یادِ رفتگاں

ایک گوہرِ نایاب میری والدہ محترمہ گوہر سلطانہ صاحبہ

(عطاءالقدوس)

انسان کے والدین اُس کے لیے دوبہت ہی مہربان وجود اور شجرِ سایہ دار ہوتے ہیں جِن کی مُسلسل قربانیوں اور دُعاؤں کے سائے تلے سالہا سال اُس کی پرورش اور آبیاری ہوتی ہے، اِن احسانات کا بدلہ تو اِنسان کبھی ادا نہیں کر سکتا پر اِس ضمن میں کوشش اوراُن کے لیے دُعائیں ضرور کر سکتا ہے۔ تبھی اللہ تعالیٰ نے قرآنِ مجید میں یہ دُعا سکھلائی:رَبِّ ارْ حَمْھُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیْ صَغِیْرًا، اے میرے رب، ان پر مہربانی فرما جیسا کہ انہوں نےمیرے بچپن میں میری ربوبیت فرمائی۔ آج خاکسار تحدیثِ نعمت کے طور پراپنی پیاری والدہ گوہر سُلطانہ صاحبہ کا کُچھ ذِکر خیر کرنا چاہتا ہے جو بعارضہ کینسر ۷؍اکتوبر ۲۰۲۱ء بروز جمعرات بقضائے اِلٰہی انتقال کر گئی تھیں،اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّا اِ لَیہِ رَاجِعُونَ۔ آپ نے خُدا کے فضل سے ۷۹ سال کی عمر پائی۔ آپ بہت ہی نیک، دُعا گو، عبادت گزار، خلیفۂ وقت سے اخلاص ووفا کا تعلق رکھنے والی، خدمتِ خلق کرنے والی اوربہت صابرہ شاکرہ خاتون تھیں۔

آپ کی پیدائش ڈاڈر (جو صوبہ خیبر پختون خواہ میں واقع ہے) کی تھی اور بچپن سے لے کر شادی تک کا عرصہ پارا چنار( کُرم ایجنسی ) میں گزارا۔ بچپن سے ہی نماز روزے کی پابند تھیں، رمضان کے علاوہ بھی اکثر نفلی روزے رکھتیں، خاکسار نے آپ کوکئی دفعہ رمضان کے بعد شوال کے روزے رکھتے دیکھا بلکہ مُجھے بھی کہتیں کہ آؤ میں اور تم مل کر شوال کے روزے پورے کرتے ہیں۔نوافل کی ادائیگی کی بہت پابند تھیں، خاکسار نے آپ کو بڑی با قاعدگی سے اِشراق اور چاشت کے وقت نفل ادا کرتے دیکھا۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل و رحم سے آپ کو بعض اوقات سچی خوابیں دِکھاتا تھا جن کو آپ اپنی ڈائری میں نوٹ کر لیا کرتی تھیں۔ بچپن سے آپ کی عادت تھی کہ صُبح فجر کی نماز کے بعد گھر کی چھت پر جا کر پرندوں کے لیے دانہ ڈالتیں، ا ٓپ کی یہ عادت ایسی پختہ تھی کہ شادی کے بعد بھی ہمیشہ اِس کو جاری رکھا، بلکہ شادی کے بعد جب آپ کی رُخصتی ہو گئی اور پرندوں نے بدستور آپ کے پارا چنار والے گھر (جہاں آپ اُن کو دانہ ڈالا کرتی تھیں) صُبح آنا جاری رکھا تو میرے نانا میری والدہ کی چھوٹی بہنوں کو کہتے کہ جائو گوہر سلطانہ(خاکسار کی والدہ) کی بہنیں آئی ہیں، اُن کو دانہ ڈالو۔، خاکسار کو یاد ہے کہ لندن سے پرندوں کو دانہ ڈالنے کے برتن خرید کر پاکستان ساتھ لے جاتیں اور وہاں باقاعدگی سےباجرہ منگوا کر پرندوں کو ڈالتیں، اور جب دانہ ڈالنے کے بعد پرندوں کے جُھنڈ دانہ کھانے کے لیے ہمارے صحن میں اُترتے تو بہت خوش ہوتیں اورمجھے آواز دے کر بُلاتیں اور یہ منظر دِکھاتیں۔ آپ نے آٹھویں تک ابتدائی تعلیم پارا چنار سے حاصل کی۔ آپ کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا لیکن پارا چنار میں لڑکیوں کا سکول صرف آٹھویں کلاس تک تھا، لہٰذا بادل نخواستہ آٹھویں کے بعد آپ کو پڑھائی ترک کرنی پڑ گئی۔ سالہا سال بعد جب آپ کے دوسرے بیٹے نے میٹرک کا امتحان دیا تو آپ نے بھی اپنے شوق کی بنا پر پرائیویٹ طور پر میٹرک کا امتحان دیا اور خدا کے فضل سے کامیابی حاصل کی، اور پھر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت ایف اے میں داخلہ لے لیا لیکن خانگی مصروفیات کی وجہ سے امتحان نہ دے سکیں۔ بڑی عُمر میں آپ نے انگریزی سیکھنے کی طرف بھی توجہ کی اور باقاعدگی کے ساتھ اپنی ایک سہیلی کے پاس پڑھنے جاتی تھیں۔ قرآنِ کریم کی تلاوت کی عادت بچپن سے تھی اور تجوید کے قواعد کے ساتھ سیکھنے کا بہت شوق تھا،یہاں تک کہ بڑی عُمر میں باقاعدہ تجوید کا کورس پاس کیا اور امتحان دے کر سرٹیفیکیٹ حاصل کیا۔ پھر جب بھی ہمارےگھر آتیں تو بچوں سے قرآنِ کریم سُنتیں، تجوید کےقواعد سے آگاہ کرتیں اور اُن کو قرآنِ کریم کے حصے اور قرآنی دُعائیں یاد کرواتیں۔

اُن کی ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ ہمارے والد صاحب محترم فضل الرحمٰن خان صاحب مرحوم(سابق امیر ضلع راولپنڈی) کی اُنہوں نے بہت خدمت کی اور اُن کی جماعتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں والدہ صاحبہ نے اُن کو بھر پور سپورٹ کیا یہاں تک کہ جب عُمر کے آخری سالوں میں والد صاحب مرحوم مختلف عوارض کا شکار تھے، والدہ صاحبہ بسااوقات اُن کے ساتھ ربوہ اور دیگر جماعتی میٹنگز میں جاتیں اور پانی، فروٹ یا اور کوئی کھانے کی چیز ساتھ رکھتیں تا کہ والد صاحب کا شوگرلیول نہ گرے۔ خود باہر کسی دوسرے کمرے میں انتظار کرتیں جبکہ والد صاحب جماعتی میٹنگز میں شرکت کرتے۔ والدہ صاحبہ اکثر والد صاحب مرحوم کا ہاتھ پکڑ کر اُن کو سہارا دیتیں ۱ورباہرکار تک لاتیں، غرض وُہ ایک سائے کی طرح اُن کے ساتھ رہتیں تا اُن کا خیال رکھیں اور والد صاحب جماعتی کاموں میں مشغول رہیں۔والدہ صاحبہ کی وفات کے بعد مُربی صاحب ضلع راولپنڈی مکرم طا ہر محمود صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ ہمارے والد صاحب مرحوم نے راولپنڈی ضلع کے تمام مُربیان اور واقفینِ زندگی کی میٹنگ بُلا رکھی تھی، والد صاحب نے مُربی صاحب کو بتایا کہ میں جب آج گھر سے میٹنگ کے لیے نکلنے لگا تو میری بیگم مُجھ سے پوچھنے لگیں کہ آپ نے اتنے بڑے ضلع کے سب واقفینِ زندگی اور مُربیان بُلا رکھے ہیں جو دُور سے سفر کر کے آئیں گے تو کیا آپ نے آج کُچھ صدقہ بھی دیا ہے؟ والد صاحب مرحوم کہنے لگے میں نے دُعا تو کی تھی لیکن صدقہ دینے کی طرف دھیان نہیں گیا، چنانچہ اُنہوں نے اُسی وقت کُچھ صدقہ ادا کر دیا۔ یوں ہماری والدہ والد صاحب کی بہت خاموش مدد گار تھیں۔والدہ صاحبہ اِس بات کا شُکر ادا کیا کرتیں کہ اللہ تعالیٰ نے اُن کوساتھی کے طور پر اپنے پورےخاندان اورجاننے والوں میں سب سے بہترین انسان بطور زندگی کا ساتھی عطا فرمایا، نیز وہ اِس بات پر بھی خوشی کا اظہار کرتیں کہ ہمارے والد صاحب اُن سے بہت خوش اِس دُنیا سے رُخصت ہو کر گئے۔

خاکسار نے اُن میں بعض بہت غیر معمولی نیکی کی باتیں مشاہدہ کیں، مثلاً راہ چلتے کسی ایمبولینس کو دیکھتیں تو اُس میں لے جائے جانے والے مریض کے لیے دُعا کرتیں کہ اللہ تعالیٰ اُس کو شفا عطا فرمادے، کسی ہوائی جہاز کو دیکھتیں تو اُس کے لیے اور اُس میں جانے والے مُسافروں کے لیے دُعا کرتیں کہ اللہ تعالیٰ اُن کو خیر سے اُن کی منزلِ مقصود تک پہنچا دے۔ ایک دفعہ کورونا کی وبا کے دوران ایک عزیز نے اُن سے کہا کہ دُعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اِس وبا سے محفوظ رکھے، کہنے لگیں کہ میں تو یہاں تک دُعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ چرند پرند کو بھی اِس وبا سے محفوظ رکھے۔ اپنی رات کی اورروزانہ کی دُعاؤں کا دائرہ بھی بہت وسیع رکھتیں، اپنے بچوں اور عزیز رشتہ داروں کے علاوہ سب بہوؤں اور دامادوں کے والدین، اُن کے عزیز اقرباء، گھر میں کام کرنے والے ملازمین، ہمسائے، جماعتی واقف کار سب کے لیے نام لے لے کر اُن کے لیےروز دُعا کرتیں۔ والدہ صاحبہ اپنی ذات کو بھی پسِ پُشت ڈال کر ہماری ضروریات کا خیال رکھتیں۔ خاکسار غالباً ساتویں کلاس میں پڑھتا تھا تو ایک مرتبہ اُن سے فرمائش کی کہ مجھے سائیکل لے دیں، پہلے تو اُنہوں نے مجھے کچھ ٹالا لیکن پھر میرے اصرار پر مجھے بازار لے جا کر سائیکل لے دی جو چھبیس سو روپے کی آئی جو اُس زمانے کے لحاظ سے کافی بڑی رقم تھی۔ میں سائیکل لے کر خوش ہو گیا لیکن بعد میں مجھے پتا چلا کہ رقم آپ نے اپنی ادویات اور بعض دوسری ضروریات کے لیے رکھی ہوئی تھیں لیکن میرے اصرار پر اپنی ضروریات کو قربان کر دیا۔ والدہ صاحبہ بہت مہمان نواز تھیں، جب بھی کوئی آپ سے ملنے آتا تو کھانا کھلائے بغیر نہ جانے دیتیں حتیٰ کہ اپنی آخری بیماری میں بھی کوئی ملنےآتا تو کہتیں کہ اِن کو کھانا پیش کریں۔ راولپنڈی میں جماعت کا گیسٹ ہاؤس ہمارے گھر کے پاس ہی تھا، اُس میں آنے والے مہمانوں کے لیے جو بعض اوقات بے وقت یا بِلا اِطلاع آ جاتے تھے اکثر کھانا بنا کر بھجواتیں۔ راولپنڈی میں اپنے حلقے میں بطور سیکرٹری خدمتِ خلق بھی کام کیا۔ جب ۲۰۰۵ءمیں شمالی علاقہ جات میں زلزلہ آیا اور وہاں سے مریض ملٹری ہسپتال راولپنڈی لائے گئے تو دیگر لجنہ کے ساتھ والدہ صاحبہ نےبھی ملٹری ہسپتال جا کر زخمی خواتین کی خدمت کی، اُن کو اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتیں، اور اُن کے بالوں میں کنگھی کرتیں۔ گھر میں کام کرنے والے ملازمین کا اور اُن کی ضروریات کابےحد خیال رکھتیں۔والدہ صاحبہ بہت با ہمت خاتون تھیں، اُنہوں نے اپنی آخری بیماری (جو کینسر تھی) کا عرصہ بہت ہی ہمت، صبر اور حوصلے سے گزارا،اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر کامِل طور سے راضی رہیں۔ آخری بیماری میں یہاں لندن میں ہی مقیم تھیں، اُن کی بہت خواہش تھی کہ اُن کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہو، پر کورونا کے باعث سفری مشکلات تھیں لہذا اکثر فکر مند رہتیں کہ معلوم نہیں کیا ہو، لیکن دُعا پر زور جاری تھا۔ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل فرمایا کہ اُن کی وفات سے چند دِن ہی پہلے سفری پابندیاں نرم ہو گئیں اور پاکستان برطانیہ کی ریڈ لِسٹ سے بھی نکل آیا، یوں اُن کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے اُن کو پاکستان لے جانے کےسارے معاملات اپنے فضل و رحم سے آسان کر دیے اور اُن کی خواہش پوری فرما دی۔

اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ ہماری والدہ صاحبہ کو اپنی مغفرت اور رحمت کی آغوش میں ڈھانپ لے اور اپنے پیاروں کے قرب میں جگہ عطا فرمائے، آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button