خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍جون 2022ء

آنحضرتﷺ کے عظیم المرتبت خلیفہ ٔراشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوصافِ حمیدہ کا تذکرہ

٭…حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے دَور خلافت میں مختلف جنگی مہمات میں مسلمانوں کے لشکر وں کی فتوحات کا تفصیلی تذکرہ

٭…حضرت علاء بن حضرمیؓ ایک مرتبہ مدینےسے بحرین کے ارادے سے چلے کہ راستے میں پانی ختم ہوگیا۔

آپؓ نےدعا کی تو دیکھا کہ ریت کے نیچے سے ایک چشمہ پھوٹا

٭…اللہ تعالیٰ کی خاطر جو مہمات پر نکلنے والے صحابہ تھے ان کے ساتھ معجزات بھی ہوا کرتے تھے

خلاصہ خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍جون 2022ء بمطابق 24؍احسان 1401ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد،ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

حضرت اميرالمومنين حضرت خليفةالمسيح الخامس ايدہ اللہ تعاليٰ بنصرہ العزيزنے مورخہ24؍جون 2022ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، يوکے ميں خطبہ جمعہ ارشاد فرمايا جو مسلم ٹيلي وژن احمديہ کے توسّط سے پوري دنيا ميں نشرکيا گيا۔جمعہ کي اذان دينےکي سعادت صہیب احمد صاحب کے حصے ميں آئي۔

تشہد،تعوذ،تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تلاوت کے بعدحضورِانورایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

حضرت ابوبکرصدیقؓ کے زمانے میں باغیوں کے خلاف مہمات کا ذکر ہورہاتھا۔ ساتویں مہم حضرت خالدؓ بن سعید بن عاص کی تھی ، انہیں حضرت ابوبکرؓنے شام کے سرحدی علاقےحمقتین کی طرف بھیجا تھا۔حضرت خالدبالکل ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ آپؓ نے ایک خواب کی بناپر اسلام قبول کیاتھا۔ رسول اللہﷺ حضرت خالدکے اسلام لانے پر بہت خوش ہوئے تھے۔ آپؓ کوقبولِ اسلام کےبعد اپنے باپ کی جانب سے سختی کا بھی سامنا کرنا پڑا ، آپؓ کو گھر سےبےگھرکردیا گیا لیکن آپؓ کے پایۂ ثبات میں بالکل لغزش نہیں آئی تھی۔

حبشہ کی طرف دوسری ہجرت میں حضرت خالدؓاپنی بیوی اور بھائی کے ہمراہ شامل تھے۔ حبشہ سے واپسی کے بعد عمرة القضا، فتح مکہ ، غزوہ حنین،طائف اور تبوک سب میں آپؓ حضورﷺ کے ہم رکاب رہے۔ غزوہ بد ر میں عدم موجودگی کے سبب شریک نہ ہونے کا آپؓ کو ہمیشہ افسوس رہا۔ آنحضورﷺ نے فرمایا کہ تمہیں یہ پسند نہیں کہ لوگوں کو ایک ہجرت اور تمہیں دو ہجرتوں کا شرف حاصل ہوا ہے۔ آپؓ کاتبینِ وحی میں بھی شامل تھے۔ آپؓ کو حضورﷺ نے یمن کے صدقات وصول کرنے پر مقرر فرمایا،حضورؐ کی وفات تک آپؓ اس منصب پر فائز رہے۔ روایت کے مطابق آپؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی بیعت میں توقف کیاتھا لیکن بنوہاشم کےبیعت کرنے کےبعد آپؓ نے بھی بیعت کرلی تھی۔ حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو مختلف مواقع پر لشکروں کاامیر مقرر فرمایا۔

مرتدین سے ہونے والے معرکوں میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت خالدؓ کو تیماء میں امدادی دستے پر متعین فرمایا۔ حضرت خالدؓ نے تیماء میں قیام فرمایا تو آس پاس کی بہت سی جماعتیں آپؓ سے آن ملیں۔ رومیوں نے مسلمانوں کے اس عظیم لشکر کی خبر سنی تو عربوں سے شام کی جنگ کےلیے فوجیں طلب کیں۔ حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کو اس امر کی اطلاع دی تو حضرت ابوبکرؓ نے آپؓ کو پیش قدمی کا حکم دیا۔ آپؓ یہ حکم پاتے ہی آگے بڑھے تو دشمن پر ایسی ہیبت طاری ہوئی کہ وہ اپنی جگہ چھوڑ کر منتشر ہوگیا۔حضرت خالدؓ دشمن کے مقام پر قابض ہوئے تو جو لوگ آپؓ کے پاس جمع تھے وہ مسلمان ہوگئے۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو اس کی اطلاع ملی تو آپؓ نے لکھا کہ تم آگے بڑھو مگر اتنا آگے نہ جانا کہ دشمن کو حملہ کرنے کا موقع مل جائے۔

کتب تاریخ میں حضرت خالد ؓبن سعید کی مرتدین کے خلاف کارروائیوں کا اتنا ہی ذکر ملتا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت ابوبکرؓ کے دَور میں فتوحاتِ شام میں آپؓ کا کردار ہے جس کا ذکر آئندہ ہوگا۔

آٹھویں مہم حضرت طریفہ بن حاجزکی بنو سلیم اور بنو ہوازن کی جانب ہے۔ بعض نے معن بن حاجز بھی بیان کیاہے۔ حضرت خالد بن ولیدؓ طلیحہ کے مقابلے کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ نے معن کو لکھا کہ بنوسلیم میں سے جو لوگ اسلام پر ثابت قدم ہیں ان کو ساتھ لےکر حضرت خالد کے ساتھ جاؤ۔ چنانچہ حضرت معن اپنے بھائی طریفہ کو جانشین مقرر کرکے حضرت خالدکےساتھ نکل پڑے۔ ایک شخص فجائہ نامی نے حضرت ابوبکرؓ سے سواری اور قوت لےکر جب مسلمانوں کےخلاف شرانگیزی پھیلائی تو اسےرفع کرنے میں حضرت طریفہ بن حاجز نے کردار اداکیا۔

نویں مہم مرتد باغیوں کے خلاف حضرت علاء بن حضرمی کی تھی۔ حضرت علاء بن حضرمی ابتدائی اسلام قبول کرنے والوں میں شامل تھے۔حضرت ابوبکرؓ کی جانب سے انہیں بحرین بھجوایا گیا تھا۔ عہدِ نبوی میں یہاں منذر بن ساویٰ حکمران تھے جن کے پاس حضوراکرمﷺ کا خط حضرت علاء بن حضرمی لےکر گئے تھے۔ منذر بن ساویٰ حضورﷺ کا خط پاکر حلقہ بگوشِ اسلام ہوگئے تھے۔ آنحضرتﷺ کی وفات اور اس کےبعد عہدِ صدیقی اور پھر عہدِ فاروقی میں اپنی وفات تک حضرت علاء بن حضرمیؓ بحرین کے عامل رہے۔

ایک موقعے پر حضورﷺ نے انہیں معزول کرکے حضرت ابان بن سعید بن عاص ؓکو والی مقرر کردیا تھا۔جب حضورﷺ کےوصال کے بعد ارتداد اور بغاوت نے سر اٹھایا تو ابان وہاں سے واپس آگئے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت علاء بن حضرمی ؓکو بحرین کا عامل مقرر فرمایا۔

حضرت علاء بن حضرمیؓ بڑے مستجاب الدعوات تھے۔ حضرت ابوہریرہؓ کہا کرتے تھے کہ ان کی خوبیوں اور قبولیتِ دعا سے مَیں بہت متاثر ہوں۔ ایک مرتبہ آپؓ مدینےسے بحرین کے ارادے سے چلے کہ راستے میں پانی ختم ہوگیا۔ آپؓ نےدعا کی تو دیکھا کہ ریت کے نیچے سے ایک چشمہ پھوٹا اور سب لوگ سیراب ہوگئے۔آپؓ کی وفات 14؍یا21؍ہجری میں ہوئی۔

بحرین شاہانِ حیرہ کی عمل داری میں تھا اور شاہانِ حیرہ کسریٰ بادشاہوں کے ماتحت تھے۔ بحرین میں فارسی،عیسائی، یہودی اورعرب تاجروں سمیت مختلف اقوام کی مخلوط آبادی تھی۔ قبیلہ عبدالقیس پر منذر بن ساویٰ کی حکومت تھی۔ اس قبیلے کا وفد دو دفعہ پانچ اورنَو ہجری میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئےتھے۔رسول اللہﷺ کی وفات کےچنددن بعد منذر کا انتقال ہوگیا اور تمام علاقے میں بغاوت پھیل گئی۔ حضرت جارودجواپنی قوم کے اشرا ف میں سےتھے اورتربیت حاصل کرنےمدینہ بھی گئے تھے انہوں نے اپنی قوم سے خطاب کیا اور بڑے منطقی انداز میں اپنی قوم کو سمجھایا۔ آپ کی قوم تو فتنۂ ارتداد سے محفوظ رہی تاہم باقی حصوں میں ایرانی حکومت کی حوصلہ افزائی سے بغاوت نے سر اٹھالیا۔ باغی قبائل نے منذر بن نعمان کوبادشاہ بنانے کا ارادہ کیااور کسریٰ سے اجازت حاصل کرنے کے لیے رابطہ کیا۔ کسریٰ نے ان سے حضورﷺ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ عرب کا وہ شخص فوت ہوگیا ہے جس کوقریش اور مضر کے جملہ قبائل معززسمجھتے تھے۔پھر حضرت ابوبکرؓ کے متعلق کہاکہ اس کے بعد اس کا جانشین ایسا شخص کھڑاہوا ہے جو کمزور بدن والا ضعیف الرائے ہے۔ کسریٰ سے منذر بن نعمان کی بادشاہی پر مہرِ تصدیق لگوانے کےبعد یہ باغی قبائل مسلمانوں سے لڑائی کے لیے تیار ہوگئے۔ ابتدائی معرکے میں ایرانیوں کا بڑا نقصان ہوا دوسری دفعہ کے معرکے میں عبدالقیس کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یہ معرکہ آرائی کئی روز تک جاری رہی۔ جب حضرت ابوبکرؓ کو اس معرکے کا علم ہوا تو آپؓ نے حضرت علاء بن حضرمی کو طلب فرمایا اور لشکر کی کمان ان کے سپرد فرمائی۔ آپؓ کے ساتھ دوہزار مہاجرین وانصار عبدالقیس کی مدد کے لیے بحرین روانہ ہوئے۔ جب آپؓ یمامہ کے پاس پہنچے تو حضرت ثمامہ بن اثال بن حنیفہؓ کی ایک جماعت ان سے آملی۔ اس سے قبل قیس بن عاصم جو منکرینِ زکوٰة میں شامل تھے وہ بنو حنیفہ کے زیر ہونے کےبعد علاء بن حضرمی کے لشکر میں شامل ہوچکے تھے۔

حضرت علاءؓ کالشکر قیام پذیر تھا کہ رات کے اندھیرے میں اونٹ بےقابوہوکر بھاگ گئے۔اونٹوں پر لدا ہوامال بھی ان کے ساتھ ہی چلا گیا۔ لوگ سخت مایوس ہوگئے ایسے میں حضرت علاءؓ نے سب لوگوں کو جمع کیا اور تسلی دی۔ آپؓ نے فرمایا کہ تم اللہ کی راہ میں جہاد کرنے آئے ہو اور تم اللہ کے مدد گا ر ہو تمہیں خوش خبری ہو کہ اللہ ہرگز تمہیں ایسی حالت میں نہیں چھوڑے گا۔ طلوع فجر کے ساتھ صبح کی اذان ہوئی، حضرت علاءؓ نے نمازپڑھائی۔نماز کے بعد حضرت علاءؓ اپنے دونوں گھٹنوں کے بل دعا کےلیے بیٹھ گئے اور سب لوگ بھی دو زانو دعا کےلیے بیٹھ گئے۔ خوب رقت بھری دعا کی گئی۔ تھوڑی سی روشنی افق میں نمودار ہوتی تو آپؓ دریافت فرماتے کہ جاکر خبر لاؤ۔ ایک شخص جاتا اور واپس آکر کہتا کہ یہ روشنی محض سراب ہے، ایسا دو بار ہوا۔ تیسری بار جب رشنی نمودار ہوئی تو خبر دینے والے نے بتایا کہ پانی ہے۔چنانچہ سب نے پانی پیا اور غسل کیا۔ ابھی دن نہیں چڑھا تھا کہ لوگوں کے اونٹ ہر سمت سے دوڑتے ہوئے ان کے پاس آگئے۔ جب حضرت علاء نے اس واقعے کی تفصیل حضرت ابوبکرؓ کو بھجوائی تو آپؓ نے اللہ تعالیٰ کی حمدو ثناء کرتے ہوئے بڑی خوشنودی کااظہار فرمایا۔

اللہ تعالیٰ کی خاطر جو مہمات پر نکلنے والے صحابہ تھے ان کے ساتھ ا س طرح کے معجزات بھی ہوا کرتے تھے۔ اس کا بقیہ حصہ ان شاء اللہ آئندہ بیان ہوگا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button