متفرق مضامینمضامین

مصالح العرب (قسط ۴۴۷)

(محمد طاہر ندیم۔مربی سلسلہ عربک ڈیسک یوکے)

(عربوں میں تبلیغ احمدیت کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے مسیح موعود کی بشارات، گرانقدر مساعی اور ان کے شیریں ثمرات کا ایمان افروز تذکرہ )

مکرمہ امینہ العیساوی صاحبہ (1)

مکرمہ امینہ العیساوی صاحبہ کا تعلق مراکش ہے جہاں ان کی پیدائش 1992 ءمیں ہوئی۔انہیں بفضلہ تعالیٰ جنوری 2012 ءمیں بیعت کرنے کی توفیق ملی اورپھر اللہ تعالیٰ نے انہیں لندن آنے کاموقع بھی عطا فرمایا۔ وہ احمدیت کی طرف اپنے سفر کا احوال کچھ یوں بیان کرتی ہیں۔

احمدیت میں داخل ہونے سے قبل میری زندگی بہت مختلف تھی۔اس میں ابہام، تضادات اور غیر منطقی وغیرمعقول امور کی بہتات تھی۔ نیز بوسیدہ روایات ومروجہ افکار کی اتباع اورخرافات کی تصدیق جیسے امور دینی زندگی میں بڑی اہمیت کے حامل تھے۔ افسوس کہ اس وقت مجھے علم نہ تھا کہ ان میں سے اکثر عقائد وہ نہیں ہیں جونبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے اور جن کی اتباع کا ارشاد فرمایا تھا۔

بعض معمولی اور سادہ سوالات

اگرچہ میری پیدائش ایک مسلم گھرانے میں ہوئی اور ہمارا خاندان کئی نسلوں سے مسلمان چلاآتا ہے ۔ ہم صوم وصلوٰۃ کی پابندی اور فروض واجبات کی حتی المقدور ادائیگی کی کوشش کرتے تھے لیکن ہمارے ذہن میں کبھی یہ سوال پیدا نہ ہوا تھا کہ جو کچھ ہم کررہے ہیں کیا یہ کافی ہے؟ کیا خدا تعالیٰ او راس کے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہی باتوں کی اتباع کرنے اورانہی فروض واجبات کو اسی نہج پر ادا کرنے کا ہمیں ارشاد فرمایا تھا؟!

اس طرح کے کئی او رسوال جوبظاہر بہت معمولی اور سادہ تھے لیکن ہم نے کبھی ان کے بارہ میں سوچا تک نہ تھاکیونکہ معاشرے کے رواج اورطورطریقوںکا پاس کرتے کرتے ہمارے دماغوں کی ساخت ہی کچھ ایسی ہو چکی تھی کہ جو بھی گھر میں یا گھر سے باہر کے معاشرے میں یا سکول میں کہا جاتا تھا اسی کو حق وصدق سمجھ کر اپنا لیتے تھے۔ اورمروّجہ افکار کی یہ ایسی خاندانی اور معاشرتی میراث تھی جس سے اِعراض کی کسی کو جرأت نہ تھی۔

ان امور میں سے ایک دو کا ذکر بطو رمثال ضروری ہے۔گھر کے ماحول میں ہم نے یہی سیکھا تھا کہ جنّوں سے ڈر کررہنا چاہئے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ ناراض ہو کر کسی کے سر پر سوار ہو جائیں۔ اس سلسلہ میں ہمیں یہ بات سمجھائی جاتی تھی کہ رات کے وقت گرم پانی نالیوں وغیرہ میں نہ گرائیں کیونکہ وہاں جنّ رہتے ہیں اور انہیں تکلیف ہو سکتی ہے۔

ہمیں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ جادو برحق ہے اورلوگ جادو کے ذریعہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیںخواہ وہ ہم سے کوسوں دور ہی بیٹھے ہوئے ہوں۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی جادو ہو گیا تھا۔

اسی طرح یونیورسٹی میں ہمیں علم ہوا کہ قرآن کریم میں کچھ آیات منسوخ بھی ہیںاور عیسیٰ علیہ السلام ابھی تک زندہ ہیں اوربجسمہٖ العنصری آسمان پر مرفوع ہیں۔ہمیں یہ بھی بتایا گیا کہ کفر بہت بری چیز ہے اور کفاروغیر مسلموں کے خلاف دل میں حِقد رکھنا عین اسلام ہے۔یہ امورہمارے دل ودماغ میں ایسے راسخ تھے جیسے ہمیں گھٹی میں پلادیئے گئے ہوں،اورہم اس پر فخر کیا کرتے تھے۔ ہم یہ بات بھول ہی گئے تھے کہ خدا تعالیٰ ربّ المسلمین نہیں بلکہ ربّ العالمین ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃللمسلمین نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین ہیں۔

احمدیت سے تعارف

زندگی اسی نہج پر رواں دواں تھی کہ 2011ءمیں اس میں ایک اہم واقعہ ہوا جس نے زندگی کے دھارے کو یکسر بدل دیا۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ادریس نامی میرا بڑا بھائی ہمارے شہر سے دور کسی اورشہر میں رہتا تھا۔ اسے دینی امور کے بارہ میں ریسرچ کرنے اورہر دینی بات کے سننے کا بہت شوق رہتا ہے۔ایک روز اتفاقًا اسے ایم ٹی اے العربیہ مل گیا اوروہ اس چینل کے پروگرامز دیکھنے لگ گیا۔ کچھ عرصہ کے بعد ا س نے اس بار ہ میں میری بڑی بہن کو بتادیا جو شادی شدہ ہے اور ہمارے شہر میں ہی رہتی ہے۔ پھر میری اس بہن کی جب میری والدہ صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو اس نے میرے نام یہ پیغام بھجوایا کہ ایم ٹی اے العربیہ نامی ایک چینل پر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ امام مہدی اور مسیح موعود کا ظہور ہوچکا ہے۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ مجھے تو ان باتوں کی کوئی سمجھ نہیں جب تم اس سے ملو گی تو خود ہی اسے یہ بات سمجھا دینا۔میری بہن نے ایک دکان سے کاغذ قلم لے کر چھوٹے سے ورق پرالحوار المباشر اور ایم ٹی اے کی فریکوئینسی لکھ دی ۔

اس وقت میری عمر اٹھارہ سال تھی۔باوجود کم عمری کے مَیں وقت پر نماز ادا کرنے کی پابند تھی اورمختلف دینی پروگرامز بڑے شوق سے دیکھتی تھی۔ مختلف دینی چینلز پر براجمان مولوی حضرات میں سے میں مصری شیخ حسان کی ہر بات کی آنکھیں بند کر کے تصدیق کرتی اوراسے follow کرتی تھی۔

والدہ صاحبہ گھر تشریف لائیں تو انہوں نے یہ ورق مجھے تھما دیا۔ میں نے ایم ٹی اے دیکھنا شروع کیا توایک عجیب تبدیلی محسوس کی کہ روز بروز میرا دیگر دینی چینلز کے ساتھ تعلق کم ہوتا چلا گیا۔ایم ٹی اے میں کوئی ایسی بات تھی جو مجھے اپنی طرف کھینچتی تھی۔ میرا متعصبانہ رویہ تبدیل ہوتا چلا گیا اورآہستہ آہستہ باتوں کی سمجھ آنے لگی۔ میںاس چینل کے پروگرامز دیکھتی اوربعد میں اپنی بہن کے ساتھ ان امور کے بارہ میںبحث کرتی۔ اس کی کیفیت بھی مجھ سے کچھ مختلف نہ تھی۔

تبدیلی کا احساس اورمخالفت

دن بدن میر ے اندر ایک عجیب احساس پیدا ہونے لگا۔ بعض اوقات جب میں جماعت احمدیہ، اس کے عقائد اور حقائق پر نظر کرتی تو میرے جسم پر لزرہ طاری ہوجاتا۔ میں ہر وقت انہی عقائد وتفاسیر کے بارہ میں سوچتی رہتی تھی اور بہت کم گو ہو گئی تھی۔ میری اس بدلی ہوئی تنہائی پسند اور خلوت نشیں طبیعت کو سب نے محسوس کیا اور مجھ سے اس کے بار ہ میں پوچھا۔ میں نے انہیں جنّات کی حقیقت اور وفات مسیح علیہ السلام کے بارہ میں جماعتی موقف بتایا تو وہ مجھے پاگل پن اور جنون کا طعنہ دینے لگے۔بعض نے کہا کہ تمہارا ان باتوں سے کیا تعلق ہے؟ تمہاری عمر ابھی بہت چھوٹی ہے اس لئے فی الحال دوسروں کی بات سنو او راس پر عمل کرو۔ اس عمر میں نئی نئی باتوں میں دلچسپی مناسب نہیں ہے۔بعض کو نہ جانے ان باتوںمیں کیا کچھ نظر آیا کہ جس کی بنا پر انہوں نے مجھے ڈاکٹر سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے مجھے شیعہ ہونے کا طعنہ دیا اور بعض نے میرے دائرہ اسلام سے خارج ہونے کا فتویٰ بھی صادر کردیا۔

استخارہ اور فیصلہ

چونکہ ہمارے معاشرے میں رائج بعض غلط عقائد اس قدر راسخ ہوچکے تھے کہ ان کی موجودگی میں یہ کہنا کہ لوگوں کے سر پر سوار ہونے والے جنّوں کا وجو د نہیں ہے یا عیسیٰ علیہ السلام وفات پاگئے ہیں ،کسی جرم کے ارتکاب سے کم نہ تھا۔ ان تمام امور کے باوجود میں نے کسی بات کی پرواہ نہ کی اور تحقیق کا سفر جاری رکھا۔یہاں تک کہ مجھے ذمہ داری کے بوجھ کا احساس ہونے لگا۔ تب میں نے خدا تعالیٰ کی طرف توجہ کی۔ یہ پہلا موقعہ تھاکہ میں اپنے خدا کے سامنے ایسی حالت میں کھڑی تھی کہ میرا ذہن طرح طرح کے سوالات کی آماجگاہ بن چکا تھا۔ایسے لگتا تھا جیسے کوئی بھاری بوجھ میرے سر پر رکھ دیا گیا ہو۔ میںنے اللہ تعالیٰ سے استخارہ کرتے ہوئے دعا کی کہ اے اللہ تو میرے لئے حق کو سچا کر کے واضح کردے اور مجھے اسکی اتباع کی توفیق عطافرمااور باطل کو جھوٹا کرکے دکھادے اور مجھے اس سے اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرما۔

میں اس وقت اشکوں کے سیلاب میں ڈوبی سوچ و فکر کے کسی اور ہی جہان میں منتقل ہو چکی تھی۔ یہ ایسا احساس تھا جسے میں چاہوں بھی تو الفاظ میں ڈھالنے سے قاصر ہوں۔یہ صورتحال چند روز تک قائم رہی تا آنکہ وہ دن آگیا جب میں نے جماعت میں داخل ہوکر سفینۂ نجات میں سوار ہونے کافیصلہ کر لیا۔یہ فیصلہ کوئی آسان نہ تھا لیکن میں اس بارہ میں بالکل مطمئن تھی۔ایسے لگتا تھا جیسے کوئی اندرونی قوت مجھے اس فیصلہ کی جانب کھینچے چلی جارہی تھی۔

اس موقع پر مجھے اپنی والدہ صاحبہ کی نصائح ابھی تک یاد ہیں۔ وہ مسلسل میری نگرانی کررہی تھیں اور ہمیشہ مجھے کہتی تھیں کہ امینہ! کیا تمہیں ان لوگوں کی صداقت پر پورا یقین ہے؟ مجھے تمہاری بہت فکر ہے۔

بیعت

میری والدہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہیں اور بہت سادہ ہیں،لیکن اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والی ہیں۔میں نے ان سے کہا کہ آپ میری فکر نہ کریںکیونکہ مجھے اچھی طرح علم ہے کہ میں کیا کررہی ہوں۔میں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔میری والدہ نے یہ سنا تو حیران ہوتے ہوئے کہا کہ تم کس کی بیعت کرنا چاہتی ہو؟پھر خود ہی کہنے لگیں کہ تم پڑھی لکھی ہو اور ان امور کو بہتر جانتی ہو۔مجھے یقین ہے کہ تم کوئی غلط فیصلہ نہیں کروگی۔ میںنے عرض کیا کہ مجھے صرف آپ کی دعا کی ضرورت ہے۔

یہ کہہ کر میں نے جماعت کی عربی ویب سائٹ کھولی اور وہاں پر یہ پیغام لکھاکہ میرا نام امینہ ہے او رمیں امام مہدی علیہ السلام کی بیعت کرنا چاہتی ہوں۔

تقریباً دو ہفتوں کے بعد مجھے ایک عورت کی فون کال موصول ہوئی۔ میرا نام پوچھنے کے بعد اس نے کہا کہ میرا تعلق جماعت احمدیہ مراکش سے ہے۔ یہ بات سنتے ہی میں حیرت زدہ ہو کر رہ گئی۔ میں تصور بھی نہ کرسکتی تھی کہ مراکش میں احمدی احباب موجود ہیں۔

دوست ،بھائی اوربہن کی بیعت

مجھے یاد ہے کہ اس وقت میں کچن میں تھی اور یہ سنتے ہی شدتِ جذبات کی وجہ سے میرے جسم پرکپکپی طاری ہوگئی ۔میں نے اس فون کال کے بعد اپنی بہن کو بتایا کہ میںنے بیعت کرلی ہے۔ اس نے مجھے مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ اس نے بھی بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ بہر حال میں نے اس کے بعد باضابطہ طو رپر بیعت فار م پُر کردیا۔مجھے یاد ہے کہ اس وقت میرے ساتھ سمیہ نامی میری ایک دوست بھی تھی ۔میں بیعت فارم پر دستخط کرتے ہوئے یوں محسوس کررہی تھی جیسے آج میری نئی پیدائش ہوئی ہوجبکہ میری یہ دوست میری طرف عجیب وغریب نظروں سے دیکھ رہی تھی جن میں استغراب وحیرت نمایاں تھی۔ ایسے لگتا تھا کہ جیسے وہ کہہ رہی ہوکہ امینہ تم یہ کیا کررہی ہو؟!

سمیّہ میرے اس سفر میںمیرے ساتھ ساتھ رہی۔ میں نے اسے ہر بات کی مکمل تفصیل وتشریح بتائی، اس کے ہر سوال کا تفصیلی جواب دیا ،لیکن وہ بیعت کی طرف مائل نہ ہوئی۔ وہ ہمیشہ خاموش ہوجاتی اور شک کا اظہار کرتے ہوئے کہتی کہ ہو سکتا ہے تمہارا اقدام غلط ہو۔ اس کے علاوہ اس نے کبھی جماعت کے خلاف کوئی بات نہ کی بلکہ اس کا طریق یہ تھا کہ ہربات خاموشی سے سنتی رہتی تھی۔ بالآخر پانچ سال کی تحقیق اور سوالات کے بعدخدا کے فضل سے اب اس نے بھی بیعت کرلی ہے ۔

کچھ عرصہ کے بعد میری بڑی بہن او راس بھائی نے بھی بیعت کر لی جس کے ذریعہ ہمیں احمدیت کے بارہ میں علم ہوا تھا۔عجیب بات یہ ہے کہ سب سے پہلے میرے بھائی کو جماعت کا پتہ چلا پھر اس نے میری بڑی بہن کو بتایا او رسب سے آخر پر انہوںنے مجھے اس بارہ میں بتایا۔ میری بیعت پر میرے بھائی نے کہا کہ چھوٹی عمر ہونے کے باعث میں نہیں سمجھتا تھا کہ تم اس بارہ میں اس قدر تحقیق کروگی کہ ہم سب سے پہلے بیعت کر لوگی۔

بیعت کے بعد تبدیلی

بیعت کرکے مجھے محسوس ہوا جیسے مجھے بوسیدہ رسم و تقلید اوروراثتی عقائد سے رہائی مل گئی ہو۔ یہ وہی عقائد تھے جن کا حقیقی اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہ تھا۔اب میں نے حقیقی اسلام کی کھلی فضاؤں میں سانس لیتے ہوئے نئی روحانی زندگی کا آغاز کیا تھا۔

بیعت کے بعد میری زندگی دن بدن بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی۔ میرا طرز کلام اچھا ہوگیا۔ میرے اخلاق، میری عبادتیں حتی کہ میرا لباس بھی پہلے کی نسبت زیادہ باوقار ہوگیا۔ہر چیز میں بہتری کو میرے ارد گرد کے تمام لوگوں نے بھی محسوس کیا۔فالحمد للہ علی ذالک۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button