ٹھوکر سے بچنے کے لئے ایک لطیف نکتہ(قسط نمبر1)
(خطبہ جمعہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 20؍دسمبر 1929ء)
تشہد تعوّذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
انسان کا دل جس سے مراد میری اس کی قوتِ متفکرہ ہے اور جس سے مراد میری وہ باریک تعلق روح کا ہے جو انسانی دل سے روحانی طور پر ثابت ہے۔ چونکہ زبان کے محاورہ میں اسے دل کہا جاتا ہے اس لئے ہم زبان کے محاورہ کے لحاظ سے اسی طرح کلام کرنے پر مجبور ہیں خواہ یہ سائنس کے انکشاف کے خلاف ہی ہو۔ زبان کے محاورات یا اصطلاحات کا تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے بسااوقات انسان کے خیالات متفرق ومتشتّت ہو جاتے ہیں۔ لوگ ایک خاص لفظ کو ایک خاص مفہوم میں سننے کے عادی ہوتے ہیں اور جب اس کے خلاف بیان کیا جائے تو انہیں دھوکا لگ جاتا ہے۔ پس میں اس بحث میں پڑنے کے بغیر کہ قوتِ متفکرہ کا تعلق دل سے ہے یا دماغ سے محاورہ زبان کے مطابق چونکہ انسانی فکر کے لئے دل کا لفظ ہی بولا جاتا ہے اس لئے میں بھی یہی لفظ استعمال کروں گا۔ تو انسانی دل یعنی جسم کا وہ حصہ جو مختلف قسم کے امور کے متعلق غور کرتا ہے یا نیکی اور بدی میں شناخت کرتا ہے،اچھے بُرے اثرات قبول کرتا ہے یا وہ حصہ جس کے ساتھ اس کی روح کا تعلق ہے اور جس کے ذریعہ وہ اپنے منشاء کو پورا کرایا کرتی ہے اس کے متعلق عام طور پر لوگوں میں یہ احساس پایا جاتاہے کہ وہ ایک ہی قسم کی خاصیت رکھنے والی چیز ہے۔ مثلاً جیسے کونین کا لفظ بولنے سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ وہ ایک مفرد چیز ہے۔ اسی طرح جب دل یا دماغ کا لفظ بولا جاتا ہے تو اسے بھی عام طور پر لوگ ایک مفرد چیز خیال کر لیتے ہیں اور اسی کے مطابق اس کے متعلق اپنے ذہن میں اچھے یا بُرے اندازے کر لیتے ہیں۔ جس طرح کھیتیوں میں سے کسی کھیتی کے بیج کا نام لیتے ہی ایک زمیندار یا باغبان کے دل میں اس کے متعلق تمام باتیں پھر جاتی ہیں اور وہ فوراً سمجھ لیتا ہے کہ یہ بیج فلاں موسم میں بویا جاتا ہے،اس طرح اس کی غور پر داخت کی جاتی ہے،فلاں موقع پر پانی دیا جاتا ہے۔ ہم جس وقت گیہوں یا خربوزہ کا نام لیتے ہیں تو ایک زمیندار کے ذہن میں فوراً اس کی مختلف حالتیں پھر جاتی ہیں۔ اسی طرح دل کا لفظ سن کر اس کی مختلف کیفیتیں لوگ ذہن میں لے آتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ دل پر فلاں بات کا اثر ہوتا ہے یا دل کے لئے فلاں بات اچھی یا فلاں بات بُری ہے۔ حالانکہ دل کی مثال بیج کی نہیں بلکہ زمین کی ہے اور بیج کا تعلق زمین سے نہیں ہوتا بلکہ موسم سے ہوتا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی زمین میں ایک بیج خواہ کسی وقت اور کسی موسم میں بو دیا جائے وہ اُگ آئے گا۔ زمین میں بیج وہی اُگتا ہے جو خاص موسم میں جو اس بیج کے لئے مخصوص ہے بویا جائے۔ زمین سے اس کا تعلق نہیں ہوتا۔ ہاں میدانی یا پہاڑی زمین میں یہ فرق ہوتا ہے کہ میدان میں جو فصلیں سردیوں میں ہوتی ہیں۔ پہاڑی علاقہ میں عام طور پر گرمیوں میں ہوتی ہیں کیونکہ وہاں گرمیوں میں وہی کیفیت ہوتی ہے جو میدان میں سردیوں میں ہوتی ہے اور سردیوں میں چونکہ وہاں برف پڑتی ہے اس لئے کوئی فصل نہیں ہوتی۔ تو سوائے اس کے زمینوں میں اور کوئی ایسا فرق نہیں ہوتا جس کی بناء پر یہ کہا جا سکے کہ فلاں علاقہ یا فلاں گاؤں میں ہر قسم کے بیج بھادوں یا چیت میں ہی اُگ آتے ہیں کیونکہ ہر ایک کے لئے علیحدہ علیحدہ موسم ہیں۔ کوئی کسی موسم میں اُگتا ہے اور کوئی کسی میں۔ اور ہر ایک کے لئے مخصوص طریقے استعمال کئے جاتے ہیں خاص خاص موقع پر پانی دیا جاتا ہے خاص قسم کا مَیلا ان میں ڈالا جاتا ہے،کسی میں انسانی نجاست ڈالنا مفید ہوتی ہےکسی میں جانوروں کا گوبرپھر کسی میں پتیوں وغیرہ کو جلا کر ان کی راکھ اور کسی میں ہڈیوں کا چُورہ ڈالا جاتا ہے اور زمین کے اچھے یا بُرے ہونے کا سوال اس سے بالکل علیحدہ ہے۔ کہ مختلف بیج کن حالتوں میں بوئے جاتے ہیں۔ یہی حال دل کا ہے دل کی مثال بیج کی نہیں بلکہ زمین کی ہے اور اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے بہت سے لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ سے ہٹ کر غَیْرِ المَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ ( الفاتحۃ: ۷) میں گر جاتے ہیں ان کے قلوب بعض دفعہ ایسی باتوں سے متأثر ہو جاتے ہیںجن سے دوسرا ہرگز نہ ہو سکتا اسی لئے قرآن شریف میں صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کی دعا مانگنے کے لئے کہا گیا۔ حالانکہ محمد رسول اللہﷺ کی ذاتِ بابرکات موجود تھی اور آپ سے بڑھ کر کوئی اور نہیں ہو سکتا تھا۔ پھر قرآن نے یہ کیوں نہ کہا کہ صراطِ محمدؐ کی دعا مانگو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص اپنے رنگ میں ایک علیحدہ خاصیت رکھتاہے اور اس کی طبیعت کا ایک خاص میلان ہوتا ہے مگر محمدیت جامع ہے تمام کمالات کی اور جب تک جامعیت حاصل نہ ہو محمدیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ اس لئے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ فرمایا صراطِ محمدﷺ نہ فرمایا۔
حالانکہ محمدیت میں بھی سب چھوٹے بڑے درجے موجود ہیں۔ شہداء ہیں،صلحاء ہیں،صدیق ہیں اور انبیاء ہیں۔ پھر انبیاء میں سے بھی بعض کو بعض پر فضیلت ہے۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ اگر یہ تفریق انبیاء میں نہ ہوتی تو اس قدر انبیاء کی ضرورت بھی نہ ہوتی کیونکہ خدا تعالیٰ دنیا میں دو چیزیں ایک سی پیدا نہیں کیا کرتا ہر چیز کی پیدائش ایک ہی ہوتی ہے اور گو جنس میں فرق نہ ہو لیکن افراد میں ضرور فرق ہو گا اگر بعض جگہ ظاہری شکل میں نہیں تو ان میں باطنی فرق ضرور ہو گا غرضیکہ دنیا میں کوئی دو چیزیں ایسی نہیں جن میں ظاہراً اور باطناً کوئی فرق نہ ہو۔ اگر پھلوں کا رنگ ملتا ہے تو خواص میں فرق ہو گا اگر خواص ملتے ہوں تو مزے میں فرق ہو گا اور اگر مزا ایک سا ہو تو تأثیر یکساں نہیں ہو گی۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ کسی بات کو دُہرایا نہیں کرتا جب کوئی چیز پیدا کرتا ہے نئی پیدا کرتا ہے۔ اس کی ذات اس سے بالا ہے کہ اسی چیز کو پھر لائے اس لئے اللہ تعالیٰ نے کبھی کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا جو پہلے کے ہُو بہو مطابق ہو۔ نادان لوگ تمثیل کا لفظ پڑھ کر کہہ دیتے ہیں اس میں فلاں بات ویسی نہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے رسول کریمﷺکے متعلق فرمایا کَمَآاَرْسَلْنَا اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلًا (المزمّل: ۱۶) تو اعتراض کر دیا یہ عصا کا سانپ کیوں نہیں بنا کر دکھاتا۔ حضرت مسیح ؑ کی مماثلت کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے مُردے زندہ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اِس وقت اِس بحث کو جانے دو کہ اُن کا مُردے زندہ کرنا کن معنوں میں تھا اس سے قطع نظر کر کے بھی ضرور تھا کہ مشابہت کے باوجود اختلاف ہوتا۔ یہ کہنا کہ جو کچھ اُس نے کیا وہی یہ بھی کرے۔ خدا تعالیٰ کی قدرت اور اس کی صفات پر حملہ ہے اُس کی ذات سے ہر چیز مختلف آتی ہے۔ انبیاء ،صلحاء،شہداء سب مختلف درجے رکھتے ہیں۔ غرض کوئی دو انسان ایسے نہیں مل سکتے جو ہر رنگ میں ایک سے ہوں۔ ضرور ہے کہ ان میں فرق ہو کیونکہ انسان مختلف قسم کے ہوتے ہیں اور ان کے میلاناتِ طبع ایک دوسرے سے بالکل جُدا گانہ ہوتے ہیں۔ کوئی کسی سے ملتا ہے اور کوئی کسی سے لیکن جیسے آم یا گیہوں میں اختلاف ہونے کے باوجود ان میں بعض باتیں مشترک بھی ہوتی ہیں جیسے کہ خاص موسم میں بوئے جاتے ہیں،خاص قسم کا کھاد ڈالا جاتا ہے اور خاص وقت پر پانی دیا جاتا ہے گویا باوجود اختلاف کے بعض باتوں میں اشتراک بھی نظر آتا ہے یہی حال انسانوں کا ہوتا ہے مگر باوجود اس کے میلان کا اختلاف موجود ہے۔ ہر ایک کا رنگ جُدا اور طبیعت علیحدہ ہے اور یہ ہونا بھی چاہئے تھا کیونکہ اگر ایک ہی رنگ ہوتا تو دنیا ہدایت سے محروم رہ جاتی۔ کیونکہ کسی انسان میں محمدی میلان ہے کسی میں موسوی اور کسی میں عیسوی ، کسی میں ابراہیمی۔ اسی لئے جہاں میلان کا سوال تھا وہاں اللہ تعالیٰ نے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ فرمایا اور جہاں اتباع کا سوال تھا وہاں یہ فرمایا اِنۡ کُنۡتُمۡ تُحِبُّوۡنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوۡنِیۡ یُحۡبِبۡکُمُ اللّٰہُ(اٰل عمران:۳۲)یعنی تم اس کے نقشِ قدم پر چل کر جس سے تمہارا میلانِ طبع ملتا ہے محمدؐ کے ہم نقش ہو جاؤ۔ جس طرح لوگ ایک اکسیر بناتے ہیں جس میں ہر قسم کی طبائع کو ملحوظ رکھ کر دوائیں ڈالی جاتی ہیں جو دموی،صفرائی،بلغمی ہر قسم کے مزاج والوں کو فائدہ دیتی ہے۔ اسی طرح قرآن کریم کی سورۃ فاتحہ بھی ایک اکسیر ہے جس کے اندر سب مزاج والوں کے لئے فائدہ اُٹھانے کی تأثیر رکھی گئی ہے۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ میں یہ سکھایا گیا ہے کہ اے خدا! میرے میلان کے لحاظ سے جو قریب ترین رستہ ہے اسی پر مجھے لے چل اور پھر آگے جس جس سے میلان ملتا جائے اس کے رستے پر چلنے کی توفیق دے۔ جس طرح مفرد سے مرکب اور مرکب در مرکب بنا لئے جاتے ہیں یا جیسے پہلے ایک آدمی کا بدن ٹھنڈا ہوتا ہے اور وہ اسے گرم کرتا ہے تو پھر زیادہ گرم ہو جانے سے اسے دوبارہ ٹھنڈی ہوا کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ یا جیسے ایک شخص کو بلغم کا غلبہ ہوتا ہے اور پھر جب بلغم نکال دیا جائے تو کسی اور مرض کا غلبہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح روحانی مزاجوں کا حال ہوتا ہے ایک شخص عیسوی مزاج رکھتا ہے اس کے لئے اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ کے معنے عیسوی رستہ ہوں گے لیکن جب اس پر چلتے چلتے اس کے اندر دوسری حالت پیدا ہو جائے گی تو پھر اس کے معنے اس کے لئے موسوی رستہ ہو جائیں گے پھر اسی طرح حضرت نوح ؑحضرت ابراہیم ؑ اور آنحضرتﷺ کے رستہ کے ہو جائیں گے۔ اسی وجہ سے صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ رکھا گیا۔ محمد رسول اللہﷺ کا نام نہیں لیا کیونکہ سب لوگ ابتدائی حالت میں اپنے اندر جامعیت نہیں رکھا کرتے۔ ان کے خواص محدود ہوتے ہیں اس لئے وہ جامع انسان کے تمام کمالات جذب نہیں کر سکتے اس لئے کسی خاص رنگ کی طرف اشارہ نہیں کیا بلکہ یہی فرمایا جس سے مشابہت ہو اسی رنگ کی پیروی کر لی جائے۔
(باقی آئندہ)