روزے میں عبادتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں (انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جولائی ۲۰۱۲ء)
یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک کام خدا تعالیٰ کے حکم سے بھی کیا جا رہا ہو پھر خدا تعالیٰ کے لئے اور اُس کے پیار کو جذب کرنے کے لئے بھی کیا جا رہا ہو اور یہ بھی امید رکھی جا رہی ہو کہ میرے اس روزے کی جزا بھی خدا تعالیٰ خود ہے۔ یعنی اس جزا کی کوئی حدودنہیں۔ جب خدا تعالیٰ خود جزا بن جاتا ہے تو پھر اس کی حدود بھی کوئی نہیں رہتیں۔ اور پھر عام زندگی میں اپنی باتوں میں جھوٹ بھی شامل ہو جائے، عمل میں جھوٹ شامل ہو جائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ زبان سے جھوٹ نہیں بولنا، بلکہ عمل کے جھوٹ کو بھی ساتھ رکھا ہے اور عمل کا جھوٹ یہ ہے کہ انسان جو کہتا ہے وہ کرتا نہیں۔ روزے میں عبادتوں کے معیار بلند ہونے چاہئیں۔ نوافل کے معیار بلند ہونے چاہئیں۔ لیکن اُس کے لئے اگر ایک انسان کوشش نہیں کر رہا، عام زندگی جیسے پہلے گزر رہی تھی اُسی طرح گزر رہی ہے تو یہ بے عملی ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار سے اگرکوئی لڑائی کرتا ہے تو وہ اُسے کہہ دے کہ مَیں روزہ دار ہوں۔ (صحیح بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم اذا شتم حدیث نمبر 1904)
اور جواب نہ دے تو یہ روزے کا حق ہے جو ادا کیا گیا ہے۔ لیکن اگر آگے سے بڑھ کر لڑائی کرنے والے کا جواب لڑائی سے دیا جائے تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ اپنے کاموں میں اگر حق ادا نہیں کیا جا رہا تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ دوسروں کے حق ادا نہیں کئے جا رہے تو یہ عملی جھوٹ ہے۔ خاوند کی اور بیوی کی لڑائیاں جاری ہیں اور اپنی طبیعتوں میں رمضان میں اس نیت سے تبدیلی پیدا نہیں کی جا رہی کہ ہم نے اب اس مہینہ کی وجہ سے اپنے تعلقات کو بہتری کی طرف لے جانا ہے اور آپس کے محبت پیار کے تعلق کو قائم کرنا ہے کہ رمضان میں خدا تعالیٰ کے پیار کو حاصل کیا جائے تاکہ اللہ تعالیٰ خود ہماری جزا بن جائے تو بیشک منہ سے یہ دعویٰ ہے کہ ہمارا روزہ ہے اور خدا تعالیٰ کی خاطر ہے لیکن عمل اسے جھوٹا ثابت کر رہا ہے۔ اور پھر عملی جھوٹ کی اَور بھی بہت ساری باتیں ہیں۔ انتہا اُس کی یہ بھی ہے کہ کاروباروں کو، اپنے دنیاوی مقاصد کو، اپنے دنیاوی مفادات کو روزے کے باوجود اپنی عبادات اور ذکرِ الٰہی اور نوافل کی ادائیگی اور قرآنِ کریم پڑھنے کی طرف توجہ پر فوقیت دی جائے۔ اور پھر اس سے بھی بڑھ کر بعض لوگ اپنے منافع کے لئے، دنیاوی فائدے کے لئے کاروباروں میں جھوٹ بولتے ہیں، گویا کہ خدا کے مقابلے پر جھوٹ کی اہمیت ہے۔ پس یہ عملی اور قولی جھوٹ شرک ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسے روزے دار کا روزہ درحقیقت فاقہ ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک اُس کی کوئی اہمیت نہیں۔ پس یقیناً رمضان انقلاب لانے کا باعث بنتا ہے۔ شیطان بھی اس میں جکڑا جاتا ہے۔ جنت بھی قریب کر دی جاتی ہے لیکن اُس کے لئے جو اپنی حالت میں پاک تبدیلی پیداکرنے کی کوشش کرے۔ اپنے ہر قول و فعل کو خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کی کوشش کرے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت کو اپنے پر قائم کرنے کی کوشش کرے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اور بخشش جو عام حالات کی نسبت کئی گنا بڑھ جاتی ہے اُس سے بھرپور فائدہ اُٹھائے اور اپنے نفس کے بتوں اور جھوٹے خداؤں کو جو لامحسوس طریق پر یا جانتے بوجھتے ہوئے بھی بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، اُن کو ریزہ ریزہ کر کے ہوا میں اُڑا دے، جب یہ کوشش ہو تو پھر ایک انقلاب طبیعتوں میں پیدا ہوتا ہے۔ خدا تعالیٰ کی حکومت کے لئے جہاں روزوں کے ساتھ عبادتوں کے معیار حاصل کرنا ضروری ہے، قرآنِ کریم کو زیادہ سے زیادہ پڑھنا، اُس کی تلاوت کرنا، اس پر غور کرنا ضروری ہے۔ وہاں ان عبادتوں کا اثر، قرآنِ کریم کے پڑھنے کا اثر، اپنی ظاہری حالتوں اور اخلاق پر ہونا بھی ضروری ہے تا کہ عملی سچائی ظاہر ہو۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں کہ’’مجھے اس وقت اس نصیحت کی حاجت نہیں کہ تم خون نہ کرو کیونکہ بجُز نہایت شریر آدمی کے کون ناحق کے خون کی طرف قدم اٹھاتا ہے۔ مگر مَیں کہتا ہوں کہ ناانصافی پر ضد کرکے سچائی کا خون نہ کرو۔ حق کو قبو ل کرلو اگرچہ ایک بچہ سے۔ اور اگر مخالف کی طرف حق پاؤتو پھر فی الفور اپنی خشک منطق کو چھوڑ دو‘‘۔ (یہ نہیں ہے کہ میرا کوئی مخالف ہے، وہ سچی بات بھی کہہ رہا ہے تو مَیں نے ضد میں آ کر قبول نہیں کرنا۔ پھر دلیلیں نہ دو، بحثیں نہ کرو بلکہ اس کو چھوڑ دو اور سچائی کو قبول کرو۔) پھر فرمایا ’’سچ پر ٹھہر جاؤ اور سچی گواہی دو۔ جیساکہ اللہ جلّشانہٗ فرماتا ہے فَاجۡتَنِبُوا الرِّجۡسَ مِنَ الۡاَوۡثَانِ وَاجۡتَنِبُوۡا قَوۡلَ الزُّوۡرِ (الحج: 31) یعنی بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹ سے بھی کہ وہ بُت سے کم نہیں‘‘۔ فرمایا ’’جو چیز قبلہ حق سے تمہارا مُنہ پھیرتی ہے وہی تمہاری راہ میں بُت ہے۔ سچی گواہی دو۔ اگرچہ تمہارے باپوں یا بھائیوں یادوستوں پر ہو۔ چاہئے کہ کوئی عداوت بھی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو‘‘ کسی بھی قسم کی دشمنی ہو، تمہارے سچ پر روک نہ ڈالے۔ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3صفحہ 550)
پھر آپؑ فرماتے ہیں:’’زبان کا زیان خطرناک ہے۔ اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو، نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اناپ شناپ بولتے رہو‘‘۔ (ملفوظات جلد اول صفحہ 281۔ ایڈیشن 2003ء)
پس تقویٰ یہ ہے اور تقویٰ پر قدم مارنے کی، اس پر چلنے کی اس رمضان میں زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کر سکیں۔ تا کہ اُن جنتوں میں جن کے دروازے کھولے گئے ہیں، ہمارے داخل ہونے میں آسانیاں ہوں۔ اب اگر ہم میں سے ہر ایک اپنے جائزے لے تو خود ہی احساس ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس درد بھرے پیغام اور نصیحت پر کتنے عمل کر رہے ہیں۔ یہ ازالہ اوہام میں اپنے ماننے والوں کو اور خاص طور پر اپنی جماعت والوں کو یہ نصیحت کی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر ایک انصاف پر قائم ہوتے ہوئے سچائی کا خون ہونے سے بچائے تو ہمارے گھروں کے مسائل بھی حل ہو جائیں۔ ہمارے ہاں جو بھائیوں بھائیوں کی رنجشیں پیدا ہوتی ہیں اور وقتاً فوقتاً قضا میں مقدمے آتے رہتے ہیں، وہ بھی دور ہو جائیں۔ کم از کم ہمارے اپنے اندر، ایک احمدی معاشرے میں لین دین کے جو بہت سارے مسائل چلتے رہتے ہیں، وہ ختم ہو جائیں۔ یہ سب مسائل سچ پر عمل نہ کرنے سے اور اپنی اَناؤں کو فوقیت دینے سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اگر اپنے حق کے معیار اتنے بلند کر لو کہ اگر کوئی بچہ بھی کہہ رہا ہے تو اُسے قبول کرنا ہے تو تم بہت سی برائیوں سے بچ جاؤ گے۔ پھر اَنا کی ناک اونچی نہیں ہو گی کہ یہ چھوٹا بچہ مجھے نصیحت کر رہا ہے۔ یہ رُتبہ میں کم تر مجھے حق کی طرف رہنمائی کر رہا ہے۔ یہ غریب آدمی مجھے سچی بات بتا رہا ہے۔
پس سچائی اختیار کرنے کے لئے بھی عاجزی چاہئے اور یہ عاجزی پھر ایک ایسی نیکی ہے جو خدا تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ پس دیکھیں سچائی کی نیکی کے ساتھ اور کتنی نیکیاں جنم لے رہی ہیں۔ ایک نیکی کے بعد دوسری نیکی بچے دیتی چلی جاتی ہے اور یہی چیز جو ہے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔
بعض جزئیات کے ساتھ جو اقتباس میں بیان ہوئی ہیں، سب سے اہم بات جوحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں نصیحت فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ‘جو چیز قبلہ حق سے تمہارا منہ پھیرتی ہے وہ تمہاری راہ میں بُت ہے’۔ پس اگر ہم نے رمضان سے بھر پور فائدہ اُٹھانا ہے، اگر ہم نے شیطان کے جکڑے جانے، دوزخ کے دروازے بند ہونے اور جنت کے دروازے کھلنے سے بھرپور استفادہ کرنا ہے تو ہمیں اپنے حق بات کے قبلوں کو بھی درست کرنا ہو گا۔ ہمارا قبلہ خدا تعالیٰ کی طرف ہو گا تو ہم اللہ تعالیٰ کے اس اعلان سے فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ میں نے تمہارے لئے جنت کے دروازے رمضان کی برکات کی وجہ سے کھول دئیے ہیں۔ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد پر غور کر کے اور عمل کر کے ہی جنت کے دروازے ملیں گے کہ اپنے قول و عمل کی سچائی کے معیار اونچے کرو ورنہ اگر اس طرف توجہ نہیں تو خدا تعالیٰ کو تمہارے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔