قیامِ خلافت احمدیہ سے غلبۂ اسلام تک(قسط دوم)
نصف صدی سے زائد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ مسندِ خلافت پہ جلوہ افروز رہے اور اک عالَم نے آپ سے فیض پایا۔قوموں نے نہ صرف آپ سے برکت پائی بلکہ حضرت مصلح موعودؓ نے امن اور صلح کے قیام کے تمام طریق اور ذرائع کی طرف بھی ان کی رہنمائی فرمائی۔سیاست،سماج،مذہب اور دفاع غرض ہر شعبہ میں آپ نے امن اور انصاف کے اصول بیان فرمائے
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ بطور راہنما(1914ءسے1965ء)
حضرت خلیفة المسیح الاوّلؓ کی وفات کے بعد 14؍مارچ 1914ء کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفة المسیح الثانیؓ کواللہ تعالیٰ نےخلیفہ منتخب فرمایا۔آپ حضرت اقدسؑ کی دعاؤں کا حاصل اور پیشگوئی مصلح موعودؓ کے مصداق تھے۔اس وقت قادیان میں قریباً دو ہزار مردوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔احباب جماعت نے الٰہی حکم کے تحت آپؓ کواپنا حقیقی راہنما چن لیا۔مخالفین خلافت نے ہزیمت اٹھائی اورقادیان چھوڑ کربھاگ گئے۔تعمیراتی کاموں کی وجہ سے خزانہ خالی ہونے کے باوجود اس عظیم لیڈر و راہنما نے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دیے کہ جماعت احمدیہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگی اور اس ترقی کو دیکھ کرمخالفین سمیت ساری دنیا حیران وششدر رہ گئی۔ پس قادیان سے خلافت کا یہ قافلہ اپنی ترقی کی شاہراہوں پر پوری آب و تاب کے ساتھ گامزن ہوا اور اشاعت اسلام کا ایک نیاسنہری دور شروع ہوا۔
12؍اپریل 1914ء کو آپؓ کے ارشاد پر تبلیغ و اشاعت اسلام کے معاملہ پر غور کرنے کے لیے ملک بھر کے نمائندوں کی شوریٰ بلائی گئی جس میں ڈیڑھ سو سے زائدنمائندگان نے شرکت کی اوراس شوریٰ میں اشاعت اسلام کے سلسلے میں اہم امور طے پائے۔حضرت مصلح موعودؓ نے شوریٰ میں منصب خلافت کے موضوع پر خطاب فرماتے ہوئے بیان فرمایا:’’پہلا فرض خلیفہ کا تبلیغ ہے…. میں نے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ میرے ہاتھ سے تبلیغ اسلام کا کام ہو اور میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے میری ان دعاؤں کے جواب میں بڑی بڑی بشارتیں دی ہیں…اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہوگی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ ہو گزرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے کیونکہ آپ لوگ جو کام کریں گے وہ میرا ہی کام ہوگا۔‘‘(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد2صفحہ35-36)پھر آپؓ نے فرمایا کہ’’میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ ہوں جو ہر ایک زبان کے سیکھنے والے اور پھر جاننے والے ہوں۔ تاکہ ہم ہر ایک زبان میں آسانی کے ساتھ تبلیغ کرسکیں…. غرض میں تمام زبانوں اور تمام قوموں میں تبلیغ کا ارادہ رکھتا ہوں۔‘‘(منصب خلافت،انوارالعلوم جلد2 صفحہ37)شوریٰ میں طے ہونےوالے امورکی تکمیل کے لیے حضور ؓنے ایک رؤیا کی بناء پر ’’انجمن ترقی اسلام‘‘ کی بنیاد رکھی۔یہ انجمن اسم بامسمٰی ثابت ہوئی اوراللہ کے فضل سے اسلام کی ترقی واشاعت کا نہایت موثر ذریعہ ثابت ہوئی۔اس بابرکت ادارہ کے ذریعہ ایک لمبا عرصہ دنیا میں تبلیغ و اشاعت اسلام ہوتی رہی یہاں تک کہ پہلے صدر انجمن احمدیہ اور پھر 1945ء میں تحریک جدید نے بین الاقوامی سطح پر تبلیغ کا یہ کام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔
آپؓ کے سنہری دَور میں دنیا کے کونے کونے میں احمدیت کا پیغام پہنچ گیا۔اس دوران جنگ عظیم اول اور دوم کی خوفناک حالتیں بھی آئیں جس نے دنیا میں ایک انقلاب برپا کردیا لیکن اشاعت توحید اور تبلیغ اسلام کی مساعی میں کوئی کمی نہ آئی۔دنیا کا کوئی ایسا علاقہ نہ تھا جہاں ابراہیم ثانیؓ کے پرندے محو پرواز نہ ہوئے ہوں۔یورپ و امریکہ تک مبلغین کا ایک جال بچھ گیا۔
بیرون ممالک میں اشاعت اسلام
خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کا دائرہ مزیدوسیع ہوا اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام ہندوستان سے بیرون ممالک میں کثرت سے پہنچانے کا انتظام ہوا۔چنانچہ مرکز احمدیت سے حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ جولائی 1913ء میں بیرونی مشن کی بنیاد رکھ چکے تھے لیکن اس کا مستقل قیام اپریل 1914ء میں ہوا۔جب ووکنگ سے لندن منتقل ہوئے اور کرائے کے مکان میں تبلیغ اسلام کا مرکز بنا یا اور ایک شخص نے اسلام قبول کیا۔پھر حضرت قاضی عبد اللہ صاحبؓ،حضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ وغیرہ بھی انگلستان میں اشاعت توحید و اسلام میں مصروف رہے۔1920ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ امریکہ تشریف لے گئے۔1920ء میں مولوی مبارک علی صاحب کے لندن تشریف لانے پرحضرت عبد الرحیم نیر صاحبؓ 1921ء میں نائیجیریا چلے گئے۔
احمدیہ دارالتبلیغ ماریشس کے قیام کے لیے 20؍فروری 1915ء کو صوفی غلام محمد صاحب قادیان سے روانا ہوئے اور 14؍مارچ 1915ء کو کولمبوپہنچے اور وہاں تین ماہ قیام کرکے جماعت کی بنیاد رکھ کر 15؍جون 1915ء کو ماریشس پہنچے اور وہاں دارالتبلیغ قائم کیا۔اسی طرح نائیجیریا،سیرالیون،
لائبیریا،سیلون میں دارالتبلیغ قائم ہوئے۔
1921ء میں غانا،نائیجیریا میں دارالتبلیغ قائم ہوااور 1922ء میں شیخ محمود احمد عرفانی کے ذریعہ بلاد عربیہ کا پہلا دارالتبلیغ مصر میں قائم ہوا۔19؍اگست 1923ء بالشویک علاقے میں احمدیت کی تبلیغ کا آغاز ہوا۔26؍نومبر1923ء کو حضرت ملک غلام فرید صاحبؓ کو مرکز احمدیت قادیان سے جرمنی کے لیےروانہ فرمایا اورمسجد برلن کی تحریک کی گئی۔1925ءمیں شام میں نیا دارالتبلیغ قائم ہوااوراسی سال ہی سماٹرا و جاوا میں بھی دارالتبلیغ قائم ہوئے۔12؍جولائی1924ء کو شہزادہ عبدالمجیدصاحب کو ایران میں احمدیہ مرکز قائم کرنے کے لیے بھجوایا گیا۔ان کے ساتھ مولوی ظہور حسین صاحب کو بخارا میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کا حکم دیا۔16؍اکتوبر 1924ء کو مشہد ایران میں نیا دارالتبلیغ قائم ہوا۔
1936ء میں دارالتبلیغ ہنگری،پولینڈ،چیکوسلوواکیہ،ارجنٹائن قائم ہوئے۔اسی طرح برما،سپین و اٹلی،البانیہ و یوگوسلاویہ،سیر الیون ومشرقی افریقہ میں بھی مشن ہاؤسز کاقیام خلافت ثانیہ میں ہوا۔ یکم اپریل 1932ء میں سیلون،4؍جون 1935ءکو جاپان،26؍مئی 1935ءکو ہانگ کانگ،مئی 1942ء میں فرانس،1946ء میں صقلیہ سسلی اورسوئٹزرلینڈ 1947ء میں ہالینڈ میں احمدیہ مسلم مشنز کے قیام سےاشاعت اسلام کا آغاز ہوا۔
ٹریکٹ، اشتہارات،اخبارات و رسائل کے ذریعہ اشاعت اسلام
اشاعت اسلام کے لیے ایک خصوصی کاوش اشتہارات اور ٹریکٹس کی اشاعت تھی۔ جولائی 1914ء میں اسلام کی حقانیت کے متعلق اہل بنگال کے لیے بنگالی ٹریکٹ کلکتہ سے شائع ہوا۔جس سے عوام الناس میں سلسلہ احمدیہ کے حالات جاننے کا شوق پیدا ہوا۔1915ء میں سندھی ٹریکٹ’’ایک عظیم الشان بشارت‘‘شائع ہوا۔بلاد اسلامیہ میں اشاعت اسلام کے لیے ’’الدین الحی‘‘ کے نام سے عربی زبان میں ٹریکٹ شائع ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓنے اخبارات کی توسیع کی طرف بھی خاص توجہ دلائی۔جس کے نتیجہ میں مرکز احمدیت سے 17؍اکتوبر 1915ءکوپہلااخبار ’’فاروق‘‘جاری ہوا۔جون 1916ء میں ’’اخبار صادق‘‘ اوردسمبر1916ء میں صادق لائبریری کا قیام عمل میں آیا۔اسی طرح ’’احمدیہ گزٹ‘‘اوردسمبر1926ء میں انگریزی اخبار’’ سن رائز‘‘جاری ہوئے۔6؍جون 1935ء کولندن سے’’ مسلم ٹائمز ‘‘ عبد الرحیم درد صاحب کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔اسی طرح لندن سے ’’الاسلام انگریزی‘‘اوراخبار ’’البشریٰ‘‘(حیدر آباد سندھ)اورکشمیر کے لیے اخبار ’’اصلاح‘‘ جاری ہوئے۔فلسطین میں ’’البشارة الاسلامیة‘‘چھپنا شروع ہوا۔1930ء میں رسالہ جامعہ احمدیہ اورتعلیم الاسلام ہائی سکول کے میگزین کا اجرا ہوا۔یوں خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کے لیے مختلف ممالک سے مختلف زبانوں میں 122 اخبارات و رسائل جاری ہوئے۔
تبلیغی خطوط
حضرت مصلح موعودؓ نےمرکز احمدیت سے خط و کتابت کے ذریعہ بھی اشاعت اسلام کا کام سرانجام دیا۔ کئی والیان ریاست کو تبلیغی خطوط لکھے اور ان کے لیے کتب تصنیف فرمائیں۔چنانچہ والیہ بھوپال کو 14؍ستمبر1914ء کو خط لکھا جس میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی۔پھر ایک اورفرمانروائے ریاست اور ریاست رامپورکوتبلیغی خط لکھا۔نظام حیدر آباد دکن کو تبلیغ کی خاطر جون 1914ء کو’تحفة الملوک‘ تصنیف فرمائی۔اس کتاب کے پڑھنے سے سیٹھ عبد اللہ الہ دین کوقبول احمدیت کی سعادت ملی۔1924ء میں امیر امان اللہ خان بادشاہ افغانستان و ممالک محروسہ پر اتمام حجت کے لیے ’دعوة الامیر‘ نامی ایک کتاب شائع فرمائی جس کا فارسی ترجمہ حکیم مولانا عبید اللہ بسمل صاحب نے کیا۔امیر امان اللہ کو تو اس کاکوئی فائدہ نہ ہوا لیکن اس ذریعہ سےخان فقیر محمد صاحب ایگزیکٹو انجینئر کو قبول احمدیت کی توفیق ملی۔
دسمبر1921ءمیں شہزادہ ویلز جو بعد میں ایڈورڈ ہشتم بنے ہندوستان کے دورہ پر آئے تو حضور انورنے تحفہ شہزادہ ویلز کے نام سے ایک عظیم الشان کتاب تصنیف فرمائی۔ جس میں آپ نے شہزادہ کواسلام اور احمدیت کا پیغام دیا۔یہ تحفہ27؍فروری 1922ء کو لاہور میں شہزادہ کی خدمت میں پیش کیاگیا۔1931ء میں لارڈ ارون کی ہندوستان سے روانگی کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ایک کتاب ’’تحفہ لارڈارون‘‘کے نام سےپانچ روز میں تصنیف فرمائی جو 8؍اپریل1931ء کو وائسرائے ہند لارڈارون کو بطور تحفہ پیش کی گئی۔
تبلیغی کلاسز
حضرت مصلح موعودؓ نے ملک بھر میں تبلیغ و اشاعت اسلام میں تیزی لانےکے لیےتبلیغی کلاسوں کا اجرا فرمایااورمبلغین کی اعلیٰ کلاسز کے لیے لیکچروں کا سلسلہ شروع فرمایا۔چنانچہ21؍جون 1920ء مبلغین کلاس کا آغاز ہوا۔
وقف زندگی کی تحریکات
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےسلسلہ کی تبلیغی سرگرمیوں کے پیش نظر اور اشاعت اسلام کے لیے 7؍دسمبر1917ء کوتحریک وقف زندگی کا اعلان فرمایا جس کے لیے فوراً63 نوجوانوں نے اپنےنام پیش کیے۔پھرآپؓ نےتبلیغ کے لیے یک ماہی وقف کی تحریک کی جس کےلیے1300 اصحاب نے لبیک کہا۔29؍جنوری 1943ء کو مبلغین کی ضرورت کے پیش نظر دیہاتی مبلغین کی تحریک کی۔24؍مارچ 1944ء کو وقف زندگی کی وسیع تحریک فرمائی۔جس کے نتیجہ میں بعض پڑھے لکھے نوجوانوں نےسہ سالہ وقف کے لیے خود کوپیش کیا۔8؍اکتوبر 1932ء کو پہلا یوم تبلیغ منایا گیا۔
تحریک جدید اور وقف جدید
1934ء میں جماعت احمدیہ کی ترقی دیکھ کرحاسدین نےمخالفت کا طوفان برپا کردیا۔یہاں تک کہ احرار نے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا دعویٰ کیا لیکن ان کا دعویٰ ایک خواب ہی بن کر رہ گیا۔جس کے مقابل پر خلافت ثانیہ میں جاری ہونیوالی بابرکت تحریک ’’تحریک جدید‘‘ کی برکت سے پوری دنیا میں اشاعت اسلام کے لیےمبلغین پھیل گئے۔تحریک جدید کے ذریعہ اشاعت اسلام میں نمایاں ترقی ہوئی اور تبلیغ کے مختلف ذرائع سے احمدیت کا پیغام لوگوں تک پہنچا۔چنانچہ انفرادی ملاقاتوں،جلسوں،مقامی اخبارات میں مضامین کی اشاعت،تقسیم کتب،تبلیغ بذریعہ خطوط،بلند پایہ شخصیات کی دعوتوں،مناظرات،جلسہ ہائے سیرت النبی،ریڈیو سے تقاریر،تبلیغی مجالس کےقیام،یوم التبلیغ،غیر مسلموں کی مذہبی کانفرنسوں میں شمولیت وغیرہ سے اشاعت اسلام میں نمایاں کام ہوا۔
تحریک جدید کے نتیجے میں ٹریکٹوں،کتابوں کی اشاعت، پریس کے ذریعہ اشاعت احمدیت،نئی درسگاہوں کا قیام،ملک میں تبلیغی سروے،مشن ہاؤسز کا قیام عمل میں آیا۔تحریک جدید کی طرف سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام،دی ٹروتھ اباؤٹ دی سپلٹ،انقلاب حقیقی،تفسیر کبیر،سیر روحانی،نظام نو وغیرہ شائع ہوئیں۔
حضورؓ نے دنیا کی مشہور زبانوں میں قرآن کےتراجم کروائے، انگریزی تفسیر القرآن کاکام قادیان میں جاری تھا۔بارہ کتابوں کا سیٹ دنیا کی آٹھ مشہور زبانوں میں ترجمہ کروایا۔اس کے علاوہ چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ اور اشتہار شائع کروائے۔یکم فروری 1945ء کو 11 واقفین کو بیرون ملک بھجوانے اور 9 واقفین کو تفسیر،حدیث،فقہ اور فلسفہ و منطق کی اعلیٰ تعلیم دلانے کے لیے منتخب فرمایا۔اس کے علاوہ احمدی ڈسپنسریاں،مدارس،مساجدقائم ہوئیں۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1957ء میں وقف جدیدکی بنیاد رکھی جس کے تحت تمام ہندوستان کی جماعتوں میں اشاعت اسلام کےلیےمعلمین کا جال بچھ گیا۔
قرآن کریم کی دیگر زبانوں میں اشاعت
حضرت مصلح موعودؓ نےدنیا کے مختلف ممالک میں مختلف اقوام میں اشاعت اسلام کےلیے قرآن کریم کے تراجم کی ضرورت محسوس کی اورمختلف زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم کرنے کی تحریک فرمائی۔چنانچہ انگریزی، ڈچ، جرمن، فرانسیسی،اطالوی،اسپرنٹو،روسی،پرتگیزی،سواحیلی،زبان وغیرہ میں قرآن کریم کے تراجم پر کام کا آغاز ہوا۔
مساجد کی تعمیر
خلافت ثانیہ میں اشاعت اسلام کےلیے مرکز احمدیت قادیان سے جو ایک نمایاں کام ہوا وہ مساجد کی تعمیر ہے جن کے ذریعہ اشاعت اسلام کا کام بخوبی ہوسکتاہے۔چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر9؍ستمبر1920ء کو مسجد لندن کے لیے زمین کی خریداری ہوئی جس پر خوشی کا اظہار فرمایااورتقریب بھی ہوئی۔1925ء میں احمدیہ مسجد کی تعمیرہوئی۔24؍مارچ 1936ء کو مسجد محلہ ریتی چھلہ کا افتتاح ہوا۔1940ء میں سرینگر میں احمدیہ مسجد کی بنیادرکھی گئی۔اسی طرح حافظ آباد،گکھڑ، چنیوٹ اور کوئٹہ میں مساجد کی تعمیرہوئی۔قادیان میں مسجد مبارک کی توسیع ہوئی اور اس موقع پرغلبہ اسلام کے لیے 40 روزہ دعاؤں کی تحریک حضرت خلیفة المسیح نے فرمائی۔7؍اپریل 1934ء کومسجد فضل لائلپور کا افتتاح ہوا۔اسی طرح متعدد مساجد کی خلافت ثانیہ میں تعمیر ہوئی۔
دیگر مذاہب پر تحقیق کا انتظام
اشاعت اسلام کےلیےحضرت مصلح موعودؓ نے بعض علماء کودیگر مذاہب پر تحقیق کے لیے ارشاد فرمایا۔چنانچہ مہاشہ ملک فضل حسین صاحب ہندوازم کےلیے، چودھری عبدالسلام صاحب کاٹھ گڑھی سکھ ازم کےلیے،شیخ فضل الرحمن صاحب کو عیسائیت پر تحقیق کے لیےمقررکیاگیا۔چنانچہ ان علماء نے بعد تحقیق اس میدان میں اشاعت اسلام میں نمایاں خدمات سرانجام دیں۔
تبلیغی وفود،دورہ جات،خطبات اورمباحثات و مناظرات
خلافت ثانیہ میں مرکز احمدیت قادیان سےاشاعت اسلام کے لیےعلماء اورمبلغین کے وفود بھجوائے جاتے تھے۔چنانچہ3؍اگست 1917ء کو ممبئی میں وفدبھجوایا جنہوں نےمسلمانوں کے مختلف فرقوں کو تبلیغ کی اور اشتہارات، لیکچرز،دروس،ٹریکٹس کے ذریعہ تبلیغ کی۔ 26؍نومبر 1932ء کو مولوی ارجمند خان صاحب کی قیادت میں 29 افراد پر مشتمل جامعہ احمدیہ کا وفد قادیان سے روانہ ہواجس نے جالندھر،پھلور،لدھیانہ،انبالہ،دہلی،علی گڑھ اور میرٹھ سے ہوتے ہوئے دیوبند اور سہارنپور تک لمبا سفر طے کیا۔کھیلوں کے میچ بھی کیے اورتبلیغی لیکچرز بھی دیے۔اسی طرح مرکز احمدیت سےشمالی و وسطی ہند میں تبلیغی وفودبھجوائےگئے۔
حضورؓ نے اشاعت اسلام کی غرض سے نہ صرف خود دورہ جات فرمائے بلکہ ناظروں کو بھی دوروں کی ہدایت فرمائی۔چنانچہ حضورؓنےحیدرآباد دکن و دہلی کا سفر فرمایا۔لاہور اور امرتسرسیالکوٹ میں 13 فروری سے 23؍ فروری 1920ء تک سفرکرکے وہاں لیکچرزدیے۔حضورؓ کے پُر معارف خطابات بھی اشاعت اسلام کا ذریعہ بنے۔
خلافت ثانیہ میں کوئی سال ایسا نہ تھا جس میں کوئی مباحثہ نہ ہوا۔مباحثہ ڈیرہ غازیخان،مباحثہ گو جرانوالہ، مباحثہ چٹاگانگ،سڑوعہ،مباحثہ امرتسر، سرگودھا، شنگر، اجنالہ، لکھنؤ مباحثہ مجوکہ وغیرہ ان میں سے چند ایک ہیں۔
ہندوستان کی غیر مسلم اقوام میں تبلیغ
حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےاپریل 1922ء میں اچھوت اقوام میں تبلیغ کےلیے خاص عملہ مقررفرمایااور ان اقوام میں اشاعت اسلام کا ارشاد فرمایا۔چنانچہ کچھ عرصے میں ہی بہت سےمذہبی سکھ بالیکی اور دوسرے اچھوت اسلام احمدیت میں داخل ہونا شروع ہوگئے۔
1923ء میں مرکز احمدیت سےتحریک شدھی کے خلاف جہاد کا اعلان ہوا اورصیغہ ’’انسداد ارتداد ملکانہ‘‘ کے نام سے دفتر کھولاگیا۔متاثرہ علاقوں میں تبلیغ کرنے والوں کو واپسی پر خلیفہ وقت سے سند خوشنودی عطا ہوئی۔اور پھر حضور انور نے ان علاقوں میں مستقل مبلغین کا بھی تقرر فرمایا۔اس ضمن میں مرکز احمدیت سے جو کارہائے نمایاں ہوئے اس کو غیروں نے بھی تسلیم کیا۔
فنڈز کا قیام
اشاعت اسلام و احمدیت اور سلسلہ کی ضروریات کے پیش نظر ایک مستقل فنڈ کی ضرورت تھی۔چنانچہ رسول اللہﷺاور حضرت عمر فاروقؓ کے عہد میں اشاعت اسلام کے لیے جائیدادوں کو وقف کرنے کی طرح حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے بھی 1932ء میں ریزرو فنڈ کی مستقل بنیاد رکھی اور سندھ میں زمینیں خریدی گئیں۔
ادارہ جات کا قیام
اشاعت اسلام کے کام کو منظم طریق پر جاری رکھنے کے لیےآپؓ نے1919ء میں صدر انجمن کا ادارہ قائم فرمایا اورابتداءً ناظراعلیٰ،ناظرتالیف و اشاعت، ناظرتعلیم و تربیت،ناظر امور عامہ اور ناظر بیت المال مقرر فرمائے۔ناظر تالیف و اشاعت مولوی شیر علی صاحبؓ کو بنایا۔1915ء میں مزید نظارتیں عمل میں آئیں جن میں نظارت دعوت و تبلیغ بھی تھی۔جس کے پہلےناظر حضرت چودھری فتح محمد سیال صاحبؓ مقرر ہوئے۔اسی طرح اپریل 1922ء کو مستقل طور پرمجلس شوریٰ کی بنیاد رکھی۔
سفر یورپ
1924ء کا سال تبلیغ و اشاعت اسلام کے حوالہ سے اہم تھا کیونکہ اس میں حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نےیورپ کا پہلا سفرفرمایاجس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں اشاعت اسلام کےنئےدور کا آغاز ہوا۔ سفر یورپ کا ایک مقصد تو یہ تھا جس کا حضورؓنے خود بھی اپنے مکتوب میں ذکر فرمایا کہ مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر نہ صرف مذہبی کانفرنس میں شامل ہوں بلکہ اس سے پہلے اور بعد انگلستان اور دوسرے ممالک کے لوگوں کو ملاقات کا موقع دے کر سلسلہ کی طرف ان کی توجہ کو کھینچیں….دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ مغربی ممالک میں مشن قائم کررہی ہے تو امام جماعت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان ممالک کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر ان کے حالات کا مطالعہ کرے تا تبلیغ کی مکمل سکیم تیار ہوسکے اور مرکز اور مبلغین کا تعلق زیادہ مضبوط ہوجائے۔(مکتوب 14؍مئی1924ءبحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 424-425)نیز آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ لندن میں ہیں اور ایک جلسہ میں آپ شامل ہیں۔مسٹر لائڈ جارج (سابق برطانوی وزیر اعظم)اس جلسہ میں تقریر کررہے ہیں کہ یکدم ان کی حالت بدل گئی اور انہوں نے دہشت زدہ ہوکر کہا کہ مجھے ابھی خبر آئی ہے کہ مرزا محمود امام جماعت احمدیہ کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آتی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے۔(ماخوذ از الفضل 24؍جون 1924ء)
چنانچہ 23؍ستمبر1924ء کے سنہری روز حضرت مصلح موعودؓ کا ویمبلے کانفرنس میں بے مثل مضمون پڑھاگیا جس سے جہاں ایک طرف حضرت مسیح موعودؑ کی لندن میں تقریر کرنے والی رؤیا پوری ہوئی وہاں اسلام کی فتح کے جھنڈے لہرائے۔سفر یورپ کے دوران حضورؓ نے تبلیغی لیکچرز دیے اور یہ فیصلہ بھی فرمایا کہ ریویو آف ریلیجنز کا انگریزی ایڈیشن آئندہ لندن سے شائع ہوا کرے۔پھر19؍اکتوبر1924ءکے بابرکت اور یادگار دن کو مسجد فضل لندن کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔
خلافت ثانیہ میں قادیان میں دیگر تبلیغی مساعی
یکم مارچ1925ء کو اشاعت دین کی غرض سےانجمن احمدیہ خدام الاسلام کا قیام عمل میں آیا۔جس نے کثیر تعداد میں تبلیغی ٹریکٹ شائع کیے۔29؍جنوری1926ءکے جلسہ سالانہ میں چوبیس زبانوں میں تقریریں ہوئیں۔
آریہ مصنفین کی طرف سے جب اسلام اور بانیٔ اسلام پر اعتراضات کیے گئے اورآریہ سماجی راجپال نے رنگیلا رسول نامی کتاب شائع کی اورامرتسر کے ہندو رسالہ ورتمان نے بھی مئی1927ء میں اسلام کے خلاف دلآزار مضمون لکھا تواس کے جواب میں حضور انورنے پوسٹر بعنوان’’ رسول کریمؐ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوںگے‘‘ شائع کروایا۔پھرملک بھر میں سیرت النبیؐ کے جلسے منعقد کروائے۔جس کے لیے 1400 مقررین کے نام پیش ہوئے۔ قادیان میں بھی جلسہ سیرت النبیؐ کا انعقاد ہوا جس میں تمام مذاہب کے لوگوں نے شرکت کی۔
15؍اپریل1928ء کو مدرسہ احمدیہ کوجامعہ احمدیہ میں تبدیل کردیا گیا جس کا افتتاح20؍مئی1928ء کوہوا۔ مرکز احمدیت سے مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیشہ آواز اٹھی۔نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح کے نام سے رسالہ شائع ہوا۔جماعت احمدیہ نےمسلم لیگ کا ہر قدم پر ساتھ دیا اورکشمیر کمیٹی میں نمایاں خدمات کیں۔قیام پاکستان میں مرکز احمدیت کا کردار بھی تاریخ کا ایک حصہ ہے۔
قادیان کی توسیع و ترقی
احمدیت کی ترقی کے ساتھ مرکز احمدیت کی ترقی و توسیع کی طرف بھی توجہ کی ضرورت تھی۔قادیان کے شمال مشرق میں محلہ دارالفضل1915ء میں آباد ہونا شروع ہوا۔جلسہ سالانہ 1931ء کے موقع پر تحریک کہ قادیان میں مکان بنائیں تاکہ وسعت پیدا ہو۔چنانچہ اس تحریک کے نتیجے میں قادیان کے مشرق میں 4؍اپریل 1932ء کومحلہ دارالانوار کا قیام ہوا۔25؍اپریل کو وہاں کوٹھی دارالحمد کی بنیاد رکھی گئی۔اسی طرح بیت النصرت،بیت الظفر،گیسٹ ہاؤس اور دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ بھی وہیں تعمیر ہوئے۔حضرت مصلح موعودؓ نے 27؍نومبر1914ء کے خطبہ میں منارۃ المسیح کی تکمیل کی تحریک فرمائی۔دسمبر1915ء میں منارة المسیح کی تعمیر مکمل ہوئی۔21؍جون 1917ء کو نُور ہسپتال کی بنیاد رکھی۔قادیان میں فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا 11؍مئی 1944ء کو قیام ہوا۔مجلس انصارسلطان القلم قائم ہوئی۔
قادیان میں گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد 27؍ستمبر1937ء کورکھا گیا۔1928ء میں ریل کی آمد سےقادیان کے مرکز احمدیت کوپورے ملک ہندوستان سے ملا دیا گیا۔1921ء میں قادیان کی4400 آبادی میں سے2300 احمدی تھے۔
جماعت احمدیہ کی بے لوث خدمات
جنگ عظیم اول کے نتیجے میں جب ہندوستان میں انفلوئنزا کی وبا پھیل گئی تو جماعت احمدیہ کے راہنما اور امام حضرت مصلح موعودؓ نےاپنی جماعت کو ہدایت فرمائی کہ بلا تمیز مذہب و ملت ہر قوم اور ہر طبقہ کے لوگوں کی تیمارداری اور علاج معالجہ کیا جائے۔چنانچہ اپنے امام کی ہدایت پر احباب جماعت نے لبیک کہا۔احمدی ڈاکٹروں اور طبیبوں نے اپنی آنریری خدمات پیش کرکے قادیان سمیت شہر بہ شہر اور قریہ بہ قریہ طبی امداد بہم پہنچائی اورا یسی بے لوث خدمات پیش کیں کہ دوست دشمن سب نے اس کا اقرار کیا۔
خلافت ثانیہ میں قیام امن عالم کےلیے مساعی
حضرت مصلح موعودؓ کے دورِ خلافت میں آپ کی شبانہ روز کوششوں اور کاوشوں کے نتیجے میں خدا نے بہت سی روحوں کو امن وسکون عطافرمایا۔کیا ہندوستان اور کیا ہندوستان سے باہرآپ کی شفقت اکناف ِعالم پہ محیط تھی۔جنگ زدہ علاقوں میں خدمت خلق سے لے کر ظالموں کی قید میں مظلوم جانوں کی گردنیں آزاد کروانے تک،مذاہب عالم کے مابین ہم آہنگی اور باہمی احترام سے لے کر سیاسی کشیدگی میں فریقین کو سمجھانے تک،ہر محاذ پہ حضرت مصلح موعودؓ نے گرانقدر خدمات انجام دیں اور امن ِعالم میں وہ کردار ادا کیا جس کی نظیر ملنا محال ہے۔دنیا میں موجودبے چینی اور فساد کی ایک بہت بڑی وجہ مذہبی عد م برداشت ہے اور تیسری دنیا کےممالک میں جاری کشیدگی کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔اگر ایک دوسرے کے مذہبی بزرگان کا احترام کیا جائے تو امن کی ایسی فضا قائم ہوسکتی ہے جس سے معاشرہ میں سکون آجائے۔اسی بنیاد کو حضرت مصلح موعودؓ نے ہندوستانی معاشرہ میں قائم کیا اور1928ء میں جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کاآغاز کیا۔جس کا مرکزی نکتہ یہ تھا کہ احمدیہ پلیٹ فارم سے تما م فرقوں اورتمام مذاہب کےلوگ آنحضرتﷺ کی خوبیاں اور عظمتیں بیان کریں۔ آپ کےپاکیزہ اخلاق کا تذکرہ کریں جس کےنتیجے میں معاشرہ میں نیکی اور رواداری کا ماحول پیدا ہو۔
دنیا میں امن اور صلح جوئی کی کوششیں جماعت احمدیہ کے علاوہ اور بھی بہت سے لوگ اور قومیں کرنے کی کوشش کرتی ہیں،لیکن ان کاوشوں کے پیچھے ذاتی یا گروہی مفاد کی کوئی نہ کوئی ایسی صورت پوشیدہ ہوتی ہے جس کے نتیجے میں بسا اوقات ان کی ساری کاوشیں یا تو رائیگاں جاتی ہیں یا پھر ان کے الٹ نتائج برآمد ہوتے ہیں۔لیگ آف نیشنز اوراقوام متحدہ اس کی بڑی مثالیں ہیں۔دنیا میں قوموں کے تنازعات حل کرنے کے لیے جنگ عظیم اول کے بعدلیگ آف نیشنز اورجنگ عظیم دوم کے بعد اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی گئی مگران کی تعمیر میں خرابی کی ایسی صورتیں رکھ دی گئیں جو مستقلاً ظلم اور بے انصافی کا عنوان ہیں اور اسی وجہ سے یہ دونوں ادارے اپنے بنیادی مقاصد میں ناکام رہے۔ اس کے متعلق جماعت احمدیہ کے امام نے پہلے سے متنبہ کر دیا تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فر ماتے ہیں:’’جب لیگ آف نیشنز قائم ہوئی، اُن دنوں مَیں انگلستان گیا ہوا تھا۔ میں نے اُسی وقت کہہ دیا تھا کہ یہ کبھی کامیاب نہیں ہوگی۔ کیونکہ قرآن کریم نے یہ شرط رکھی ہے کہ جب دوقوموں میں اختلاف ہو جائےاور اُن میں سے کوئی تمہارا فیصلہ نہ مانے تو باقی سب حکومتیں اُس پرمل کر لشکر کشی کر دیں۔ لیکن لیگ آف نیشنز میں اس قسم کی لشکر کشی کی کوئی صورت نہیں رکھی گئی اور اب جو یونائیٹڈ نیشنز کی انجمن بنی ہے اس کے متعلق بھی میں وہی کچھ کہتا ہوں کہ یہ بھی کبھی کامیاب نہیں ہوگی جب تک کہ وہ اپنے قواعد نہ بدلے۔ کیونکہ اِس میں بھی وہ شرائط پورے طور پر نہیں پائی جاتیں جواسلام نے تجویز کی ہیں۔ اس میں لشکرکشی کے لئے اختیارات تو رکھے ہیں مگر پھر بھی کوئی معین فیصلہ نہیں کیا گیا اور پھر اس میں بعض حکومتوں کو شامل کیا گیا ہے اور بعض کو شامل نہیں کیا گیا…. اس طرح بعض کو کم اختیارات دیئے گئے ہیں اور بعض کو زیادہ۔ گو یا اب بھی ایسے امتیازات رکھے گئے ہیں جن کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔ اس لئے یہ بھی کامیاب نہیں ہوگی۔ آج یورپ بڑا خوش ہے کہ اُس نے ایسا قانون مقرر کر دیا ہے۔ مگر اسے کیا معلوم کہ وہ قانون جو ہرلحاظ سے مکمل اور قابل ِعمل ہے، آج سے تیرہ سو سال پہلے کی نازل شدہ قرآنی آیات میں موجود ہے۔اگر اُس قانون پر عمل کیا جائے تو وہ جھگڑے جنہوں نے آج دنیا کو ہلاکت اور بر بادی کے گڑھے میں گرا رکھاہے بالکل دورہوجائیں اوردنیا ایک بار پھر امن اور اطمینان کی زندگی بسرکرنے کے قابل ہوجائے۔‘‘(تفسیرِ کبیر جلد 10صفحہ313)
امنِ عالم کےقیام کےلیے جماعت احمدیہ کا ایک سنہری اصول یہ ہے کہ احمدی اپنے ملک کا وفادار ر ہے اور اُس کی بہتری اور بہبود کےلیے کوشاں رہے اوراپنے ملک کی حکومت کے خلاف کسی بغاوت،فساد یا مظاہرے میں حصہ نہ لے۔ہاں قانونی اور اخلاقی ذرائع اختیار کرتا رہے۔1952ء میں انٹرنیشنل ورلڈ پیس ڈے منانے کے لیے جاپان کی ایک انجمن نے حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں لکھا کہ جماعت احمدیہ بھی قیامِ امن کی کوشش میں شریک ہواور اس اہم مقصد کے لیے ایک معین دن مقرر کر کے دعائیں کر یں۔حضورؓ نے دنیا بھر کی جماعتوں کو ہدایت کی کہ وہ 2؍اگست 1952ء بروز جمعہ قیام ِامن کے لیے دعا کر یں۔ عام راہنمائی کے لیے حضورؓ نے سورت الفاتحہ کی جامع دعا کو مندرجہ ذیل الفاظ میں یوں تحریر کیا:’’اے خدا ہمیں سیدھا رستہ دکھا۔ایسا رستہ جس پر مختلف اقوام کے چنیدہ لوگ جنہوں نے تیری رضا مندی کو حاصل کرلیا تھا چلے تھے۔ ہمارے ارادے پاکیزہ ہوں۔ ہماری نیتیں درست ہوں۔ ہمارے خیالات ہر بدی سے پاک ہوں۔ ہمارے عمل ہرقسم کی کجی سے منزہ ہوں۔ سچائی اور صداقت کے لئے ہم اپنی ساری خواہشات اور رغبتیں قربان کر دیں۔ایسا انصاف جس میں رحم ملا ہوا ہو ہمارے حصہ میں آئے اور ہم تیرے ہی فضل سے دنیا میں سچا امن قائم کرنے والے بن جائیں۔ جس طرح کہ تیرے برگزیدہ بندوں نے دنیا میں امن قائم کیا اور تو ہمیں ایسے کاموں سے محفوظ رکھ جن کی وجہ سے تیری ناراضگی حاصل ہوتی ہے اور تو ہمیں اس بات سے بچا کہ ہم جوشِ عمل سے اندھے ہو کر ان فرائض کو بھول جائیں جو تیری طرف سے عائد ہوتے ہیں اور ان طریقوں سے بے راہ ہو جا ئیں جوتیری طرف لے جاتے ہیں۔‘‘ (روزنامہ الفضل 9؍جولائی 1952صفحہ6)نصف صدی سے زائد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ مسندِ خلافت پہ جلوہ افروز رہے اور اک عالَم نے آپ سے فیض پایا۔قوموں نے نہ صرف آپ سے برکت پائی بلکہ حضرت مصلح موعودؓ نے امن اور صلح کے قیام کے تمام طریق اور ذرائع کی طرف بھی ان کی راہنمائی فرمائی۔سیاست،سماج،مذہب اور دفاع غرض ہر شعبہ میں آپ نے امن اور انصاف کے اصول بیان فرمائے۔
آپؓ کے زمانہ خلافت میں ایک طرف اقوام ِعالم میں آزادی کا شعور بیدار ہورہا تھا تو دوسری طرف صنعتی انقلاب سے دنیا ایک نئے دور میں داخل ہورہی تھی۔اسی کے ساتھ ساتھ عالمی جنگ بھی دنیا کے امن کو نہ صرف گہنا رہی تھی بلکہ بے چینی اور بے سکونی کی بڑی وجہ بھی بن رہی تھی۔ہندوستان ایک لحاظ سے ان سارے عوامل کا مرکز بنا ہوا تھا۔ترقیات اور انقلابات کے سنگ ایک شدید بے سکونی اور بدا منی کی لہر نے بھی اہلِ ہندوستان کو گھیرا ہوا تھا۔اس نقص امن کے زمانہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے احباب جماعت کو پے درپے نصائح فرمائیں کہ وہ ہر قسم کی امن شکن تحریک اور قانون شکنی کے طریق سے کلی طور پر مجتنب رہیں۔
چنانچہ اپنے راہنما امام کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے جماعت احمدیہ نے ان خطرناک ایام میں قیام امن کےلیے ہر ممکن جدوجہد سے کام کیا۔حتیٰ کہ حکومت کے ایک پریس کمیونک میں کھلے طور پر تسلیم کیا گیا کہ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو خطرے میں ڈال کر اپنے امام کی ہدایات پر عمل کیا ہے۔(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ220)یہی نصیحت آپ نے تمام ہندوستانیوں کو بھی فرمائی اور کہا کہ ’’یاد رکھیں وہی ملک ترقی کرسکتا ہے جس میں قانون کے احترام کا مادہ ہو۔‘‘البتہ جہاں فوجی حکومت کی طرف سے تشدد آمیز پالیسی اپنائی گئی اسے آپؓ نے نہایت قابل افسوس قرار دیا۔حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف سیاسی حوالوں سے جاری بدامنی ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا بلکہ مذہبی حوالے سے بھی شان دار خدمات انجام دیں۔23؍فروری 1919ء کو آپ نے معرکہ آراء تقریر’’اسلام اور تعلقات بین الاقوام‘‘کے عنوان سے فرمائی جس کاماحصل اپنے عنوان سے ظاہر ہے۔کشمیر کے مسلمانوں کی زندگیاں بدلنے سے لے کر فلسطین کے باشندوں کی راہنمائی تک اور تقسیمِ ہندوستان سے لے کر اقوام ِمتحدہ کے بنیادی چارٹر کے متعلق راہنمائی تک، ہر جگہ آپ امن کے قافلے کے سالار نظر آتے ہیں۔
قیامِ امن کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی کوششیں اور مساعی ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے۔تقسیمِ ہندوستان کے وقت جب خون کی ہولی کھیلی جارہی تھی، تب بھی آپ کی ذات ِبابرکات غمزدہ روحوں کے لیے موجب تسکین بنی ہوئی تھی۔ہزاروں لٹے پٹے قافلے آپ کے در پہ امن کی تلاش میں کشاں کشاں چلے آرہے تھے اور انہیں ہرگز مایوسی نہیں ہوئی۔قیام پاکستان کے بعد بھی آپ مسلسل ملکی و بین الاقوامی امن کے پیامبر کے روپ میں جلوہ گر رہے۔
14؍اگست1947ء کوقیام پاکستان کے بعدخدائی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفةالمسیح الثانیؓ نے جماعت احمدیہ کے ایک نئے مرکز ربوہ کی ابراہیمی دعاؤں کے ساتھ بنیاد رکھی۔ربوہ میں اشاعت اسلام کا کام پہلے سے بڑھ کر ہوا۔خلافت ثانیہ کے ہر سال میں کئی کئی مبلغین بیرون ملک میں اشاعت اسلام کے لیے تشریف لے جاتے۔مجلس مشاورت 1950ء میں مختلف ممالک سے 13 نمائندگان نے شرکت کی۔اس مجلس شوریٰ میں تبلیغ اسلام کے لیے جدید لٹریچر تیار کرنے کی تحریک ہوئی۔نیزحضور انور کی تحریک پرپورے پاکستان میں جلسہ ہائے سیرت النبیؐ کا انعقادہوا۔مارچ 1950ء میں چنیوٹ سے ربوہ لائبریری منتقل ہوئی۔ربوہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول،قصر خلافت،دفاتر تحریک جدید،دفاتر صدر انجمن احمدیہ،دفاتر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کا سنگ بنیاد رکھا۔اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الثانیؓ نے مسجد مبارک ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا۔
1954ء میں رسالہ مصباح ضیاء السلام پریس میں چھپنے لگا یہ پہلا رسالہ تھاجو ربوہ سے شائع ہوا۔نیزاخبار الرحمت جاری ہوا۔1951ء میں ربوہ سے رسالہ التبلیغ کا اجراہوا۔1951ء سے البدر قادیان سےدوبارہ جاری ہوا۔1949ء میں سوئیٹزرلینڈ سےرسالہ الاسلام کا اجراہوا جو بہت مقبول ہوا۔1957ء میں رسالہ تشحیذالاذہان کا دوبارہ اجراہوا۔ ربوہ سے رسالہ البشریٰ کا اجرا اکتوبر 1957ء میں ہوا۔
حضرت مصلح موعودؓ نے 1952ء کی مجلس مشاورت میں اردو اورغیر ملکی زبانوں میں اشاعت لٹریچر کے لیے دوکمپنیوں کے قیام کا اعلان فرمایا۔چنانچہ1953ء میں الشرکة الاسلامیة لمیٹڈ اور دی اورینٹل ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈ کے نام سے دو اہم اشاعتی اداروں کا قیام عمل میں آیا جنہوں نے مختلف کتب،قرآن مجید اور دیگر اسلامی کتب کی طباعت و اشاعت کا کام خاص طور پرکیا۔ الشرکة الاسلامیہ کی طرف سے روحانی خزائن،ملفوظات،مجموعہ اشتہارات،کتب حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ،کتب حضرت مصلح موعودؓ،کتب حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ،کلام حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ،کتب مصنفین سلسلہ،بچوں کے لیے کتب شائع ہوئیں۔دی اورینٹل ریلیجس پبلشنگ کارپوریشن لمیٹڈکی طرف سے قرآن مجید انگریزی ترجمہ اور تفسیر،جرمن اور ڈچ ترجمہ وغیرہ شائع ہوئے۔1953ءمیں سواحیلی میں قرآن کریم کا ترجمہ ہواجس سے افریقہ میں اشاعت اسلام میں کافی تیزی آئی حتی کہ جیل کے قیدیوں نے بھی اسلام قبول کیا۔
7؍جولائی1954ءکوضیاء الاسلام پریس کا افتتاح ہوا۔آپؓ نے قرآن،اس کے ترجمہ و تفسیر،حدیث،تاریخ احمدیت اور اسلامی لٹریچر کی وسیع اشاعت کے لیے 28؍نومبر1957ء کو ادارة المصنفین کا قیام فرمایا۔جس نے تفسیر صغیر،تبویب مسند احمد بن حنبل،ہدایة المقتصداردو ترجمہ وغیرہ شائع کیے۔ نیز مرکزی لائبریری قائم ہوئی۔
25؍جون 1953ء کوحضورؓنےفضل عمر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ ربوہ کا افتتاح فرمایا۔ جولائی1955ء کو لندن میں حضورؓ کا سب سے اہم کارنامہ عظیم الشان تبلیغی کانفرنس ہے جو تاریخ اسلام میں ایک انقلاب انگیز سنگ میل کی حیثیت سے کبھی فراموش نہیں کی جاسکے گی اور جس کے نتیجے میں غیر اسلامی دنیا میں تبلیغ کا ایک نیا دور شروع ہوا۔لندن میں مالٹا کے ایک انجنیئرنےحضور ؓ کے دست مبارک پر قبول اسلام کیا جس سے مالٹا میں جماعت احمدیہ کی بنیادپڑی۔اسی طرح سوئس دوست مسٹر سٹیوڈر کی بیعت ہوئی۔حضورؓ نےمبلغین اسلام کی کانفرنس میں مفید مشورے دیےاور تبلیغ اسلام کے لیےلائحہ عمل تجویز فرمایا۔
خلافت ثانیہ میں امریکہ میں واشنگٹن،جرمنی میں ہیمبرگ اورفرینکفرٹ، سوئٹزرلینڈ میں زیورک،ہالینڈ میں ہیگ،کینیا میں نیروبی کے علاوہ کئی ممالک میں 311 شاندارمساجد کی تعمیروتوسیع ہوئی۔
(جاری ہے)
٭…٭…٭