یادِ رفتگاں

ڈاکٹر خورشید رزاق صاحبہ

(ظفر احمد رزاق۔ امریکہ)

خاکسار اپنی والدہ ڈاکٹر خورشید رزاق کی یاد میں کچھ لکھنا چاہتا ہے جو 19؍جنوری 2021ءبروز منگل امریکہ کے شہر کنیٹیکٹ میں انتقال کر گئیں۔ میرے والد عبدالرزاق صاحب کااس سے قبل1997ء میں انتقال ہوگیا تھا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد ہماری والدہ نے اپنی پیشہ ورانہ مصروفیات کے باوجود ہماری پرورش میں والد کی کمی کبھی محسوس نہ ہونے دی۔

میری والدہ ہمارےخاندان میں رہ جانے والے اُن چند بزرگوں میں سے ایک تھیں جنہیں حضرت مسیح موعودؑ کے صحابہ کی صحبت نصیب ہوئی اور ان سے تربیت حاصل کرنےکی توفیق پائی۔ ان کی طبیعت میں بھی اس کا رنگ پایا جاتا تھا۔

آباؤ اَجداد

والدہ صاحبہ کا تعلق رئیسِ لاہورحضرت میاں چراغ دین صاحب اورحضرت میاں معراج دین صاحب کے خاندان سےتھا۔ ان کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک خطبہ جمعہ بعنوان’’جماعت احمدیہ لاہور کی ذمہ داریاں ‘‘ میں اس رئیس خاندان کے ساتھ حضرت مسیح موعودؑ کے اخلاص و محبت کے تعلق کا ذکر فرمایا ہے۔ حضورؓ فرماتے ہیں: ’’میاں چراغ دین صاحب اور میاں معراج دین صاحب کا خاندان اپنے پرانے تعلقات کے لحاظ سے جو بیعت سے پہلے کے تھے، حضرت مسیح موعودؑ کی نگاہ میں بہت قرب رکھتا تھا … میرے عقیقہ پر جن دوستوں کو شامل ہونے کی دعوت دی گئی تھی ان میں میاں چراغ دین بھی تھے۔ پس اس جگہ پر جماعت کی بنیاد ایسے لوگوں سے پڑی جو حضرت مسیح موعودؑ سے اس وقت سے اخلاص رکھتے تھے جب ابھی آپ نے دعویٰ بھی نہیں کیا تھا۔ پھر خدا تعالیٰ نے ان خاندانوں کو ترقی دی اور وہ اخلاص میں بڑھتے چلے گئے۔ ‘‘

حضورؓ مزید فرماتے ہیں کہ ’’پس لاہور میں یہی واحد اتنا بڑا رئیس خاندان تھا جو کہ اصل لاہور کے باشندگان پر مشتمل تھا جس نے قریباً اجتماعی طور پر بیعت کر لی تھی …یہ اللہ تعالیٰ کا خاص الخاص فضل تھا …اس طرح خاندان میاں فیملی لاہور میں احمدیت کی تقویت کا باعث بنا اور یہاں ایک مضبوط مخلص جماعت بن گئی۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍ فروری 1954ء مطبوعہ الفضل13؍دسمبر1961ءصفحہ2)

آپ کے والدین دونوں ہی صحابی تھے۔ والد حضرت ماسٹر مرزا نذیر حسین صاحبؓ، حضرت حکیم محمد حسین صاحب (مرہم عیسیٰ) کے بیٹے تھے اور والدہ، حضرت عبدالعزیز مغل صاحبؓ کی بیٹی تھیں۔ دونوں بھائیوں نے اپنی پوری زندگی جماعت اور انسانیت کی خدمت میں صرف کی۔

حضرت عبد العزیز مغل صاحبؓ ایک ایسے پُرجوش مبلغ تھے کہ انہوں نےاپنی زندگی میں ہزار وں لوگوں کی بیعت کروانے کی توفیق پائی۔ وہ جب گھر سے باہر کچھ خریدنے جاتے تو اصل مقصد کو بھول کر تبلیغ میں اس قدر مصروف ہو جاتے کہ رات دیر سے گھر لوٹتے۔ مخالفین کے جلسوں میں بِلا خوف چلے جاتے اور پنجابی زبان میں اُونچی آواز میں اعلان کرتے ’’لوکو عیسیٰؑ آ گیا جے‘‘۔

والدین

میرے ناناجان حضرت ماسٹر مرزا نذیرحسین صاحبؓ کی پیدائش لاہور میں ہوئی تھی لیکن جب ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تو وہ ابھی نوعمری میں ہی تھے۔ انہیں خلیفۃالمسیح اوّلؓ اپنے گھرلے گئے اور پھر انہوں نے قادیان میں ہی پرورش پائی جبکہ ان کا باقی خاندان لاہور میں تھا۔

تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کا تقرر تعلیم الاسلام کالج قادیان میں بطور اُستاد ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ناناجان کو اپنے بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری سونپ رکھی تھی۔ اور اس طرح میرے نانا جان کو دو خلفاء یعنی حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اور حضرت خلیفۃ المسیح الربعؒ کے استاد ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب اپنے خاندان کے ساتھ ڈلہوزی یا دوسرے مقامات پر تشریف لے جاتے تو میرے ناناجان حضرت ماسٹر مرزا نذیرحسین صاحبؓ بطور استاد اپنی فیملی کے ساتھ وہاں قیام کی توفیق پاتے۔ چنانچہ میری والدہ اور ان کے بہن بھائیوں کی تربیت پر خاندان حضرت مسیح موعودؑ کی صحبت کا بڑا نیک اور گہرا اثر بھی رہا۔

میرے ناناجان حضرت ماسٹر مرزا نذیرحسین صاحبؓ کوقرآن کریم سےایک خاص عقیدت تھی اور ہمیشہ مضامین کی تحقیق میں مصروف رہتے تھے اور اپنی وفات تک نہایت باریک چھوٹی تحریر میں قرآنِ کریم کے صفحات میں اپنے نوٹس تحریر کرکے رکھتے رہے۔

میری نانی امۃ العزیز بیگم صاحبہ نے بھی رئیس لاہورحضرت میاں چراغ دین صاحبؓ و حضرت میاں معراج دین صاحبؓ کی اولادہونے کے باوجود ایک بہت ہی عام زندگی گزارنے میں میرے نانا جان کا بھرپور ساتھ دیا۔ محدود وسائل ہونے کے باوجود وہ ہمیشہ دوسروں کی دیکھ بھال کرتے تھےجبکہ اپنی ضروریات پوری کرنا بھی مشکل تھا۔

تقسیم ہند کے بعد ان کے خاندان کو لاہور آنا پڑا اور اگرچہ ان کا گوال منڈی لاہور میں بہت چھوٹا گھر تھا، مگر پھر بھی میرے نانا جان نے اپنی بیوہ بہن اور ان کے بچوں کو ایک منزلہ رہائش دے رکھی تھی۔ یہاں تک کہ اپنے ایک نواسے اور نواسی کو بھی لاہور لا کر رکھا تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں۔ آپ کو اپنی اولاد کواعلیٰ تعلیم دلوانے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ یہ نواسے ڈاکٹر پیر محمد نقی الدین صاحب آف اسلام آباد پاکستان تھے جن کی 2020ءمیں وفات پر حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے ذکر خیرفرمایا تھا۔ ڈاکٹرپیرمحمد نقی الدین میری والدہ کی بڑی بہن کے بیٹے تھے۔

والدہ صاحبہ کا ڈاکٹر بننا

جب میری والدہ صاحبہ اپنے ہائی اسکول سے فارغ ہو رہی تھیں تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے تحریک کی کہ خواتین تعلیم کے شعبے میں سبقت لیں اور طِب اور تعلیم جیسے پیشے میں جائیں۔ میرے نانا جان ہمیشہ طِب کے پیشہ کی قدر کرتے تھے کیونکہ ان کے والد ایک مشہور حکیم تھے لیکن اپنی والدہ کے انتقال کے وقت کم عمری کے سبب وہ خود حکمت کے پیشے کو آگے نہیں بڑھا سکے۔ انہوں نے ہمیشہ طب کے پیشہ کو مقدس سمجھا اور یہی وجہ ہے کہ میری والدہ ڈاکٹر بن گئیں۔ حقیقت میں میری والدہ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ایک ملاقات کے دوران رخصت ہوتے ہوئے حضور کی تحریک کے حوالے سے پوچھاکہ حضور میں ڈاکٹر بننا چاہتی ہوں۔ حضورؓ نےفرمایا یقیناً۔ میری والدہ نے وضاحت کی کہ ان کےوالد (یعنی میرے نانا) نے ابھی تک ایک درویشی کی زندگی گزاری ہے، اور ان کے پاس میڈیکل اسکول میں داخلہ فیس کے لیے پیسے نہیں۔ حضورؓ نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور کچھ رقم نکال کردی جو معجزانہ طور پر اتنی ہی تھی جس سے فاطمہ جناح میڈیکل کالج لاہور میں داخلہ فیس ادا کی جاسکے۔ میری والدہ اکثر کہا کرتی تھیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی دعاؤں کی بدولت اللہ نے ابتدائی چار سالوں تک ان کو اپنی کلاس میں اوّل درجہ پر رہنے اور اسکالرشپ حاصل کرنے کی تو فیق عطا فرمائی۔

پڑھائی کے پانچویں سال ان کی کلاس میں دوسری پوزیشن آ گئی جس کی وجہ سے وظیفہ نہ مل سکا۔ وہ ہمیشہ یہ کہتی تھیں کہ اُن کا ماننا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر انہیں دوسری پوزیشن دی تاکہ وہ کبھی بھی تکبر کا شکار نہ ہوں اور دوسرا یہ ظاہر کرنے کےلیے کہ جب انہیں وظیفے کی ضرورت نہیں تھی تو وہ اوّل نہ آئیں۔ تاہم ان کا شمار ہمیشہ لائق طالبات میں رہا۔

نافع النّاس وجود

میری والدہ صاحبہ کو ایسے وقت میں ڈاکٹر بننے کی توفیق ملی جب خواتین ڈاکٹروں کی ضرورت تھی۔ وہ پاکستان میں ماہر امراض نسواں تھیں۔ کراچی میں وہ ان پڑھ خواتین کے ساتھ اس قدر محبت اور پیار کا سلوک کرتی تھیں کہ وہ دور دراز سندھ کے دیہاتوں سے بھی ان کے پاس آتی تھیں۔ وہ اردو بہت کم بول سکتی تھیں لہٰذا میری والدہ صاحبہ نے سندھی زبان سیکھی تاکہ ان کی بولی میں ان سے بات کرنے کے قابل ہوسکیں اور دیہاتی خواتین ایک دوست کی طرح اپنی مشکلات اور پریشانی کُھل کر بیان کر سکیں۔

ہسپتال کے اوقات کے علاوہ ہفتہ میں دو دن شام کو ایک مفت کلینک بھی چلاتی تھیں۔ مفت دوائیں بھی دیتی تھیں اور بسا اوقات ا کثر مریضوں کو گھر واپسی کے سفر کے لیے نقد رقم بھی مہیا کردیا کرتی تھیں۔

میری والدہ کے ہاتھ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے شفاء کے نتیجے میں ایسے مریضوں کی بھی بڑی تعداد تھی جو حیثیت سے متمول خواتین تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ ان کےہسپتال کے باہر طویل شیورلیٹ اور دوسری مہنگی گاڑیاں بھی کھڑی ہوتی تھیں۔ باوجود اس کے کہ انہیں یہ معلوم ہوتا کہ ہم احمدی ہیں، اکثرخواتین کےمیری والدہ اور ہمارے کنبے کے ساتھ زندگی بھردوستانہ تعلقات قائم رہے۔ کئی خواتین آدھی رات کے وقت اپنے نوزائیدہ بچے کے ساتھ ہمارے گھر کسی تکلیف یا بخار کی وجہ سے پریشان ہو کر آ جاتی تھیں، اور میری والدہ ان کا ایسے استقبال کرتیں جیسے دن کا وقت ہو۔ یہاں تک کہ اگر زیادہ پریشان دیکھتیں تو انہیں ہمارے گھر رات رہنے کی اجازت دے دیتیں تاکہ ان کے نوزائیدہ بچے کی دیکھ بھال میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔

بحیثیت بیٹی

میری والدہ ہمیشہ اپنے والدین یعنی میرے نانا اور نانی کی بہت دیکھ بھال کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر1971ء کی جنگ کے دوران، چونکہ لاہور ہندوستان کی سرحد کے قریب تھا، اس لیے میرے نانا نانی ہمارے ساتھ کراچی میں قیام کرنے آ گئے تھے۔ ایک ڈاکٹرہونے کے ناطے میری والدہ کو دن یا رات میں کسی بھی وقت بچے کی پیدائش کے لیےبلایاجاتا تھا۔ ہسپتال میں ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد جب وہ گھر آتیں تو اپنے آرام کا خیال رکھنے کی بجائے وہ ہمیشہ میرے نانا اور نانی کی ہر طرح سے خدمت میں مصروف ہو جاتیں۔

میری والدہ بتاتی تھیں کہ میری نانی نے میری والدہ کی تربیت میں اس بات کا بہت خیال رکھا کہ وہ نہ صرف تعلیم یافتہ ہوں اور ڈاکٹر بنیں بلکہ گھریلو کاموں پر بھی انہیں عبور حاصل ہو۔ اس لیے تعلیم کے ساتھ ساتھ، میری والدہ کو گھریلو کام کاج میں بھی حصہ لینا ہوتا۔

میری والدہ صاحبہ ایک ماہر ڈاکٹر ہونے کے ساتھ گھر کے کاموں، کھانا پکانے، سلائی، بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال جیسے امور میں ہر طرح سے کامیاب رہیں۔ جب ہم کراچی میں رہتے تھے تو ہمارے پاس کچھ نوکر تھے جن میں ایک ڈرائیور بھی شامل تھے۔ میری والدہ ہمیشہ نوکروں کے ساتھ عزت اور وقار اور برابری کے ساتھ پیش آئیں جس طرح کہ یہ ہمارے خاندان کا ہی حصہ ہوں۔ وہ کسی بھی طبی ضروریات کے لحاظ سے ان کی دیکھ بھال کرتیں۔ عید کے موقع پر انہیں عیدی مل جاتی اور میرے والدین ان کے اور ان کے بچوں کے لیے تحائف خریدتے۔

اپنی اولاد سے تعلق اور تربیت

میری والدہ نہ صرف ہماری اچھی تربیت کا ہر وقت خیال رکھتیں بلکہ ہماری اولاد کی بہترین تربیت کےلیے بھی ہر دم کوشاں رہتیں۔ میرے بڑے بیٹے کو جب تعلیم کےلیے دوسرے شہر جانا پڑا تو اپنی بیماری اور ضعیف العمری کے باوجود اپنا گھر چھوڑ کر ویسٹ ورجینیا میں خود اس کے ساتھ رہتیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اپنی میڈیکل کی تعلیم ان کے سایایۂ شفقت میں رہ کر حاصل کر سکے۔ جب میرا دوسرا بیٹا لاء اسکول میں داخل ہوا، تو وہ اس کےساتھ بھی رہنے کے لیے نیو یارک جانے کے لیے تیار تھیں۔ اس طرح والدہ نہ صرف میرے بچوں کے لیے ہر وقت دعائیں کرتی تھیں بلکہ وہ خود ہر وقت ان کے پاس رہنے کو بھی تیار تھیں اورزندگی کے آخری دن تک ان کے لیے دعا ئیں کرتی رہیں۔

خاندان کی بزرگ کی حیثیت سے انہوں نے نہ صرف اپنے بچوں بلکہ اپنے بہن بھائیوں کے بچوں سے بھی تعلق رکھا۔ آخری وقت تک ہر ماہ مختلف ممالک میں آباد بہن بھائیوں کے اکثر بچوں اور پھر ان کے بچوں کو باقاعدگی سے فون کرتیں۔

ریاست کنیکٹیکٹ امریکہ کےلیے خدمات

ہماری والدہ صاحبہ کی خدمت انسانیت کےلیے کی جانے والی کاوشوں اور ان کے ساتھ کام کرنے والوں کی طرف سے ان کے احترام کی چند مثالیں پیش کرنا چاہتا ہوں۔

جب آپ کنیکٹیکٹ آئیں تو عمر زیادہ ہوچکی تھی۔ مگر جب دیکھا کہ کنیکٹیکٹ میں دماغی چوٹ کے علاج اور نگہداشت کا کوئی یونٹ نہیں اورجو لوگ دماغی چوٹ کی وجہ سے ہسپتالوں میں داخل تھے ان کا علاج معالجہ بھی دوسرے نفسیاتی مریضوں کے ساتھ کیا جارہا تھاتو میری والدہ نے ریاست کنیکٹیکٹ کے اٹارنی جنرل کے ساتھ مل کر ایسے مریضوں کےلیے الگ علاج کی سہولت کے لیے کیس دائر کیا اور ماہرڈاکٹر کی حیثیت سےشامل رہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی دعاؤں کی برکت سے، ریاست نے پانچ سال عدالت میں لڑنے کے بعد مقدمہ جیت لیا۔ میری والدہ کو مڈل ٹاؤن کنیکٹیکٹ کے کنیکٹیکٹ ویلی ہسپتال میں Traumatic دماغی چوٹ کے لیے ایک نیا یونٹ شروع کرنے کا کام سونپا گیا تھا۔ 2007ء میں ریٹائر ہونے تک وہ اس یونٹ کی سربراہ رہیں۔ ان کی ریٹائرمنٹ کے وقت، پوری ریاست کنیکٹیکٹ کے انچارج ڈاکٹر نے بتایا کہ میری والدہ نے 100سے زیادہ Traumatic برین انجری کے مریضوں کا علاج کیا، اور 20سے کم مریضوں کو دوبارہ داخل ہونے کی ضرورت پیش آئی۔ جو دوسرے ڈاکٹروں کے مریضوں کے مقابلے میں بہت کم تعداد تھی۔ حیران کن بات یہ تھی کہ وہ اپنے مریضوں کے علاج کے لیے اس شعبے میں موجود دیگر ڈاکٹروں کی نسبت صرف 18۔ 20فیصد دواؤں کا استعمال کررہی تھیں۔ اگرچہ دوسرے ڈاکٹر ادویات دینے میں جلدی کرتے تھے، ان میں سے کچھ اپنے مضر اثرات کی وجہ سے نقصان دہ تھیں، لیکن میری والدہ ہمیشہ مریض کی بہت وقت لگا کر تفصیل سے بات سننے کی کوشش کرتی تھیں پھر دعا کرتی تھیں اور جب تک کسی دوائی کا دینا ضروری نہ ہو جاتا اس وقت تک دوا دینے سے پرہیز کرتی تھیں۔ مجھے واضح طور پر یاد ہے کہ میری والدہ ہمیشہ میرے بڑے بیٹے کو یہ کہتی تھیں کہ جب آپ ڈاکٹر بن جائیں تو ہمیشہ اپنے مریضوں کے لیے دعا کرنا، اللہ سے راہ نمائی طلب کرنا۔ جب آپ ان کا علاج کرتے ہو تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ کے وسیلہ کی حیثیت سے مشورہ دیتے ہیں۔ دراصل اللہ ہی شفا بخشنے والا ہے۔ وہ خود بھی اس بات پر یقین رکھتی تھیں اور اس پرعمل کرتی تھیں۔ اکثر ہمیں بتاتی تھیں کہ انہوںنے اپنے دادا حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسیٰ کو اس طرح کرتے دیکھا۔

امریکہ بیماری کے دوران ہسپتال میں

میری والدہ انتہائی باہمت، دھیمےمزاج کی، شفیق، شائستہ اور بردبار طبیعت کی مالک تھیں۔ ایک بار اپنی بیماری کے دوران جب وہ گھٹنوں کے آپریشن کے بعد ریکوری روم میں تھیں تو میں کھانے کے اوقات میں ان سے ملنے گیا۔ ایک نرس انہیں دوائی دینے آئی۔ یہ نہ جانتے ہوئے کہ میری والدہ میڈیکل ڈاکٹرہیں، نرس اونچی آواز میں میری والدہ کو تفصیل سے یہ بتانے لگی کہ ان کےلیے یہ دوا کیوں ضروری ہے۔ میں اپنی والدہ کے ساتھ بیٹھنے کے لیے وقت لینا چاہتا تھا لہٰذا میں نے وقت بچانے کےلیے نرس کو بتایا کہ میری والدہ ڈاکٹرہیں، انگریزی جانتی ہیں اوروہ کنیکٹیکٹ ریاست میں Traumatic دماغی چوٹ کے یونٹ کی سربراہ تھیں۔ لہٰذا اس دوا کے بارے میں پہلے ہی جانتی ہیں۔ جب نرس کمرے سے چلی گئی تو میری والدہ مجھے شائستگی سے کہنے لگیں کہ نرس کو اپنا کام اور دوائیوں کی وضاحت کرنے دینا چاہیے تھا۔

آپ کی ہمیشہ کوشش ہوتی کہ ہر کسی سے اس کی سطح پر آکر بات کریں۔ یہاں تک کہ ایک ماہر ڈاکٹر کی حیثیت سے بھی ہمیشہ آپ کی یہی کوشش رہتی کہ اپنے شعبے میں موجود عملہ اور مریضوں سے کبھی بھی کوئی ایسی بات نہ ہو جس سے انہیں یہ محسوس ہو کہ وہ کسی معاملہ میں ان سےکم علم رکھتے ہیں۔

امریکہ میں جماعتی خدمات

میری والدہ کو 1990ء میں قائم ہونے والی کنیکٹیکٹ جماعت میں صدر لجنہ کی حیثیت سے خدمت دین کا موقع ملا۔ کنیکٹیکٹ میں کچھ احمدی احباب تھے لیکن بہت کم تعداد تھی۔ جب 1989ءمیں میری شادی ہوئی تو میرے والدین کنیکٹیکٹ کے باہر، ڈچس کاؤنٹی نیو یارک چلے گئے تاکہ وہ ہر ہفتے مجھے ملنے آسکیں ۔ نیوجرسی سے تعلق رکھنے والی میری بہن بھی مجھے کانیکٹیکٹ ملنے آتی تھیں۔ ابتدائی طور پر یہ صرف ہمارے کنبے کے افراد اور دیگر دو کنبوں کے افراد تھے جنہوں نے کنیکٹیکٹ کی جماعت کو تشکیل دیا۔ پھرآہستہ آہستہ اور لوگ بھی یہاں منتقل ہوگئے اور یہ تعداد تقریباً 20-30 ممبران تک پہنچ گئی۔ اس طرح سے کنیکٹیکٹ کی جماعت کا آغاز ہوا۔ آج ہماری جماعت کی تجنید اللہ تعالیٰ کے فضل سے 300سے زائد ہے۔ میری والدہ نے 10 سال تک صدر لجنہ اماء اللہ کنیکٹیکٹ کی حیثیت سے خدمات کی توفیق پائی۔

چونکہ کنیکٹیکٹ میں مسجد نہیں تھی اس لیے جماعت کے تمام پروگرام میرے والدین کے گھر میں منعقد ہوتے تھے۔ جس میں نماز جمعہ اور عیدین شامل ہیں۔

نماز عید میرے والدین کے گھر میں ہوتی جس میں قریباً100افراد شامل ہو تے۔ میری والدہ اور بیوی کھانا پکاتے جبکہ میرے والد اور خاکسار اپنے بچوں کے ساتھ گھر کی صفائی کرتے تھے۔

جب سے میری والدہ کنیکٹیکٹ جمات میں تھیں، بہت سی خواتین مختلف ریاستوں یا ممالک سےیہاں بیاہ کر آئیں۔ ان سب کے لیے میری والدہ نےایک ماں کا کردار ادا کیا۔ تمام ممبرات سے آپ بے حد پیار کرتی تھیں اور سب کے لیے ہمیشہ دعا گورہتیں۔

خلافت سے تعلق

میری والدہ نےہمیشہ ہر دَور میں خلفائے کرام سے والہانہ عقیدت و محبت کا تعلق رکھا اور ہمیشہ خلفاء کی ہدایات سننے اور ان پر عمل کرنے کی پوری کوشش کی۔

آپ کو چار خلفاء کے ساتھ ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوا۔ آپ نے ہمیں بتایا کہ قادیان میں ان کی والدہ ہر جمعہ کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے گھر جاتی تھیں۔ وہ حضورؓ کے باورچی خانے میں مٹی کے چولہے بناتیں اور ان کی مرمت کرتیں۔ کیونکہ وہ کھانا اچھا بنالیتی تھیں اس لیے انہیں یہ توفیق بھی ملی کہ حضرت خلیفۃ لمسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور آ پ کےگھر کے افراد کے لیے پراٹھے بنائے۔ اس طرح اکثر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کا تبرک کھانے کا موقع ملا۔

والدہ صاحبہ ہمارے خاندان کے اُن چند بزرگ اَفراد میں سے ایک تھیں جنہوں نے خلفاء کی صحبت پائی اوربراہ راست صحابہؓ سے تربیت حاصل کی۔ آپ ہمارے خاندان کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں اور انسانیت اور جماعت دونوں کی خدمت کرنے کی سعادت ملی۔ وہ اپنی زندگی کے آخری دن تک پنجوقتہ نمازوں، نوافل کی ادائیگی، دعاؤں اور تفسیر کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کے سلسلے میں ہمارے لیے ایک مضبوط مثال بنتی رہیں۔ 2019ء میں لندن آکرحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ ملاقات کرنے کی توفیق پائی۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نےجب آپ کو فرمایا کہ آپ کو اب اس بڑھاپے اور بیماری میں سفر نہیں کرنا چاہیے تو والدہ صاحبہ کہنےلگیں کہ حضور، میرے لیے ناممکن ہے کہ میں حضور کو ذاتی طور پر دیکھے اور ملے بغیر چلی جاؤں۔ کیونکہ خدا تعالیٰ کے خصوصی فضل، رحمتیں اور برکتیں آپ کے بابرکت وجود کی صحبت میں رہ کر ہی حاصل ہو سکتی ہیں۔

اپنے غفور الرحیم ربِ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہماری والدہ ڈاکٹر خورشید رزاق سے انتہائی رحم و کرم اور بخشش کا سلوک فرمائے۔ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ میری والدہ کی تمام دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہمیں اور ہماری اولاد کو اپنے ان بزگوں کے نقش قدم پر چلنے اور ان کے نیک اعمال کو ہمیشہ جاری رکھنے اور اپنے بزرگوں اورخاندان کی نیک نامی کو ہمیشہ روشن رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button