یورپ (رپورٹس)

جماعت احمدیہ یونان کا ساتواں نیشنل پیس سمپوزیم

(ارشد محمود۔ نمائندہ الفضل انٹرنیشنل یونان)

اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے جماعت احمدیہ یونان نے اپنا ساتواں نیشنل پیس سمپوزیم مورخہ ۱۶؍ مارچ ۲۰۲۳ء بروز جمعرات Divani Caravel Hotel ایتھنز میں ’’ازلی و ابدی امن کی بنیادیں‘‘ کے موضوع پر منعقد کیا جس میں مکرم عبد اللہ واگس ہاوٴزر صاحب امیر جماعت جرمنی نے بطور نمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ شرکت کی۔

اس پروگرام میں قرآن کریم اور جماعتی لٹریچر کی نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ امن، انسانیت اور مذہبی ہم آہنگی سے متعلق قرآن کریم کی مختلف تعلیمات کو بیان کرنے کے لیے پورے ہال میں چالیس سے زائد بینرز کی نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔

شام چھ بجے مکرم نیشنل صدر صاحب نے مقررین کو سٹیج پر آنے کی دعوت دی اور پروگرام کا آغاز حسب روایت تلاوت قرآن کریم اور اس کے ترجمہ سے ہوا۔ تقاریر سے قبل یونان میں ہونے والے نہایت افسوس ناک ٹرین حادثہ کے حوالہ سے ایک منٹ کی خاموشی کا وقت رکھا گیا جس کے بعد مربی صاحب نے جماعت احمدیہ کا مختصر تعارف کروایا۔ مندرجہ ذیل مقررین نے اپنی تقاریر پیش کیں:

۱۔مکرم موسیٰ سنگارے صاحب، صدر آئورین کمیونٹی ایتھنز۲۔مکرم پانایوتس کوروبلس صاحب، ممبر پارلیمنٹ، سابق وزیر داخلہ ۳۔ریورنڈ ڈاکٹر آریستارخوس واسیلیوس گریکاس صاحب، آرخیمانڈرائٹ، اسسٹنٹ پروفیسر تھیالوجی، ایتھنز یونیورسٹی ۴۔مکرم مارکو نوتارباتولو ڈی شیارا صاحب، سربراہ فیلڈ یونٹ UNHCR Greece ۵۔ریورنڈ پادری جارج داگاس صاحب، نمائندہ کیتھولک آرچ بشپ ایتھنز

ان مقررین کی تقاریر کے دوران عطاء النصیر صاحب صدر و مربی سلسلہ یونان نے مندرجہ ذیل سرکردہ لوگوں کے امن سمپوزیم کے لیے پیغامات پڑھ کر سنائے:

۱۔مکرمہ ایرینی آگاتھوپولوس، ممبر پارلیمنٹ کلکس یونان ۲۔مکرم پانایوتس سیمندیراکس، میئر خانیا، کریٹ ، یونان ۳۔ہز اکیسیلنسی جان رومیو پاولوسکی صاحب، اپوسٹولک ننسیو، یونان میں نمائندہ پوپ فرانس۔

ان تقاریر کے آخر میں مربی صاحب نے حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا۔

پیغام حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کا اردو مفہوم

مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ جماعت احمدیہ یونان ۱۶؍ مارچ ۲۰۲۳ء کو اپنا ساتواں سالانہ پیس سمپوزیم منعقد کر رہی ہے جس کا موضوع ’’ازلی و ابدی امن کی بنیادیں‘‘ ہے۔ میری دعا ہے کہ یہ تقریب ہر لحاظ سے کامیاب و کامران ہو۔اور اس میں شامل ہونے والے تمام افراد امن کی ضرورت کو سمجھیں اور دنیا میں امن کے قیام کی خاطر خود کو وقف کر دیں۔مجھے یقین ہے کہ آپ سب بھی امید کرتے ہیں کہ حالیہ سالوں میں ہونے والے واقعات اور جنگوں کی وجہ سے جو دنیا کے امن کو نقصان پہنچا ہے اس کا اختتام ہو جائے۔اور ایک ایسی پر امن دنیا ابھرے جس میں تمام لوگ اور قومیں دوستانہ ماحول میں اکٹھے رہیں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔

میں ایک عرصے سے ایک بڑے پیمانے پر ہونے والی عالمی جنگ کے متعلق خطرات پر بات کر رہا ہوں۔ اور اس کے مہلک اورتباہ کن اثرات سے خبردار کر رہا ہوں۔ بدقسمتی سے ایسا لگ رہا ہے کہ اس پیغام کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا ہے۔میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ ہےکہ دنیا اللہ تعالیٰ سے دُور جا پڑی ہے ۔اور انہوں نے مادی فوائد اور دنیاوی خواہشات کے حصول کو ہی اپنی زندگی کا بنیادی مقصد بنا لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ بیسویں صدی میں اسی بے سود اور لالچ وحرص کے تتبع نے دو بار دنیا کو تباہ کن اور خوفناک عالمی جنگوں میں جھونک دیا۔تاریخ کی ان خوفناکیوں سے کچھ سبق سیکھنےکی بجائے ایک بار پھر دنیا پر جنگ وجدل کا بھوت سوار ہو چکا ہے۔

میری دعا ہے کہ دوسروں کوزیر نگیں کرنے اور اپنے حقوق کا ڈھول پیٹنے کی بجائے قومیں اور ان کے لیڈر ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کے فوائد کو سمجھیں۔ اور دنیا کے مسائل کا ذمہ دار کچھ مذاہب یا کسی خاص نسل کے لوگوں کو ٹھہرانے کی بجائے ایک دوسرے کے عقائد اور روایات کےلیے برداشت پیدا کریں اور معاشرے میں اس تنوّع کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں۔

جب ہم بانی اسلام آنحضرتﷺ کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو پتا چلتا ہےکہ جب آپؐ نے مدینہ ہجرت کی تو آپؐ نے یہودیوں کے ساتھ ایک معاہدہ کیا تھا۔جس کا مقصد مسلمانوں اور یہودیوں کا باہمی ہمدردی ،برداشت اور برابری کے جذبات کی روح کے ساتھ آپس میں مل کر رہنا تھا۔ اور یہ معاہدہ مدینہ میں رہنے والے مختلف لوگوں کے درمیان انسانی حقوق،حکمرانی اور امنِ عامہ کے قیام کو یقینی بنانے والا عظیم الشان سند نامہ ثابت ہوا۔ اس کی شرائط کے مطابق تمام لوگ مذہب و ملت کے فرق کے بغیر ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کے پابند تھے۔عقائد اور اپنے اچھے برے کے اختیار کی آزادی اس معاہدے کے بنیادی جزو تھے۔درحقیقت مدینہ کے اس معاہدہ کی بنیاد عین قرآن کریم کی تعلیمات تھی۔جیسے کہ سورت نحل آیت ۹۱ میں اللہ فرماتا ہے کہ ’’یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کااور اقرباء پر کی جانے والی عطاکی طرح عطا کا حکم دیتا ہے‘‘۔

اس آیت میں قرآن دوسرے لوگوں اور قوموں سے تعلقات کی تین درجات میں درجہ بندی کرتا ہے۔سب سے پہلا اور نچلا درجہ انصاف ہے جہاں قرآن اس بات کا حکم دیتا ہےکہ ہر کسی کے ساتھ جائز اور برابری کی سطح کا سلوک کیا جائے یہاں تک کہ سچائی ،دیانتداری اور انصاف کے اصول کو قائم کرنے اور اس کا بول بالا کرنےکےلیے اگر اپنے خلاف یا اپنے پیاروں کے خلاف بھی گواہی دینی پڑے تو وہ گواہی دے۔

دوسرا درجہ جس کا حکم قرآن نے دیا ہے وہ یہ ہےکہ نہ صرف وہ انصاف کا قیام کرے بلکہ اس سےبھی آگے جا کر اچھائی کے طریق کو اختیار کرتے ہوئے دوسروں سے حسن سلوک کرے اور ان کے قصور معاف کر دے۔

تیسرا درجہ جو قرآن نےہمیں سکھایا ہے وہ یہ ہےکہ انسان دوسروں سے اس طرح کا سلوک کرے جیسے ایک ماں محبت سے اپنے بچے سے سلوک کرتی ہے اور اس میں کوئی بھی نفسانی خواہش شامل نہیں ہوتی۔ دوسروں کے ساتھ اس طرح کا سلوک کرنا آسان نہیں ہے۔لیکن بہرحال اس درجہ کا حصول ہی ہمارا مقصد ہونا چاہیے۔

سادہ الفاظ میں دوسرے نفوس کے حقوق کی ادائیگی کرنا ہی اس اسلامی تعلیم کی پنہاں حکمت ہے۔ میری دعا ہےکہ ہم انسانوں کی اچھائیوں کو دیکھنے والے ہوں اور ایک دوسرے کی طاقت اور مہارت کو اپنے بچوں کی خاطر اس دنیا کو بہتر اور پُرامن بنانے اور معاشرے کے اندر لافانی امن کی بنیاد کے بیج بونے کے لیے استعمال کرنے والے ہوں۔یقینی طور پر اس کے متباد ل کچھ نہیں سوچا جا سکتا۔

میری دلی دعا ہے کہ اللہ انسانیت پر رحم کرے اور اللہ کرے کہ دنیا کے لوگ اور خاص طور پر لیڈر اور پالیسیاں بنانے والے عقل اور سمجھ سے کام لیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔اللہ آپ سب پر رحم کرے ۔

٭…٭…٭

امن سمپوزیم کی آخری تقریر مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ جرمنی و نمائندہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کی جس کے بعد انہوں نے اختتامی دعا کروائی۔ دعا کے بعد معزز مہمانوں کی خدمت میں عشائیہ پیش کیا گیا۔

اس پروگرام میں یونان کی مختلف مذہبی، سیاسی، سفارتی، سول اور انسانی حقوق کی شخصیات نے شرکت کی۔ امن سمپوزیم کی کُل حاضری ۷۰؍ سے زائد رہی جس میں غیر از جماعت مہمانوں کی تعداد ۵۰؍ سے زائد تھی۔

حضور انور کی دعاوٴں کے طفیل اللہ تعالیٰ نے اپنے بہت سارے افضال کی بارش کی۔ ٹرین حادثہ کی وجہ سے ملک بھر میں ہڑتالوں کا سلسلہ جاری تھا۔ پروگرام سے ایک روز قبل امن سمپوزیم کے دن بھی ہڑتال کا اعلان ہوگیا جس کی وجہ سے ایتھنز کی ٹرانسپورٹ بُری طرح متاثر ہوئی تھی جس پر مربی صاحب نے حضور انور کی خدمت میں دعا کی درخواست کا خصوصی پیغام بھجوایا۔ پروگرام کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ پروگرام کے دوران اضافی ٹیبل اور کرسیاں مہمانوں کو بٹھانے کے لیے لگانی پڑیں۔ بعض مہمان کئی کلومیٹر کا پیدل سفر کر کے سمپوزیم میں شامل ہوئے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

میڈیا کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام ہزاروں لوگوں تک پہنچا۔

یونان کے نیشنل ٹی وی ERTکی ویب سائٹ نے پیس سمپوزیم کے متعلق تفصیلی رپورٹ اور حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اسی طرح یونان کے ایک سرکردہ میگزین Greek Diplomatic Life نے امن سمپوزیم کی رپورٹ اور حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا پیغام مع تصویر اپنے میگزین میں شائع کیا۔ یہ میگزین یونان بھر کے تمام سرکردہ دفاتر اور ایمبیسیوں میں جاتا ہے۔ ویب سائٹ کے ذریعہ بھی اس میگزین کی سرکردہ لوگوں تک پہنچ ہے۔

فیس بک کے ذریعہ بھی امن سمپوزیم اور جماعتی تعارف کی تشہیر ۴۵؍ ہزار سے زائد افراد تک ہوئی۔ الحمد للہ علیٰ ذالک

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button