تاریخی دستاویزات بابت میموریل برائے رخصت جمعہ(قسط دوم)
(حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ بنام وائسرائے ہند برموقع تقریب تاجپوشی شہنشاہ جارج پنجم)
’’کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کے دل میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور آپؐ کے پیارے دین اسلام کی سچی محبت ہواور وہ اس میموریل کی مخالفت کرے یا اسے ناپسند کرے‘‘
شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی اور دربار دہلی کا انعقاد
13؍دسمبر 1911ء کو حکومت ہند نے تاج پوشی شہنشاہ جارج پنجم کی تاریخ کا اعلان کردیا تھا۔ اس تاریخی موقع پر مختلف تنظیموں اور گروہوں نے بادشاہِ وقت کے حضور اپنی مناجات اور مراعات کے حصول کے لیے درخواستیں بھجوانا شروع کیں۔ حضرت خلیفة المسیح الاولؓ نے بھی دہلی میں ہونے والی شہنشاہ جارج پنجم کی تاجپوشی کی تقریب(دربار دہلی) کو بہترین اورمبارک موقع گردانتے ہوئے تقریبا ً6 ماہ پیشتر جولائی کے مہینہ میں جمعہ کی چھٹی بحال کرنے کے لیے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے ایک تفصیلی مکتوب لکھا۔یہ خط حضور نے یکم جولائی 1911ء کو تحریر فرمایا جو 3؍جولائی کو میگزین پریس قادیان سے طبع ہوکر آیا اور پھر ہندوستان بھر میں بھجوایا گیا۔ مسلم لیگ کے ریکارڈ سے اس اصل خط کے بعض تراشے میسر آسکے جو قارئین کے استفادہ کے لیے دیے جارہے ہیں۔ (یہ خط اخبار بدر (قادیان) میں 20؍جولائی 1911ء میں مکمل موجود ہے۔)آپؓ فرماتے ہیں: ’’پس یہ لازمی امر ہے کہ ایسے عظیم الشان اور مبارک موقعہ پر طرح طرح کی امنگیں طبائع میں پیدا ہوتیں اور خصوصاً رعایا کے اس حصہ کے دلوں میں جواپنے بادشاہ کی وفاداری کواپنے مذہب کا ایک جزو سمجھتے ہیں۔‘‘ چنانچہ تمام مسلمانوں کو اس اہم ترین مسئلہ کی بابت توجہ دلاتے ہوئے اور بحیثیت امام جماعت احمدیہ آپ نے فرمایا کہ ’’اس مبارک موقعہ پر میں سلسلہ احمدیہ کا امام ہونے کی حیثیت سے ایک اہم امر کی طرف تمام مسلمانان ہند کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
نماز جمعہ کی اہمیت وفرضیت
حضور انور نے قدرے تفصیل کے ساتھ نماز جمعہ کی اہمیت اور فرضیت پر روشنی ڈالی۔ پھر آپؓ نے گورنمنٹ کی مذہبی آزادی کی پالیسی کی تعریف کی کہ کس طرح حکومت اپنی رعایا کے ہر طبقے کا خیال رکھ رہی ہے اور کوشش میں ہے کہ ہر ایک کو مذہبی آزادی حاصل ہو۔چنانچہ آپ اسی مکتوب میں فرماتے ہیں کہ ’’ ہماری مہربان گورنمنٹ نے صرف مذہبی آزادی کو مدنظر رکھ کر یہ ضروری قرار دیا ہے کہ سب قوموں کے بڑے بڑے تہواروں کےدنوں میں تمام سرکاری دفاتر اور سب عدالتیں وغیرہ بند رہیں تاکہ وہ حصہ رعایا جو ملازم گورنمنٹ ہیں اپنے دوسرے بھائیوں کےساتھ ان تہواروں کے منانےمیں شریک ہوسکیں‘‘۔اسی تسلسل میں آپؓ نے نماز جمعہ کی اہمیت اور اجتماعیت کے پیش نظر جمعہ کی رخصت کی بابت زور دینے کی تحریک کی اور فرمایا کہ ’’یہ امر تو ظاہرہوگیا کہ گورنمنٹ کادلی منشا یہ ہے کہ کسی قوم کو اپنے مذہبی فرائض کی ادائیگی میں کسی قسم کی روک محسوس نہ ہو لیکن جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے جہاں تک دیکھاگیا ہے اس قسم کی آزادی ابھی تک حاصل نہیں اور شہنشاہ ہند کی تاجپوشی کے مبارک موقعہ پر اس آزادی کے حصول کے لیے جس قدر زور دیا جائے کم ہے۔‘‘
حضور ؓکی تجویز
اس مقصد کے لیے آپ ؓ نے اس حقیقت کو جانتے ہوئے کہ پہلے سے رائج اتوار کی رخصت کی موجودگی میں ہفتہ میں مزید ایک اور رخصت دینا حکومت کے لیے ممکن نہ ہوگا یہ تجویز پیش کی کہ ’’جمعہ کےدن نماز جمعہ کے وقت یاتوسب دفاتر اور عدالتیں سکول کالج وغیرہ 2گھنٹے کے لیے بند ہوجاویں یا کم ازکم اتنی دیر کے لیے مسلمان ملازمین اور مسلمان طلباء کواجازت ہوکہ وہ نماز جمعہ اداکرلیں اس کے متعلق جملہ دفاترو جملہ محکموں میں گورنمنٹ کی طرف سے سرکلر ہوجائے ‘‘۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے اپنی تجویز سے پیشتر اس بات کو یقینی بنایا کہ ایسی تجویز گورنمنٹ کےسامنے پیش کرنی چاہیے جس سے نظام گورنمنٹ میں بھی کوئی مشکلات پیش نہ آویں۔اور مطلوبہ رخصت کے عنایت ہونے میں بھی مشکل نہ آئے۔
مصر کی مثال
حضورؓ نے مسلمانوں کو جمعہ کےروز اس مختصر رخصت دیے جانے کی دلیل اور نمونہ کے طور پرملک مصر کی مثال دی کہ اگرچہ وہاں انگریز حکومت ہی ہے مگر پھر بھی وہاں اتوار کی بجائے جمعہ کی ہفتہ وار رخصت قائم ہے۔ ’’مگر وہاں چونکہ ایک کثیر حصہ اعلیٰ عہدیداران کا انگریزوں کا ہے جوعیسائی مذہب رکھتے ہیں اس لئے گورنمنٹ نے ان کو یہ سہولت دے رکھی ہے کہ وہ اتوار کےدن چاہیں تو کام پرحاضر نہ ہوں۔اور اپنے کام کو باقی دنوں میں پوراکردیں۔ پس جہاں اعلی عہدیداران کومحض ان کی مذہبی آزادی قائم رکھنے کے لیے برٹش گورنمنٹ نےاس قدر اجازت دےدی ہے ہندوستان میں مسلمان ملازمین کوجن کی نسبت بھی کل عملہ سے بہت تھوڑی ہے صرف 2گھنٹے کے لیے اجازت کا مل جانا ایک یقینی امر ہے‘‘۔ حضورانور نے اپنے مکتوب کے آخر میں فرمایا کہ ’’ان وجوہات مذکورہ بالا کی بناپرہم نے ایک میموریل تیار کیاہےجو حضور وائسرائے ہند کی خدمت میں بھیجاجاوے گالیکن چونکہ جس امرکی اس میموریل میں درخواست کی گئی ہے وہ جملہ اہل اسلام کا مشترک کلیم ہے اس لیے قبل اس کے کہ یہ میموریل حضور وائسرائے کی خدمت میں بھیجاجاوے ہم نے یہ ضروری سمجھا کہ اس کا خلاصہ مسلمان پبلک اور مسلمان اخبارات اور انجمنوں کےسامنے پیش کیاجاوے۔‘‘
مسلمانوں کا ردعمل
اس اعلان کا ہر مکتبہ فکر کے مسلمانوں نے پُرجوش خیرمقدم کیا اور مسلمان مقدس اسلامی شعار کے تحفظ کے لیے پھر سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے۔ چنانچہ مسلم پریس نے اس کے حق میں پُرزور آواز اٹھائی اور پُرجوش الفاظ میں اداریے لکھے۔ اخبار ملت (لاہور) نے لکھا: ’’ملت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے کلی اتفاق کر کے جملہ انجمن ہائے وشاخ ہائے مسلم لیگ ومعزز اہل اسلام واسلامی پبلک اور معاصرین کرام کی خدمت میں نہایت زورمگر ادب کےساتھ درخواست کرتا ہے کہ مولانا ممدوح کی خواہش کےمطابق اس میموریل کی پرزور تائید کریں… امید ہے… کوئی شخص ایسی مبارک اورنیک تجویز کی مخالفت کرنے کی جرأت نہیں کرےگا۔‘‘
اخبار زمیندار نے لکھا:’’اس ضروری اور اہم تحریک کی سعادت مولانا نورالدین صاحب کے حصہ میں آئی ہے جنہوں نے قادیانی جماعت کے پیشوا کی حیثیت سے تمام مسلمانان ہند کی توجہ کو اس طرف مبذول کیا ہے … اور ہمیں یقین ہے کہ کوئی مسلمان ایسا نہ ہوگا۔ جو ایسے میموریل کے گزرانے کو بہ نگاہ احسان نہ دیکھے۔‘‘
اخبار الاسلام لاہور نے لکھا: ’’کیا کوئی ایسا شخص بھی ہے جس کے دل میں حضرت محمد مصطفیٰﷺ اور آپ کے پیارے دین اسلام کی سچی محبت ہواور وہ اس میموریل کی مخالفت کرے یا اسے ناپسند کرے کیا کوئی مسلمان ایسا کرسکتا ہے ہرگز نہیں …آل انڈیا مسلم لیگ کا فرض ہے کہ وہ اس معاملہ کو ہاتھ میں لے۔ اور ایک میموریل تیار کرے۔ تمام انجمنوں وڈسٹرکٹ لیگوں کافرض ہے کہ وہ اس میموریل کی تائید میں ریزولیوشن پاس کریں تمام رسالوں اوراخباروں کا فرض ہے کہ اس معاملہ کو اس وقت تک نہ چھوڑیں جب تک کہ اس میں کامیابی نہ ہوجائے۔‘‘
اخبار اہلحدیث امرتسر نے لکھا: ’’حکیم صاحب نے ایک اشتہار سب مسلمانوں کی اتفاق رائے اور تائید کے لئے اس امر کے متعلق دیا ہے کہ دربار تاج پوشی دہلی کے موقعہ پر گورنمنٹ سے ایک میموریل کے ذریعہ جمعہ کی نماز کے لئے 2گھنٹہ کی تعطیل حاصل کی جائے اور بذریعہ سرکاری سرکلر سرکاری دفاتر، سکولوں اور کالجوں میں یہ تعطیل ہونی چاہئے… حکیم صاحب کی رائے سے ہم متفق ہیں۔ تمام مسلمانوں کی معرفت بھیجنا چاہیے۔‘‘
افشاں نے لکھا: ’’اس میں شک نہیں کہ یہ تحریک نہایت مناسب اور ضروری ہے اور کسی مسلمان کو اس قسم کی ضرورت سے انکار نہیں ہوسکتا۔‘‘(تاریخ احمدیت جلد3 صفحہ380-381)
٭…٭…٭