متفرق مضامین

رمضان المبارک کا استقبال

(محمود احمد ناصر۔ جرمنی)

یقیناً ہم سب خوش قسمت ہیں کہ ہم اپنی زندگیوں میں ایک اور رمضان المبارک کا با برکت مہینہ دیکھ رہے ہیں۔ نیکیوں کا موسم بہار ہم پر ایک بار پھر طلوع ہواہے۔ جس کی جو توفیق ہے وہ اپنا دامن ان رحمتوں اور برکتوں سے بھر لے۔ سحر و افطار کی گھڑیاں، نماز کی پابندی، نماز تراویح، قرآن پاک کی تلاوت، بھوک اور پیاس کا احساس دراصل رمضان المبارک میں پورا ایک ماہ عبادت کے یہ مختلف رنگ تربیت کی ایک بھٹی ہے جس سے انسان کو گزارا جاتا ہے تاکہ وہ سال کے باقی گیارہ مہینے بھی ایک بہتر مسلمان کی زندگی گزارے۔ رمضان المبارک کا مہینہ ایک قلعی گر کی طرح سے دلوں اور روحوں پر جمے زنگ کو صاف کر کے روحوں کو چمکا دیتا ہے۔ روزے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کی روح پر جمی جھوٹ اور بددیانتی کی کائی کو صاف کر کے سچائی، دیانت، تقویٰ اور ایمان کو محفوظ کیا جائے۔

قرآن کریم میں ارشاد خداوندی ہے کہ

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔ (البقرۃ:184)

اے لوگو! جو ایمان لائے ہو تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح )فرض کیاگیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا۔ جو تم سے پہلے گذر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے)بچو۔

ایک اور آیتِ مبارکہ میں رمضان المبارک میں نازل کردہ ایک روحانی مائدہ کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے:

شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَ الۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ…(البقرۃ: 186)

رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اُتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں۔ پس جو بھی تم میں سے اس مہینے کو دیکھے تو اِس کے روزے رکھے…۔

رمضان المبارک ہر انسان کی روحانیت کا معیار بلند کرنے کے لیے اور نیکیوں پر پہلے سے بڑھ کر عمل کرنے کے لیے ایک نہایت ساز گار موسم ہے۔ اس موسم میں ہمیں کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، استغفار اور درودشریف اور دیگر دعاؤں کی طرف ہماری خاص توجہ ہونی چاہیے۔ اپنے مال اور وقت کو پہلے سے بڑھ کر خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔

حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان المبارک کی آمد سے قبل اس کے انتظار میں رہا کرتے تھے اور لوگوں کو اس کی اہمیت و عظمت سے آگاہ فرمایا کرتے تھےکہ رمضان المبارک کو کیسے گزارا جائے، کیسے اس کی قدر کی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رمضان المبارک کی آمد کی فکر رجب المرجب کے مہینہ سے شروع ہو جاتی تھی اور جوں ہی رجب کے مہینہ کا آغاز ہوتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ان دعاؤں کا اضافہ ہو جاتا کہ

اللّٰھُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبٍ وَّ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ (مسنداحمد:2257)

یعنی اے اللہ ہمارے لیے رجب و شعبان میں برکت عطا فرما اور رمضان کے مہینہ تک ہمیں پہنچا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک موقع پر روزے کی افادیت کے متعلق فرماتے ہیں کہ

’’جو شخص ایمان کے تقاضوں کے مطابق اور نفس کااحتساب کرتے ہوئے رمضان کو قائم کرتا ہے اس کے سارے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔ ‘‘(بخاری)

یہ بات واقعی حقیقت ہے کہ رمضان کا نزول خداتعالیٰ کے عظیم احسانات میں سے ہے۔ کیونکہ اس مبارک مہینے میں انسان بہت سے گناہوں سے بچنے اور بہت سی نیکیوں کو حاصل کرنے کی توفیق پالیتا ہے۔ لیکن ہمیشہ یہ فکر رہنا ضروری ہے کہ کیا ہم روزوں کے حقوق کو پورے تقویٰ اور خلوص دل سے ادا کررہے ہیں کہ نہیں؟

آسمان پر رمضان کے استقبال کی تیاریوں کا منظر

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے دروازے وا ہوجاتے ہیں اور خیر و برکت کے طالب ہر شخص کے لیے نیکیوں کا حصول آسان کر دیا جاتا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :

قال رسول اللّٰه صلى اللّٰه عليه وسلم: إذا كان اول ليلة من شهر رمضان، صفدت الشياطين ومردة الجن، وغلقت ابواب النار فلم يفتح منها باب، وفتحت ابواب الجنة فلم يغلق منها باب، وينادي مناد يا باغي الخير اقبل، ويا باغي الشر اقصر، وللّٰه عتقاء من النار وذالك كل ليلة

(سنن ترمذی۔ کتاب الصیام عن رسول اللّٰہﷺ۔ باب مَا جَاءَ فِي فَضْلِ شَهْرِ رَمَضَانَ)

یعنی جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی ہے، تو شیطان اور سرکش جن جکڑ دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا۔ اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، پکارنے والا پکارتا ہے۔ اے خیر کے طلب گار! آگے بڑھ، اور شر کے طلب گار! رک جا اور اللہ کے بہت سے بندے آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اور ایسا(رمضان کی) ہر رات کو ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’آنحضرتﷺ رمضان شریف میں بہت عبادت کرتے تھے۔ ان ایام میں کھانے پینے کے خیالات سے فارغ ہو کر اور ان ضرورتوں سے انقطاع کرکے تبتل الی اللہ حاصل کرنا چاہئے‘‘۔

(تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ 20تا21)

رمضان ایک ایسامہینہ ہے جس میں مساجد میں ایسے چہرے بھی دکھائی دیتے ہیں جو پہلے کبھی نہیں دیکھے ہوتے یا دیر بعد دکھائی دیتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر دل میں کسی قسم کی تحقیر کا جذبہ پیدا نہیں ہونا چاہیے۔ کیونکہ اگر انسان ان چہروں کو دیکھے اور تحقیر کی نظر سے کہے کہ اب آگیا ہے، پہلے کہاں تھا؟تو ایسی نظرسے دیکھنے والے کی اپنی عبادتیں بھی سب باطل اور ضائع ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے دربار میں اگر کوئی حاضر ہوتاہے خواہ ایک مرتبہ ہی حاضر ہو، تو اگر آپ کو حقیقی معنوں میں اللہ تعالیٰ سے محبت ہے تو ایسے شخص پر پیار کی نظر ڈالنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ اس کو اور قریب کریں اور اسے بتائیں کہ الحمدللہ تمہیں دیکھ کر بہت ہی خوشی ہوئی ہے۔ تم تکلیف کر کے اٹھے، پہلے عادت نہیں تھی۔ اس کو کہیں کہ اب آ گئے ہو’بسم اللہ جی آیاں نوں ‘ اور پیار کے ساتھ اس کو سینے سے لگائیں تا کہ آپ کے اخلاص کے اظہار کے ذریعے سے وہ ہمیشہ کے لیے خدا کا ہو جائے۔

یہ وہ طریق ہے جس سے ہم اپنے گھر میں اپنے بچوں کی بہت عمدہ تربیت کر سکتے ہیں۔ جب وہ صبح اٹھتے ہیں تو ان کو پیار اور محبت کی نظر سے دیکھیں، ان کی حوصلہ افزائی کریں۔ ان کو بتائیں کہ تم جو اٹھے ہو توخدا کی خاطر اٹھے ہو اور ان سے یہ گفتگو کیا کریں کہ بتاؤ آج نماز میں تم نے کیا کیا۔ کیا اللہ سے باتیں کیں، کیا دعائیں کیں اور اس طریق پر ان کے دل میں بچپن ہی سے خدا تعالیٰ کی محبت کے بیج مضبوطی سے گاڑے جائیں گے یعنی جڑیں ان کی مضبوط ہوں گی۔ ان میں وہ تمام صلاحیتیں جو خدا کی محبت کے بیج میں ہوا کرتی ہیں وہ نشوونما پاکر کونپلیں نکالیں گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ

’’روزوں کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے۔ اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہیئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تحلیل میں لگے رہیں۔ جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 102، ایڈیشن1988ء)

بچوں کے روزہ کے متعلق حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’…جب بچے کی ضروری قوتیں نشوونما پاچکی ہوں تو ہر سال کچھ نہ کچھ روزے رکھوانے چاہئیں تاکہ عادت ہوجائے مثلاً پہلے پہل ایک دن روزہ رکھوایا۔ پھر دوتین چھوڑ دئیے۔ پھر دوسری دفعہ رکھوایا ایک چھڑوادیا۔ میرے نزدیک بعض بچے تو 15سال کی عمر میں اس حد کو پہنچ جاتے ہیں کہ روزہ ان کے لئے فرض ہوجاتا ہے۔ بعض 16-17-18-19اور حد بیس سال تک اس حالت کو پہنچتے ہیں۔ اس وقت روزہ رکھنا ضروری ہے۔ پس یاد رکھو روزہ فرض ہونے کی حالت میں بلاوجہ روزہ نہ رکھنا اپنے ایمان کو ضائع کرنا ہے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍مارچ 1926ءمطبوعہ خطبات محمود جلد 10 صفحہ 118)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ جماعت کو متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’پس اس فتنے کی فکر کرو جو تمہارے گھروں میں ہورہا ہے تمہارے بچوں کی صورت میں رونما ہورہا ہے۔ تمہارے احوال کی صورت میں رونما ہورہا ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے الصلوٰۃ والصوم دو ہی چیزیں ہیں۔ نمازوں سے گھر کو بھر دو اور جب رمضان کے مہینے آیا کریں او ر ویسے بھی اپنے گھروں کو روزوں سے بھر دیا کرو۔ ہر قسم کے فتنے سے نجات پاؤ گے۔ ‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 26؍دسمبر 1997ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل13؍فروری1998ءصفحہ8)

رغبتِ دل سے ہو پابندِ نماز و روزہ

نظرانداز کوئی حصہ احکام نہ ہو

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :

’’پس اے مسیح محمدی کے غلامو! آپ کے در خت وجود کی سرسبز شاخو! اے وہ لوگو! جن کو اللہ تعالیٰ نے رشد و ہدایت کے راستے دکھائے ہیں۔ اے وہ لوگو! جو اس وقت دنیا کے کئی ممالک میں قوم کے ظلم کی وجہ سے مظلومیت کے دن گزار رہے ہو، اور مظلوم کی دعائیں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَیں بہت سنتا ہوں، تمہیں خداتعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ اس رمضان کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص ہوتے ہوئے اور ان تمام باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے، اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں گزار دو۔ …خداتعالیٰ کے حضور اپنے سجدوں اور دعاؤں سے نئے راستے متعین کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کرنے والا رمضان بنا دو۔ اپنی آنکھ کے پانی سے وہ طغیانیاں پیدا کر دو جو دشمن کو اپنے تمام حربوں سمیت خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائیں۔ اپنی دعاؤں میں وہ ارتعاش پیدا کرو جو خداتعالیٰ کی محبت کو جذب کرتی چلی جائے کیونکہ مسیح محمدی کی کامیابی کا راز صرف اور صرف دعاؤں میں ہے۔

خداتعالیٰ جو ان دنوں میں ساتویں آسمان سے نیچے اترا ہوتا ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو اپنی آغوش میں لے لے اور اللہ تعالیٰ کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کئے گئے وعدے ہم اپنی زندگیوں میں پورے ہوتے ہوئے دیکھ لیں۔ اے اللہ تو ایسا ہی کر۔ آمین‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ5؍ستمبر 2008ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل26؍ستمبر2008ءصفحہ7)

پس ہم میں سے ہر ایک احمدی کو رمضان کے مقدس اور بابرکت مہینہ کی بہت حفاظت اور اہتمام کرنا چاہیے تاکہ جسمانی، روحانی اور اخلاقی ہر لحاظ سے سارا سال رمضان ہمارے لیے امن و سلامتی کا ذریعہ بنا رہے اور یہ ایک بابرکت مہینہ سارے سال کے شرور و معاصی کے ازالہ اور کفارہ کا موجب بن جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button