حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کی (آن لائن) ملاقات

آپ سب کو قواعد و ضوابط کے مطابق عمل کرنا چاہیے جیسا کہ آپ کے قواعد و ضوابط کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔ اپنے شعبوں کو قواعد و ضوابط کی کتاب میں بیان کردہ ہدایات کے مطابق چلائیں
اور پہلے سے زیادہ چاق و چوبند ہو کر کام کریں ۔آپ کے کاموں میں نمایاں فرق نظر آنا چاہیے

مورخہ۲۶؍نومبر۲۰۲۳ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جماعت احمدیہ ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو کی نیشنل مجلس عاملہ کے ممبران کی آن لائن میٹنگ منعقد ہوئی۔ حضورِ انور نے اس ملاقات کو اسلام آباد (ٹلفورڈ) ميں قائم ايم ٹی اے سٹوڈيوز سے رونق بخشی جبکہ اراکینِ عاملہ جماعت ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو نے کووا(Couva) شہر میں واقع نیشنل ہیڈ کوارٹر سے آن لائن شرکت کی۔

حضور انور نے السلام علیکم کہنے کے بعد دریافت فرمایا کہ سامنے بیٹھے ہوئے کیا تمام اراکین عاملہ ہیں؟ اس پر اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا گیا کہ اراکین عاملہ کے علاوہ کچھ زائرین بھی موجود ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضور انور مسکرائے اور فرمایا کہ آپ کی کافی بڑی عاملہ ہے۔اس کے بعد حضور انور نے دعا کروائی جس کے ساتھ میٹنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

دورانِ ملاقات اراکین نیشنل مجلس عاملہ کو اپنے شعبہ جات کا تعارف، اپنے مفوضہ کاموں اور اہداف کے حصول کے ضمن میں بروئے کار لائی گئی مساعی کی کارگزاری کی تفصیل پیش کرنے کا موقع ملا۔

نائب امیر صاحب نے سب سے پہلے اپنی رپورٹ پیش کی نیز بتایا کہ وہ بطور سیکرٹری وصایا اور آڈیٹر بھی خدمات کی توفیق پا رہے ہیں۔ یہ سماعت فرما کر حضور انور نےمسکراتےہوئےفرمایا کہ سارے portfoliosتو آپ کے پاس ہیں۔ پھر ان سے پوچھا کہ آپ کی عمر کتنی ہے؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ آنے والے دنوں میں وہ ستّر برس کے ہو جائیں گے۔ حضور انور نےاس پر اظہار پذیرائی کرتے ہوئے فرمایا کہ ماشاءاللہ! اس کے باوجود آپ ان تمام شعبہ جات میں کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

شعبہ وصایا کے حوالے سے اپنی رپورٹ پیش کرتے ہوئے موصوف نے بتایا کہ ہمارےکل اکیس موصیان ہیں جن میں ۹؍مرد اور۱۲؍ خواتین شامل ہیں۔حضور انور نے اس پر فرمایا کہ آپ کی عورتیں مردوں سے زیادہ متّقی اور پرہیزگار ہیں۔

پھر حضور انور نے اراکین مجلس عاملہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے استفسار فرمایا کہ ان میں سے کتنے موصی ہیں؟نیز موصیان کو اپنا ہاتھ بلند کرنے کے لیے ارشاد فرمایا۔ پھر حضور انور نے نشاندہی فرمائی کہ آپ کے اراکین عاملہ کے علاوہ صرف تین دیگر موصیان ہیں۔ مزید برآں اراکین عاملہ کی بابت ہدایت فرمائی کہ ان سب کو وصیت کرنی چاہیے اور اگر یہ وصیت کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہو گا کہ آپ کے۳۳؍ فیصد کمانے والے موصی ہیں۔حضور انور نے مزید تلقین فرمائی کہ آپ کو اپنے گھر سے کام شروع کرنا چاہیے، کم از کم آپ کےتمام اراکین مجلس عاملہ موصی ہونے چاہئیں، ان کی قربانی کا معیار عام افراد جماعت سے بہت بڑھ کر ہونا چاہیے۔

آخر پر موصوف نے آڈٹ (audit) کے حوالے سے بتایا کہ جماعت کے اکاؤنٹس ماہانہ بنیادوں پر چیک کیے جاتے ہیں۔

اس کے بعد جنرل سیکرٹری کو اپنے شعبہ کی رپورٹ پیش کرنے کا موقع ملا۔ حضور انور نے اس شعبہ کی اہمیت کو اجاگر فرمایاکہ یہ ایک بہت اہم شعبہ ہے۔موصوف نے بتایا کہ ٹرینیڈاڈ میں سات جماعتیں ہیں اور کُل تجنید ۱۲۰۰؍ہے۔انہوں نے مزید بیان کیا کہ وہ تمام مجلس عاملہ کی میٹنگز میں شرکت کرتے ہیں، منٹس (minutes)لیتے اور تیار کرتے ہیں اور تفویض کردہ ذمہ داریوں کے سلسلہ میں امیر صاحب کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔

حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا جماعتیں ماہانہ رپورٹس بھیجتی ہیں؟ اس پر عرض کی گئی کہ رپورٹس امیر صاحب کے پاس جاتی ہیں۔ حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ جب رپورٹس امیر صاحب تک پہنچتی ہیں تو امیر صاحب کو چاہیے کہ وہ انہیں آپ کی طرف مارک کر دیں تاکہ آپ ان کا جائزہ لیں، تجزیہ کریں اور ان پر تبصرہ کریں اور اگر ضرورت ہو تو مختلف شعبہ جات کی رپورٹس ان کے متعلقہ سیکرٹریان کو دیا کریں تاکہ وہ ان پرتبصرہ کر سکیں۔

حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ اپنے نظام کو صحیح طریقے پر منظّم کریں۔

سیکرٹری تعلیم نے عرض کیا کہ ان کے پاس سیکرٹری تربیت کی بھی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ وہ آن لائن کلاسز کا انعقاد کر رہے ہیں۔ یہ سن کر حضور انور نے موصوف کو توجہ دلائی کہ آپ اپنے جماعتی شعبہ تعلیم کو ذیلی تنظیم کے شعبہ تعلیم سے الجھا رہے ہیں۔ حضور انور نے جماعت کے شعبہ تعلیم کے اصولی مقاصد کا خاکہ بیان کرتے ہوئے وضاحت فرمائی کہ جماعت اور ذیلی تنظیموں کے شعبہ تعلیم میں فرق ہے، جماعت کے شعبہ تعلیم کا کام سکول اور یونیورسٹی جانے والے تمام طلبہ کا ڈیٹا (data)رکھنا ہے۔

حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ طلبہ کا ریکارڈ رکھیں اور ان کی صحیح راہنمائی کریں اور ان کی مناسب کونسلنگ (counselling) کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دیں تاکہ جماعت کےطلبہ کو اپنے مضامین کے انتخاب میں بہتر مواقع مل سکیں اور ان کی صحیح راہنمائی ہو، یہ شعبہ تعلیم کا کام ہے۔

حضور انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ آپ کا جماعتی لٹریچر وغیرہ سے کوئی تعلق نہیں ، لہٰذا آپ کو جماعت کے شعبہ تعلیم اور جماعت کے شعبہ تربیت میں امتیاز کرنا چاہیے۔

بحیثیت سیکرٹری تربیت آپ مختلف جماعتوں کے سیکرٹریان تربیت کے کام کی نگرانی کر سکتے ہیں اور اس بات کی نگرانی کریں کہ آیا وہ صحیح کام کر بھی رہے ہیں یا نہیں اور ان کاتربیتی پلان کیا ہے؟

جماعتی سیکرٹریان تعلیم کے حوالے سے حضور انور نے توجہ دلاتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ انہیں نوجوانوں میں سے ہونا چاہیے تاکہ وہ طلبہ کے حالات سے واقف ہوں۔

حضور انورنے پھر دریافت فرمایا کہ کیا مجلس عاملہ منتخب ہے یا امیر صاحب کی سفارش کے مطابق بنائی گئی ہے؟ حضور انور کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ مجلس عاملہ منتخب ہوئی تھی۔

اس پر حضور انور نے امیر صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ کیا آپ جماعت کے قواعد و ضوابط نہیں پڑھتے؟ اگر آپ ایسا کرتے ہیں تو سیکرٹری تعلیم کو اپنی ذمہ داری کا علم ہونا چاہیے تھا۔ اگر وہ نہیں جانتے تو یہ آپ کی غلطی ہے۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟ آپ مشنری ہیں، امیر ہیں، آپ کو ان کی صحیح راہنمائی کرنی چاہیے۔آپ نے خلیفۃ المسیح کی نمائندگی صرف ایک خاموش شخصیت کے طور پر نہیں کرنی۔

سیکرٹری تربیت کو مخاطب کرتے ہوئے حضور انورنے دریافت فرمایا کہ آپ کا پلان کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ان کا پلان افراد جماعت کو جلسہ جات یوم مصلح موعود، یوم مسیحِ موعود ، یوم خلافت اور سیرت النبی ؐوغیرہ کی اہمیت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ آگاہ کرنا ہے۔

اس پر حضور انور نے تلقین فرمائی کہ یہ بھی دیکھیں کہ آپ ممبران جماعت کے دینی علم اور روحانی معیار کو بڑھانے کے لیے کس طرح سےکوشش کر سکتے ہیں۔

حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا کوئی سیکرٹری تعلیم القرآن و وقف عارضی نہیں ہے؟ امیر صاحب نے عرض کیا کہ سیکرٹری تعلیم و تربیت کے پاس یہ ذمہ داری بھی ہے۔

اس پر حضور انور نے توجہ دلائی کہ موصوف کے پاس تین ذمہ داریاں ہیں۔مجھے نہیں لگتا کہ آپ کے پاس وہاں کوئی قحط الرجال ہے،افرادی قوت یا potentialکی کمی ہے، آپ کے پاس وہاں کافی اچھا potential ہے۔ آپ کو مختلف عہدوں کے لیے مختلف لوگوں کا تقرر کرنا چاہیے۔

حضور انورنے امیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ اب آپ ضرورت پڑنے پر اور اپنے کام کو مؤثر طریقے سے سر انجام دینے کے لیے مختلف عہدوں پر مختلف لوگوں کو مقرر کریں۔ اور اگر جماعت نے ایک ہی شخص کو مختلف عہدوں کے لیے منتخب کیا ہے، تو آپ مرکز سے پوچھ سکتے ہیں، مجھ سے اجازت لے لیں کہ اگرچہ جماعت نے ایک شخص کو مختلف عہدوں کے لیے منتخب کیا ہے لیکن ہمارا خیال ہے کہ فلاں شخص اس کے لیے موزوں ہو سکتا ہے لہٰذا کسی اَور کو مقرر کر دیں۔ اگر آپ کی جماعت میں ۱۲۰۰؍ افراد ہیں تو آپ کو نوجوانوں میں سے زیادہ کارآمد افراد تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ آپ ان کی تربیت کر سکیں نیز اگر بوڑھے نوجوانوں کوٹریننگ نہیں دے رہے تو پھر وہ ذمہ داری کیسےسنبھالیں گے؟

اس کے بعد سیکرٹری مال کو بجٹ کے مختلف امور کی بابت رپورٹ پیش کرنے کا موقع ملا۔ حضور انورنے دریافت فرمایا کہ کیا وہ ممبران کے چندہ سے مطمئن ہیں اور اسے معیاری بنانے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے؟ موصوف نے بتایا کہ گذشتہ کچھ سالوں میں بہتری آئی ہے اور آہستہ آہستہ ترقی کی جانب مائل ہیں۔

حضور انورنے موصوف کو مخاطب کرتےہوئے مالی قربانی کی روحانی اہمیت کو اجاگر کرنے پر زور دیا نیز تلقین فرمائی کہ تمام ممبران کو مقررہ شرح کے مطابق چندہ کی ادائیگی کرنی چاہیے اور ان کو چندہ کی اہمیت معلوم ہونی چاہیے اور ان کو چندہ اللہ کی محبت کے حصول کی خاطر ادا کرنا چاہیے اور یہی چندہ ادا کرنے کا حقیقی مقصد بھی ہونا چاہیے ورنہ مجھے اس بات کی پریشانی نہیں ہے کہ ہم اپنے کام کیسے جاری رکھ سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ ہماری مدد کرے گامگر بات یہ ہے کہ ہمیں ان احمدیوں کے ذہنوں میں جو کما رہے ہیں یہ ڈالنا چاہیے کہ اللہ کی محبت حاصل کرنے کے لیے وہ چندہ ادا کریں۔ قربانی دینے سے،چندہ ادا کرنے سے اللہ تعالیٰ ان کی آمدنی اور ان کی روحانیت کے معیار میں بھی برکت ڈالے گا ۔

اس کے بعد عاملہ میں سے ایک ممبر فنانس کمیٹی کو حضورانور سے گفتگو کرنے کا موقع ملا، موصوف نے بتایا کہ وہ جماعت کے خصوصی پراجیکٹس پر کام کرنے کی توفیق پارہے ہیں۔

سیکرٹری وقف نو سے حضورانور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ واقف نو ہیں اور کس شعبہ سے منسلک ہیں؟ موصوف نے پہلے سوال کا جواب اثبات میں دیتے ہوئے عرض کیا کہ وہ آپٹومیٹرسٹ (optometrist) ہیں۔

اپنے شعبہ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ کل واقفینِ نَو کی تعداد چودہ ہے جن میں سے چار کی عمراٹھارہ سال سے زیادہ ہے اور باقی ابھی بچے ہیں۔ حضور انور نےدریافت فرمایا کہ کیا انہوں نے اپنےبانڈ (bond) کی تجدید کی ہے؟ جس پرموصوف نےعرض کیا کہ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ حضور انور نے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ آپ کیوں یقین سے نہیں کہہ سکتے ؟ آپ سیکرٹری وقف نو ہیں، آپ کو علم ہونا چاہیے۔ حضور انور نےاس حوالے سے مزید وضاحت فرمائی کہ پندرہ سال یا اس سے زیادہ عمر کے واقفینِ نو کو بذات خود اپنے بانڈ (bond)کی تجدید کرنی چاہیے کہ آیا وہ اپنا وقف جاری رکھنا چاہتے ہیں یا نہیں۔

مقررہ نصاب وقف نو کی بابت حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا آپ اس نصاب کو اپنے واقفین نو بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال کر رہے ہیں نیز ہر ماہ کتنی کلاسز منعقد ہوتی ہیں؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ اسے ابھی شروع کیا جا رہا ہے۔ حضور انور نے استفہامیہ انداز میں پوچھا کہ تو آپ صرف شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اب جب کہ میں نے پوچھا ہے تواس لیے آپ اب شروع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں؟ وقف نو سکیم کے گذشتہ چالیس سال میں آپ نے کچھ نہیں کیا؟ آپ کے سیکرٹری وقف نوہونے کا کیا فائدہ ہے؟حضور انور نے مزید دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے واقفین نو میں سے کسی کو جامعہ احمدیہ بھجوانے کی کوشش کی ہے؟اس پر موصوف نے نفی میں جواب دیا۔ آخر پرحضورانور نےدریافت فرمایا کہ کیا آپ نے واقفین نو سے ان کے مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں کبھی مشاورت کی ہے؟ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ وہ ایسا کرنے کاپلان کریں گے۔

سیکرٹری تحریک جدید نے اپنے شعبہ کے حوالے سے بتایا کہ تحریک جدید سکیم میں ممبران جماعت کی اکثریت شامل ہے۔ حضور انور نے یہ بات سماعت فرما کر موصوف کو ہدایت فرمائی کہ آپ کو معین تعداد معلوم ہونی چاہیے نیز تلقین فرمائی کہ محنت کرنے کی کوشش کریں، محض عہدہ پر فائز رہنا اہم نہیں ہے، اہم بات یہ ہے کہ آپ اپنے شعبہ کو بہتر کیسے بنا سکتے ہیں۔

صدر جماعت سپاریہ(Siparia) نے حضور انور سے بات کرنےکا موقع ملنے پر اپنی جماعت کے حوالے سے عرض کیا کہ وہاں ۷۵؍ کی تعداد میں احباب جماعت ہیں اور ان میں سےساٹھ فیصد فعّال ہیں۔

سیکرٹری وقف جدید و سیکرٹری جائیداد نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ تمام ممبران جو چندہ دہندگان ہیں وہ وقف جدیدمیں حصہ لے رہے ہیں۔ اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ سب کو وقف جدید میں شامل ہونا چاہیے، ایک مربوط منصوبہ بنائیں اور سَو فیصد ممبران جماعت کو وقف جدید میں شامل کریں۔

موصوف نے شعبہ جائیداد کے حوالہ سے بتایا کہ وہاں سات مساجد اورچار مشن ہاؤسز ہیں۔

مبلغ سلسلہ شہر Valencia اور نیشنل سیکرٹری تبلیغ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ اصل میں ہیٹی(Haiti) سے ہیں اور گذشتہ تین سال میں صرف ان کے علاقے میں پانچ سے سات بیعتیں ہوئی ہیں۔ اس پر حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اپنے تمام سیکرٹریان تبلیغ سے کہیں کہ وہ محنت کریں، تبلیغ کا مربوط منصوبہ بنائیں اور مزید بیعتیں حاصل کریں۔ اس پر موصوف نے ان شاء الله کہا۔ یہ سماعت فرما کر حضور انور مسکرائے اور تلقین فرمائی کہ خیر! اب ان شاء اللہ ماشاء اللہ بھی ہونا چاہیے، اللہ محنت کرنے والوں کی مدد کرتا ہے۔

اس کے بعد مبلغ سلسلہ ٹوباگو(Tobago) کو حضور انور سے گفتگو کرنے کا موقع ملا۔ موصوف کا نام سماعت فرما کر حضور انور فوری پہچان گئے کہ موصوف گھانا سے ہیں نیز دریافت فرمایا کہ وہ ٹرینیڈاڈ(Trinidad) کب آئے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ اگست میں جلسہ سالانہ یو کے ،کے بعد آئے تھے۔ حضور نے مزید دریافت فرمایا کہ کیا وہ ٹرینیڈاڈ میں well-settled ہیں؟ جس پر انہوں نے اثبات میں جواب دیا۔ نیز عرض کیا کہ امیر صاحب، ٹوباگو میں، ان کے کام میں مدد کر رہے ہیں۔ اس پر حضور انور مسکرائے اور فرمایا کہ پھر تو آپ بہت خوش نصیب ہیں اگر وہ آپ کی مدد کر رہے ہیں۔

حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ ٹوباگو کے علاقے میں کتنے احمدی ہیں؟اس پر انہوں نے عرض کیا کہ وہاں پہلے کوئی احمدی نہیں تھا لیکن جب سے وہ ٹوباگو آئے ہیں انہوں نے آٹھ لوگوں کی بیعت کروائی ہے۔

اس پر حضور انور نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ٹوباگو میں کوئی احمدی نہیں، پچھلے چالیس سال میں امیر صاحب وہاں کیا کر رہے ہیں؟ پھر حضور انور نے امیر صاحب کو مخاطب کر کےدریافت فرمایا کہ آپ وہاں کتنے عرصے سے مقیم ہیں، جس پر امیر صاحب نے عرض کیا کہ وہ وہاں۳۵؍ سال سےہیں۔ حضور انور نے مزید استفسار فرمایا کہ ان ۳۵؍سال میں آپ سے ایک بیعت بھی نہیں ہوسکی؟ امیر صاحب نے عرض کیا کہ ان کی کچھ بیعتیں حاصل ہوئی تھیں تاہم وہ دوسرے ممالک میں ہجرت کر گئے ہیں۔

پھر دوبارہ مبلغ سلسلہ کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے حضور انور نے پچھلے تین مہینوں میں ہونے والی بیعتوں کے بارے میں پوچھا، جس کے جواب میں موصوف نے عرض کیا کہ آٹھ بیعتیں ہو چکی ہیں، اس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ماشاءاللہ فرمایا۔

ٹوباگو میں خدمت کی توفیق پانے والے ایک دوسرے مبلغ نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ ٹوباگو میں مبلغین کی تعداد تین ہے۔ حضور انور نے دریافت فرمایا کہ تین کیوں ہیں؟ اس پر امیر صاحب نے عرض کیا کہ دو مبلغین کو Islands (جزائر )بھیجنے کا ارادہ ہے لہٰذا ٹوباگو میں صرف ایک ہی مبلغ پیچھے باقی رہ جائے گا، تاہم انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ وہاں رہائش کا مسئلہ تھا ۔

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ مبلغین کوجھونپٹری میں بھی رہنا پڑے تو رہنا چاہیے۔میں خود ایک thatched house میں رہتا رہا ہوں، یہ بھی رہ سکتے ہیں ۔ رہائش کوئی مسئلہ نہیں ہے۔

حضور انور نے مزید ہدایت فرمائی کہ جب بھی کوئی منصوبہ بنائیں تو اس میں تیزی لانے کی کوشش کریں۔

اس کے بعد حضور انور نے امیر صاحب کو اردو میں مخاطب کرتے ہوئے ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو میں مؤثر تبدیلی پیدا کرنے کے لیے کام میں تیزی لانے کی تلقین فرمائی۔

ٹوباگو میں خدمت کی توفیق پانے والے گھانا سے تعلق رکھنے والے ایک دوسرے مبلغ سلسلہ سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا کہ ٹوباگو میں صرف پینسٹھ ہزار لوگ آباد ہیں لہٰذا آپ ساری آبادی کو احمدی بنانے کی کوشش کریں، تین مبلغین ہیں، آپ کو تو وہاں انقلاب برپا کر دینا چاہیے۔

حضور انور نے سیکرٹری ضیافت سے دریافت فرمایا کہ کیا آپ نے اراکین مجلس عاملہ کے لیے ناشتہ کا انتظام کیا تھا، جس پر موصوف نے اثبات میں جواب دیا۔

سیکرٹری سمعی و بصری سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے دریافت فرمایا کہ کیا وہ ایم ٹی اےکے لیے کوئی پروگرام بناتے ہیں؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم نے گذشتہ سالوں میں کووڈ کے دوران کچھ پروگرام بھیجے تھے۔ اس پر حضورانور نے ہدایت فرمائی کہ آپ کو ہر مہینے کم از کم ایک پروگرام تیار کرنا چاہیے، کوئی ڈاکومنٹری(documentary) وغیرہ۔ اگر وہ معیار کے مطابق ہو تو اسے ایم ٹی اے پر بھی دکھایا جا سکتا ہے۔

ایک صاحب نے عرض کیا کہ میں عہدیدار نہیں ہوں لیکن آپ کی خدمت میں درخواست کے بعد اس میٹنگ میں شامل ہوا ہوں۔ اس پر حضورانور نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ کے پاس کوئی عہدہ نہیں ہے، لیکن آپ صرف اپنے اراکین مجلس عاملہ کی خامیاں جاننے کے لیے میٹنگ میں آئے ہیں۔

بعد ازاں میٹنگ میں شریک دیگر افراد جماعت جو کہ مجلس عاملہ کے ممبر نہیں تھے انہیں حضور انورسے گفتگو کا شرف حاصل ہوا۔

ایک شریک مجلس نے بتایا کہ ان کا تعلق جماعت کے مرکز سے ہے۔ حضور انور نے موصوف سے دریافت فرمایا کہ کیا وہ شادی شدہ ہیں اور ان کے بچے ہیں؟ موصوف نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے عرض کیا کہ وہ شادی شدہ ہیں اور ان کا نو ماہ کا ایک بچہ ہے، جس پر حضور انور نے انہیں تلقین فرمائی کہ اس کی اچھی تربیت کریں تا کہ وہ ایک بہتراور مضبوط احمدی بنے۔

ایک اور شریک مجلس نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ وہ صرف بطور زائر اس میٹنگ میں شامل ہوئے ہیں۔ ان سے بات کرتے ہوئےحضور انور نے موصوف اور ان کے بیٹے کی بابت تبصرہ فرمایا کہ بیٹا اور باپ دونوں ہم عمر ہی لگتے ہیں۔

آخر پر حضور انور نے فرمایا کہ میں آپ سے ملاقات کر کے لطف اندوز ہوا ہوں۔ اگرچہ میں سمجھتا تھا کہ آپ کے پاس پوچھنے کے لیے کچھ سوالات ہوں گے، مگر اب تو وقت گزر چکا ہے اور جو کچھ میں کہنا چاہتا تھا وہ میں نے عہدیداروں کے ساتھ اپنی گفتگو کے دوران پہلے ہی کہہ دیا ہے۔

مزید برآں حضور انور نے ممبران عاملہ پرعائد ہونے والی ذمہ داریوں کی اہمیت کی جانب توجہ مبذول کرواتے ہوئے تلقین فرمائی کہ آپ سب کو قواعد و ضوابط کے مطابق عمل کرنا چاہیے جیسا کہ آپ کے قواعد و ضوابط کی کتاب میں بیان کیا گیا ہے۔اپنے شعبوں کو قواعد و ضوابط کی کتاب میں بیان کردہ ہدایات کے مطابق چلائیں اور پہلے سے زیادہ چاق و چوبند ہو کر کام کریں۔آپ کے کاموں میں نمایاں فرق نظر آنا چاہیے۔ سیکرٹری وقف نو بھی ایک نوجوان ہیں لیکن وہ اپنی مفوضہ ذمہ داریوں کے بارے میں نہیں جانتے اوراگر جانتے بھی ہیں تو وہ اسے اچھی طرح ادا نہیں کر رہے۔ چنانچہ یہ امیر صاحب کا فرض ہے کہ ان تمام شعبوں کی نگرانی کریں اور اس بات کا جائزہ لیں کہ تمام شعبہ جات سیکرٹریان کے ذریعہ نیز جماعتوں میں سیکرٹریان بھی درست طور پر اپنا کام کر رہے ہیں یا نہیں ۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مدد کرے اور آپ پر فضل فرمائے۔

میٹنگ کے اختتام پر حضور انور نے سب شاملین کو اللہ حافظ کہتے ہوئے السلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ کہا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button