خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍ مئی۲۰۲۳ء

’’…ہمارے مخالف دن رات کوشش کر رہے ہیں اور جانکاہی سے طرح طرح کے منصوبے سو چ رہے ہیں اور سلسلہ کو بند کرنے کے لیے پورا زور لگا رہے ہیں مگر خدا ہماری جماعت کو بڑھاتا جاتا ہے۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

’’اللہ جل شانہٗ جس کو مبعوث کرتا ہے اور جو واقعی طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ روز بروز ترقی کرتا اور بڑھتا ہے اور اس کا سلسلہ دن بدن رونق پکڑتا جاتا ہے اور اس کے روکنے والا دن بدن تباہ اور ذلیل ہوتا جاتا ہے اور اس کے مخالف اور مکذّب آخر کار بڑی حسرت سے مرتے ہیں۔‘‘ (حضرت مسیح موعودؑ)

نام نہاد علماء اور مخالفین سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو اپنی پھونکوں سے ختم کر دیں گے لیکن نہیں جانتے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابل پر جب کھڑے ہوں تو اپنی ہی تباہی ہوتی ہے

پاکستان میں بھی ایک طرف تو ہمارے منارے گرائے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کی محرابیں گرائی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ خوبصورت مسجدیں ہمیں دوسری جگہ عطا فرما رہا ہے اور کثرت سے عطا فرما رہا ہے

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور جماعتی عالمگیر ترقیات کی عکاسی کرنے والے بعض ایمان افروزواقعات کاتذکرہ

پروين اختر صاحبہ اہليہ غلام قادر صاحب آف سیالکوٹ، ممتاز وسيم صاحبہ اہليہ چودھری وسيم احمد ناصر صاحب آف گھٹيالياں، بریگیڈیئر منوّر احمد رانا صاحب آف راولپنڈي اور عبدالشکور ملک صاحب سابق نائب امير جماعت احمديہ راولپنڈی کی وفات پر ان کا ذکر خیر اور نماز جنازہ غائب

خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 19؍مئی2023ء بمطابق 19؍ہجرت1402ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے)، یوکے

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام جماعت پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے بڑھتے چلے جانے کا ذکر فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ بھی اللہ جل شانہٗ کا بڑا معجزہ ہے کہ باوجود اس قدر تکذیب اور تکفیر کے اور ہمارے مخالفوں کی دن رات کی سر توڑ کوششوں کے یہ جماعت بڑھتی جاتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’…ہمارے مخالف دن رات کوشش کر رہے ہیں اور جانکاہی سے طرح طرح کے منصوبے سو چ رہے ہیں اور سلسلہ کو بند کرنے کے لئے پورا زور لگا رہے ہیں مگر خدا ہماری جماعت کو بڑھاتا جاتا ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’جانتے ہو کہ اس میں کیا حکمت ہے؟ حکمت اس میں یہ ہے کہ اللہ جل شانہٗ جس کو مبعوث کرتا ہے اور جو واقعی طور پر خدا کی طرف سے ہوتا ہے وہ روز بروز ترقی کرتا اور بڑھتا ہے اور اس کا سلسلہ دن بدن رونق پکڑتا جاتا ہے اور اس کے روکنے والا دن بدن تباہ اور ذلیل ہوتا جاتا ہے اور اس کے مخالف اور مکذّب آخر کار بڑی حسرت سے مرتے ہیں۔‘‘ فرمایا ’’…خدا تعالیٰ کے ارادہ کو جو درحقیقت اس کی طرف سے ہے کوئی بھی روک نہیں سکتا۔ اور خواہ کوئی کتنی ہی کو ششیں کرے اور ہزاروں منصوبے سوچے مگر جس سلسلہ کو خد ا شروع کرتا ہے اور جس کو وہ بڑھانا چاہتا ہے اس کو کوئی نہیں روک سکتا کیونکہ اگر ان کی کوششوں سے وہ سلسلہ رک جائے تو ماننا پڑے گا کہ روکنے والا خدا پر غالب آگیا۔ حالانکہ خدا پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔‘‘

(ملفوظات جلد 10 صفحہ 24 ایڈیشن 1984ء)

پس آپؑ کی ان باتوں کے پورا ہونے کے نظارے ہم ہر روز دیکھتے ہیں۔ دشمن نے انفرادی طور پر بھی کوششیں کیں اور منظم ہو کر بظاہر ایک ہو کر جماعت کے خلاف منصوبہ بندی کرنے کی بھی کوشش کی لیکن اللہ تعالیٰ نے جو آپ علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ (تذکرہ صفحہ 260 ایڈیشن چہارم) اور پھر فرمایا کہ ’’میں تیرے خالص اور دلی محبوں کا گروہ بڑھاؤں گا۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 648) اس کے مطابق ہم جماعت کو دنیا میں پھیلتا دیکھ رہے ہیں۔ یہ نام نہاد علماء اور مخالفین سمجھتے ہیں کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو اپنی پھونکوں سے ختم کر دیں گے لیکن نہیں جانتے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مقابلہ کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے مقابل پر جب کھڑے ہوں تو اپنی ہی تباہی ہوتی ہے اوراللہ تعالیٰ اپنے بندے کی مدد اور تائید اور نصرت فرماتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی تائید اور مدد اور نصرت کے نظارے

ہم دنیا کے دُور دراز ملکوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ ایسے علاقوں میں جہاں بعض دفعہ عام طور پر انسان کی پہنچ نہیں ہوتی، بڑے مشکل رستے ہوتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ وہاں بھی اپنی تائید کے نظارے دکھا رہا ہے۔ مخالفین اپنی بھرپور کوشش کرتے ہیں لیکن ناکامی دیکھتے ہیں۔

جانی اور مالی نقصان پہنچا کر بعض جگہ افراد جماعت کو خوفزدہ کرنا چاہتے ہیں لیکن یہ باتیں افراد جماعت کے ایمان میں اضافہ کرتی ہیں۔

دنیا میں جو اللہ تعالیٰ کی تائید کے واقعات ہوتے ہیں، جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں یہ کس طرح پورے ہوتے ہیں ان کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن

اس وقت میں کچھ واقعات جماعت کی ترقی کے بیان کروں گا۔ کس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی بیعت میں آئیں اور آپؑ کو مانیں۔

بعض لوگ مخالفت کرتے ہیں لیکن کم علمی کی وجہ سے یہ مخالفت ہوتی ہے۔ جب انہیں حقیقت کا علم ہو تو نہ صرف مخالفت ترک کر دیتے ہیں بلکہ قبول بھی کر لیتے ہیں۔ چنانچہ ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے امیر جماعت

کانگو کنشاسا

نے لکھا کہ صوبہ کانگو سینٹرل کے ایک گاؤں کے ایک حصہ میں ہمارے معلم ہیں عیسیٰ صاحب۔ وہ جماعت کے وفد کے ساتھ تبلیغ کے لیے گئے۔ وہاں کے امام مسجد جبرئیل صاحب جماعت کی مخالفت کے حوالے سے بہت مشہور تھے۔ ان کے ساتھ وفات مسیح اور ظہور امام مہدی کے اوپرگفتگو ہوئی۔ جب ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات کے عقیدے کے نتیجہ میں نعوذ باللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہے تو یہ بات وہ سمجھ گئے۔ ڈھٹائی نہیں تھی ان میں پاکستانی مولویوں کی طرح اور ظہور امام مہدی کا عقیدہ بھی ان کی سمجھ میں آگیا۔ انہوں نے اسی وقت اپنے خاندان کے چھ افراد اور اپنے اکیس مقتدیوں کے ساتھ بیعت کر لی۔ اس طرح یہاں جماعت بھی قائم ہو گئی۔

پھر

بعض جگہ اللہ تعالیٰ خود قبولیت کے لیے زمین تیار کرتا ہے

چنانچہ

گنی کناکری

کے مبلغ لکھتے ہیں کہ وہاں ایک گاؤں کُٹایا (Kotoya) ہے وہاں تبلیغ کی غرض سے پہنچے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام تفصیل کے ساتھ پہنچایا تو گاؤں کے سب سے بزرگ شخص نے کہا کہ وہ اپنے دادا سے ایک لفظ مہدی، مہدی اکثر سنا کرتا تھا لیکن اسے کبھی اس بات کی سمجھ نہیں آئی اور نہ ہی دادا نے کبھی اس کی تفصیل بتائی لیکن یہ بتایا کہ اس کا تعلق اسلام سے ہے۔ لہٰذا آج جب آپ نے تفصیل سے امام مہدی کا ذکر کیا ہے تو میں صدق دل سے احمدیت میں داخل ہوتا ہوں اور اس نے گاؤں والوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اس جماعت کو قبول کر لیں کیونکہ میں نے اکثر افریقن ممالک میں سفر کیا ہے اور ہر جگہ مجھے احمدیہ مسلم جماعت ہی اسلام کی خدمت کرتی نظر آئی ہے جبکہ دوسرے فرقے یا تو دنیا کمانے میں لگے ہوئے ہیں اور یا پھر ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کے لیے اپنی علمی کاوشیں دکھاتے رہتے ہیں۔ ایک یہی جماعت ہے جو قرآن اور اسلام کی خدمت کر رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گاؤں میں امام سمیت بہت سارے لوگوں نے بیعت کی۔ ایک بہت بڑی جماعت قائم ہو گئی۔

پھر

گیمبیا

کے مبلغ انچارج کہتے ہیں ان کا ایک ضلع ہے ’’نیامینا‘‘۔ وہاں کا ایک گاؤں ہے، کہتے ہیں ہماری تبلیغی ٹیم وہاں گئی۔ انہوں نے اسلام اور احمدیت کا پیغام پہنچایا۔ امام مہدی علیہ السلام کی حقیقی اور خوبصورت تعلیمات بتائیں اور بیعت کی دس شرائط بھی ان کو پڑھ کے سنائیں۔ دیہاتی لوگ ہیں لیکن عقل اور شعور رکھتے ہیں۔ دس شرائط بیعت سن کے حیران رہ گئے اور ان کی سمجھ میں آ گیا کہ یہ تو حقیقی اسلام کی باتیں ہیں جس کی پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی۔ گاؤں والوں نے یہ کہا کہ ہمارا یہ پہلا موقع ہے کہ ہم نے اسلام کی اتنی خوبصورت تعلیم اور شاندار تعلیم سنی ہے۔ ہمارے نام نہاد علماء سے تو ایسے خوبصورت پیغامات کوئی نہیں سن سکتا اور آخر انہوں نے یہ کہا کہ احمدیت ہی اصل اسلام ہے اور ہم جماعت میں شامل ہوتے ہیں اور وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ احمدیت ہی ہے جو انسانیت کو اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچائے گی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک طویل تبلیغی سوال و جواب کے سیشن کے بعد تمام لوگوں نے جن کی تعداد تقریباً دوسو کے قریب تھی بیعت کر کے احمدیت میں شمولیت اختیار کی۔

پھر

افریقہ کے ایک ملک کے ہمارے مربی

ہیں، وہ لکھتے ہیں کہ تبلیغی میدان میں بعض دفعہ بظاہر نظر معمولی واقعات ہوتے ہیں لیکن دراصل پس منظر میں خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کام کر رہی ہوتی ہے۔ کہتے ہیں ہماری تبلیغی ٹیم کاؤنٹی کے ایک اہم ٹاؤن ’’باما‘‘ میں جو کہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہے تبلیغ کرنے کا پروگرام بنا رہی تھی۔ ابھی ہم مسجد میں ہی بیٹھے تھے کہ اسی ٹاؤن سے چار افراد پر مشتمل ایک وفد ہمیں ملنے آگیا۔ ان میں ایک خاتون بھی شامل تھی جو کہ اس ٹاؤن کی عورتوں کی تنظیم کی چیئرپرسن تھی۔ وفد کے ممبر نے بتایا کہ ہم آپ کو دعوت دینے آئے ہیں۔ آپ ہمارے علاقے میں آئیں اور جماعت احمدیہ کا پیغام پہنچائیں کیونکہ ہمیں پتہ چلا ہے کہ آپ کی جماعت تبلیغ کرتی ہے اور خاص طور پر بچوں کو قرآن مجید سکھانے کا انتظام کرتی ہے۔ چنانچہ ہم نے اگلے ہی دن وہاں جانے کا پروگرام بنا لیا۔ وہاں پہنچ کر جماعت کا تعارف ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد اور غرض و غایت بیان کی اس کے بعد سوال و جواب کا ایک لمبا سلسلہ چلتا رہا جس کے اختتام پر گاؤں والوں نے، سب نے یہ فیصلہ کیا کہ آج سے ہم جماعت میں داخل ہوتے ہیں۔ اس طرح یہاں بھی نئی جماعت قائم ہو گئی اور اس کے بعد انہوں نے اس علاقے کے سارے بچوں کو اکٹھا کر کے ہمارے سامنے پیش کر دیا کہ آج سے یہ جماعت کے بچے ہیں۔ آپ ہمیں بتائیں ان کو کیسے قرآن مجید سکھایا جائے؟ چنانچہ مربی صاحب کہتے ہیں ان میں سے دو لڑکوں کو قرآن کریم سکھانے کے لیے میں نےمنتخب کیا کہ ان کو قرآن سکھایا جائے گا اور پھر وہ واپس جا کر اپنی مسجد میں اپنے علاقے میں قرآن کریم کی کلاسز لگا کر باقی بچوں کو سکھائیں گے۔ کہتے ہیں ہم نے ابھی ایک ارادہ ہی کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسی وقت تائید و نصرت ہمارے ساتھ شامل کر دی۔ پاکستان میں قرآن پڑھنا کیا ہمیں قرآن کریم سننے پر بھی پابندی ہے۔ ایک احمدی پر اس لیے مقدمہ ہو گیا کہ وہ قرآن کریم کی تلاوت کیوں سن رہا تھا۔ یہ ہے ان نام نہاد مسلمانوں کا اسلام اور دوسری طرف لوگ اپنے بچوں کو جماعت کے سپرد کر رہے ہیں کہ انہیں قرآن کریم پڑھائیں سکھائیں کیونکہ جماعت ہی قرآن کریم کا صحیح علم رکھتی ہے۔

بعض لوگ احمدی ہو کر پھر کسی لالچ میں آجاتے ہیں یا خوف کی وجہ سے احمدیت چھوڑ دیتے ہیں اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اب یہاں جماعت کو ختم کر دیں گے لیکن اللہ تعالیٰ ان کی یہ سوچیں ان پر الٹا دیتا ہے اور جماعت بڑھتی چلی جاتی ہے جیسا کہ اس کا وعدہ ہے۔ آئیوری کوسٹ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ریجن اومے میں ایک جگہ ہے کَرِےزُوْکِئے(KreZoukoue)، وہاں کی اکثریت 2008ء میں جماعت میں شامل ہو گئی تھی۔ چھوٹی سی ایک مسجد تھی جو اس وقت وہاں تعمیر کی جا رہی تھی۔ لوگ اپنے طور پر تعمیر کر رہے تھے۔ وہ جماعت کو لوگوں نے دے دی۔ جماعت نے اس مسجد کو مکمل کر لیا لیکن کچھ عرصہ بعد وہاں کا مقامی امام جو پہلے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا تھا اس کے دماغ میں فتور آیا۔ اس نے جماعت سے علیحدگی اختیار کرلی اور مسجد پر بھی قبضہ کر لیا۔ پھر لوگوں کو بھی ورغلانے لگا کہ جماعت سے قطع تعلق کر لو لیکن لوگ اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت پر قائم رہے۔ بہرحال جب مولوی نے مسجد پہ قبضہ کر لیا تو ان لوگوں نے عارضی طور پر پلاسٹک کی شیٹوں سے اور کچھ لکڑیاں اکٹھی کر کے ایک عارضی مسجد سی شیڈ بنا لیا اور وہاں نمازیں پڑھنی شروع کیں، جمعہ شروع کیا اور پھر کوئی اس بات کی پروا نہیں کی کہ ایک پختہ مسجد ہم چھوڑ آئے ہیں۔ بہرحال اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور کہتے ہیں اس سال کے دوران جماعت کو وہاں دو منزلہ خوبصورت مسجد بنانے کی توفیق ملی جس کے گنبد بھی ہیں اور منارے بھی ہیں اور جس مسجد پر غیر احمدی امام نے قبضہ کر لیا تھا اس سے کئی گنا بڑی اور خوبصورت مسجد وہاں اس علاقے میں بنالی۔

پاکستان میں بھی ایک طرف تو ہمارے منارے گرائے جا رہے ہیں۔ مسجدوں کی محرابیں گرائی جا رہی ہیں۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ خوبصورت مسجدیں ہمیں دوسری جگہ عطا فرما رہا ہے اور کثرت سے عطا فرما رہا ہے۔

اللہ تعالیٰ کس طرح مخالفین کی کوششوں کے مقابلے میں مدد فرماتا ہے،

اس بارے میں

چاڈ

افریقہ کا ایک ملک ہے۔ وہاں کے مبلغ لکھتے ہیں کہ 2022ء کی مارچ میںجماعت کی پہلی مسجد کا افتتاح ہوا۔ پچھلے سال کی باتیں بتا رہا ہوں میں۔ اس سال کی تو ان شاء اللہ ابھی آئیں گی۔ کہتے ہیں کہ دارالحکومت چاڈ میں ہماری مسجد کا افتتاح ہوا۔ حاسدین مختلف سازشیں کر رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ ہمارے ملک میں ایک نیا دین لے کر آ گئی ہے۔ افتتاح کے بعد جماعت کی ذرا زیادہ مشہوری ہوئی تو حاسدوں کی تعداد بھی بڑھنے لگی اور ان کی کارروائیاں بھی بڑھنے لگیں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے علاقے کے چند ائمہ کرام، نام نہاد مولوی جو ہیں مسجدوں میں جماعت کے خلاف تقریریں کر رہے ہیں، پراپیگنڈا کر رہے ہیں کہ احمدیوں کی مسجد کو بند کر دیا جائے۔ اس سلسلے میں انہوں نے لوگوں کو اکٹھا کیا اور چاڈ اسلامک کونسل میں بھی گئے اور ان سے یہ کہا آپ لوگوں نے جماعت احمدیہ کو مسجد بنانے کی کیوں اجازت دی تھی اور مسجد کو جمعہ کے لیے کیوں کھول دیا گیا ہے، اس مسجد کو فوراً بند کرایاجائے، اس سے ہمارے علاقے میں فتنہ پیدا ہو رہا ہے۔ اسلامک کونسل والوں نے کہا کہ عبادت کرنا ان کا، احمدیوں کا حق ہے،ہم کیسے مسجد جو اللہ کا گھر ہے اسے بند کر دیں۔ اگر آپ لوگوں کو کسی فتنے کا ڈر ہے تو پولیس میں جا کے رپورٹ کر دیں۔ وہاں کی اسلامک کونسل کو کم از کم اتنی عقل بھی ہے اور انصاف پسند بھی ہے کہ انہوں نے کسی کا خوف نہیں کیا۔ پاکستان میں تو جج بھی لوگوں کے خوف سے ہمارے خلاف فیصلہ دے دیتے ہیں اور ہمیں وہاں مسجد کہلانا تو الگ، مسجد میں نمازیں پڑھنے اور عبادت کرنے کی اجازت نہیں۔ بہرحال اس کے بعد وہ لوگ پولیس ہیڈ کوارٹر چلے گئے اور شکایت کی کہ ہمارے علاقے میں فتنہ پیدا ہو رہا ہے۔ احمدیوں کو بند کرایا جائے۔ نیا دین لے کر آ گئے ہیں اور نعوذ باللہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کو بھی نہیں مانتے۔ پولیس افسر نے مبلغ کو بلایا۔ جماعت کی رجسٹریشن کی کاپی اور مسجد بنانے کی اجازت وغیرہ مانگی۔ ساری چیزیں، سارے کاغذات پیش کیے گئے۔ بہرحال اس نے کہا آپ جائیں۔ تفتیش کر کے مَیں بتاؤں گا۔ اس کے بعد اس پولیس افسر نے محلے کے چیف کو بلایا اور اس سے پوچھا کہ تمہارے محلے میں احمدیوں نے مسجد بنائی ہے اور نیا دین لے کر آئے ہیں اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتے۔ چیف نے جواب دیا کہ ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے خود جمعہ ان کی مسجد میں پڑھا ہے اور وہ مسلمانوں کی طرح نماز پڑھتے ہیں اور تین سال سے میں جماعت احمدیہ کو جانتا ہوں اور خدمتِ خلق کے بڑے کام بھی یہ کر رہے ہیں۔ بہرحال پولیس افسر ایک دن ہماری مسجد میں بھی آ گیا اور مسجد کے باہر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہ دیکھ کر حیران ہو گیا اور کہا کہ آپ لوگ تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مانتے ہیں۔ مسجدکے ہال میں جو اندر حصہ تھا قرآنی آیات دیکھ کر اَور بھی حیران ہوا۔ پھر کہاآپ کا قبلہ بھی ایک ہے اور مسجد میں صف بندی بھی مسلمانوں کی مساجد کی طرح ہے۔ مجھے تو یہ بتایا گیا تھا کہ نیا دین لے کر آ گئے ہیں۔ بہرحال پولیس نے بھی کوئی کارروائی نہیں کی۔ اردگرد کے جو غیر احمدی تھے ان کے گھروں سے بھی پوچھا۔ انہوں نے بھی کہا کہ ہمیں ان سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جب یہ لوگ پولیس سے ناکام ہوئے تو گھروں میں جانے لگ گئے۔ ہمسایوں کو کہا کہ ان کو یہاں سے نکالنے کے لیے شور مچاؤ تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا کہ مسجد تو اللہ کا گھر ہے اور ہمیں ان میں کوئی ایسی چیز نظر نہیں آرہی جو اسلام سے ہٹ کر ہو تو بہرحال ہر لحاظ سے ان کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

اللہ تعالیٰ کس طرح جماعت میں شامل ہونے کے لیے لوگوں کے دلوں میں ڈالتا ہے

اس کا ایک واقعہ

بیلیز

کے مبلغ بیان کرتے ہیں۔ بیلیز سینٹرل امریکہ کا ایک ملک ہے کہتے ہیں میتھوڈسٹ (Methodist)چرچ سے مضبوط تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے جب مسجد نور کو تعمیر ہوتے دیکھا تو خدا تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا کہ انہیں اس مذہب کو قبول کر لینا چاہیے۔ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی اور مسجد کا افتتاح ہو گیا تو انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا نے میرے دل میں ڈالا ہے کہ میں وہاں جاؤں اور اس جماعت کا حصہ بن جاؤں۔ ان کے دوستوں نے کہا کہ تمہارے گھر کے قریب مسلمانوں کی ایک اَور مسجد بھی ہے اگر تمہیں مسلمان ہونا ہی ہے تو تم وہاں بھی جا سکتی ہو۔ اس پر اس خاتون نے جواب دیا کہ نہیں۔ خدا نے میرے دل میں جماعت احمدیہ کے متعلق ڈالا ہے کہ یہ صحیح لوگ ہیں اور مجھے ان کے ساتھ ہو جانا چاہیے۔ چنانچہ وہ جب مسجد نور تشریف لائیں اور انہیں جماعت کا تعارف پیش کیا گیا تو وہ بہت جذباتی ہو گئیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ انہیں اس جماعت میں لایا ہے۔ مربی صاحب نے انہیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ الہام تھا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کے لیے اسی طرح اللہ تعالیٰ کام کرتا ہے۔ لہٰذا مسجد آنے کے بعد اور اسلام احمدیت کی تعلیم کے بارے میں جاننے کے بعد انہوں نے کچھ دن میں بیعت کر لی اور جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

بعض دفعہ بعض لوگ جو غلط فہمی کی وجہ سے یا لوگوں کی باتوں میں آکر مخالفت کرتے ہیں لیکن ہوتے سعید فطرت ہیں۔ ان کی اللہ تعالیٰ کس طرح راہنمائی فرماتا ہے اس کا ایک واقعہ مبلغ انچارج

گیمبیا

لکھتے ہیں کہ ضلع جمارا میں یہ ایک علاقہ ہے۔وہاں نئی تعمیر ہونے والی مسجد کے دروازوں اور کھڑکیوں کے لیے شیشے خرید رہے تھے۔ تو جب شیشے کی کٹائی کے لیے ابوبکر سابالی صاحب ایک شخص ہیں جو اس کام کے ماہر تھے۔ ان کو بتایا کہ مسجد کے لیے شیشے خریدے گئے ہیں تو انہوں نے اپنی مزدوری کم کر دی کہ یہ مسجد کے لیے کام ہے تو میں کم اجرت لیتا ہوں۔ کہتے ہیں جب شیشے لے کر ہم اس شخص کے ساتھ وہاں پہنچے جس نے شیشے لگانے تھے تو اتنے دور دراز علاقے میں خوبصورت مسجد دیکھ کر اس شخص کو بہت خوشی ہوئی لیکن جب اسے معلوم ہوا کہ یہ احمدی مسلمانوں کی ایک مسجد ہے تو وہ بہت غصے میں آگیا اور اس نے شیشے توڑ دیے اور شیشے توڑنے کے دوران خود بھی بیچارہ زخمی ہوگیا لیکن اللہ تعالیٰ نے کس طرح اس کی راہنمائی کی۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے رات کو خواب میں اپنے آپ کو چیختے ہوئے دیکھا اور سمندر میں ڈوبتے ہوئے دیکھا اور جب اسے مدد کی کوئی امید نہ تھی تو اس نے ایک کشتی دیکھی جو اسے بچانے کے لیے آ رہی تھی اور اس کشتی میں اس نے امیر جماعت اور اس مربی کو دیکھا۔ اگلی صبح جو جمعےکا دن تھا وہ مشن ہاؤس آیا اور بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہو گیا۔

اسی طرح

تنزانیہ

سے قبول احمدیت کا ایک واقعہ ہے۔ سیمیو ریجن کی ایک جماعت ہے موابےما (Mwabuma)۔ وہاں کہتے ہیں معلمین نے تبلیغ شروع کی۔ لوکل لوگوں سے جب مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کے لیے پلاٹ لینا چاہا تو ہر ایک نے جو قیمت بتائی وہ بہت زیادہ تھی۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ ہمارے خلاف لوکل پادریوں نے ایک کمپین چلا رکھی ہے کہ کوئی ان کو مسجد بنانے کے لیے جگہ نہ بیچے کیونکہ یہ جادو کرتے ہیں اور ان کے پاس جن ہوتے ہیں اور قرآن کے ذریعے جس کو چاہیں قتل کر دیں اور پتا بھی نہ چلے۔ اس خوف سے کوئی ہمیں مسجد بنانے کے لیے جگہ نہیں دے رہا تھا۔ عیسائیوں کا علاقہ تھا۔ اس پر معلمین نے گھر گھر جا کر ان لوگوں کے وسوسے ختم کیے۔ لوگوں کی رائے بدلنے کی کوشش کی۔ چند ماہ کے اندر ایک نوجوان نے اپنا ایک ایکڑ کا پلاٹ ہمیں دینے کی حامی بھر لی۔ اس سے جماعت نے پلاٹ لے لیا۔ اس نوجوان نے بتایا کہ اس مسجد کے لیے پلاٹ فروخت کرنے کے بعد بڑی برکت پڑی ہے۔ کہتا ہے کہ ایک آدمی جو کئی سالوں سے اسے قرض واپس نہیں کر رہا تھا اور اس کی وجہ سے اس کے کئی کام رکے ہوئے تھے پلاٹ بیچنے کے چند دن کے بعد ہی خود ہی اس نے ساری رقم لوٹا دی اور میرے سارے قرض اس کی وجہ سے ادا ہو گئے۔ بہرحال اس بات سے متاثر ہو کر وہ اپنی فیملی سمیت احمدی ہو گیا۔ اس کے بعد کہتے ہیں ایسی ہوا چلی ہے قبول احمدیت کی کہ سینکڑوں لوگ اس علاقے میں سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے ہیں اور وہاں ایک بڑی مسجد اور مشن ہاؤس بنانے کی بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دی۔

اللہ تعالیٰ نے جس کو ہدایت دینی ہو

اس کے لیے ہدایت کے انتظام بھی عجیب طریقے سے کرتا ہے۔

ساؤتومے

افریقہ کا ایک علاقہ ہے وہاں کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ مراکش سے ایک سیاح ساؤتومے آیا۔ اس نے لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی مسلمانوں کی مسجد ہے تو لوگوں نے انہیں ہمارے مشن کا پتہ بتایا۔ اس نے جمعہ ہمارے ساتھ پڑھا تو اسے تب پتا لگا کہ یہ جماعت احمدیہ کا مشن ہاؤس ہے۔ کچھ سوال جواب اس نے کیے۔ اس کے بعد اس نے کتاب سرالخلافہ اور مذہب کے نام پر خون عربی میں پڑھیں۔ ایم ٹی اے العربیہ کے پروگرام دیکھے۔ کچھ دیر وہاں بیٹھا رہا۔ ان دنوں میں عالمی بیعت ہو رہی تھی یا اس کی ریکارڈنگ آ رہی تھی۔ وہ دیکھی تو کہتے ہیں مارچ میں، گذشتہ سال مارچ میںوہ دوبارہ آیا اور اس نے کہا میں بیعت فارم دیکھنا چاہتا ہوں۔ کہتے ہیں ہم نے عربی میں بیعت فارم اس کودیا تو فارم پُر کر کے آ گیا۔ کہتے ہیں میں نے اسے کہا کہ اتنی جلدی نہ کرو کچھ عرصہ دعا کرو پھر فیصلہ کرنا۔ کہتا ہے میں ساری رات دعائیں کرتا رہا ہوں اور میرا دل مطمئن ہے مجھ سے مزید صبر نہیں ہو سکتا کہ امام کی بیعت کے بغیر میں مر گیا تو کون جواب دہ ہو گا۔اس نے کہا کہ میں نے دیکھ لیا ہے کہ جماعت احمدیہ حق پہ ہے تو میں نے اسے بتایا کہ تمہارے ملک کے جو دوسرے مسلمان ہیں تمہاری مخالفت کریں گے، والدین تمہاری مخالفت کریں گے۔ کس طرح سامنا کرو گے؟ کہنے لگا میں نے ان کو، والدین کو بتا دیا ہے اور ان کو کوئی اعتراض نہیں بلکہ وہ خوش ہیں۔ دوسرے کہتا ہے یہ مخالفت ہو بھی تو کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ حقیقی اسلام پر موت آئے اس سے بڑھ کر میرے لیے اَور کچھ نہیں۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ ان کے والد نے بھی ویڈیو میں میرے سے بات کی اور بڑی خوشی کا اظہار کیا اور اپنے بیٹے کو بھی نصیحت کی کہ میں نے ساری باتیں سنی ہیں اب تم نے بیعت کی ہے تو جماعت کے ساتھ قائم رہنا اپنی ثابت قدمی دکھانا۔ اب ایک احمدی باوجود اس کے کہ مراکش میں احمدی ہیں، جماعت ہے لیکن اسے جماعت کا تعارف وہاں نہیں ہو سکا۔ اللہ تعالیٰ نے اسے افریقہ کے دور دراز علاقے میں ایک دوسرے ملک میں بھیجا اور وہاں جا کے اس کی ہدایت کے سامان پیدا فرمائے۔

ازبکستان

سے ایک شخص عَالِم بابایوو صاحب ہیں۔ کہتے ہیں میری پیدائش مسلمان گھر میں ہوئی۔ میری عمر اکتیس سال ہے۔ ازبکستان کے شہر تاشقند سے میرا تعلق ہے۔ قرآن کریم سیکھنے کے لیے استاد ڈھونڈ رہا تھا کہ میری ملاقات بابُر جان سے ہوئی۔ ان سے حقیقی اسلام کے بارے میں سنا۔ ان سے قرآن سیکھا۔ انہوں نے اس حقیقت کو قبول کرنے میں میری مدد کی۔ چنانچہ خاکسار بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو قرآن کریم سکھانے کے لیے استاد کا انتظام بھی ایک احمدی کا کیا اور ایسے بہت سے واقعات ہیں، یہ اتفاق نہیں۔ دنیا کے مختلف ملکوں میں ایسے واقعات ہیں پہلے بھی ایک مَیں نے سنایا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی تائید کی خاص نشانی ہے۔

پھر

ازبکستان

سے ہی ایک اَور شخص ہیں عظیم اوف صاحب۔ کہتے ہیں میری پیدائش ایک مسلمان خاندان میں ہوئی۔ چار سال پہلے میں نے باقاعدہ نماز پڑھنی شروع کی۔ پھر قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنا شروع کر دیا۔ ایک دن ایک تحریر مجھ تک پہنچی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح فرمایا کہ میری امّت سے اس طرح کے لوگ پیدا ہوں گے جو ہمیشہ حق پر ہوں گے اور کوئی انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور یہ الفاظ میرے دل میں داخل ہو گئے۔ کہتے ہیں میں نے نمازوں اور دعاؤں میں اللہ تعالیٰ سے انہی لوگوں میں شامل ہونے کی دعا شروع کر دی۔ اس کے بعد مجھے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مجھے کام سے فارغ کر دیا گیا لیکن میں دعا کرتا رہا۔ پھر میرے اندر قرآن سیکھنے کی خواہش پیدا ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے میری ملاقات پھر اسی استاد بابُر صاحب سے کروا دی۔ استاد کا تعلق جماعت احمدیہ سے تھا۔ مجھے اس کا علم نہیں تھا۔ سب سے پہلے میں نے قرآن پڑھنا سیکھا۔ ایک روز میں نے خواب میں خانہ کعبہ کو دیکھا اور اس کے قریب ہو کر ہاتھ سے اسے چھوا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ میرا تو وضو نہیں۔ میں وضو کرنے غسل خانے گیا میری آنکھ کھل گئی۔ کہتے ہیں بہرحال احمدی استاد سے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ ایک روز میں نے ان سے عیسیٰ ابن مریم کے آسمان سے نزول کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے بتایا کہ عیسیٰ ابن مریم تو فوت ہو گئے ہیں اور جس انسان نے عیسیٰ ابن مریم کے رنگ میں آنا تھا وہ امام مہدی ہیں۔ پھر میں نے تحقیق کی اور یہ معلوم کیا اور اپنے استاد کو بتایا کہ وہ انسان حضرت مرزا غلام احمدؑ ہیں۔ استاد نے ان کو تبلیغ نہیں کی انہوں نےکہاوہ ظاہر ہو گئے ہیں خود ہی تلاش کرو۔ وہ امام مہدی ہیں۔ خیر انہوں نے تحقیق کی اور خود ہی انٹرنیٹ وغیرہ کی تحقیق سے پتا لگایاکہ مرزا غلام احمد قادیانیؑ وہ امام مہدی ہیں۔ میرے استاد نے جب میں نے اس کوکہا توا س نے بھی تصدیق کر دی کہ مرزا غلام احمدؑ ہی وہی امام مہدی ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے ہیں۔ کہتے ہیں میں نے ساری علامات کے پورا ہونے کے باوجود امام مہدی کے بارے میں شک کا اظہار کیا۔ پھر میرے استاد نے جماعت احمدیہ کے بارے میں بتایا اور کہا کہ میں بھی اسی جماعت میں سے ہوں اور یہ بھی بتایا کہ وہ یعنی جماعت احمدیہ تعداد میں ابھی تھوڑی ہے اور میرے آپ کی طرح کے اور بھی شاگرد ہیں اور مجھے اپنے شاگردوں سے ملایا۔ بہرحال کہتے ہیں: میں نے تحقیق کی اور دعاؤں اور تحقیق کے بعد پھر میں نے محسوس کیا کہ اللہ تعالیٰ نے دعائیں قبول کر لی ہیں اس کے بعد میں نے بیعت کر لی۔

اسی طرح

ازبکستان

سے ایک اَور شخص ہیں ان کا بھی اسی طرح کا واقعہ ہے۔ ان کی قوم کو بھی بیعت کی توفیق ملی اور پھر انہوں نے گذشتہ سال بیعت کر لی۔

پھر

افریقہ کے ایک ملک

کی ایک رپورٹ ہے۔ وہاں کے مبلغ سلسلہ کہتے ہیں کہ وہ اور مقامی معلم ایک جماعتی میٹنگ سے واپس آرہے تھے، شام کا وقت تھا، کافی سفر رہتا تھا۔ راستے میں ایک گاؤں سے گزرے تو وہاں بہت سارے لوگ راستے کے کنارے کھڑے تھے جنہوں نے ہمیں روکا اور بتایا کہ آج صبح ہم نے آپ کو یہاں سے گزرتے دیکھا تھا۔ ہمیں یقین تھا کہ آپ واپس آئیں گے۔ ہم کافی دیر سے آپ کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا آپ ہمارے گاؤں سے ناراض ہیں کہ ارد گرد کے تمام دیہات میں آپ کے ممبر ہیں، جماعت قائم ہے اور مساجد موجود ہیں لیکن آپ نے ہمارے گاؤں میں یہ پیغام نہیں پہنچایا۔ چنانچہ کہتے ہیں ہم اسی وقت وہاں پہنچے۔ تبلیغی پروگرام ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بیعتیں حاصل ہوئیں۔ خدا تعالیٰ لوگوں کے دلوں میں خود ڈال رہا ہے کہ حق کی تلاش کرو۔

سینٹرل افریقہ

کے مبلغ انچارج لکھتے ہیں ایک غیر احمدی امام جو گاؤں ’’ناگالا‘‘ سے تعلق رکھتے ہیں، تبلیغ کے سلسلہ میں ہمارے احمدی گاؤں میں آئے۔ مسجد کو دیکھا اور پوچھا یہ کس نے بنائی ہے؟ جواب دیاگیا کہ احمدیوں نے بنائی ہے۔ کہنے لگے ماشاء اللہ بڑی خوبصورت مسجد ہے۔ دوسرے روز یہ مولوی صاحب سینٹرل مشن ہاؤس ’’بانگی‘‘ میں آئے۔ مبلغ صاحب سے جماعت کے بارے میں سوال و جواب کرتے رہے۔ آخر پر اس نے مبلغ سے پوچھا کہ آپ کی جماعت میں کس طرح سے داخل ہوا جاتا ہے؟ اس پر مبلغ صاحب نے بتایا کہ ایمان کا تعلق دل سے ہے۔ اگر آپ جماعتی عقائد سے متفق ہیں تو آپ کے دل نے احمدیت قبول کر لی لیکن ہمارے پاس بیعت فارم بھی موجود ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دس شرائط بیان فرمائی ہیں۔ اس کو آپ پڑھ لیں۔ جب ان کو بیعت فارم دیاگیاتو پڑھنے لگے۔کہتے ہیں ابھی وہ پڑھ رہے تھے اور ان کی آنکھوں سے آنسو گر رہے تھے۔ ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ میں بھی اپنے آپ کو عالم سمجھتا ہوں اور دوسرے مولویوں سے بھی جماعت کے متعلق بہت کچھ سنا ہے اور بہت غلط سنا ہے۔ اس بیعت فارم کی دس شرائط کو پڑھ کر مجھے پچھلی زندگی سے گھن آ رہی ہے کہ میں جماعت کو کیا سمجھتا رہا اور آپ کی تعلیم کیا ہے۔ اس لیے میں اپنے جذبات کو قابو نہیں رکھ سکا۔ اس بیعت فارم کو پڑھ کر میں نے جان لیا ہے کہ جماعت احمدیہ ایک سچی اور کھری جماعت ہے اور ان کی مساجد کا رخ بھی قبلہ کی طرف ہے۔ وہی نماز ہے جو ہم پڑھتے ہیں۔ وہی قرآن ہے جو ہم پڑھتے ہیں اور میں آج تہ دل سے جماعت احمدیہ کو قبول کرتا ہوں۔ بہرحال اسے مزید کتابیں دی گئیں اور کہتے ہیں انہیں پڑھ کر میں اب دوسرے مولویوں کا منہ بند کراؤں گا۔

اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں کس طرح اضافہ فرماتا ہے،

ماننے والوں کی تعداد کس طرح بڑھاتا ہے۔

گیانا

کے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں۔ لِنڈن جماعت میں باقاعدگی کے ساتھ بک سٹالز لگانے اور لوگوں کو فلائر تقسیم کرنے کا پروگرام ہوتاہے۔ ایک دن کسی شخص کی کال آئی کہ میں نے آپ لوگوں کا فلائر دیکھا ہے تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ میرے گھر کے قریب ہی نماز سینٹر بھی ہے۔ بہرحال جمعہ پر آیا۔ اس نے کہا کہ میں دو سال سے مسلمان ہوں مگر نہ مجھے قرآن پڑھنا آتا ہے نہ نمازسیکھنے کا موقع ملا ہے تو مجھے سبق سکھا دیں۔ اس نے کہا آ جاؤ اور بڑی احتیاط کرتے رہے کیونکہ وہاں بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو غلط قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو صرف مانگنے کے لیے آتے ہیں بہرحال کہتے ہیں میں نے کہا آ جاؤ اگر یہ واقعی دین سیکھنا چاہتا ہے تو پتہ لگ جائے گا۔ وہ باقاعدگی سے آتا رہا اور قرآن کریم سیکھتا رہا اور بڑا لمبا عرصہ سیکھنے کے باوجود بھی جب اس نے کوئی مطالبہ نہیں کیا تو کہتے ہیں مجھے پتا لگ گیا کہ یہ دین کے معاملے میں بڑا سنجیدہ ہے۔ پھر اس کو جماعت کا تعارف کروایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر دکھائی۔ اس نے بیعت کر لی۔ اس کا اسلامی نام بھی رکھا گیا۔ پھر اس نے کچھ عرصہ کے بعد معلم بننے کا اظہار کیا کہ میں جماعت کا معلم بننا چاہتا ہوں۔ بہرحال وہاں کی جماعت نے مجھ سے پوچھا۔ میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے۔ اگر واقعی سنجیدہ ہے تو اسے معلم بنا لیں۔ تربیت دیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب اس کی تربیت ہو چکی ہے۔ نماز بھی پوری پڑھتا ہے، جمعہ پڑھاتا ہے۔ قرآن کریم کی تعلیم سے تفسیر پڑھ کے درس بھی دیتا ہے۔ خطبات بھی دیتا ہے۔ کہتے ہیں کہ اس کی بیعت کے کچھ عرصہ بعد نماز سینٹر میں ایک نمائش رکھی گئی۔ اس میں موصوف کے والدین بھی آئے۔ اس کا باپ اسلام کا بڑا مخالف تھا مگر ماں نے اظہار کیا کہ کسی زمانے میں اسلام میں اس کی دلچسپی تھی اور خاص طور پر اس کو عورتوں کا حجاب پہننا اچھا لگ رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی ماں کو دلچسپی پیدا ہوئی۔ بہرحال اس لڑکے کو، معلم کو کہا گیا کہ اپنے والدین کو تم تبلیغ کرو تا کہ ان کو بھی احمدیت میں شامل کیا جائے، اسلام کی تعلیم دی جائے۔ کہنے لگا کہ وہ لوگ اپنے مذہب کے معاملے میں بڑے سخت ہیں اور میری ماں چرچ جانے والی خاتون ہے اور اس نے بپتسمہ بھی لیا ہوا ہے تو بہرحال کہتے ہیں کہ ہم دعا کرتے ہیں۔ لڑکے کو بھی کہا کہ تم اپنی ماں کے لیے دعا کرو۔ اللہ تعالیٰ اس کا دل اسلام کی طرف مائل کر دے۔ کہتے ہیں ایک دن اس کی ماں خود اپنے بیٹے سے سوال پوچھنے لگی اور نماز جمعہ پر بھی آنا شروع کر دیا۔ پھر ایک دن اچانک خود ہی اس نے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتی ہوں۔ پھر جماعت میں شامل بھی ہو گئی اور اللہ کے فضل سے باقاعدگی سے لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں۔ہر جمعہ پہ آتے ہیں۔ نمازیں پڑھنے والے ہیں اور یہ بھی انہوں نے اقرار کیا کہ جماعت میں شامل ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی صحت میں بھی اور مال میں بھی بہت برکت پڑی ہے جو انہیں عیسائیت میں نہیں تھی اور اب اس کی والدہ ایم ٹی اے بھی باقاعدگی سے دیکھتی ہیں۔

بہرحال یہ چند واقعات میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وعدہ پورے ہونے کے بارے میں بیان کیے ہیں۔ ایسے بہت سے واقعات ہیں۔ مخالفین اپنی انتہائی کوششیں کر رہے ہیں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا لیکن دوسری طرف اللہ تعالیٰ دنیا کے ہر ملک میں جماعت کی ترقی کے نئے راستے کھول رہا ہے۔ پس

اس بات سے جہاں ہمیں اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہونا چاہیے وہاں اپنی حالتوں کا بھی جائزہ لیتے رہنا چاہیے، اپنے ایمانوں کو مضبوط کرنے کی بھی کوشش کرتے رہنا چاہیے، اپنی عملی حالتوں کو بہتر کرنا چاہیے،

اپنی نسلوں میں بھی یہ بات راسخ کرنی چاہیے کہ ابتلا تو آتے ہیں لیکن آخری فتح اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ جماعت کی ہی ہے۔ اس لیے کبھی اپنے ایمانوں کو متزلزل نہ ہونے دو۔ اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں کو بھی اور پرانے آنے والوں کو بھی ثبات قدم عطا فرمائے اور ایمان اور یقین میں بڑھاتا چلا جائے۔

اب میں

بعض مرحومین کا ذکر

کروں گا جن کا بعد میں نماز جنازہ غائب بھی ادا ہو گا۔ پہلا ذکر

پروین اختر صاحبہ

کا ہے جو غلام قادر صاحب مرحوم سیالکوٹ کی اہلیہ تھیں۔ نوے سال کی عمر میں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے تین بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں۔ ایک بیٹے عارف محمود صاحب بینن کے مبلغ سلسلہ ہیں جو اپنی والدہ کے جنازے میں میدان عمل میں ہونے کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے۔

مبلغ سلسلہ عارف محمود بیان کرتے ہیں کہ ان کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی حضرت چودھری امام دین صاحب چوہان کی پوتی تھیں اور معلم سلسلہ غلام احمد صاحب کی بیٹی تھیں۔ قادیان میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم قادیان سے حاصل کی۔ کہتے ہیں والدہ بتایا کرتی تھیں کہ ان کے بچپن کا زیادہ تر وقت قادیان میں حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ساتھ ان کی خدمت میں گزرا ہے اور یوں آپ کی تربیت حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کی تھی۔ دینی تعلیم اور قرآن پڑھنا انہی سے سیکھا اور اکثر وقت حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ان کی خدمت کرتے ہوئے گزارا۔ کہتے ہیں اپنے واقعات بھی سونے سے پہلے سنایا کرتی تھیں۔ بعض دفعہ کہتی تھیں حضرت مصلح موعودؓ حضرت اماں جانؓ کو ملنے رات کو گھر تشریف لاتے اور مجھے خدمت کرتا دیکھ کے کہا کرتے تھے کہ اپنے نیک ساتھی کے لیے بھی دعا کیا کرو۔ کہتے ہیں جب ان کی، میری والدہ کی شادی ہوئی ہے تو کچھ دیر بعد 1953ء میں حالات خراب ہو گئے۔ گاؤں کے بعض لوگوں نے کمزوری دکھائی لیکن یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دین پر قائم رہیں اور اپنے خاوند کو بھی مضبوط رکھا۔ اس کے بعد انہوں نے ایک مولوی صاحب سے قرآن کریم پڑھنا شروع کیا اور نماز اور سورتیں بھی یاد کرنی شروع کیں۔ اسی طرح اپنے ڈیرے پر ایک چھوٹی سی مسجد بنا کر وہیں انہوں نے جماعتی طور پر اپنا ایک مرکز بھی بنا لیا۔

ان کے بڑے بیٹے خالد محمود جو فوج میں تھے وہ کہتے ہیں۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھتی تھیں۔ ہمیں بھی یہی کہا کرتی تھیں کہ دین پر مضبوطی سے قائم ہو جاؤگے تو دنیا کے معاملات خود ہی درست ہو جائیں گے۔ کہتے ہیں بچپن سے ہی ہمیں نمازوں کی عادت ڈالی اور فجر کی نماز پہ بھی مسجد کچھ فاصلے پر تھی تو وہ خود مسجد چھوڑنے جایا کرتی تھیں۔ محلے کی بہت ساری عورتیں جو احمدی نہیں تھیں انہیں بھی قرآن کریم کی تعلیم انہوں نے دی۔ اب تو قرآن کریم وہاں پڑھا نہیں سکتے لیکن پہلے اتنی شرافت تھی کہ غیر احمدی بہت سارے لوگ ہیں جو احمدیوں سے قرآن کریم پڑھا کرتے تھے۔

پھر ان کے بیٹے لکھتے ہیں یا بیٹی نے شاید لکھا ہے کہ عام طور پر دیہاتوں میں بچیوں کی تعلیم کا رواج نہیں ہے۔ جب بیٹی بڑی ہوئی تو ان کی والدہ سکول میں داخل کرانے لگیں تو دادا نے اعتراض کیا۔ انہوں نے بڑے ادب سے مسلسل کوشش کر کے ان کو قائل کیا کہ تعلیم دلوانی چاہیے اور ہمیشہ کہا کرتی تھیں کہ لڑکیوں کو اتنی تعلیم ضرور دلوانی چاہیے کہ کم از کم جماعتی لٹریچرپڑھ سکیں اور اولاد کی تربیت کر سکیں۔

رشید احمد صاحب مانگا کے نمبر دار ہیں، وہ کہتے ہیں ہمارا ڈیرہ ان کے ڈیرے کے قریب تھا۔ ہم لوگ بھی ان کو دیکھ کر احمدی تو ہو گئے لیکن نماز کی طرف رجحان نہیں تھا۔ جب آپ ڈیرے پر آتیں تو ہم سب کو نماز کی تلقین کرتیں۔ ہم مسجد دُور ہونے کا بہانہ کر دیتے اور آپ خاموش ہو جاتیں۔ پھر کہتے ہیں ہم نے دیکھا کہ آپ کھیت سے مٹی سر پر اٹھا کر ڈیرے پر لاتیں۔ یہ مٹی لانے کا سلسلہ کوئی ایک ہفتہ تک چلتا رہا پھر اس مٹی سے ڈیرے کے مغرب کی طرف ایک تھڑا بنایا اور اس کی دو ہاتھ برابر چار دیواری بنائی۔ پھر اس جگہ کی لپائی کر کے صاف ستھرا بنایا۔ پھر گھر سے دری لا کر وہاں بچھا دی اور پھر ان لوگوں کو کہا کہ لو تم کہتے تھے مسجد نہیں ہے اس لیے دور جاتے ہیں تو اب یہاں اپنے ڈیرے میں مسجد میں نے بنا دی ہے۔ یہاں آ کے باجماعت نماز پڑھا کرو۔ اب نماز میں سستی نہ کرنا۔ تو کہتے ہیں کہ سچی بات تو یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں نمازی بنایا ہے۔ یہ تھے ان بزرگوں کے اعلیٰ نمونے کہ قائل کرنا ہے اور کوئی بہانا بنایا ہے تو عملی طور پر خود ایسا نمونہ دکھایا کہ جس سے دوسرا مجبور ہو جائے۔

پھر ان کی بیٹی لکھتی ہیں کہ صبر و رضا کا پیکر تھیں۔ ہمیں بھی تلقین کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں کہ حضرت اماں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یہ نصیحت اپنے پلے باندھ لو کہ کبھی صبر کا دامن نہ چھوڑو اور جتنا بھی سسرال میں مل جائے اسی پر قناعت کرو اور خدا کی رضا پر ہمیشہ راضی رہو اور نمازوں کو باقاعدگی سے ادا کرو اور اپنی اولادوں کو بھی اس کا پابند بناؤ۔ کہتی تھیں اس سے اللہ تعالیٰ رزق میں بھی برکت دیتا ہے۔

ان کے بیٹے جو مربی ہیں، کہتے ہیں جب جامعہ میں داخل ہوا تو مجھے کہنے لگیں کہ بیٹا! اگر پڑھائی میں اعلیٰ پوزیشن نہ بھی آئے تو کوئی بات نہیں لیکن امامِ وقت کی اطاعت میں ہمیشہ اعلیٰ پوزیشن پر رہنے کی کوشش کرنا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ درجات بلند کرے اور ان کی دعائیں ان کی اولاد کے لیے پوری فرمائے۔

دوسرا جنازہ

ہے

ممتاز وسیم صاحبہ

جو چودھری وسیم احمد ناصر صاحب مرحوم گھٹیالیاں کی اہلیہ تھیں۔ گذشتہ دنوں ان کی بھی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے بیٹے بھی آج کل زیمبیا میں مبلغ سلسلہ ہیں۔ مرحومہ کا تعلق معروف صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت میاں چراغ دین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ رئیس لاہور کے خاندان سے تھا۔ آپ حضرت میاں عبدالرشید صاحب رضی اللہ عنہ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نواسی اور حضرت حکیم محمد حسین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ المعروف مرہم عیسیٰ کی پڑپوتی تھیں۔ مرحومہ نہایت خوش مزاج، نرم خو، ہردلعزیز، محبت و شفقت کا پیکر تھیں۔ ہر فرد آپ کے اوصاف کامعترف تھا۔ خلافت اور نظام جماعت کا بہت احترام کرتیں۔ ہمیشہ دعا کے لیے مجھے خط لکھا کرتی تھیں اور دوسروں کو بھی تلقین کرتیں کہ خط لکھاکرو۔ باقاعدگی سے نمازوں کی ادائیگی اور تلاوت قرآن کریم کیا کرتیں۔ آخر عمر تک چندہ جات کی ادائیگی بھی پابندی سے کرتی رہیں۔ اللہ کے فضل سے بی اے فاضل تھیں۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب ملازمت سے ریٹائرمنٹ پر کراچی سے گاؤں شفٹ ہوئے تو بچوں اور بچیوں کو وہاں قاعدہ اور قرآن کریم پڑھایا اور اس کے علاوہ دنیاوی تعلیم بھی دیتی رہیں۔ لمبا عرصہ بیمار رہی ہیں لیکن بڑے صبر سے اپنی بیماری کو برداشت کیا۔ کوئی گلہ شکوہ نہیں تھا۔ مربی صاحب نے لکھا ہے کہ بڑے ہونے کے باوجود غلطی پر اگر کوئی غلطی ہوتی تو ہمیشہ معافی مانگ لیا کرتی تھیں۔ دو بیٹے ان کے وقف ہیں اور بڑی خوشی سے انہوں نے بیٹوں کو وقف کیا اور اس بات پر بڑی خوش تھیں کہ بیٹے وقف ہیں۔ ان کے والد کی دو شادیاں تھیں۔ پہلی والدہ کی وفات کے بعد کہتے ہیں کہ ہمارے ان بھائیوں کو بھی اپنے سگے بچوں کی طرح پالا اور کبھی والدہ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ یہ زیمبیا جب گئے ہیں تو بہت ساری دعائیں دے کر رخصت کیا اور کہتے ہیں کچھ عرصہ پہلے میں ان کو ملنے گیا تھا تو واپسی پر یہی کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہارا حافظ ہو۔ اب شاید دوبارہ ملاقات نہ ہو سکے۔ پانچ بیٹے اور ایک بیٹی یادگار چھوڑے ہیں۔ دو اللہ تعالیٰ کے فضل سے واقف زندگی ہیں۔ نصیر ناصر صاحب معلم وقف جدید ہیں۔ دوسرے مبلغ سلسلہ زیمبیا میں ہیں اور یہ بوجہ بیرون ملک ہونے کے، میدان عمل میں ہونے کے شامل نہیں ہو سکے تھے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی دعائیں ان کی اولاد کے لیے پوری فرمائے۔

تیسرا ذکر

ہے

بریگیڈیئر منور احمد رانا صاحب۔

یہ جماعت راولپنڈی ضلع کے جنرل سیکرٹری تھے۔ ان کی بھی گذشتہ دنوں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا چودھری غلام احمد صاحب ایڈووکیٹ صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے آئی تھی۔ 1971ء میں پاکستان آرمی میں انہوں نے کمیشن لیا۔ دوران سروس جماعت سے آپ کا گہرا تعلق رہا۔ سروس کے دوران مختلف سٹیشنوں پر اپنا گھر نماز سینٹر کے طور پر پیش کرتے رہے۔ جماعت سے والہانہ محبت کرنے والے ایک دلیر احمدی افسر تھے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ہمہ وقت جماعتی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کر دیا۔ امارت کینٹ اور ضلع راولپنڈی میں ان کو مختلف خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی۔ بڑی محنت اور لگن سے جماعتی خدمات سرانجام دیا کرتے تھے اور انتہائی مروت اور انکساری اور عاجزی سے اپنے ساتھیوں سے سلوک کرتے اور اپنے عہدے داروں کی اطاعت کرتے۔ خلافت سے نہایت وفا اور اطاعت کا تعلق تھا۔ ہر تحریک پر لبیک کہنے والے تھے۔ غریبوں کے ہمدرد تھے۔ مشکلات میں مبتلا افراد کے لیے ہمہ وقت مدد کے لیے تیار رہتے تھے۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ پسماندگان میں ان کی ضعیف والدہ ہیں سلیمہ خورشید صاحبہ اور دو بیویاں اور پانچ بچے شامل ہیں۔ بچوں میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔

آخری ذکر

گروپ کیپٹن ریٹائرڈ عبدالشکور ملک صاحب کا ہے

جو آج کل ڈیلس امریکہ میں تھے ۔ وہاں گذشتہ دنوں ان کی وفات ہوئی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

ان کے نانا غلام نبی شیخ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی تھے۔ ان کے ذریعہ آپ کے آبائی گاؤں نوشہرہ میں بھی احمدیت کی تبلیغ عمل میں آئی۔ تبلیغ ہوئی اور جماعت کا نفوذ ہوا۔ مرحوم کو پاکستان ایئر فورس میں بطور انجینئر اور بعد میں بطور گروپ کیپٹن کام کرنے کی توفیق ملی۔ پندرہ سال تک راولپنڈی میں بطور نائب امیر خدمت سرانجام دیتے رہے۔ اس عرصہ میں آپ نے متعدد اسیران کے مقدمات کی پیروی بھی کی۔ خلافت کے ساتھ گہرا تعلق تھا۔ ایئرفورس میں ملازمت کے دوران جماعتی مخالفت کے باوجود آپ نے بڑی دلیری سے جماعت احمدیہ کی شناخت کو قائم رکھا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی زندگی جماعت کے لیے وقف کر دی۔ اطاعت نظام اور خلافت کا اعلیٰ نمونہ قائم کرنے والے تھے۔ دن ہو یا رات جب بھی ان کو امیر جماعت نے بلایا ہو یا جماعت نے بلایا فوراً حاضر ہوجاتے تھے۔ کبھی کوئی عذر نہیں کیا۔ صوم و صلوٰة کے پابند تھے۔ ہر کسی سے محبت اور پیار کرنے والے تھے۔ نیک اثر ڈالنے والے انسان تھے۔

ان کی بیٹی شازیہ سہیل صاحبہ کہتی ہیں کہ میرے ابا زیادہ تر وقت جماعت کے کاموں میں گزارتے تھے۔ کہیں بھی ہوتے ان کا پسندیدہ وقت نماز پڑھنا یا جماعت کے کام کرنا تھا۔ ہمیشہ اللہ کے فضل اور دعاؤں کی قبولیت کے قصے سناتے۔ ہمیشہ اپنے بچوں کو ساتھ بٹھاتے اور یہ واقعات بیان کرتے کہ اللہ تعالیٰ کا احمدیوں سے کیا خاص تعلق ہے۔ اللہ کیسے احمدیوں کے معاملات کو سنبھالتا ہے۔ آپ نے ہمیں خلیفة المسیح کو تمام اہم چیزوں کے لیے خطوط لکھنے کی ترغیب دی۔ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ ہر بات لکھا کرو۔ کہتی ہیں کہ ابا جی کی ایک پہچان اللہ پر مکمل توکل اور رضائے الٰہی کے آگے سر تسلیم خم کرنا تھا۔ بچپن سے ہی ہمیں سکھایا کہ جب بھی ہمارے پاس کوئی پیسہ آئے تو اس میں سے چندہ ضرور نکال دو۔ اس سے ہماری آمدنی میں بھی برکت ہو گی اور پاکیزگی میں بھی اضافہ ہو گا۔ مرحوم موصی تھے پسماندگان میں تین بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہیں۔ ان کے بیٹے ڈاکٹر عامر صاحب امریکہ میں ہی ڈاکٹر ہیں۔ جماعت کے وہ بھی کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم سے مغفرت اور رحم کا سلوک فرمائے۔ ان کی دعائیں ان کی اولاد کے لیے پوری فرمائے۔

(روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 9؍جون2023ءصفحہ 2تا7)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button