متفرق شعراء

عیدِ قرباں

یاد دلواتی یہ قُربانی ہے ابراہیم کی

اور قُربانی تو لاثانی ہے ابراہیم کی

جب پدر کرنے کو اپنے ہاتھ سے ذبحِ عظیم

ہو گیا تیّار، قربانی ہے ابراہیم کی

باندھ دی آنکھوں پہ پٹّی تا نہ گھبرائے کہیں

اور پسر نے بات بھی مانی ہے ابراہیم کی

تھا پدر کے سامنے جیسے پسر لیٹا ہوا

غیب سے ہوتی پھر آسانی ہے ابراہیم کی

کہہ کے پہلے ہی تُو میرا حکم پورا کر چُکا

ربّ نے نیّت خوب پہچانی ہے ابراہیم کی

چھوڑ کر صحرا میں ماں بیٹے کو تُو تھا آگیا

اک نشانی بہ رہا پانی ہے، ابراہیم کی

اذنِ ربی سے وہاں مینڈھے کو جب بھیجا گیا

گر گئی سجدے میں پیشانی ہے ابراہیم کی

عیدِ قرباں یاد میں اس کی مناتے ہیں جو ہم

کی وفا رب سے، جو لافانی ہے ابراہیم کی

پیار کا رب سے تقاضا ہے کہ ہم بھیجیں درود

ہاں محمدؐ، نسلِ تابانی ہے ابراہیم کی

(ڈاکٹر طارق انور باجوہ- لندن)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button