’زمیندار‘‘ میں وسط اکتوبر میں ایک اداریہ شائع کیا جس میں مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے کی کوشش کی۔ نمونۃً کچھ الفاظ پیش ہیں :

’’ہم تجویز کرتے ہیں کہ ہندوستان کے تمام شہروں اور قصبوں کے مسلمان اپنے اپنے مقام پر ہزارہا کی تعداد میں جمع ہو کر جناب باری تعالیٰ کی بارگاہ میں یہ دعا مانگیں :

’بار الہ! ہم بے بس ہیں۔ دنیاوی طاقت سے محروم ہیں۔ اور ہمارے سامنے زمانہ حاضر کے بعض فراعنہ تیرے اور تیرے حبیب پاکﷺ کے نام کی توہین کررہے ہیں۔ خدایا ہمیں طاقت دے کہ ہم ان ظالموں کا سر توڑ دیں، تا کہ تیرے اور تیرے رسولﷺ کی عزت قائم و برقرار رہے…

اس بددعا کے بعد ’’زمیندار‘‘نےمسلمانوں کو اکسایا کہ

’’…اب تک حزب الاحناف والوں نے ’سٹار‘کے کارٹون پر کوئی آواز بلند نہیں کی۔ اور رسول اللہﷺ کی توہین سے ان کے خون میں جوش پیدا نہیں ہوا۔ کاش وہ عام مسلمانوں کے ساتھ اس دعا ہی میں شریک ہو جائیں۔ ‘‘

(زمیندار، 8؍اکتوبر 1925ء)

جماعت احمدیہ کو اندازہ تھا کہ اب اس معاملہ کا رخ شدت پسندی کی طرف ہو جائے گا۔ لہٰذا الفضل قادیان نے واضح طور پر اپنے 13؍اکتوبر 1925ء کے شمارے میں ’’زمیندار‘‘ کا یہ مضمون بھی شائع کردیا اور ساتھ یہ وضاحت بھی کہ

’’ جس دعا کی اس نے تحریک کی ہے، اس سے متفق نہیں، بلکہ اس کی بجائے یہ دعا پیش کرتے ہیں :

الٰہی! اندھی دنیا جو تجھ سے دور ہو کر قعرِ ضلالت میں پڑی غوطے کھا رہی ہے، اسے اس قدر سمجھ اور ہوش، عقل و خرد عطا کرکہ تیری ذات پاک، تیرے مقدس رسول اور تیری روحانیت سے پُر کتاب کی حقیقی قدر کرے…تیرے فرمانبردار مگر کمزوربندوں کی دل آزاری اور ان پر ظلم و ستم نہ کرے۔ اور اپنے فضل اور رحم سے اپنے سچے دین اسلام کو تمام دنیا میں پھیلا دے۔ تا نادان انسان تیری اور تیرے رسول کی ہتک اور بے ادبی کر کے اپنے لیے سامان ہلاکت نہ تیارکریں اور

’اٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْابِھِمْ‘

کا وعدہ پورا کرنے کے بعد اب اسلام کو وہی غلبہ وہی سطوت وہی شان وہی شوکت عطا کر جو پہلے عطا کی تھی ۔‘‘

(الفضل، قادیان، 13؍ اکتوبر 1925ء)

یوں جماعت احمدیہ نے ہندوستانی مسلمانوں میں شدت پسندی کے ابھرتے ہوئےرجحان سے خود کو کنارہ کش کرلیا۔ مگر ’’زمیندار‘‘ اور اس جیسی دوسری مسلمان آوازیں اپنا رنگ لائیں اور ہندوستان کے مختلف علاقوں میں ’’سٹار‘‘ اخبار کے خلاف شدت پسندی کی ہوا چلنے لگی۔

لندن میں The Morning Post کے ہندوستانی نامہ نگار نے اطلاع بھیجی کہ ملک بھر میں مسلمانوں کی طرف سے شدید ردِ عمل دیکھنے میں آیا ہے۔ مسلمان احتجاج کرتے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ نامہ نگار نے یہ بھی بتایا کہ مسلم حلقوں میں یہ دھمکیاں عام سنائی دیتی ہیں کہ اگر یہ کارٹون ہندوستان میں کسی نے بنایا ہوتا تو ہم خون کی ندیاں بہا دیتے۔

(The Morning Post، ۔3؍نومبر 1925ء)

80 سال بعد اس واقعہ کی بازگشت

مورخین، محققین اور تجزیہ کار جب عصرِ حاضر میں شائع ہونے والے آنحضورﷺ کے خاکوں پر مسلم ردِ عمل کا تجزیہ کرتے ہیں تو ان میں سے اکثر 1925ء میں ’’سٹار‘‘ اخبار کے کارٹون کا ضرور حوالہ دیتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر اس میں جماعت احمدیہ مسلمہ کے پرزور احتجاج کا بھی تذکرہ کرتے ہیں۔ اکثر اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کرتے ہیں کہ ایسا کیا ہوا کہ 2005ء میں جب ڈنمارک کے اخبارات نے پیغمبرِ اسلامﷺ کے خاکے شائع کیے تو مسلمانوں کی طرف سے شدت پسندی کا رجحان دیکھنے میں آیا۔ اب کے کیوں مسلمانوں کو اکسایا گیا کہ وہ اس اشاعت کے ذمہ دار اداروں اور افراد بلکہ ان کے ریاستی اداروں تک کے خلاف قتل و غارت سے ردِ عمل کا اظہار کریں۔

اکثر کا خیال ہے کہ 1925ء میں جب جماعت احمدیہ کا پرامن مگر زبردست ردِ عمل سامنے آگیا اور معاملات بحسن و خوبی طے ہوگئے، تو دیگر مسلمانوں نے احمدیوں سے جدا اپنی الگ روش قائم کرنے اور زیادہ غیرت دکھانے کے لیے مظاہرے کرنے کی کوشش کی تھی۔ 1925ء میں کلکتہ سے The Morning Post کے نامہ نگار نے غیر احمدی مسلمانوں کے جذبات کی ترجمانی یوں کی تھی:

“… quite unwittingly, the cartoon has committed as serious offence which, had it taken place in this country [i.e. India], would almost certainly have led to bloodshed.”

(Religious Offence and Human Rights: The Implications of Defamation of Religions by Lorenz Langer, Cambridge University Press, Cambridge, 2014)

ترجمہ: ’’اس بدذوق کارٹون نے ایساآزار دیا ہے کہ اگر یہ اس ملک [ہندوستان] میں شائع ہوتا تویقیناً خون ریزی پر منتج ہوتا۔ ‘‘

یہی محقق آگے لکھتے ہیں کہ ’’تقریباً 80 سال بعد یہ تنبیہ کسی پیشگوئی کے رنگ میں پوری ہوئی جب محمد [ﷺ ] کا ایک اور کارٹون شائع ہوا اور خونریزی پر منتج ہوا‘‘۔ (ایضاً)

دوسرے مسلمانوں نے جماعت احمدیہ سے جداگانہ روش اختیار کرنے اور زیادہ غیرت کا مظاہرہ کرنے میں کہاں خطا کھائی اور شدت پسندی کے ذریعہ اسلام مخالف بیانیے کو مزید مستحکم کیا؟

2005ءمیں ڈنمارک کے اخبار Jyllands-Posten میں پیغمبرِ اسلامﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع ہوئے تو، دنیائے اسلام کے سامنے 3راستے تھے:

1.گستاخانہ کتاب’’امہات المومنین‘‘ کے خلاف ردِ عمل کی تقلید

2.سٹار اخبار کے خاکوں کے خلا ف ر دِ عمل کی تقلید

3.شدت پسندی (جو 11/9 کے واقعات کے بعد سے راہ پا چکی تھی)

اسلام سے مرتد ہوکر عیسائی ہوجانے والے احمد شاہ شائق نامی مصنف نے 1897ء میں کتاب ’’امہات المومنین‘‘ تحریر کی جس میں آنحضورﷺ کی ذات بابرکات پر طنز ومزاح کی آڑ میں سخت دل آزار حملے کیے۔ مولف نے کتاب کے پیش لفظ بعنوان ’’اعلانِ مشتہر‘‘ میں مولوی محمد حسین بٹالوی کو مخاطب کر کے لکھا کہ یہ کتاب ان کے انعامی چیلنج کے جواب میں لکھی جارہی ہے جو وہ عیسائیوں کو اپنے اخبار ’’اشاعۃ السنہ‘‘ میں متواتر دیتے آئے ہیں۔ اس میں اس نے محمد حسین بٹالوی صاحب کو یہ بھی باور کروایا کہ وہ ایسے انعامی چیلنج کے مردِ میدان نہیں بلکہ ایسے چیلنج تو حضرت مرزا غلام احمد قادیانی [علیہ السلام] صرف عیسائیوں کو ہی نہیں بلکہ خود بٹالوی صاحب کو بھی عرصہ سے دے رہے ہیں اور بٹالوی صاحب نے ایک بھی چیلنج کو قبول نہیں کیا۔

بہرحال، یہ کتاب شائع ہوئی اور اس پر مسلمانوں کی طرف سے سخت ترین ردِ عمل دیکھنے میں آیا۔ انجمنِ حمایتِ اسلام نے حکومت کو میموریل بھیجا کہ کتاب کو ضبط کر کے ضائع کردیا جائے۔ مسلم اخبارات میں بھی شدت پسندی کے رجحانات نظر آئے۔

ایسے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہر ایسے ردِ عمل کو ناواجب قرار دیا جس میں شدت کا رنگ پایا جاتا ہو۔ یہاں تک کہ ایسے میموریل کو بھی بے مقصد قراردیا جس کے نتیجے میں حکومت کی طرف سے خاطر خواہ مقاصد حاصل نہ ہوتے ہوں۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس موقع پر جو رہنمائی فرمائی وہ آئندہ آنے والے زمانوں میں جماعت احمدیہ کے لیےبالخصوص اور باقی امتِ مسلمہ کے لیے بالعموم ایک رہنما اصول بن گئی۔ آپؑ نے ایسی کتابوں کی ضبطی کے مطالبے کرنے اور ان کے خلاف شور و غل مچانے کو ناپسند فرمایا کہ ایسا کرنے سے ایسی کتب کو مزید شہرت حاصل ہوتی تھی۔ آپؑ نے آنحضورﷺ کی سیرتِ مطہرہ کے پاکیزہ پہلوؤں کو اجاگر کرنے کی تلقین فرمائی۔ آپؑ کی تصنیفات تو اسی مقدس کام کے لیے وقف تھیں اور پھر آپؑ کے بعد آپؑ کے خلفا ءکے زمانے میں بھی یہی مقدس کام جماعت احمدیہ کا طرۂ امتیاز رہا۔

یہاں اختصار سے یہ بتادینا بھی ضروری ہے کہ مسلمانوں کی بوکھلاہٹ کا یہ عالم تھا کہ یا تو شدت پسندی کی راہ لے بیٹھے، یا اگر ان میں سے کسی نے اس دل آزار کتاب کا جواب لکھنا بھی چاہا، تو اسے آڑے ہاتھوں لیا۔ اس سلسلہ میں ڈپٹی نذیر احمد کی کتاب’’امہاۃ الامہ‘‘خاص طور پر قابلِ ذکر ہے۔

یہ کتاب جونہی منظرِ عام پر آئی تو مسلمانوں نے عیسائی مصنف کا پیچھا چھوڑ کر ڈپٹی نذیر احمد کی طرف اپنی تمام تر شدت پسندی کا رخ موڑ دیا۔ اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ ڈپٹی نذیر احمد نے اہلِ بیت کے ناموں کے ساتھ وہ القاب و خطابات نہیں لگائے جو احترام کے لیے عام طور پر مستعمل ہیں۔ مولویوں نے ڈپٹی صاحب سے تقاضا کیا کہ کتاب کے تمام نسخے ان کے حوالے کیے جائیں تا کہ انہیں تلف کیا جاسکے، مگر ڈپٹی نذیر احمد اس بات پر ہرگز آمادہ نہ ہوئے۔ بالآخر دھوکے سے اس کتاب کے تمام نسخے حاصل کر کے (جو ایک معاندِ اسلام کے جواب میں لکھی گئی تھی) ندوۃ العلماء کے ایک جلسے میں ڈھیر کرکے تیل چھڑک کر نذرِ آتش کردیے گئے۔

(تفصیل: گنجینۂ گوہر، از شاہد احمد دہلوی، مکتبہ نیا دور، کراچی، 1962ء؛ ’’امہات الامہ‘‘ کا دوسرا ایڈیشن ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے شاہد احمد دہلوی نے 1935ء میں شائع کیا تو اس کے مقدمہ میں بھی یہ سارا احوال درج کیا)

یہ پورا واقعہ یہ ثابت کرنے کو کافی ہے کہ مسلمان بالعموم اس راہ پر گامزن ہوچکے تھے جس سے حضرت مسیح موعودؑ سالہا سال سے خبردارفرماتے آئے تھے۔ مسلمانوں کا جذبات کے بہاؤ میں از خود رفتہ ہوجانا ایک ایسی کمزوری تھی جو غیروں نے مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنا شروع کی اور مسلمانوں نے بھی انہیں ان کےخاطر خواہ نتائج جھولیاں بھر بھر کر دیے۔

پھر دوسرا ردِ عمل جو مسلمان 2005ء کے خاکوں پر دکھا سکتے تھے، اس کی مثال بھی جماعت احمدیہ 1925ء میں قائم کرچکی تھی اور جس کی تفصیل اوپر بیان ہوچکی ہے۔ مگر مسلمانوں نے اس مثال سے بھی فائدہ نہ اٹھایا اور وہ روش اختیار کرلی جس کی بنیاد کلکتہ کے مسلمان طبقے نےصرف جماعت احمدیہ سے جداگانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے 80 سال پہلے رکھ دی تھی۔ (محولہ بالا’’مارننگ پوسٹ‘‘ کی خبر)

تیسرا راستہ شدت پسندی کا تھا اور اسی راہ کو اختیارکرلیا گیا۔ اسلام مخالف طبقات نے مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکایا اور ان سے وہ ردِ عمل حاصل کر لیا، جو پیغمبرِ اسلامﷺ کا دفاع تو خیر کیاکرتا، الٹا اعتراضات کو تقویت دینے والا بن گیا۔ اس صورتحال کا ایک تجزیہ یہاں قابلِ ذکر ہے:

The cartoon controversy mirrors 9/۔11. Whereas the attack on the Twin Towers, a symbol of capitalism and Western world, created a political platform on which Western nations could unite and initiate the ’global war on terror‘, the insulting of the Prophet, the main symbol of Islam, created a platform that Muslim communities could use to counter Wester hegemonies”. (Anja Kublitz)

اس موقع پر اکثر مسلم حلقوں کی طرف سے انتہائی شدت پسندانہ رجحانات دیکھنے میں آئے۔ محقق Lorenz Langer (جن کی کتاب کا اوپر حوالہ دیا جاچکا ہے) نے 2005ء کے ان خاکوں پر مسلمانوں کے ردِ عمل کے نتائج یوں بیان کیے ہیں :

Over the ensuing months, outrage over the cartoons and their republication by numerous European papers spread through the Muslim world: Danish goods were boycotted, and the embassies of Denmark and other European countries in Beirut, Damascus and Teheran were assailed and even torched by protesters. Since 2005, more than 100 people have died and over 800 were injured in protests related to the cartoon.”

(تفصیل کے لیے Lorenz Langer کی محولہ بالا کتاب)

جو خونریزی مسلم دنیا کی طرف سے 2005ءمیں ڈنمارک میں شائع ہونے والے گستاخانہ خاکوں پر دیکھنے کو ملی اس کے مقابل پر جماعت احمدیہ کے امام حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) کا وہی نمونہ دیکھنے کو ملا جو عین اسلامی تھا۔ وہی نمونہ جو جماعت احمدیہ نے تب دکھایا تھا جب آزادیٔ صحافت کے نام پر ایسے خاکوں کو شائع کرنے کی پہلی نمایاں کوشش کی گئی تھی۔

2005ءمیں ان خاکوں کی اشاعت ہوئی، تو تب جماعت احمدیہ کا مرکز لندن منتقل ہوچکا تھا۔ اب مغرب میں رہ کر مغربی آزادیٔ صحافت کا مقابلہ کرنے کا محاذ درپیش تھا۔ یعنی چیلنج اور بھی بڑا اور پرزور ہوچکا تھا۔ اس موقع پر حضرت امام جماعت احمدیہ نے ایک مرتبہ پھر شدت پسندی سے مکمل گریز کرنےاورآنحضورﷺ کی سیرت کو اجاگر کرنے کی طرف توجہ دلائی۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس (ایدہ اللہ تعالیٰ)کی خلافت کا آغاز (2003ء) ایسے حالات میں ہوا جب 11/9 کے واقعات کے بعد دنیا اسلام کو ایک نئے زاویہ سے دیکھنے لگی تھی۔ اسلام کا نام دہشت گردی کا مترادف خیال کیا جانے لگا تھا۔ اس میں مغربی میڈیا نے کیا کردار ادا کیا، یہ تو ایک الگ بحث ہے۔ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ مسلمان خود اپنے مذہب کو بدنام کرنے پر تلے بیٹھے تھے۔ یہاں ایک کارٹون شائع ہوا اور وہاں مسلم دنیا نے وہ ہنگامہ برپا کیا کہ مغربی میڈیا ان کی ہنگامہ آرائی دکھاتے نہ تھکتا۔ یوں دشمن کے ہاتھ میں خود ہتھیار دینے کا مظاہرہ جو مسلم دنیا نے کیا، اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے آغازِ خلافت ہی سے Peace Conferenceکےنام سے جو سلسلہ شروع کیا، اس کا بنیادی مقصد ہی اسلام کا پر امن چہرہ دنیا کے سامنے لانا تھا۔ یہ 2004ء کی بات ہے اور یہ کانفرنس ہر سال برطانیہ میں منعقد ہوتی ہے جہاں مختلف مکاتبِ فکر کے احباب و خواتین کو مدعو کیا جاتا ہے اور اسلام سے متعلق ان کی غلط فہمیوں کو دور کیا جاتا ہے۔ یہ سلسلہ اب صرف برطانیہ تک محدود نہیں بلکہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت پر دنیا بھر کے تمام ممالک میں پھیل چکا ہے۔

خلافتِ خامسہ کا دوسرا سال ہی تھا کہ ڈنمارک کے اخبار Jyllands-Postenنے یہ گستاخانہ خاکے شائع کردیے۔ مسلم دنیا کارٹون بنانے والوں کو واجب القتل قراردینے، سفارتخانے جلانے اور سڑکوں پر مظاہرے کر کے بدامنی پھیلانے میں مصروف تھی، اورامام جماعت احمدیہ اپنا پُر امن احتجاج کئی پیرایوں میں فرمارہے تھے۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی رہ نمائی سہ رُخی تھی: اپنی جماعت کے لیے رہنمائی، غیر احمدی مسلمانوں کے لیے رہنمائی اور ایسے خاکے بنانے والوں کے لیے رہنمائی۔

خاکسار راقم الحروف کا احمدی ہونا اور حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کی بیعت میں ہونا ایک طرف۔ مگر خاکسار مکمل تحقیق کے بعد عرض کررہا ہے کہ ایسی ہمہ جہت رہ نمائی کسی مسلم لیڈر نے مسلمانوں کو نہ دی۔ اگر دی ہے، تو کوئی بھی مسلمان ہمیں اس کی مثال پیش کردے۔ ہمارا یہ دعویٰ شواہد اور ٹھوس حقائق پر مبنی ہے۔ کوئی اس کے مقابل اپنا دعویٰ لانا چاہے، تو ایسے ہی ٹھوس حقائق اور شواہد کی بنیاد پر ہو۔

10؍فروری 2006ءسے 10؍مارچ 2006ءتک تمام خطبات جو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس نے ارشاد فرمائے، وہ سب اسی ہمہ جہت رہ نمائی پر مشتمل تھے۔ ان خاکوں کی اشاعت پر اپنے اور اپنی جماعت کے دکھ اورتکلیف کا اظہار فرماتے ہوئے، اپنی جماعت کو نصیحت کی کہ اپنے دلوں کو دعاؤں اور درود کے ذریعہ تسلی دیں۔ اور پھر ایسا کام کریں جو در حقیقت آنحضورﷺ کی ناموس کی حفاظت کرنے والا ہو۔

پھر خود ان خطبات میں آنحضورﷺ کی پاکیزہ سیرت کے بیان کے ذریعہ اپنی جماعت کے لیے مثال بھی قائم فرمادی۔ آنحضورﷺ کی ذات پر اسلام مخالف حلقوں کی طرف سے جو اعتراضات کیے جاتے ہیں، ان میں سے ایک بھی نہیں جس کا جواب ان خطبات میں نہ آگیا ہو۔

پھر امتِ مسلمہ کی بھی رہ نمائی فرمائی کہ کس طرح دنیا کے ہر فرد کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سے آشنا کیا جائے تا کہ ایسے بدمذاق خاکوں کو بنانے کی جرأت ہی نہ ہو۔

غیرمسلم دنیا کو بھی اس بات کی طرف متوجہ فرمایا کہ عدم علم کی بنا پر اظہار رائے (خواہ تحریری ہو، یا خاکوں کی شکل میں ) ایک غیر ذمہ دارانہ فعل ہے۔ آزادیٔ صحافت کن اخلاقیات کی پابندہے، اس کی طرف بھی صرف ان خطبات میں ہی نہیں، بلکہ متعدد مواقع پر توجہ مبذول فرمائی، اور آج تک فرماتے ہیں۔

(تفصیل کے لیے دیکھیےکتاب ’’اسوۂ رسولﷺ اور خاکوں کی حقیقت‘‘از حضرت مرزا مسرور احمد، اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز، سرے، 2006ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ 2016ءمیں ڈنمارک تشریف لے گئے تو کوپن ہیگن میں آپ کے اعزاز میں عشائیہ دیا گیا۔ اس میں ڈنمارک کے حکومتی اربابِ اختیار، ڈنمارک کے صحافی اور دیگر ممالک کے سفارتکار بھی شامل ہوئے۔ ان کے سامنے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جو خطاب فرمایا، اس کا ایک اقتباس ذیل میں پیش کیا جاتا ہے:

’’یہاں ڈنمارک میں چند سال قبل ایسے تضحیک آمیز خاکے شائع ہوئے جن میں پیغمبرِ اسلامﷺ کو معاذ اللہ ایک مطلق عنان اور جنگ جو لیڈر کے طور پر دکھایا گیا۔ آنحضورﷺ کی یہ نہایت غیر منصفانہ تصویر کشی تاریخ اور حقائق کے سخت منافی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آنحضورﷺ تو ہمہ وقت امن اور انسانی حقوق کے قیام کے لیے کوشاں رہنے والے تھے۔ ‘‘

پھر فرمایا:

’’حضرت پیغمبرِ اسلامﷺ کی تعلیمات تو نہایت اعلیٰ اور بین المذاہب امن قائم کرنے والی تھیں۔ تاہم، آج آزادیٔ اظہار کے نام پر انبیاءاور صلحا ءکا تمسخر کیا جاتا ہے قطع نظر اس کے کہ ان کے ماننے والے کروڑوں میں ہیں اور یہ تضحیک ان کے لیے ناقابلِ برداشت ہے۔ ‘‘

(تفصیل کے لیے دیکھیےwww.pressahmadiyya.com؛ نیز جماعت کی آفیشل ویب سائٹ www.alislam.org پر موجود حضور کے خطابات کا مجموعہWorld Crisis and the Pathway to Peace ان عالمی کوششوں سے آگاہی دیتا ہے جو ناموسِ اسلام اور ناموسِ پیغمبرِ اسلامﷺ کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرمارہے ہیں اور جو بے مثال ہیں )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں تشریف لے جاکر ان کے حکومتی سربراہوں اور دیگر اربابِ اختیار کے سامنے پیغمبرِ اسلامﷺ کی خوبصورت تعلیمات پیش کرنے کا جو کام کیا ہے، وہ تاریخ ساز ہے۔ الحمدللہ علیٰ ذالک۔

یوں ہم دعوے سے کہہ سکتے ہیں کہ خدا کےفضل سے ناموسِ رسولﷺ کے لیے بہترین خدمات کی توفیق اس جماعت کو ملی ہے جو آنحضورﷺ کی پیشگوئی کے مطابق آپﷺ کی تعلیمات کو عام کرنے کے لیے قائم ہوئی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button