حضرت مصلح موعود ؓ

نئے سال کے لیے جماعت احمدیہ کا پروگرام (قسط نمبر2)

(خطبہ جمعہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمودہ 04؍جنوری 1935ء)

پس میں نے جماعت کی کشتی کا لنگر توڑ دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کشتی کو جہاں چاہے لے جائے کیونکہ ہمیں نہیں معلوم کہ ہمارے لئے کس ملک میں ترقی کے لئے زیادہ سامان مہیاکئے گئے ہیں۔پس یہ مت خیال کروکہ دس بیس یا سَودو سَوروپیہ دے دیا اور فرض ادا ہو گیایہ تو ادنیٰ ترین قربانی تھی۔سکیم کے اصل حصے دوسرے ہیں جو زیادہ اہم ہیںاور جب تک ہر فردِ جماعت اس کی طرف توجہ نہ کرے اور اس احتیاط کے ساتھ ان پر عمل نہ کرے جس کے ساتھ ایک لائق اور ہوشیار ڈاکٹر اپنے زیرِ علاج مریض کو پرہیز کرواتا ہے،اس وقت تک فائدہ نہیں ہو سکتا۔میں نے اپنی ذات میں بھی تجربہ کیا ہے اور باہر سے بھی بعض دوستوں کے خطوط آئے ہیں کہ پہلے یہ خیال رہتا تھا کہ فلاں خرچ کس طرح پورا کریں مگر اب یہ خیال رہتا ہے کہ اس خرچ کو کس طرح کم کریں اس پر عمل کرنے سے اور بھی بعض فوائد حاصل ہوتے ہیں۔مثلاً ہمارے گھر میں لوگ تحائف وغیرہ بھیج دیتے ہیںاور میں نے ہدایا کو استعمال کرنے کی اجازت دے رکھی ہے مگر جب وہ میرے سامنے لائے جاتے ہیں تو میں کہتا ہوں کہ ایک سے زیادہ چیزیں کیوں ہیں۔کہا جاتا ہے کہ یہ کسی نے تحفۃً بھیج دیا تھا۔تو میں کہتا ہوں کہ ہمارے تعلقات تو ساری جماعت سے ہیںاس لئے ہمارے ہاں تو ایسی چیزیں روزہی آتی رہیں گی اس لئے جب ایسی چیزیں آئیں تو کسی غریب بھائی کے ہاں بھیج دیا کرو،ضروری تو نہیں کہ سب تم ہی کھاؤ۔اس سے غرباء سے محبت کے تعلقات بھی پیدا ہو جائیں گے اور ذہنوں میں ایک دوسرے سے اُنس پیدا ہو گا۔کئی دوست لکھتے ہیں کہ اس سکیم کے ماتحت تو ہمیں فلاں خرچ بھی ترک کرنا پڑتا ہے اور میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ یہی تو میری غرض ہے۔پس اس سکیم میں مَیں نے جو جو تحریکیں کی ہیں،وہ ساری کی ساری ایسی ہیں کہ ان پر عمل کرنے سے تخفیف کی نئی نئی راہیں نکلتی ہیں اور ان کے نتیجہ میں ہم اپنی حالت کو زیادہ سے زیادہ اسلامی طریق کے مطابق کر سکتے ہیں۔میں ان لوگوں سے متفق نہیں جو یہ کہتے ہیں کہ ہمارا پہلا طریق اسلامی نہیں تھا۔جیسا کہ میں نے بتایا ہے اسلامی طریق یہی ہے کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَآئِہٖ( بخاری کتاب الجھاد باب یقاتل مِن وراء الامام و یتقی بہٖ)یعنی وہ قربانی کرو جس کا امام مطالبہ کرتا ہے۔جب وہ کوئی مطالبہ نہ کرے،اس وقت حلال و طیب کو دیکھنا چاہئے لیکن جہاں وہ حکم دے وہاں حلال و طیب کو بھی چھوڑ دینا چاہئے۔(ہاں مگر یہ ضروری ہے کہ یہ وقتی قربانی ہو اور اسلام کے دوسرے اصولوں کے مطابق ہو۔بِدعت کا رنگ نہ ہو)غرض میں پہلے طریق کو ناجائز قرار نہیں دیتا مگر اب جو طریق میں نے تجویز کیا ہے اس پر عمل کرنا ضروری ہے کیونکہ اب یہی اسلامی طریق ہے اور اب جو ڈھال کی پناہ میں نہیں آئے گا وہ دشمن کے تیر کھائے گا۔

بہر حال اس سال کے لئے ہمارا پروگرام یہی ہے اور ہر احمدی کو یہی چاہئے کہ اسے یاد کرلے اور اس پر عمل کرے۔میرے دل میں یہ تحریک ہو رہی ہے کہ اس سکیم کے چارٹ تیار کرائے جائیںاور پھر انہیں ساری جماعت میں پھیلا دیا جائے۔ہر احمدی کے گھر میں وہ لگے ہوئے ہوں تا سوتے جاگتے، اُٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے ان پر نظر پڑتی رہے۔ہمارے خطیب ہر ماہ کم سے کم ایک خطبہ میں نئے پیرایہ میں اسے دُہرا دیا کریں تا احساس تازہ رہے۔پھر ہمارے شاعر اردو اور پنجابی نظمیں لکھیںجن میں سکیم،اس کی ضرورتیں اور فوائد بیان کئے جائیںجو بچوں کو یاد کروا دی جائیںاور اگر اس طریق پر سال بھر کام کیا جائے تو جماعت میں بیداری پیدا کی جا سکتی ہے۔ایک دوست کا مجھے خط آیا ہے کہ ایک بڑے سرکاری افسر نے ان سے کہا کہ ہماری رپورٹ یہ ہے کہ اس سکیم کا جواب جماعت کی طرف سے اس جوش کے ساتھ نہیں دیا گیالیکن کیا ہی عجیب بات ہے کہ حکومت قرضہ مانگتی ہے جس میں قرضہ دینے والوں کو زیادہ سے زیادہ نفع دیا جاتا ہے اور پھر اگر وہ دوگنا بھی ہو جائے تو تاریں دی جاتی ہیں کہ قرضہ میں بہت کامیابی ہوئی ہے لیکن ہم نے جس قدر طلب کیا تھا اس سے اڑھائی گنا آ جانے کے باوجود انہیں اس میں کامیابی نظر نہیں آتی اور وقت مقررہ کے ختم ہونے تک اِنْشَاءَاللّٰہُ الْعَزِیْز پونے تین گنے بلکہ ممکن ہے اس سے بھی زیادہ آ جائے۔مگر وہ قرض کے دوگنا وصول ہونے کو کامیابی سمجھتے ہیںمگر میرے اس مطالبہ کے جواب میں انہیںکامیابی نظر نہیں آتی حالانکہ میں نے جو مانگا ہے اس کی واپسی نہیں ہو گی۔وہ قرض نہیں چندہ ہے۔سوائے امانت فنڈ کے کہ وہ بے شک امانت ہے اور واپس ملے گا۔جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کی مثال تو پیش کریںاور پھر ہم نے جو لیا ہے، غریبوں کی جماعت سے لیا ہے کروڑ پتیوںاور لکھ پتیوں سے نہیں لیا گیا۔کروڑ پتی تو ہمارے مطالبہ سے بھی زیادہ رقم کی موٹریں ہی خرید لیتے ہیں۔بعض انگریزی موٹریں ایسی ہیں جن کی قیمت ساٹھ ہزار سے ایک لاکھ تک ہوتی ہے اس لئے ایسے لوگوں کےلئے ستائیس ہزار کی قربانی کوئی بڑی بات نہیں مگر ہماری جماعت کی مالی حیثیت کو مدّنظر رکھتے ہوئے اگر دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے اور جو لوگ اسے کامیابی نہیں سمجھتے،میں ان سے کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی کسی اور قوم میں اس کے بالمقابل آدھی بلکہ اس کا چوتھائی حصہ قربانی کی ہی کوئی مثال پیش کریں۔خواہ انگریزوں کی قوم میں سے کریں، خواہ جرمنوں یا فرانسیسیوں میں سے،یہ اﷲ تعالیٰ کا فضل ہے کہ جماعت میں احساس پیدا ہو رہا ہے مگر مجھے اس امر کا افسوس ہے کہ ہمارے دوستوں میں ابھی استقلال نہیںاور وہ اس کی قیمت کو ابھی تک نہیں سمجھے۔اور اب میرا منشاء یہ ہے کہ دوستوں کے اندر استقلال پیدا کروں چاہے اس کے لئے مجھے ان کے گلوں میں جھولیاں ڈلوانی پڑیں اور بھیک منگوانی پڑے۔اب میں ان کے اندر وہ حالت پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی شکل سے ظاہر ہو کہ یہ اﷲ تعالیٰ کے در کے فقیر ہیں جس جس قدم کو ا ﷲ تعالیٰ ضروری سمجھے گا وہ میں اٹھاتا جاؤں گا اور جس رنگ میں وہ میری ہدایت کرتا جائے گا،میں اسے پورا کرنے کی کوشش کروں گا۔آج میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سال میرا یہی پروگرام ہے جو سکیم میں بیان ہؤا ہے۔پس شاعر اس کے متعلق نظمیں لکھیں۔نقشے بنانے والے اس قسم کے نقشے تیار کریں۔

…مَیں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ ہمارے دشمنوں کی طرف سے ہمارے خلاف روز روز شورش پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر جیسا کہ میں نے بتایا ہے، ہمیں ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرنی چاہئے کہیں ہمیں قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں ،کہیں قتل کے لئے انگیخت کی جاتی ہے اور اپنے نام قتل کی دھمکیوں کے جھوٹے خطوط شائع کر کے لوگوں کو احمدیوں کے قتل پر اکسایا جاتا ہے اور حکومت کے بعض افسر بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کو تنبیہہ کریں اور انہیں ایسی حرکات سے روکیں ایسا رویہ اختیار کر رہے ہیں کہ ان کو اور بھی شہہ ہو رہی ہے۔مثلاً بجائے ان کا جھوٹ کھولنے کے ان کی حفاظت کا خاص انتظام کیا جاتا ہے جیسے کوئی واقع میں انہیں قتل کرنے لگا تھا۔ممکن ہے ان باتوں کے نتیجہ میں ہم میں سے بعض کی جانوں پر حملے ہوں۔چنانچہ مجھے قتل کی دھمکیوں کے کئی خطوط ملے ہیں لیکن میں پھر بھی یہی کہوں گا کہ اَلْاِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَّرَائِہٖ۔ہماری جماعت کے دوستوں کو چاہئے کہ اپنے جوشوں کو اپنے قابو میں رکھیں۔…

یاد رکھو کہ ہمارا سلسلہ کوئی ایک دو دن کا نہیں بلکہ یہ ایک لمبی چیز ہے۔ساری دنیا کی باگیں ایک دن ہمارے ہاتھ میں آنی ہیں اس لئے ہمارے مدّ نظر ہر وقت یہ بات ہونی چاہئے کہ ہمارا مقصود ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے۔ہمیں آدمیوں کا خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ان میں سے کوئی زندہ رہتا ہے یا مرتا ہے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق قتل کے منصوبے کئے گئے،حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں پیغامی آپ کو اس قدر بدنام کرتے رہتے تھے کہ جس کے نتیجہ میں دلوں کے اندر اس قدر شکوک پیدا ہو چکے تھے کہ آپ سے محبت رکھنے والے بعض لوگ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ ان میں سے کسی کی دی ہوئی دوائی آپ استعمال کریں۔اگرچہ میں آج بھی اس قدر مخالفت کے باوجود اس بات کو غلط سمجھتا ہوں اور میں یہ امید بھی نہیں کر سکتاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے والے اس قدر گندے ہو سکتے تھے مگر میں دیکھتا تھا کہ ایسے لوگ موجود تھے جن کے دلوں میں یہ شکوک پائے جاتے تھے۔اب یہ زمانہ ہے اور مجھے صراحۃً ہر سال کئی کئی بار قتل کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور زمیندار کے مضمون کی اشاعت کے بعد متواتر تین چٹھیاں ایسی موصول ہوئیں۔ایک ابھی ۳۱؍دسمبر کو ملی تھی کہ یکم جنوری کے روز تم کو قتل کر دیا جائے گا۔میں ان کے بیشتر حصہ کو دھمکی سمجھتا ہوںمگر ایک حصہ ایسا بھی ہوسکتا ہے جو سنجیدگی سے میرے متعلق ایسا ہی ارادہ رکھتا ہو لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے ہمارا سلسلہ انسانوں کا نہیں کہ یہ سمجھ لیا جائے کہ کسی شخص کی وفات کے بعد یہ ختم ہو جائے گاحضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مخالف خیال کیا کرتے تھے کہ آپ کی زندگی کے ساتھ ہی یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے گا۔لیکن پھر حضرت خلیفہ اوّل کے زمانہ میں یہ کہا جانے لگا کہ مرزا صاحب تو جاہل تھے سارا کام مولوی صاحب ہی کرتے تھے ان کی آنکھیں بند ہونے کی دیر ہے تو بس یہ سلسلہ ختم۔پھر ان کی آنکھیں بند ہوئیںاور لوگوں نے خیال کیا کہ اصل کام انگریزی خوان لوگ کرتے تھے لیکن اﷲ تعالیٰ نے ان کو بھی نکال کر باہر کیا اور جماعت کی باگ ایک ایسے شخص کے ہاتھ میں دے دی جس کے متعلق پیغامی کہتے تھے کہ ہم خلافت کے دشمن نہیں ہیںبلکہ ہماری مخالفت کی بناء یہ ہے کہ اگر جماعت کی باگ ایک بچے کے ہاتھ میں آ گئی تو سلسلہ تباہ ہو جائے گا۔مگر دیکھو کہ اس بچے کے ہاتھ سے اﷲ تعالیٰ نے جماعت کی گاڑی ایسی چلائی کہ وہ ترقی کر کے کہیں سے کہیں جا پہنچی اور اب اﷲ تعالیٰ کا ایسا فضل ہے کہ ان لوگوں کے وقت میں جتنے لوگ جلسہ سالانہ پر شامل ہوتے تھے اس سے بہت زیادہ آج میرے جمعہ میں ہیں۔سوائے افغانستان کے باقی تمام بیرونی ممالک کی جماعتیں میرے ہی زمانہ میں قائم ہوئی ہیںاور یہ ساری باتیں بتاتی ہیں کہ یہ سلسلہ خدا کے ہاتھوں میں ہے اس لئے دشمن کی باتوں سے نہ گھبراؤ۔وہ کسی کو مار بھی دیں تو بھی یہ سلسلہ ترقی کرے گا۔تمہیں چاہئے کہ تم اپنے اصول کو قائم رکھو،حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر اپنے ایمان کو قائم رکھو اور آپ کی آمد کے مقصد کو یاد رکھو،خلافت کی اہمیت کو نہ بھولو اور اسے پکڑے رہوپھر تمہیں کوئی نہیں مٹا سکتا۔ڈر کی بات صرف یہ ہے کہ تم میں سے کچھ لوگ اپنے اصول کو نہ بھول جائیںاور سلسلہ کی وجہ سے جو فوائد حاصل ہو رہے ہیں انہیں اپنی طرف منسوب نہ کر لیں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئے اور آپ کی نبوت اور مأموریت سے آپ کی جماعت نے فائدہ اُٹھایامگر بعض انگریزی دانوں نے سمجھا کہ ترقی ہم سے ہو رہی ہے اس لئے اﷲ تعالیٰ نے ان کو الگ کر دیااور پھر بھی سلسلہ کو ترقی دے کر بتا دیا کہ اس سلسلہ کی ترقی کسی انسان سے وابستہ نہیں۔

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button