جماعتِ احمدیہ سے قربانی کا مطالبہ
از: حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا یہ مضمون روزنامہ الفضل قادیان میں مورخہ 21؍مئی1938ء کو شائع ہوا جس میں حضورؓ نے احباب جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کیاہے۔ اِس مطالبےکی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ اُن دنوںگورداسپو رکی انتظامیہ کا جماعت احمدیہ سے رویہ نہایت افسوسناک تھا اور حالات کی نزاکت کے پیشِ نظر حفظِ ماتقدم کے طور پر احباب جماعت کو ہر قسم کے حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار کرنا مقصود تھا۔
اِس مضمون میں حضورؓ نے قربانی کی حقیقت اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری پر روشنی ڈالی ہے اور قربانی کے فلسفےکی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت کو صرف جانی قربانی کی ضرورت نہیں بلکہ ہر میدان میں قربانیوں کی ضرورت ہے۔ نیز آپؓ نے یہ بھی وضاحت فرمائی کہ احمدیت کے لیے جانی قربانی کے مطالبہ سے یہ مراد ہرگز نہیں کہ کسی محاذ پر جا کر جنگ کرتے ہوئے جان قربان کرنا، بلکہ احمدیت کے لیے قربانی دینے کا مطلب امام کی آواز پر لَبَّیْکَ کہنا ہے۔
حضورؓ نے اپنے اِس مضمون میں جس قربانی کا مطالبہ کیا ہے وہ ہر حال میں سچائی اور راستی کو اختیار کرنا ہے جس کی خاطر خواہ جان کی قربانی دینی پڑے، خواہ جذبات کی قربانی دینی پڑے اور خواہ اپنے تمام حقوق سے محروم ہونا پڑے۔(مدیر)
میں نے ایک گذشتہ خطبہ میں جماعت کو اس طرف توجہ دلائی تھی کہ ضلع گورداسپور کے بعض حکّام کا رویہ جماعت کے بارہ میں نہایت افسوسناک ہے اور وہ متواتر دشمنانِ احمدیت کی پیٹھ ٹھونکتے رہتے ہیں اور افسوس ہے کہ ماتحت حکام کے وقار کو قائم رکھنے کے خیال سے ان کے بالا افسر بھی ان کی ان حرکات پر انہیں تنبیہ نہیں کرتے اور نتیجہ یہ ہے کہ بعض حُکاّم نہایت نامناسب طور پر سلسلہ کے خلاف اظہارِ رائے کرتے ہیں جسے مخالفینِ سلسلہ ایسے لوگوں میں پھیلا کر لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں کہ یہ غیرجانبدار لوگوں کی رائے ہے اور تبلیغ کا دائرہ محدود ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں مَیں نے جماعت سے خواہش کی تھی کہ انہیں اس صورتِ حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
اس بارہ میں مجھے مختلف افرادِ جماعت اور انجمنوں کی طرف سے خطوط آئے ہیں کہ وہ ہر قسم کی قربانی کرنے کے لیے تیار ہیں۔ جن جن جماعتوں یاا فراد کی طرف سے ایسی اطلاع اب تک نہیں ملی ان سے بھی اسی جواب کی امید کی جاتی ہے اور یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ کوئی مخلص بھی سلسلہ کے لئے قربانی کرنے سے گریز کرے گا لیکن سوال یہ ہے کہ آیا جماعت قربانیوں کی حقیقت کو سمجھتی بھی ہے یا نہیں۔ قربانی کی حقیقت کو سمجھے بغیر ہر شخص جس میں جوش پایا جاتا ہے قربانی کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے لیکن جب حقیقت معلوم ہوتی ہے یا عمل کا وقت آتا ہے تو اکثر لوگ پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ کئی تو کہتے ہیں کہ یہ قربانی حد سے زیادہ ہے اور کئی کہتے ہیں کہ یہ قربانی حد سے کم ہے اور اسی قسم کے بہانوں سے وہ اپنا پیچھا چھڑا لیتے ہیں۔
میں نے بار بار جماعت کو بتایا ہے کہ قربانی کے بارہ میں ہمارا معاملہ دوسری تمام اقوام سے جُداگانہ ہے۔ دوسری اقوام قانون شکنی کو جائز سمجھتی ہیں لیکن ہمارا مذہب ہمیں قانون کی پابندی کا حکم دیتا ہے اور اس بارہ میں نہ کسی احمدی کو منفرداً کسی تبدیلی کا اختیار ہے نہ جماعتِ احمدیہ کو متفقہ طور پر اور نہ کسی خلیفہ کو کیونکہ یہ شریعت کا حکم ہے۔ پس یہ راستہ قربانیوں کا تو ہمارے لئے کلی طور پر مسدود ہے۔ ہم نے اس معاملہ میں کانگرس سے شدید مخالفت کی ہے اور اب بھی جو قوم قانون شکنی پر آمادہ ہو ہم اس کی مخالفت کریں گے کیونکہ احمدیت کی یہ تعلیم امتیازی حیثیت رکھتی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ جب اس کے سب پہلوؤں پر اچھی طرح غور کیا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ دنیا کو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ گاندھی جی کی عدمِ تشدد کی پالیسی سے یہ اطاعتِ قانون اور عدمِ تشدد کی مشترکہ تعلیم بہت زیادہ مؤثر ہے لیکن اس کی اہمیت ابھی تک بعض احمدی بھی نہیں سمجھے اور وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ قانون شکنی بھی نہ ہو اور عدمِ تشدد کی پالیسی پر بھی عمل کیا جائے تو پھر حکومت کو راہِ راست پر لانے کا کون سا ذریعہ ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ اگر فرض کرو یہ ذریعہ کامیابی کا ہے بھی تو پھر اس کے ساتھ جو قربانی کا مطالبہ کیا جاتا ہے اس کا کونسا موقع ہے۔ جب ہم نے قانون شکنی بھی نہ کی اورعدمِ تشدد پر بھی عمل کیا تو کوئی ہم سے لڑے گا ہی کیوں؟ اور ہمارے لئے قربانی کا موقع کونسا پیدا ہو گا۔
پہلے شبہ کے متعلق تو میں اس وقت صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ بہت سے مسائل بظاہر سادہ معلوم ہوتے ہیں لیکن ان کے پیچھے بہت بڑی طبعی اور اخلاقی قوتیں کام کر رہی ہوتی ہیں۔ پس ہمیں چاہئے کہ اس مسئلہ کی کلّیات پر ہی نظر نہ رکھیں بلکہ اس کی جزئیات اور تفصیلات پر بھی غور کریں تا ہمیں معلوم ہو سکے کہ اس کے پیچھے کس قدر اخلاقی اور نفسیاتی طاقتیں جمع ہیں۔ جب گاندھی جی نے عدمِ تشدد کی تعلیم دینی شروع کی تھی تو خود ان کے ساتھی اس پر ہنستے تھے اور دل میں کہتے تھے کہ صرف ان کی شخصیت سے فائدہ اٹھا لو باقی ان کی تعلیم تو صرف سادھوؤں والی تعلیم ہے لیکن آج بہت سے کانگرسی ایسے ہیں جو حقیقتاً اس تعلیم کو اچھا سمجھتے ہیں۔ حتٰی کہ جن لوگوں نے ان سے اختلاف کر کے تشدد کی پالیسی پر عمل کیا تھا اور جرائم کر کے جیل خانوں میں چلے گئے تھے وہ بھی اپنی غلطی کا اقرار کر کے جیلوں سے واپس آرہے ہیں۔ اس وقت ہماری ہی ایک جماعت تھی جس نے گاندھی جی سے اس لئے اختلاف کیا تھاکہ ان کی عدمِ تشدّد کی پالیسی اتنی مکمل نہیں جس قدر ہونی چاہئے تھی ورنہ باقی سب لوگ اس پالیسی کو اس لئے فضول کہتے تھے کہ اس سے ملک کو ایک طاقتور ہتھیار سے محروم کر دیا گیا ہے۔جس طرح آج بہت سے لوگ عدمِ تشدّد کی خوبیوں کے معترف ہو رہے ہیں ایک دن آئے گا کہ دنیا اس امر کو بھی تسلیم کرے گی کہ صرف عدمِ تشدّد کافی نہیں بلکہ اخلاقی حفاظت کے لیے اور دنیا میں امن قائم رکھنے کیلئے قانون کی اطاعت بھی ضروری ہے کیونکہ ایک حکومت کا قانون توڑنے کے بعد کسی اور حکومت کے قانون کا احترام باقی نہیں رہ سکتا، اور اس حربہ کی قیمت بہت ہی گراں دینی پڑتی ہے۔
دوسرے شبہ کے متعلق میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس سے زیادہ دھوکے کا خیال اَور کوئی نہیں ہو سکتا کہ جو قانون نہ توڑے اس کے لیے قربانی کا سوال نہیں پیدا ہوتا۔ سب کے سب انبیاء ہمارے عقیدہ کے مطابق قانون کا احترام کرنے والے تھے اور لڑائی اور فساد سے اجتناب کرنے والے تھے لیکن اس کے باوجود ان کے دشمنوں نے خواہ وہ قوموں کی حیثیت میں ہوں خواہ حکومتوں کی حیثیت میں، انہیں دکھ دیئے اور ان کے اچھے ارادوں کو بدی کی طرف منسوب کیا اور ان کی امن کی کوششوں کو فساد کی انگیخت قرار دیا۔علاوہ اس کے جو حصہ جدوجہد کا جماعت کی طرف سے ہوتا ہے وہ بھی خواہ کس قدر ہی پُرامن ذرائع پر مشتمل کیوں نہ ہو ہر قسم کی قربانی چاہتا ہے۔ جانی قربانی بھی کرنی پڑتی ہے اور مالی بھی اور وطنی بھی۔ جانی قربانی صرف اسی کا تو نام نہیں کہ انسان لڑائی میں جان دے دے۔ اگر جانی قربانی اسی کا نام ہو تو انبیاء کو اس قربانی سے محروم قرار دینا پڑے گا کیونکہ لڑائی میں مارا جانے والا تو شاید ایک نبی بھی نہیں گزرا اور جن کی نسبت یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں ان کے دشمنوں نے مروا دیا وہ نبی بھی ایک ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔ پس جانی قربانی کے معنی لڑائی کے ہرگز نہیں۔ بلکہ میرا یہ یقین ہے اور میں اس یقین پر پختگی سے قائم ہوں کہ جو قومیں جانی قربانی کو لڑائی کے ساتھ مخصوص کر لیتی ہیں وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتیں کیونکہ جب کبھی جانی قربانی کے وہ مواقع بہم نہیں پہنچتے جو ان کے ذہن میں ہوتے ہیں وہ قوم سُست ہو جاتی ہے اور آخر اپنے مقام کو کھو بیٹھتی ہے۔
مسلمانوں میں جہاد کے عقیدہ نے یہی خطرناک نتیجہ پیدا کیا ہے چونکہ جانی قربانی کا مفہوم گزشتہ چند صدیوں سے ان کے نزدیک صرف تلوار کی جنگ کے ساتھ وابستہ ہو کر رہ گیا تھا نتیجہ یہ ہواکہ وہ جانی قربانیاںجو تبلیغ کے ذریعہ سے کرنی پڑتی ہیں یا تو انہیں حقیر نظر آنے لگیں یا بالکل ہی ان کی نظر سے پوشیدہ ہو گئیں اور وہ اپنے مقام کو محفوظ نہ رکھ سکے اور تنزل کا شکار ہو گئے۔ اگر وہ یہ سمجھتے کہ تبلیغ بغیر علم کے نہیں ہو سکتی اور وہ جسم کی قربانی کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا۔ تبلیغ بغیر دُور دراز سفروں کے اختیار کرنے اور دشوار گزار گھاٹیوں میں سے گزرنے کے مکمل نہیں ہو سکتی اور وہ بھی جسم کی قربانی چاہتے ہیں۔ پھر تبلیغ مکمل نہیں ہو سکتی جب تک وحشی قبائل تک اسلام کا پیغام نہ پہنچا دیا جائے اور ان لوگوں میں رہ کر مبلغ کی جان ایک دن بھی محفوظ نہیں قرار دی جا سکتی اور یہ بھی جان کی قربانی ہے۔ وغیرہ وغیرہ تو ہر گز ان کا قدم سُست نہ ہوتا اور وہ اس ذلت کو نہ دیکھتے جو آج انہیں دیکھنی نصیب ہوئی ہے۔بے شک تبلیغ کے اگر یہ معنی لئے جائیں کہ مہینہ میں اگر کسی دن فرصت ہوئی تو کسی دوست کو ملنے چلے گئے اور اسے تبلیغ بھی کر دی تو اس میں جانی قربانی کا بہت کم نشان ملتا ہے لیکن جس تبلیغ کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے وہ تو ایک زبردست قربانی ہے اور اس کے زبردست قربانی ہونے کا کُھلا ثبوت یہ ہے کہ جب بھی جماعت سے قربانیوں کا مطالبہ کیا جاتا ہے وہ بڑے جوش سے کہہ دیتے ہیں کہ ہاں ہم قربانیاں کریں گے لیکن اس قربانی کے پیش کرنے کا بہت کم دوستوں کو موقع ملتا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ قربانی ویسی آسان نہیں جیسی کہ اسے بیان کیا جاتا ہے۔ حق یہ ہے کہ انسانی نفس ضمیر کی ملامت سے سخت تکلیف اُٹھاتا ہے اور اس سے بچنے کا اس نے یہ ذریعہ ایجاد کیا ہے کہ وہ نیکی کی تعریفیں بدلتا رہتا ہے اور جس قربانی کا اس کے لئے موقع ہوتا ہے وہ اسے ادنیٰ قرار دے کر اس سے اس طرح پیچھا چھڑا لیتا ہے کہ یہ تو ادنیٰ قربانی ہے اسے کیا پیش کرنا ہے اور بزعمِ خود ایک اعلیٰ قربانی کے پیش کرنے پر آمادگی ظاہر کرتا ہے جس کے پیش کرنے کا اس وقت موقع نہیں ہوتا اور اس طرح وہ اپنی نظروں میں اور اپنے ہم چشموں کی نظروں میں اعزاز حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے مگر یہ سَودا اُسے بہت مہنگا پڑتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام خود انسان کے فائدہ کے لئے ہیں۔ پس ایسے موقع پر جھوٹی عزت حاصل کرنا خود کُشی سے کم نہیں ہوتا کیونکہ لفظی تعریف حقیقی نقصان کا قائم مقام نہیں ہو سکتی۔
(باقی آئندہ)