متفرق مضامین

کرومبر لیک ٹریک

(’م۔ ا۔ مالاباری‘)

تعارف

کرومبر جھیل وادئ بروغل میں پائی جانے والی نیلے رنگ کی ایک صاف جھیل ہے۔ وادی بروغل میں خطے کے اہم پھل پیدا ہوتے ہیں جن میں اخروٹ، خوبانی، سیب اور بادام شامل ہیں۔ مقامی ذرائع معاش کو بہتر کرنے کے لیے بہتر ین پیداوار کی بہت گنجائش ہے۔کرومبر پاکستان کی دوسری بلند ترین الپائن جھیل ہے جو کہ سطح سمندر سے ۴۲۷۲؍ میٹر کی بلند ی پر واقع ہے۔ خالص برفانی پانی اور کسی بھی آلودگی سے پاکی اِسے بہت دلکش بناتی ہے (چونکہ اس دور افتادہ جھیل تک بہت کم سیاح آتے ہیں یہاں تک پہنچنا انتہائی مشکل ہے اور مقامی لوگوں کے مطابق بہت سے لوگ جھیل تک پہنچے بغیر ہی واپس لوٹ جاتے ہیں)۔ کرومبر جھیل دراصل گلگت بلتستان کے ضلع غذر میں واقع ہے، اس لیے آپ اپر چترال، لشکر گاز سے سفر کرتے ہیں اور کرومبر پہنچنے کے لیے گلگت بلتستان میں داخل ہوتے ہیں۔ آپ کا لشکر گاز سے کرومبر تک کا تمام سفر افغانستان کے ساتھ سرحد پر ہےاور یہ تمام علاقہ واخان کوریڈور کہلاتا ہے۔ سرحد (واخان کوریڈور) سے ۶.۵ کلومیٹر دور تاجکستان ہے۔آپ چپورسن وادی میں چِلینجی پاس سے ہوتے ہوئے بھی اس خوبصورت جھیل تک پہنچ سکتے ہیں لیکن یہ راستہ بہت مشکل اور تکنیکی ہے اس لیے زیادہ تر سیاح اَپر چترال سے لشکرگاز سے ہوتے ہوئے کرومبر جھیل تک رسائی حاصل کرتےہیں۔

کرومبر جھیل کا ایک خوبصورت منظر

خاکسار نے اس دفعہ سالانہ طویل ٹریکنگ کے لیے کرومبر جھیل ٹریک کا انتخاب کیا۔ خاکسار نے تیرہ مضبوط خدام کا ایک گروپ اکٹھا کیا۔ ہم سب مل کر پہلے بھی کئی ٹریکس کرچکے تھے بلکہ اس گروپ میں دو افراد ایسے بھی تھے جن کےساتھ خاکسار نے ۲۰۱۷ءمیںکے ٹو بیس کیمپ کا ٹریک کیا تھا۔

ہم نے معمول کے مطابق عید الاضحی ۲۰۲۱ء کے دوسرےدن اپنے سفر کا آغاز کیا اورہم لاہور سے بذریعہ لواری پاس چترال پہنچ گئے۔

پہلا دن:پہلے دن ہم صبح ۷ بجے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچے جہاں سے ہم نےراولپنڈی کے لیے ٹرین میں سفر کیا جو کہ بہت ہی یاد گار سفر ثابت ہوا کیونکہ اس سے پہلے ہم نےکبھی بھی ٹور کے لیے ٹرین کے سفر کا انتخاب نہیں کیا تھا۔ تمام دوستوں نے اِس نئے تجربہ کو پسند کیا اور تقریباً دوپہر ۲ بجے ہم راولپنڈی سٹیشن پہنچ چکے تھے وہا ں ہم نے دوپہر کا کھانا کھایا اور وہاں سے پیر ودائی اڈہ پہنچے جہاں سے ہم نے ۶:۳۰بجے شام کوسٹر کے ذریعہ بونی کے لیے روانہ ہونا تھا۔ کچھ وقت اڈہ پر گذارنےکے بعد ہماری کوسٹر گاڑی اپنے مقررہ وقت سے ایک گھنٹہ دیر سے چلی خیر سفر کا آغاز تو ہوا، رات کا کھانا کہیں راستے میں کھایا۔ صبح فجر کے وقت سے کچھ پہلے ہم مشہور لواری ٹنل سے گزرے لیکن زیادہ تر دوست نیند کی آغوش میں تھے۔اس طرح پہلا دن سفر کرتے کرتے گزر گیا لیکن ہم سب اتنے پُر جوش تھے کہ ہمیں سفر کی تھکاوٹ کا بھی احساس نہ ہوا۔

دوسرادن:دوسرے دن صبح ہم تقریباً دس بجے بونی پہنچے جوکہ چترال سے ۹۲؍ کلو میٹر آگے ہے۔بونی میں ہمارا جیپ ڈرائیور افتخار احمد جیپ لیے بونی اڈہ پر ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ہم نے اپنا سامان کوسٹر کی چھت سے جیپ کی چھت پر شفٹ کر دیا اور سفر جاری رکھا۔اگلا قیام مستوج کے مقام پر کیا گیا جہاں سے بائیں جانب وادی بروغل کی طرف راستہ جاتا ہے جو کہ ہماری منزل تھی۔ مستوج میں ہم نے ناشتہ کیا اور دوبارہ سفر کا آغاز کر دیا۔ رات کے قیام کے لیے ہم نے بروغل ویلی کے گاؤں لَشٹ کا انتخاب کیا ہوا تھامستوج سےکچی سڑک پر ۴×۴جیپوں کے ذریعہ لَشٹ آسانی سے پہنچا جا سکتا ہے لیکن یہ سفر کافی طویل ہے۔آخرکار آٹھ گھنٹے کے مسلسل جیپ سفر کے بعد ہم بروغل ویلی کےدلفریب گاؤں لَشٹ پہنچ چکے تھے اور ہم نے وہیں رات قیام کرنے کا فیصلہ کیا۔

تیسرادن:اگلی صبح سب نماز فجر پر اُٹھے نماز ادا کی اور کچھ دیر بعد کمروں سے نکل کر دلکش نظارہ دیکھنے کو ملا کیونکہ سورج نے ابھی چوٹیوں کو سنہری رنگ میں رنگنا شروع ہی کیا تھا۔

آج ہم نے اپنے پہلے دن کی باقاعدہ ٹریکنگ کا آغاز کرنا تھا لیکن اُس سے پہلے ابھی کچھ مزید سفر جیپ پر ہی کرنا تھا اور لَشٹ سے لشکر گاز کے مقام پرپہنچنا تھا جہاں سے ہمار ا اصل امتحان ٹریکنگ کی صورت میں شروع ہونا تھا۔ہم نے ناشتہ کرنے کے بعد تقریباً صبح ۷بجے خراماں خراماں پھر ایک دفعہ اپنی منزل کی طرف قدم بڑھا دیے راستہ میں چوٹی (KOYO ZOM)دکھائی دی جس کی اونچائی سطح سمندر سے۶۸۷۲؍میٹر ہے چوٹی دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ کسی اور دنیا میں قدم رکھ دیا ہے۔

KOYO ZOM چوٹی ۶۸۷۲میٹر بلند

ہماری منزل تو لشکر گاز تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا لشکر گاز سے تقریباً دس کلومیٹر پہلے گبریل کے مقام پر پہنچ کر معلوم ہوا کہ گبریل سے لشکر گاز کی سٹرک کا زیادہ تر حصہ بارشوں کی وجہ سے پانی میں ڈوب گیا اس لیے ہمیں یہیں سے اپنی ٹریکنگ کا آغاز کرنا پڑے گا یعنی مزید دس کلومیٹر کی ٹریکنگ کرنی پڑے گی۔

لشکر گاز تک کا ٹریک سب سے آسان حصہ تھا کیونکہ ہمیں زیادہ اونچائی حاصل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی صرف ایک خوفناک راستہ تھا جہاں بائیں جانب لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے دریائے یارخون کے کنارے پر چلنا پڑا ہم ڈیڑھ گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد آخر کار لشکر گاز پہنچ گئے۔لشکر گاز میں صرف ایک ہی گیسٹ ہاؤس موجود ہے جوکہ ایک خوش اخلاق ’’ سلطان ‘‘نامی شخص چلاتا ہے۔گیسٹ ہاؤس کے آس پاس صرف دو ہی گھر ہیں ایک سلطان کا اور دوسرا گھر اُس کے کزن کا۔ویسے تو لشکر گاز ایک بہت ہی پسماندہ علاقہ ہے لیکن خوبصورتی میں ایک دلدار علاقہ ہے اورلشکر گاز میں سالانہ پولو فیسٹیول بھی منعقد ہوتا ہے۔

لشکر گا ز سے ہماری منزل لالے ربات گاؤں تھا جہاں ہم نے رات قیام کا منصوبہ بنایا ہوا تھا ۔لشکر گاز سے ٹریکنگ کا ابتدائی مرحلہ انتہائی ہموار علاقے سے گذرا، پھر ایک تنگ گھاٹی میں آیا جس میں متعدد ندیاں تھیں۔ گھاٹی کے بعد دو راستے تھے، ایک شوارشِیر نامی گاؤں سے گذرتا تھا اور دوسرا شوارشِیر سے اوپر جاتا تھا۔ زیادہ تر ممبران نے اونچا راستہ اختیار کیا جبکہ میں نے ۲ دیگر ممبران کے ساتھ نیچے کا راستہ اختیار کیا۔

شوارشِیر کے بعد ٹریک تھوڑا سا مشکل تھا اور ہم نے ایک دو ندیوں کو عبور کیا ہمارا ہدف لالےرباط پہنچنا تھا جو وادی بروغل کے مقامی لوگوں کی گرمیوں کی بستی ہےہمیں لالے رباط پہنچنے میں کل پانچ گھنٹے لگے۔لالے رباط میں چرواہوں کی بہت سی جھونپڑیاں تھیں اور وہ سب خالی تھیں لالے رباط پہنچ کر ہم نے رات کے قیام کے لیے کیمپس لگائے۔

دو پکوان آلو قیمہ اور دال گوشت کو رات کے کھانے کے لیے گرم کیا۔ یہ سالن ہمارے پاس ٹِن پیک کی صورت میں موجود تھے اور آٹا گوندھ کر روٹیاں بنانا شروع کیں۔ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ یاک(جنگلی بیل ) اس علاقہ میں کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں مقامی لوگ اِنہیں عام گائے،بھینس کی طرح پالتے ہیں یاک کھلی چراگاہوں میں گھومتے رہتے ہیں۔یاک کا دودھ،دہی یا لسی چکھنے کا موقع کبھی کبھار ہی زندگی میں نصیب ہوتا ہے ہم نے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور مقامی لوگوں سے اپنی خواہش کا اظہار کیا اور خوش قسمتی سے دودھ نصیب ہو گیا جس سے ہم نے رات میٹھے کی ڈِ ش شیر خورما( سویاں) تیار کیں اور اس طرح یہ دن بھی اختتام پذیر ہوا۔

چوتھادن: اس دن ہمیں کرومبر جھیل پہنچنا تھا۔ وہ جھیل جس کے لیے ہم دور دور سے آئے تھے۔ بروغل اور اشکومان کی وادیوں کے درمیان سینڈویچ کی گئی حتمی خوبصورتی کو دیکھنے کے لیے ہر کوئی پُرجوش تھا۔اس دن ٹریک زیادہ تر حصہ خوبصورت گھاس کے میدانوں سے ہوتا ہوا گزرتا تھا۔ ٹریک شروع میں تقریباً ہموار تھا لیکن کرومبر جھیل کی طرف اونچائی حاصل کرنا شروع کر دی تھی۔ موسم بہت دھندلا تھا اور دو گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد ہلکی بارش شروع ہو گئی اس طرح یہ دن بھی پیچیدگیوں میں جاری رہا ۔

یقیناً منزل پر پہنچنے کی خوشی کسی بھی خوشی سے بڑھ کر ہوتی ہے زیادہ تر ممبران تقریباً دوپہر تین بجے جھیل پر پہنچ چکے تھے سب سے پہلے سب سے ضروری کام کے لیے کمیپس لگائے گئے اور کچھ دیر آرام کے بعد چائے اور پکوڑے بنانے کا انتظام کیا گیا اور تمام دوست ریفریشمنٹ سے لطف اندوز ہوئے۔

ریفریشمنٹ کے بعد کیپمس سے چھلانگ لگا کر باہر آنے اور فوٹو گرافی کرنے کا وقت تھا جب ہم جھیل کے کنارے پر پہنچے تو جو کچھ ہم نے دیکھا وہ ان بہترین مقامات میں سے ایک تھا جو ہمیں اپنے ٹریکنگ کیریئر میں شاید کم ہی دیکھنے کو ملا۔ وہاں ایک بہت بڑی جھیل تھی جس میں دھند چھائی ہوئی تھی اور پیچھے سے سورج چمک رہا تھا ایسا محسوس ہوا کہ اِس لمحہ کو اپنی یادوں میں اُتارنے کا یہ بہترین وقت ہے۔

گروپ فوٹوز اور انفرادی تصاویر بنائی گئیں اور جب میری فوٹو گرافی مکمل ہوئی تو میں جھیل کے کنارہ پر ایک بہت بڑی چٹان پر لیٹ گیا۔ ٹریکنگ کے دوران چٹانیں بستروں سے بھی زیادہ نرم محسوس ہوتی ہیں چٹان پر لیٹے لیٹے جھیل کی طرف دیکھتے ہوئے اس لمحہ کو اپنے اندر سمانے کی کوشش کرتا رہا۔

جب میں نیچے آیا تو واپسی کے سفر پر کچھ بات ہورہی تھی اور اکثریت نے اگلےدن ڈائریکٹ لشکر گاز جانے کے حق میں ووٹ دیا اس طرح یہ تجویز کثرتِ رائے سے منظور پائی۔اب اگلی صبح ناشتہ تیار کرنے اور سامان پیکنگ کے لیے ٹیمیں تشکیل دی گئیں تاکہ صبح بروقت ٹریک شروع کیا جا سکے اِ س کی وجہ یہ تھی کہ اب ہمیں دو دن کا ٹریک ایک دن میں کرنا تھا۔

پانچواں دن: اگلے دن ہم صبح ۹بجے کرومبرجھیل سے لشکر گاز کے لیے روانہ ہوئے آج کا سفر طویل تھا لیکن دوستوں نے عزم و ہمت کا مظاہرہ کیا اور تمام دوست بخیر و عافیت شام۷بجے تک لشکرگاز پہنچ گئے جہاں رات سلطان کے گیسٹ ہاؤس میں قیام کیا اور رات کے کھانے میں دوستوں کو اِس ٹور کی سب سے سپیشل ریسپی فروٹ ٹریفل پیش کی گئی جسے تمام دوستوں نے بہت پسند فرمایا۔

چھٹا دن:اس دن ہم نے صبح نماز فجرکے بعد اپنے ٹریک کا بقایا حصہ طے کیا اور ہم تقریباً ۸بجے گبریل پہنچ گئے جہاں ہمارا جیپ ڈرائیور پہلے سے موجود ہمارا انتظار کر رہا تھا گبریل پہنچ کر فوراً سامان جیپ پر رکھا اور سفر کا آغاز کر دیا دوپہر کے کھانے کے لیے لَشٹ میں اُسی گیسٹ ہاؤس میں رُکے جہاں آتے ہوئے ہم نے رات قیام کیا تھا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد سفر کا دوبارہ آغاز کر دیا گیا اور رات بونی پہنچ کر رات قیام کے لیے ہوٹل میں کمرے لیے گئے۔تمام دوست تھکاوٹ کا شکار تھے لیکن جب رات کے کھانے میں اِن کی تواضع چکن کڑاہی سےکی گئی تو تھکاوٹ کے نام سے ہی بے آشنا ہو گئے۔

ساتواں اور آٹھواں دن:ساتویں دن کی صبح بونی سے راولپنڈی تک کی کوسٹر کی بُکنگ پہلے ہی کروائی ہوئی تھی ساتویں دن کی رات ہم کوسٹر کے ذریعہ ہم راولپنڈی پہنچے اور رات کا کھانا کھانے کے بعد ٹرین کے زریعہ لاہور کے لیے روانہ ہو گئے اگلے دن کی صبح ۶بجے ہم لاہور پہنچ چکے تھے۔

اس سفر نے ہم پر قدرت کا ایک خوبصورت عکس چھوڑا ہے اور ہماری زندگیوں پر یہ نقش قائم رہے گا۔خاکسار نے اس سفر نامہ کو مختصراً بیان کرنے کی ایک ادنیٰ کوشش کی ہے امید کرتا ہوں آپ اِ س کوشش کو پسند فرمائیں گے۔

اہم درخواست: برا ئےکرم، اگر آپ کرومبرجھیل (یا کسی اَور جگہ) پر جائیں تو کوڑا کرکٹ پیچھے نہ چھوڑیں اور اس جگہ کو صاف ستھرا رکھیں اور تمام ریپرز اور خالی ڈبے اپنے ساتھ واپس لائیں اور ملک کو صاف ستھرا اور سرسبز رکھیں۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button