تاریخ احمدیت

26؍جولائی 1940ء: انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ کا قیام

40سال سے زائد عمر کے احبابِ جماعت کےلیے ذیلی تنظیم مجلس انصار اللہ کا قیام

(سات) سے 15سال کے احمدی بچوں کے لیے مجلس اطفال الاحمدیہ کا قیام

سید ناحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تحریک اور رہنمائی میں دسمبر 1922ء سے عورتوں کی تربیت کے لیے لجنہ اماء اللہ اور جنوری 1938ءسے نوجوانوں کی تربیت کے لیے مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیمیں قائم تھیں اور بہت جوش وخروش سے اپنی تربیتی ذمہ داریاں ادا کررہی تھیں اور ان کی وجہ سے جماعت میں خدمت دین کا ایک خاص ماحول پیدا ہوچکا تھا۔ مگر ایک تیسرا طبقہ ابھی ایسا باقی تھا جو اپنی پختہ کاری، لمبے تجربہ اور فراست کے اعتبار سے اگرچہ سلسلہ احمدیہ کی بہترین خدمات بجا لارہا تھامگر کسی مستقل تنظیم سے وابستہ نہ ہونے کے باعث قوم کی اجتماعی تربیت میں پورا حصہ نہیں لے سکتا تھا۔ حالانکہ اپنی عمر اور اپنے تجربہ کے لحاظ سے قومی تربیت کی ذمہ داری براہ راست اسی طبقہ پرپڑتی تھی۔ علاوہ ازیں خدام الاحمدیہ کے نوجوانوں کے اندر خدمت دین کے جوش کا تسلسل قائم رکھنے کے لیے بھی ضروری تھا کہ جب جوانی کے زمانہ میں دینی ٹریننگ کا دور ختم ہواور وہ عمر کے پختہ حصہ میں داخل ہوں تو وہ دوبارہ ایک تنظیم ہی کے تحت اپنی زندگی گزاریں اور زندگی کے آخری سانس تک دین کی نصرت وتائید کے لیے سرگرم عمل رہیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓکو ’’مجلس خدام الاحمدیہ‘‘ کی بنیاد رکھتے وقت بھی اس اہم ضرورت کا شدید احساس تھا مگر حضوریہ چاہتے تھے کہ پہلے مجلس خدام الاحمدیہ کی رضاکارانہ تنظیم کم از کم قادیان میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوجائے تو بتدریج کوئی نیا عملی قدم اٹھایا جائے۔ چنانچہ دواڑھائی سال کے بعد جبکہ یہ مجلس حضور کی تجویز فرمودہ لائنوں پر چل نکلی اور نوجوانوں نے رضاکارانہ طور پرحضور کے منشائے مبارک کے مطابق کام کرنے کا پوری طرح اہل ثابت کردکھایا تو حضور نے 26 وفا؍جولائی 1319ہش؍1940ء کو اعلان فرمایا کہ

’’آج سے قادیان میں خدام الاحمدیہ کا کام طوعی نہیں بلکہ جبری ہوگا۔ ہر وہ احمدی جس کی پندرہ سے چالیس سال تک عمر ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ پندرہ دن کے اندر اندر خدام الاحمدیہ میں اپنا نام لکھا دے۔‘‘

( الفضل یکم ظہور؍ اگست1940ء؍1319ہش صفحہ 6کالم3)

اس اعلان کے ساتھ ہی حضور نے چالیس سال سے اوپر کے احمدیوں کی ایک مستقل تنظیم کی بنیاد رکھی، جس کا نام ’’مجلس انصار اللہ‘‘ تجویز فرمایا اور فی الحال قادیان میں رہنے والے اس عمر کے تمام احمدیوں کی شمولیت اس میں لازمی اور ضروری قرار دی۔ انصار اللہ کی تنظیم کا عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ؓکو نامزد فرمایا اور ان کی اعانت کے لیےمندرجہ ذیل تین سیکرٹری مقرر فرمائے۔

۱۔ حضرت مولوی عبدالرحیم صاحب درد ایم اے۔

۲۔ حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال ایم اے۔

۳۔ حضرت خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب۔

(الفضل یکم ظہور؍ اگست1940ء؍ 1319ہش صفحہ 7کالم2)

اس موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجلس انصار اللہ کی نسبت بعض بنیادی ہدایات بھی دیں جن کا تذکرہ حضور ہی کے الفاظ میں کیاجانا چاہیے۔ حضور ؓنے فرمایا:

’’چالیس سال سے اوپر عمر والے جس قدر آدمی ہیں وہ انصار اللہ کے نام سے اپنی ایک انجمن بنائیں اور قادیان کے وہ تمام لوگ جو چالیس سال سے اوپر ہیں اس میں شریک ہوں۔ ان کے لئے بھی لازمی ہوگا کہ وہ روزانہ آدھ گھنٹہ خدمت دین کے لئے وقف کریں۔ اگر مناسب سمجھا گیاتو بعض لوگوں سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں 3دن یا کم وبیش اکٹھے بھی لئے جاسکتے ہیں۔ مگر بہرحال تمام بچوں، بوڑھوں اور نوجوانوں کا بغیر کسی استثناء کے قادیان میں منظم ہوجانا لازمی ہے۔

مجلس انصار اللہ کے عارضی پریذیڈنٹ مولوی شیر علی صاحب ہوں گے اور سیکرٹری کے فرائض سرانجام دینے کے لئے میں مولوی عبدالرحیم صاحب درد، چودھری فتح محمد صاحب اور خان صاحب مولوی فرزند علی صاحب کو مقرر کرتا ہوں۔ تین سیکرٹری میں نے اس لئے مقرر کئے ہیں کہ مختلف محلوں میں کام کرنے کے لئے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے ان کو فوراً قادیان کے مختلف حصوں میں اپنے آدمی بٹھادینے چاہیےاور چالیس سال سے اوپر عمر رکھنے والے تمام لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنا چاہئے۔ یہ بھی دیکھ لینا چاہئے کہ لوگوں کو کس قسم کے کام میں سہولت ہوسکتی ہے۔ اور جوشخص جس کام کے لئے موزوں ہو اس کے لئے اس سے نصف گھنٹہ روزانہ کام لیا جائے۔ یہ نصف گھنٹہ کم سے کم وقت ہے اور ضرورت پر اس سے بھی زیادہ وقت لیا جاسکتا ہے۔ یا یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ کسی سے روزانہ آدھ گھنٹہ لینے کی بجائے مہینہ میں دوچار دن لے لئے جائیں۔ جس دن وہ اپنے آپ کو منظم کرلیں اسی دن میری منظوری سے نیا پریذیڈنٹ اور نئے سیکرٹری مقرر کئے جاسکتے ہیں۔ سر دست میں نے جن لوگوں کو اس کام کے لئے مقرر کیا ہے وہ عارضی انتظام ہے اور اس وقت تک کے لئے ہے جب تک سب لوگ منظم نہ ہوجائیں جب منظم ہوجائیں تو وہ چاہیں تو کسی اور کو پریذیڈنٹ اور سیکرٹری بناسکتے ہیں مگر میری منظوری اس کے لئے ضروری ہوگی۔ میرا ان دونوں مجلسوں سے ایسا ہی تعلق ہوگا جیسا مربی کا تعلق ہوتا ہے اور ان کے کام کی آخری نگرانی میرے ذمہ ہوگی یا جو بھی خلیفہ وقت ہو۔ میرا اختیار ہوگا کہ جب بھی مناسب سمجھوں ان دونوں مجلسوں کا اجلاس اپنی صدارت میں بلالوں اور اپنی موجودگی میں ان کو اپنا اجلاس منعقد کرنے کے لئے کہوں۔

یہ اعلان پہلے صرف قادیان والوں کے لئے ہے اس لئے ان کو میں پھر متنبہ کرتا ہوں کہ کوئی فرد اپنی مرضی سے ان مجالس سے باہر نہیں رہ سکتا۔ سوائے اس کے جو اپنی مرضی سے ہمیں چھوڑ کر الگ ہوجانا چاہتا ہو۔ ہرشخص کو حکماً اس تنظیم میں شامل ہونا پڑے گا۔ اور اس تنظیم کے ذریعہ علاوہ اَور کاموں کے اس امر کی بھی نگرانی رکھی جائے گی کہ کوئی شخص ایسا نہ رہے جو مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کا پابند نہ ہو۔ سوائے ان زمینداروں کے جنہیں کھیتوں میں کام کرنا پڑتا ہے۔ یا سوائے ان مزدوروں کے جنہیں کام کے لئے باہر جانا پڑتا ہے۔ گو ایسے لوگوں کے لئے بھی میرے نزدیک کوئی نہ کوئی ایسا انتظام ضرور ہونا چاہئے جس کے ماتحت وہ اپنی قریب ترین مسجد میں نماز باجماعت پڑھ سکیں۔

اس کے ساتھ ہی میں بیرونی جماعتوں کو بھی اس طرف توجہ دلاتاہوں کہ خدام الاحمدیہ کی مجالس تو اکثر جگہ قائم ہی ہیں۔ اب انہیں ہر جگہ چالیس سال سے زائد عمر والوں کے لئے مجالس انصار اللہ قائم کرنی چاہئیں۔ ان مجالس کے وہی قواعد ہوں گے جو قادیان میں مجلس انصار اللہ کے قواعد ہوں گے۔مگر سردست باہر کی جماعتوں میں داخلہ فرض کے طورپر نہیں ہوگا بلکہ ان مجالس میں شامل ہونا ان کی مرضی پر موقوف ہوگا۔ لیکن جو پریذیڈنٹ یا امیر یا سیکرٹری ہیں ان کے لئے یہ لازمی ہے کہ وہ کسی نہ کسی مجلس میں شامل ہوں۔ کوئی امیر نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ کوئی پریذیڈنٹ نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اور کوئی سیکرٹری نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی عمر کے لحاظ سے انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کا ممبر نہ ہو۔ اگر اس کی عمر پندرہ سال سے اوپر اور چالیس سال سے کم ہے تو اس کے لئے خدام الاحمدیہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اور اگر وہ چالیس سال سے اوپر ہے تو اس کے لئے انصار اللہ کا ممبر ہونا ضروری ہوگا اس طرح ڈیڑھ سال تک دیکھنے کے بعد خدا نے چاہا تو آہستہ آہستہ باہر بھی ان مجالس میں شامل ہونا لازمی کردیا جائے گا۔ کیونکہ احمدیت صحابہ کے نقش قدم پر ہے۔ صحابہ سے جب جہاد کا کام لیا جاتا تھا تو ان کی مرضی کے مطابق نہیں لیا جاتا تھا بلکہ کہا جاتا تھا کہ جائو کام کرو۔ مرضی کے مطابق کام کرنے کا میں نے جو موقعہ دینا تھا وہ قادیان کی جماعت کو میں دے چکا ہوں اور جنہوں نے ثواب حاصل کرنا تھا انہوں نے ثواب حاصل کرلیا ہے۔اب پندرہ سے چالیس سال تک کی عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ میں شامل ہونا لازمی ہے۔ اور اس لحاظ سے اب وہ ثواب نہیں رہا جو طوعی طور پر کام کرنے کے نتیجے میں ہوسکتاتھا۔ بے شک خدمت کا اب بھی ثواب ہوگا۔ لیکن جو طوعی طور پر داخل ہوئے اور وفا کا نمونہ دکھایا وہ سابق بن گئے البتہ انصار اللہ کی مجلس چونکہ اس شکل میں پہلے قائم نہیں ہوئی اور نہ کسی نے میرے کسی حکم کی خلاف ورزی کی ہے۔ اس لئے اس میں جو بھی شامل ہوگا اسے وہی ثواب ہوگا جو طوعی طور پر نیک تحریکات میں شامل ہونے والوں کو ہوتا ہے۔‘‘

(الفضل یکم ظہور/ اگست1940ء/ 1319ہش صفحہ 7-8)

مجلس انصار اللہ اور دوسری مجالس کے بنیادی اغراض ومقاصد

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے پیش نظر مجلس انصاراللہ اور دوسری تنظیموں کے قیام کا مقصد کیا تھا اور حضور کی ان سے کیا توقعات وابستہ تھیں۔ اس کی وضاحت خود حضور ہی کے الفاظ میں کیا جانا مناسب ہے۔ حضور فرماتے ہیں:

’’میں نے انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ تین الگ الگ جماعتیں قائم کی ہیں تاکہ نیک کاموں میں ایک دوسرے کی نقل کا مادہ جماعت میں زیادہ سے زیادہ پیدا ہو بچے بچوں کی نقل کریں۔ نوجوان نوجوانوں کی نقل کریں اور بوڑھے بوڑھوں کی نقل کریں جب بچے اور نوجوان اور بوڑھے سب اپنی اپنی جگہ یہ دیکھیں گے کہ ہمارے ہم عمر دین کے متعلق رغبت رکھتے ہیں وہ اسلام کی اشاعت کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اسلامی مسائل کو سیکھنے اور ان کو دنیا میں پھیلانے میں مشغول ہیں۔ وہ نیک کاموں کی بجا آوری میں ایک دوسرے سے بڑھ کر حصہ لیتے ہیں تو ان کے دلوں میں بھی یہ شوق پیدا ہوگا کہ ہم بھی ان نیک کاموں میں حصہ لیں اور اپنے ہم عمروں سے آگے نکلنے کی کوشش کریں۔ دوسرے وہ جو رقابت کی وجہ سے عام طور پر دلوں میں غصہ پیدا ہوتا ہے وہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔ جب بوڑھا بوڑھے کو نصیحت کرے گا، نوجوان نوجوان کو نصیحت کرے گا اور بچہ بچے کو نصیحت کرے گا تو کسی کے دل میں یہ خیال پیدا نہیں ہوگا کہ مجھے کوئی ایسا شخص نصیحت کررہا ہے جو عمر میں مجھ سے چھوٹایا عمر میں مجھ سے بہت بڑا ہے۔ وہ سمجھے گا کہ میرا ایک ہم عمر جو میرے جیسے خیالات اور میرے جیسے جذبات اپنے اندر رکھتا ہے مجھے سمجھانے کی کوشش کررہا ہے اور اس وجہ سے ان کے دل پر نصیحت کا خاص طور پر اثر ہوگا اور وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائے گا مگر یہ تغیر اسی صورت میں پیدا ہوسکتا ہے جب جماعت میں یہ نظام پورے طور پر رائج ہوجائے …ہماری جماعت کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ ہم نے تمام دنیا کی اصلاح کرنی ہے۔ تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ کے آستانہ پرجھکانا ہے۔ تمام دنیا کو اسلام اور احمدیت میں داخل کرنا ہے۔ تمام دنیا میں اللہ تعالیٰ کی بادشاہت کو قائم کرنا ہے مگر یہ عظیم الشان کام اس وقت تک سرانجام نہیں دیا جاسکتا، جب تک ہماری جماعت کے تمام افراد خواہ بچے ہوں یا نوجوان ہوں یا بوڑھے ہوں، اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اور اس لائحہ عمل کے مطابق دن اور رات عمل نہیں کرتے جو ان کے لئے تجویز کیا گیا ہے … جب ہم تمام جماعت کے افراد کو ایک نظام میں منسلک کرلیں گے تو اس کے بعد ہم بیرونی دنیا کی اصلاح کی طرف کامل طور پر توجہ کرسکیں گے اس اندرونی اصلاح اور تنظیم کو مکمل کرنے کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور اطفال الاحمدیہ تین جماعتیں قائم کی ہیں اور یہ تینوں اپنے اس مقصد میں جو ان کے قیام کا اصل باعث ہے اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہیں جب انصار اللہ، خدام الاحمدیہ اور اطفال احمدیہ اس اصل کو اپنے مدنظر رکھیں جو

حَیۡثُ مَا کُنۡتُمۡ فَوَلُّوۡا وُجُوۡہَکُمۡ شَطۡرَہٗ

میں بیان کیا گیا ہے کہ ہر شخص اپنے فرض کو سمجھے اور پھر رات اور دن اس فرض کی ادائیگی میں اس طرح مصروف ہوجائے جس طرح ایک پاگل اور مجنون تمام اطراف سے اپنی توجہ کو ہٹا کر صرف ایک بات کے لئے اپنے تمام اوقات کو صرف کردیتا ہے۔ جب تک رات اور دن انصار اللہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اور دن خدام الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے جب تک رات اوردن اطفال الاحمدیہ اپنے کام میں نہیں لگے رہتے اور اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے تمام اوقات کو صرف نہیں کردیتے اس وقت تک ہم اپنی اندرونی تنظیم مکمل نہیں کرسکتے اور جب تک ہم اپنی اندرونی تنظیم کو مکمل نہیں کرلیتے اس وقت تک ہم بیرونی دنیا کی اصلاح اور اس کی خرابیوں کے ازالہ کی طرف بھی پوری طرح توجہ نہیں کرسکتے۔‘‘

( الفضل 11۔ اخاء/ اکتوبر 1944ء/1323ش)

’’سلسلہ کے روحانی بقاء کے لئے میں نے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی تحریکات جاری کی ہوئی ہیں اور یہ تینوں نہایت ضروری ہیں۔ ان تحریکات کو معمولی نہ سمجھیں۔ اس زمانہ میں ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ یہ بہت ضروری ہیں۔ پرانے زمانہ میں اور بات تھی۔ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں آپ کی ٹریننگ سے ہزاروں استاد پیدا ہوگئے تھے جو خود بخود دوسروں کو دین سکھاتے تھے اور دوسرے شوق سے سیکھتے تھے۔ مگر اب حالات ایسے ہیں کہ جب تک دودو تین تین آدمیوں کی علیحدہ علیحدہ نگرانی کا انتظام نہ کیا جائے کام نہیں ہوسکتا۔

ہمیں اپنے اندر ایسی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں کہ دوسرے ان کا اقرار کرنے پر مجبور ہوں اور پھر تعداد بھی بڑھانی چاہئے۔ اگر گلاب کا ایک ہی پھول ہو اور وہ دوسرا پیدا نہ کرسکے تو اس کی خوبصورتی سے دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ فتح تو آئندہ زمانہ میں ہونی ہے اور معلوم نہیں کب ہو لیکن ہمیں کم سے کم اتنا تو اطمینان ہوجاناچاہئے کہ ہم نے اپنے آپ کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کردیا ہے کہ دنیا احمدیت کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ احمدیت کو دنیا میں پھیلا دینا ہمارے اختیار کی بات نہیں۔ لیکن ہم اپنی زندگیوں کا نقشہ ایسا خوبصورت بناسکتے ہیں کہ دنیا کے لوگ بظاہر اس کا اقرار کریں یا نہ کریں مگر ان کے دل احمدیت کی خوبی کے معترف ہوجائیں اور اس کے لئے جماعت کے سب طبقات کی تنظیم نہایت ضروری ہے۔ ‘‘

(الفضل یکم مارچ 1945ء؍ امان1324ہش صفحہ 2کالم 1۔2

تقریر حضرت مصلح موعودؓ برموقع جلسہ سالانہ 1321ہش)

ایک اور موقع پر فرمایا:

’’عوام سست ہوں تو حکام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں اور حکام سست ہوں تو عوام ان پر نگرانی کے لئے موجود ہوتے ہیں۔ اسی نکتہ کو مدنظر رکھ کر میں نے جماعت میں خدام خلق اور انصار اللہ دو الگ الگ جماعتیں قائم کیں کیونکہ میں سمجھتا ہوں ایسا ہوسکتا ہے کہ کبھی ’’حکومت‘‘کے افراد سست ہوجائیں اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ کبھی عوام سست ہوجائیں۔ عوام کی غفلت اور ان کی نیند کو دور کرنے کے لئے جماعت میں ناظر وغیرہ موجود تھے۔ مگر چونکہ ایسا بھی ہوسکتا تھا کہ کبھی ناظر سست ہوجائیں اور وہ اپنے فرائض کو کماحقہ ادا نہ کریں۔ اس لئے ان کی بیداری کے لئے بھی کوئی نہ کوئی جماعتی نظام ہونا چاہئے تھا جو ان کی غفلت کو دور کرتا اور اس غفلت کا بدل جماعت کو مہیا کرنے والا ہوتا۔ چنانچہ خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ اسی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کو اسی لئے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔ میں سمجھتا ہوں اگر عوام اور حکام دونوں اپنے اپنے فرائض کو سمجھیں تو جماعتی ترقی کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ایک نہایت ہی مفید اور خوشکن لائحہ عمل ہوگا۔ اگر ایک طرف نظارتیں جو نظام کی قائم مقام ہیں، عوام کو بیدار کرتی رہیں اور دوسری طرف خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ جو عوام کے قائم مقام ہیں نظام کو بیدار کرتے رہیں تو کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ کسی وقت جماعت کلی طور پر گرجائے اور اس کا قدم ترقی کی طرف اٹھنے سے رک جائے۔ جب بھی ایک غافل ہوگا دوسرا اسے جگانے کے لئے تیار ہوگا جب بھی ایک سست ہوگا تو دوسرا اسے ہوشیار کرنے کے لئے آگے نکل آئے گا کیونکہ وہ دونوں ایک ایک حصہ کے نمائندہ ہیں۔‘‘

(الفضل 17۔ نبوت؍ نومبر 1943ء؍ 1322ش صفحہ 3کالم3-4)

نیز فرمایا:’’انصار اللہ کا وجود اپنی جگہ نہایت ضروری ہے کیونکہ تجربہ جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ اسی طرح امنگ اور جوش جو قیمت رکھتا ہے وہ اپنی ذات میں بہت اہم ہوتی ہے۔ خدام الاحمدیہ نمائندے ہیں جوش اور امنگ کے، اور انصار اللہ نمائندے ہیں تجربہ اور حکمت کے اور جوش اور امنگ اور تجربہ اور حکمت کے بغیر کبھی کوئی قوم کامیاب نہیں ہوسکتی۔‘‘

(الفضل 30وفا؍ جولائی 1945ء؍1324ہش صفحہ 3کالم 4)

اسی سلسلہ میں یہ بھی ارشاد فرمایا:

’’میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو میں مکمل کردوں۔ ایک دیوار انصار اللہ ہیں، دوسری دیوار خدام الاحمدیہ ہیں اور تیسری دیوار اطفال الاحمدیہ ہیں اور چوتھی دیوار لجنات اماء اللہ ہیں۔ اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسرے سے علیحدہ علیحدہ ہوجائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہوسکے گی۔ عمارت اس وقت مکمل ہوتی ہے جب اس کی چاروں دیواریں آپ میں جڑی ہوئی ہوں۔ علیحدہ علیحدہ ہوں تو وہ چاردیواریں ایک دیوار جتنی قیمت بھی نہیں رکھتیں۔ لیکن اگر ہوں تو چاروں دیواریں، لیکن چاروں علیحدہ علیحدہ کھڑی ہوں تو ان پر چھت نہیں ڈالی جاسکے گی۔ اور اگر اپنی حماقت کی وجہ سے کوئی شخص چھت ڈالے گا تو وہ گرجائے گی۔ کیونکہ کوئی دیوار کسی طرف ہوگی اور کوئی دیوار کسی طرف۔ ایسی حالت میں ایک دیوار کا ہونا زیادہ مفید ہوتا ہے بجائے اس کے کہ چار دیواریں ہوں اور چاروں علیحدہ علیحدہ ہوں۔

پس خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ دونوں کو میں نصیحت کرتا ہوں کہ انہیں اپنے آپ کو تفرقہ اور شقاق کا موجب نہیں بنانا چاہئے۔ اگر کسی حصہ میں شقاق پیدا ہوا تو خداتعالیٰ کے سامنے تو وہ جوابدہ ہوں گے ہی میرے سامنے بھی جوابدہ ہوں گے یا جو بھی امام ہوگا اس کے سامنے انہیں جوابدہ ہونا پڑے گا۔ کیونکہ ہم نے یہ مواقع ثواب حاصل کرنے کے لئے مہیا کئے ہیں اس لئے مہیا نہیں کئے کہ جماعت کو جو طاقت پہلے سے حاصل ہے اس کو بھی ضائع کردیا جائے۔ ‘‘

(الفضل 30وفا؍جولائی 1945ء؍ 1324ہش صفحہ5کالم 1-2)

جماعتی نظام اور مجلس انصاراللہ

انصار اللہ کی حیثیت جماعتی نظام میں کیا ہے؟ اس کی وضاحت بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے مجلس کی بنیاد کے زمانہ میں فرمادی تھی۔ چنانچہ فرمایا:

’’انصار اللہ گو تنظیم کے لحاظ سے علیحدہ ہیں مگر بہر حال وہ لوکل انجمن کا ایک حصہ ہیں۔ ان کو بھی کوئی پریذیڈنٹ بحیثیت جماعت حکم نہیں دے سکتا۔ ہاں فرداً فرداً وہ انصار اللہ کے ہر ممبر کو اپنی مدد کے لئے بلاسکتا ہے اور انصار اللہ کا فرض ہے کہ وہ لوکل انجمن کے ہر پریذیڈنٹ کے ساتھ پورے طور پر تعاون کریں بہرحال کوئی پریذیڈنٹ انصار اللہ کو بحیثیت انصار اللہ یا خدام الاحمدیہ کو بحیثیت خدام الاحمدیہ کسی کام کا حکم نہیں دے سکتا۔ وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ تم احمدی ہو اس لئے آئو اور فلاں کام کرو۔ مگر وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئو انصار یہ کام کرو یا آئو خدام یہ کام کرو، خدام کو خدام کا زعیم مخاطب کرسکتا ہے اور انصار اللہ کو انصار اللہ کا زعیم مخاطب کرسکتا ہے۔ مگر چونکہ لوکل انجمن ان دونوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ انصار بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اور خدام بھی اس میں شامل ہوتے ہیں اس لئے گووہ بحیثیت جماعت خدام اور انصار کو کوئی حکم نہ دے سکے مگر وہ ہر خادم اور انصار اللہ کے ہرممبر کو ایک احمدی کی حیثیت سے بلا سکتا ہے اور خدام اور انصار دونوں کا فرض ہے کہ وہ اس کے احکام کی تعمیل کریں۔‘‘

(الفضل 30وفا؍جولائی 1945ء؍1324ش صفحہ 4کالم3)

(تاریخ احمدیت جلد 8 صفحہ 70 تا 78)

اطفال الاحمدیہ کا قیام

26؍جولائی 1940ء کو حضرت مصلح موعود ؓ نے مجلس خدام الاحمدیہ کو یہ ارشاد فرمایا کہ

’’ایک مہینہ کے اندر اندر خدام الاحمدیہ آٹھ سے پندرہ سال کی عمر تک کے بچوں کو منظم کریں۔ اور اطفال الاحمدیہ کے نام سے ان کی ایک جماعت بنائی جائے اور میرے ساتھ مشورہ کرکے ان کے لئے مناسب پروگرام تجویز کیا جائے۔‘‘

( الفضل یکم ظہور/ اگست 1940ء/ 1319ش صفحہ 6کالم3)

مجلس نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم کے لئے قادیان کے 804 بچوں کے 75گروپ بنائے۔ ان پر مانیٹر مقرر کئے اور انہیں مربیوں کے سپرد کیا۔ مجلس نے اطفال کے متعلق ذیلی قواعد کا تفصیلی ڈھانچہ بھی تیار کیا اور بچوں کے لئے تربیتی نصاب بھی۔ نیز خدام کی طرح اطفال الاحمدیہ کا بیج یعنی امتیازی نشان بھی تیار کرایا۔ جس پر نقوش تو وہی تھے جو خدام الاحمدیہ کے بیج کے تھے مگر یہ ذرا چھوٹا اور بیضوی شکل کا بنایا گیا تھا اور اس پر ’’امیدوار رکن مجلس خدام الاحمدیہ‘‘کے الفاظ کندہ تھے۔

پہلے سال قادیان سے باہر مندرجہ ذیل مقامات پر بھی مجالس اطفال قائم ہوگئیں۔ بھیرہ۔ سیالکوٹ چھائونی و شہر۔ جہلم۔ سید والا۔ لائل پور۔ ملتان۔ لودھراں۔ کریام۔ کاٹھ گڑھ۔ شملہ۔ کیرنگ۔ یادگیر دکن۔ محمود آباد ضلع جہلم۔ کنری سندھ۔ لاہور۔ شکار ماچھیاں۔ دھلی۔ مونگھیر۔ برہمن بڑیہ۔ شاہ پور۔ امرگڑھ۔ ننگل۔ امرتسر۔ گوجرانوالہ۔ نیروبی (مشرقی افریقہ)۔

(رپورٹ خدام الاحمدیہ سال سوم صفحہ 20تا21)(تاریخ احمدیت جلد 7 صفحہ 467)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button