خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 27؍ اکتوبر 2023ء
جنگ کے حالات جس تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیں اور اسرائیل کی حکومت اور بڑی طاقتیں جس پالیسی پر عمل کرتی نظر آرہی ہیں اس سے تو عالمی جنگ اب سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے
آپؐ کا جانا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کرتا ہے جو آپؐ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپؐ لوگوں کو چلانا چاہتے تھے
آنحضرتؐ ہر ایک بات کے سمجھانے کے لئے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے
راتوں کی دعائیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ کھینچتی ہیں اور آج کل تو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ان کی خاص طور پر ضرورت ہے
یہود کے تینوں قبائل میں سے جنہوں نے سب سے پہلے معاہدے کی خلاف ورزی اور غداری کی وہ بنو قینقاع کے یہودی تھے
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قینقاع کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بجائے سمجھنے کے کھلی دھمکی دینی شروع کر دی
’’اس معاہدہ کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طورپر یہود کی دلداری کا خیال رکھتے تھے۔‘‘
حالات خطرناک ہیں اور خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔ اگر فوری حکمت والی پالیسی اختیار نہ کی گئی تو دنیا کی تباہی ہے
مسلمانوں کی مشکلات دُور ہونے کے لیے ہمیں خاص درد رکھنا چاہیے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بہت دعا کریں
آنحضرتﷺ کی سیرت طیبہ کے بعض پہلوؤں کا بیان، غزوۂ بنو قینقاع کی تفصیلات نیز اسرائیل حماس جنگ کے پیش نظر دعا کی مکرر تحریک
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 27؍اکتوبر2023ء بمطابق 27؍اخاء 1402 ہجری شمسی بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ (سرے)یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِيْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ۔ بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُلِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾إِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ إِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِنَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ أَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ﴿۷﴾
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت
کا ذکر ہو رہا تھا۔ روایات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے
اپنی بیٹی اور داماد کو تہجد کی نماز کی طرف توجہ
دلانے کے واقعہ کا بخاری میں یوں ذکر ہے۔ حضرت علی بن ابوطالبؓ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات ان کے اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم دونوں نماز نہیں پڑھتے؟ تو مَیں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہماری جانیں اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ جب وہ چاہے کہ ہمیں اٹھائے تو ہمیں اٹھاتا ہے۔ تہجد کی نماز کا ذکر ہو رہا ہے۔ حضرت علی کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور واپس تشریف لے گئے۔ پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا جبکہ آپؐ واپس جا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے فرما رہے تھے کہ وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (الکہف:55)کہ انسان سب سے بڑھ کر بحث کرنے والا ہے۔
(صحیح البخاری کتاب التہجد باب تحریض النبیﷺ علیٰ قیام اللیل والنوافل … حدیث نمبر 1127)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس واقعہ کی تفصیل اس طرح بیان فرمائی ہے کہ ’’ایک دفعہ آپؐ رات اپنے داماد حضرت علیؓ اور اپنی بیٹی حضرت فاطمہؓ کے گھر گئے اور فرمایا کیا تہجد پڑھا کرتے ہو؟ (یعنی وہ نماز جو آدھی رات کے قریب اٹھ کر پڑھی جاتی ہے) حضرت علیؓ نے عرض کیا یا رسول اللہؐ! پڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر جب خداتعالیٰ کی منشاء کے ماتحت کسی وقت ہماری آنکھ بند رہتی ہے تو پھر تہجد رہ جاتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا تہجد پڑھا کرو اور اٹھ کر اپنے گھر کی طرف چل پڑے اور راستہ میں بار بار کہتے جاتے تھے وَكَانَ الْاِنْسَانُ اَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا (الکہف:55) یہ قرآن کریم کی ایک آیت ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ انسان اکثر اپنی غلطی تسلیم کرنے سے گھبراتا ہے اور مختلف قسم کی دلیلیں دے کر اپنے قصور پر پردہ ڈالتا ہے۔ مطلب یہ تھا کہ بجائے اِس کے کہ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ یہ کہتے کہ ہم سے کبھی کبھی غلطی بھی ہو جاتی ہے انہوں نے یہ کیوں کہا کہ جب خداتعالیٰ کا منشاء ہوتا ہے کہ ہم نہ جاگیں تو ہم سوئے رہتے ہیں اور اپنی غلطی کو اللہ تعالیٰ کی طرف کیوں منسوب کیا۔‘‘
(دیباچہ تفسیر آلقران ، انوارالعلوم جلد 20صفحہ 389-390)
اس بات کو مزید کھول کر بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ ’’حضرت علیؓ اپنا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک موقع پر جبکہ حضرت علیؓ نے آپؐ کو ایسا جواب دیا جس میں بحث اور مقابلہ کا طرز پایا جاتا تھا تو بجائے اس کے کہ آپؐ ناراض ہوتے یا خفگی کا اظہار کرتے آپؐ نے ایک ایسی لطیف طرز اختیار کی کہ حضرت علیؓ غالباً اپنی زندگی کے آخری ایام تک اس کی حلاوت سے مزہ اٹھاتے رہے ہوں گے اور انہوں نے جو لطف اٹھایا ہو گا وہ تو انہی کا حق تھا۔ اب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اظہار ناپسندیدگی کو معلوم کر کے ہر ایک باریک بین نظر محو حیرت ہو جاتی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں … نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک رات میرے اور فاطمة الزہراؓ کے پاس تشریف لائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی تھیں اور فرمایا کہ کیا تم تہجد کی نماز نہیں پڑھا کرتے؟ میں نے جواب دیا کہ یا رسول اللہؐ! ہماری جانیں تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ جب وہ اٹھانا چاہے اٹھا دیتا ہے۔ آپؐ اس بات کو سن کر لوٹ گئے اور مجھے کچھ نہیں کہا۔ پھر میں نے آپؐ سے سنا اور آپؐ پیٹھ پھیر کر کھڑے ہوئے تھے اور آپؐ اپنی ران پر ہاتھ مار کر کہہ رہے ہیں کہ انسان تو اکثر باتوں میں بحث کرنے لگ پڑتا ہے۔
اللہ! اللہ !کس لطیف طرز سے حضرت علی ؓکو آپؐ نے سمجھایا کہ آپ کو یہ جواب نہیں دینا چاہئے تھا۔ کوئی اَور ہوتا تو اوّل تو بحث شروع کر دیتا کہ میری پوزیشن اور رتبہ کو دیکھو پھر اپنے جواب کو دیکھو کہ کیا تمہیں یہ حق پہنچتا تھا کہ اس طرح میری بات کو ردّ کر دو۔ یہ نہیں تو کم سے کم بحث شروع کر دیتا کہ یہ تمہارا دعویٰ غلط ہے کہ انسان مجبور ہے اور اس کے تمام افعال اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہیں۔ وہ جس طرح چاہے کرواتا ہے چاہے نماز کی توفیق دے چاہے نہ دے اور کہتا کہ جبر کا مسئلہ قرآن شریف کے خلاف ہے۔‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ سب کچھ کہہ سکتے تھے’’ لیکن آپؐ نے ان دونوں طریق میں سے کوئی بھی اختیار نہ کیا اور نہ تو ان پر ناراض ہوئے، نہ بحث کر کے حضرت علی ؓکو ان کے قول کی غلطی پر آگاہ کیا بلکہ ایک طرف ہو کر ان کے اس جواب پر اس طرح اظہار حیرت کر دیا کہ انسان بھی عجیب ہے کہ ہر بات میں کوئی نہ کوئی پہلو اپنے موافق نکال ہی لیتا ہے اور بحث شروع کر دیتا ہے۔ حقیقت میں آپؐ کا اتنا کہہ دینا ایسے ایسے منافع اندر رکھتا تھا کہ جس کا عشر عشیر بھی کسی اَور کی سو بحثوں سے نہیں پہنچ سکتا تھا۔ اس حدیث سے ہمیں بہت سی باتیں معلوم ہوتی ہیں۔‘‘ آگے تجزیہ کیا ہے آپؓ نے کہ کیا کیا باتیں معلوم ہوتی ہیں ’’جن سے آنحضرتؐ کے اخلاق کے مختلف پہلوؤں پر روشنی پڑتی ہے اور اسی جگہ ان کا ذکر کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اوّل تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ
آپؐ کو دینداری کا کس قدر خیال تھا کہ رات کے وقت پھر کر اپنے قریبیوں کا خیال رکھتے تھے۔
بہت لوگ ہوتے ہیں جو خود تو نیک ہوتے ہیں۔ لوگوں کو بھی نیکی کی تعلیم دیتے ہیں لیکن ان کے گھر کا حال خراب ہوتا ہے اور ان میں یہ مادہ نہیں ہوتا کہ اپنے گھر کے لوگوں کی بھی اصلاح کریں اور انہی لوگوں کی نسبت مثل مشہور ہے کہ چراغ تلے اندھیرا۔ یعنی جس طرح چراغ اپنے آس پاس تمام اشیاء کو روشن کر دیتا ہے لیکن خود اس کے نیچے اندھیرا ہوتا ہے اسی طرح یہ لوگ دوسروں کو تو نصیحت کرتے پھرتے ہیں مگر اپنے گھر کی فکر نہیں کرتے کہ ہماری روشنی سے ہمارے اپنے گھر کے لوگ کیا فائدہ اٹھا رہے ہیں مگر آنحضرتؐ کو اس بات کا خیال معلوم ہوتا ہے کہ ان کے عزیز بھی اس نور سے منور ہوں جس سے وہ دنیا کو روشن کرنا چاہتے تھے اور اس کا آپؐ تعہد بھی کرتے تھے اور ان کے امتحان و تجربہ میں لگے رہتے تھے اور تربیت اَعِزَّاء ایک ایسا اعلیٰ درجہ کا جوہر ہے جو اگر آپؐ میں نہ ہوتا تو آپؐ کے اخلاق میں ایک قیمتی چیز کی کمی رہ جاتی‘‘ لیکن آپؐ کیونکہ اعلیٰ اخلاق پر قائم تھے اس لیے یہ جوہر بھی آپؐ میں خوب تھا۔
’’دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ
آپؐ کو اس تعلیم پر کامل یقین تھا جو آپؐ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے اور ایک منٹ کے لئے بھی آپؐ اس پر شک نہیں کرتے تھے
اور جیساکہ لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ دنیا کو اُلّو بنانے کے لئے اور اپنی حکومت جمانے کے لئے آپؐ نے یہ سب کارخانہ بنایا تھا۔‘‘ مخالفین اسلام یہی اعتراض کرتے ہیں ’’ورنہ آپؐ کو کوئی وحی نہیں آتی تھی۔‘‘ کئی اوریئنٹلسٹ (orientalist)اس طرح ہی لکھتے رہتے ہیں اور اُس وقت کافر بھی یہی کہا کرتے تھے۔ ’’یہ بات نہ تھی بلکہ آپؐ کو اپنے رسول اور خدا کے مامور ہونے پر ایسا ثَلجِ قلب عطا تھا‘‘ اتنا پکا یقین تھا ’’کہ جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔ کیونکہ ممکن ہے کہ لوگوں میں آپؐ بناوٹ سے کام لے کر اپنی سچائی کو ثابت کرتے ہوں لیکن یہ خیال نہیں کیا جا سکتا کہ رات کے وقت ایک شخص خاص طور پر اپنی بیٹی اور داماد کے پاس جائے اور ان سے دریافت کرے کہ کیا وہ اس عبادت کو بھی بجا لاتے ہیں جو اس نے فرض نہیں کی بلکہ اس کا ادا کرنا مومنوں کے اپنے حالات پر چھوڑ دیا ہے اور جو آدھی رات کے وقت اٹھ کر ادا کی جاتی ہے۔ اس وقت
آپؐ کا جانا اور اپنی بیٹی اور داماد کو ترغیب دینا کہ وہ تہجد بھی ادا کیا کریں اس کامل یقین پر دلالت کرتا ہے جو آپؐ کو اس تعلیم پر تھا جس پر آپؐ لوگوں کو چلانا چاہتے تھے
ورنہ ایک مفتری انسان جو جانتا ہو کہ ایک تعلیم پر چلنانہ چلنا ایک سا ہے اپنی اولاد کو ایسے پوشیدہ وقت میں اس تعلیم پر عمل کرنے کی نصیحت نہیں کر سکتا۔‘‘ چلنا یا نہ چلنا ایک جیسا ہے۔ اپنی تعلیم پر چلنے کی اپنی اولاد کو نصیحت نہیں کر سکتا۔ ’’یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب ایک آدمی کے دل میں یقین ہو کہ اس تعلیم پر چلے بغیر کمالات حاصل نہیں ہو سکتے۔
تیسری بات وہی ہے جس کے ثابت کرنے کے لئے مَیں نے یہ واقعہ بیان کیا ہے کہ
آنحضرتؐ ہر ایک بات کے سمجھانے کے لئے تحمل سے کام لیا کرتے تھے اور بجائے لڑنے کے محبت اور پیار سے کسی کو اس کی غلطی پر آگاہ فرماتے تھے
چنانچہ اس موقع پر جب حضرت علیؓ نے آپؐ کے سوال کو اس طرح ردّ کرنا چاہا کہ جب ہم سو جائیں تو ہمارا کیا اختیار ہے کہ ہم جاگیں کیونکہ سویا ہوا انسان اپنے آپ پر قابو نہیں رکھتا۔ جب وہ سو گیا تو اب اسے کیا خبر ہے کہ فلاں وقت آ گیا ہے اب میں فلاں کام کر لوں۔ اللہ تعالیٰ آنکھ کھول دے تو نماز اد اکر لیتے ہیں ورنہ مجبوری ہوتی ہے (کیونکہ اس وقت الارم کی گھڑیاں نہ تھیں) اس بات کو سن کر آنحضرتؐ کو حیرت ہونی ہی تھی کیونکہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جو ایمان تھا وہ کبھی آپؐ کو ایسا غافل نہ ہونے دیتا تھا کہ تہجد کا وقت گزر جائے اور آپؐ کو خبر نہ ہو
اس لئے آپؐ نے دوسری طرف منہ کر کے صرف یہ کہہ دیا کہ انسان بات مانتا نہیں جھگڑتا ہے۔ یعنی تم کو آئندہ کے لئے کوشش کرنی چاہئے تھی کہ وقت ضائع نہ ہو نہ کہ اس طرح ٹالنا چاہئے تھا۔ چنانچہ
حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں میں نے پھر کبھی تہجد میں ناغہ نہیں کیا۔‘‘
(سیرۃ النبیؐ، انوارالعلوم جلد1صفحہ 588تا 590)
پس
یہ واقعہ ہمیں تہجد پڑھنے کی طرف توجہ دلانے کے لیے یاد رکھنا چاہیے۔ اور خاص طور پر مربیان اور واقفین زندگی اور عہدیداران کو اس طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ راتوں کی دعائیں ہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل کو زیادہ کھینچتی ہیں اور آج کل تو دنیا کو تباہی سے بچانے کے لیے ان کی خاص طور پر ضرورت ہے۔
پھر واقعات میں
غزوۂ بنو قَیْنُقَاع کا ذکر
آتا ہے جو دو ہجری میں ہوئی۔ اس کے بارے میں لکھا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ ہجرت کر جانے کے بعد عرب کے کفار کا معاملہ ایک جیسا نہ رہا۔ وہ تین قسموں میں بٹ چکے تھے۔ ایک وہ تھے جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پہ صلح کر لی تھی کہ وہ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کریں گے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف آپؐ کے دشمنوں کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ کرنے والے یہود کے تینوں قبائل بنو قُریظہ، بنونَضِیر اور بنو قَیْنُقَاع تھے۔ دوسرے وہ تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف جنگ کی اور وہ قریش تھے۔ تیسرے وہ لوگ تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے انجام کے منتظر تھے جیسے عرب کے دیگر قبائل۔ ان کی صورتحال بھی ایک جیسی نہیں تھی۔ ان میں کچھ ایسے تھے جو دل ہی دل میں یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہو جائے جیسے قبیلہ بنوخُزَاعہ تھا۔ بعض لوگوں کا معاملہ اس کے برعکس تھا جیسے بنو بَکْرکے لوگ تھے۔ کچھ ایسے بھی تھے جو ظاہر طور پر مسلمانوں کے ساتھ تھے لیکن اندر خانہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کا ساتھ دیتے تھے۔ یہ منافقین تھے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب یہود سے معاہدہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے مابین معاہدہ لکھا گیا۔ ہر قوم اپنے حلیف کے ساتھ مل گئی۔ اب آپؐ نے اپنے اور ان کے مابین امان نامہ لکھا۔ ان پر بہت سی شرائط عائد کیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ تھی کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کسی دشمن کی مدد نہیں کریں گے۔(سبل الھدیٰ و الرشاد جلد 4 صفحہ 179، دارالکتب العلمیۃ بیروت،1993ء)یہ تو معاہدہ تھا۔ اب
بنو قینقاع کی جو فتنہ انگیزی تھی اس کے بارے میں
تاریخ میں جو حوالے آتے ہیں اس میں ابن اسحاق کہتے ہیں کہ شَاسْ بِن قَیس نامی ایک بوڑھا شخص جس کا دل مسلمانوں کے بارے میں کینہ اور حسد سے بھرا ہوا تھا۔ ایک مرتبہ اوس اور خزرج سے تعلق رکھنے والے کچھ صحابہؓ ایک مجلس میں اکٹھے بیٹھے گفتگو کر رہے تھے کہ شَاسْ بن قیس کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے جب انہیں زمانہ جاہلیت کی دشمنی بھلا کر اسلام کی بدولت آپس میں ایک دوسرے سے محبت کرتے اور صلح صفائی کے ساتھ مل جل کر بیٹھتے دیکھا تو وہ جل کر رہ گیا۔ بَنُو قَیْلَہیعنی اوس اور خزرج کے سردار اس شہر میں متحد ہو چکے تھے۔ اس نے بے ساختہ بنو قیلہ، اوس اور خزرج کے ان سرداروں کو کہا جو متحد ہو گئے تھے کہ اللہ کی قسم! جب ان کے معزز لوگ متحد ہو گئے تو ہمارے لیے یہاں ان کے ساتھ رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں۔ بھڑکانے کی کوشش کی۔ اس کے ساتھ ایک یہودی نوجوان تھا۔ اس نے اسے یہ حکم دیا کہ تم ان کے پاس جاؤ اور ان کے ساتھ بیٹھ جاؤ۔ پھر ان کے سامنے جنگ بُعَاث اور اس سے پہلے کے واقعات کا ذکر چھیڑو اور اس کے متعلق انہوں نے آپس میں جو اشعار کہے تھے ان میں سے بھی کچھ شعر سناؤ۔ جنگ بُعَاث زمانہ جاہلیت میں اوس اور خزرج کے درمیان برپا ہوئی تھی جس میں اوس کو خزرج پر کامیابی حاصل ہوئی تھی۔ اس وقت اوس کا سردار حُضَیْر بن سِمَاکْ اَشْہَلِی تھا۔ یہ حضرت اُسَیدؓ کا والد تھا۔ خزرج کا سردار عَمْرو بنِ نُعْمَان بَیَاضِیتھا۔ یہ دونوں اس جنگ میں مارے گئے تھے۔ اس جوان یہودی نے مسلمانوں میں بیٹھ کر وہی ذکر چھیڑا اور آگ بھڑکائی۔ اوس اور خزرج کے سوئے ہوئے پرانے جذبات پھر بھڑک اٹھے اور وہ مشتعل ہو گئے۔ ان کے درمیان تُو تُو مَیں مَیں شروع ہو گئی۔ وہ آپس میں جھگڑنے اور ایک دوسرے پر فخر جتانے لگے۔ بات اس قدر بڑھ گئی کہ دونوں قبیلوں میں سے ایک ایک آدمی آمنے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے اور آپس میں تکرار کرنے لگے۔ مقابلہ بڑھ گیا۔ اوس کی طرف سے أوس بن قَیْظِیتھے اور خزرج کی طرف سے جَبَّار بن صَخْر۔ بحث کے دوران ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہہ دیا کہ اگر تم چاہو تو ہم اس جنگ کو اب دوبارہ چھیڑ کر تازہ کر دیں۔ چنانچہ دونوں فریق غصہ میں آگئے اور بولے ہم تیار ہیں۔ اب ایک طرف مسلمان ہوچکے ہیں۔ دوسری طرف یہ جہالت بھی ساتھ چل رہی ہے۔ اور پھر یہ کہنے لگے کہ تمہارے وعدے کی جگہ حَرَّہ ہے۔ مدینہ دو حرّوں کے درمیان ایک حرّہ ہے۔ حَرَّہ سیاہ پتھریلی زمین کو کہتے ہیں اور مشرق کی جانب حرّۂ واقم ہے اور اس کو حرّۂ بنو قریظہ بھی کہتے ہیں۔ دوسرا حَرَّۃُ الوَبُرَہہےجو مغرب کی جانب ہے۔ ایک مشرق کی جانب ایک مغرب کی جانب۔ دونوں (یعنی حرّۃ الوَبُرَہاور مدینہ) کے درمیان میں تین میل کا فاصلہ ہے۔ ساتھ ہی یہ شور برپا ہو گیا۔ ہتھیار! ہتھیار! اس کے بعد ماحول انتہائی گرم ہو گیا اور دونوں طرف سے زور و شور سے جنگ کی تیاریاں ہونے لگیں۔ دونوں قبیلوں کے لوگ وقت مقررہ پر حرہ کی طرف نکل پڑے۔ قریب تھا کہ ایک خونریز جنگ شروع ہو جاتی لیکن اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس ساری صورتحال کی اطلاع پہنچ گئی۔ خبر سنتے ہی آپؐ فوراً مہاجر صحابہؓ کو ساتھ لے کر اوس اور خزرج کے لوگوں کے پاس تشریف لے گئے۔ آپؐ نے نہایت حکیمانہ انداز میں ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
اللہ! اللہ! میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کی پکار؟ وہ بھی اس کے بعد کہ اللہ نے تمہیں اسلام کی ہدایت نصیب فرمائی ہے۔ اس کے ذریعہ سے تمہیں عزت بخشی ہے۔ تم سے جاہلیت کے اثرات کا خاتمہ فرما دیا ہے۔ تمہیں کفر سے نجات دلائی ہے اور تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی ہے۔
ان چیزوں کے باوجود اب تم یہ جہالت کر رہے ہو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس گفتگو کا ان پر ایسا زبردست اثر ہوا کہ انہوں نے اپنے فعل پر سخت ندامت کا اظہار کیا اور رونا شروع کر دیا۔ اوس اور خزرج کے لوگ جو ایک دوسرے سے لڑنے جھگڑنے کے لیے اکٹھے ہوئے تھے ایک دوسرے سے گلے ملے۔ پھر سمع و طاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس آ گئے۔ یہ سیرت ابن ہشام کی تفصیل ہے۔
( سیرت ابن ہشام صفحہ 385-386دارالکتب العلمیۃ بیروت2001ء)
(فرہنگ سیرت صفحہ 101-102 زوار اکیڈمی کراچی)
یہود کی طرف سے معاہدہ کی خلاف ورزی
کے بارے میں لکھا ہے کہ جب غزوۂ بدر میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو شاندار فتح عطا فرمائی تو ان لوگوں کی سرکشی کھل کر سامنے آ گئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے ان کا حسد ظاہر ہو گیا۔ اپنی اس جلن اور بغض کی وجہ سے انہوں نے اپنے معاہدے کو ختم کر دیا۔ انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اے محمد! آپ خیال کرتے ہیں کہ ہم آپ کی قوم جیسے ہیں۔ آپ خود فریبی میں مبتلا نہ ہوں کہ آپ نے ایک ایسی قوم سے مقابلہ کیا جو جنگ سے اناڑی اور ناواقف ہے اور آپ کو ان پر غلبہ کا موقع مل گیا یعنی جنگِ بدر کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ مکہ کے کافروں کو تو آپؐ نے شکست دے دی ہم ایسے نہیں ہیں۔ ہم بہت بہادر ہیں۔ اللہ کی قسم! اگر ہم نے آپؐ سے جنگ کی تو آپؐ کو پتہ چل جائے گا کہ مرد تو ہم ہیں اور
یہود کے تینوں قبائل میں سے جنہوں نے سب سے پہلے معاہدے کی خلاف ورزی اور غداری کی وہ بنو قینقاع کے یہودی تھے۔
ان کی مسلمانوں کے ساتھ جو چھیڑ چھاڑ تھی اس شرارت کے بارے میں یہ ایک واقعہ بھی لکھا ہے کہ
جو ایک مسلمان عورت کا
ہے۔ لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی عداوت کے اظہار کے ساتھ ساتھ یہ واقعہ بھی ہوا کہ ایک انصاری کی بیوی اپنا تجارتی سامان لے کر بنو قینقاع کے بازار میں آئی جس میں اونٹ اور بکریاں وغیرہ تھیں تا کہ یہ مال فروخت کر کے نفع حاصل کرے۔ یہ مال اس نے بنو قینقاع کے بازار میں فروخت کیا اور اس کے بعد وہیں ایک یہودی سنار کے پاس بیٹھ گئی کوئی زیور وغیرہ لینے کے لیے۔ اس نے اپنے بدن اور چہرے کو چھپایا ہوا تھا۔ کچھ اوباش یہودیوں نے اس سے چہرہ ظاہر کرنے پر اصرار کیا جس پر اس نے انکار کر دیا۔ اس پر دکاندار سنار نے اٹھ کر اس کے نقاب کا ایک کونہ چپکے سے اس کی پشت کی طرف کسی چیز سے باندھ دیا یا ایک روایت میں یوں بھی ہے کہ اس نے خاموشی سے اس کی چادر کا ایک سرا ایک کانٹے یا کیل میں الجھا دیا۔ عورت کو اس بات کا پتہ نہ چل سکا۔ جب وہ عورت جانے کے لیے کھڑی ہوئی تو کپڑا الجھا ہوا ہونے کی وجہ سے کھل گیا اور اس کا ننگ ظاہر ہو گیا۔ اس پر یہودیوں نے قہقہے لگائے۔ عورت نے ان کی اس بیہودگی پر چیخنا شروع کر دیا۔ قریب ہی ایک مسلمان گزر رہا تھا اس نے جیسے ہی یہودیوں کی یہ شرارت دیکھی وہ یہودی سنار کی طرف جھپٹا اور تلوار سے اس کو قتل کر دیا۔ یہ دیکھ کر یہودیوں نے اس مسلمان پر حملہ کیا اور اسے قتل کر ڈالا۔ اس واقعہ کے بعد مسلمانوں میں بنو قینقاع کے یہودیوں کے خلاف سخت غم و غصہ پیدا ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلوں کو فرمایا کہ اس قسم کی حرکتوں کے لیے ہمارا اور ان کا معاہدہ نہیں ہوا تھا۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اللہ اور اس کے رسولؐ اور مسلمانوں کا ساتھی ہوں اور ان کافروں کے معاہدے سے بری ہوتا ہوں۔(السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ284 مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،2002ء)(سیرت ابن ہشام صفحہ 514دارالکتب العلمیۃ2001ء)بہرحال
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قینقاع کو سمجھانے کی کوشش کی لیکن انہوں نے بجائے سمجھنے کے کھلی دھمکی دینی شروع کر دی۔
اس کی تفصیل یوں لکھی ہے کہ بنو قینقاع کو جمع کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے گروہ یہود! اللہ سے ایسی تباہی نازل ہونے سے بچنے کی کوشش کرو جیسی بدر کے موقع پر قریش کے اوپر نازل ہوئی ہے۔ اس لیے مطیع و فرمانبردار بن جاؤ کیونکہ تم جانتے ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس حقیقت کو تم اپنی کتاب میں درج پاتے ہو اور اس عہد کو بھی جو اللہ نے تم سے لیا تھا۔ انہوں نے کہا اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بھی آپ کی قوم والوں کی طرح ہیں۔ اس دھوکہ میں نہ رہیے کیونکہ اب تک آپ کو ایسی ہی قوم سے واسطہ پڑا ہے جو جنگ اور اس کے طریق نہیں جانتے۔ لہٰذا آپ نے انہیں آسانی سے زیر کرلیا لیکن خدا کی قسم! اگر آپ نے ہم سے جنگ کی تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ کیسے بہادروں سے پالا پڑا ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب غزوۂ بدر کے موقع پر یہود کی بدعہدی کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کو بنو قینقاع کے بازار میں جمع کر کے یہ تنبیہ فرمائی تھی۔
بہرحال یہ تنبیہ کی تھی۔ اس پر ان کا یہ جواب تھا۔ اس کے بعد بنو قینقاع کے یہود وہاں سے جا کر قلعہ بند ہو گئے۔ یہ ساری باتیں ہوئیں تو وہ چلے گئے اور اپنے قلعہ میں چلے گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف روانہ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابُولَبَابہؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام بنایا۔ آپؐ کا جھنڈا سفید رنگ کا تھا اور اسے آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ اٹھائے ہوئے تھے۔ بنو قینقاع کا محاصرہ کیا گیا۔ اس کی تفصیل میں لکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پندرہ دن تک بنو قینقاع کے یہودیوں کا سخت محاصرہ کیے رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس غزوہ کے لیے شوال کی پندرہ تاریخ کوروانہ ہوئے اور ذوالقعدہ کے چاند تک وہیں رہے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد 2صفحہ 285،دارالکتب العلمیۃ بیروت،2002ء)
(سبل الھدیٰ والرشاد جلد 4 صفحہ 179، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1993ء)
اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں مسلمانوں کا رعب پیدا فرما دیا۔ بنو قینقاع کے ان یہودیوں میں چار سو جنگجو تھے جو قلعہ کی حفاظت پہ مامور تھے اور تین سو زرہ پوش تھے۔ آخر محاصرے سے تنگ آکر یہود نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہمارا راستہ چھوڑ دیں تو ہم مدینہ سے جلا وطن ہو کر ہمیشہ کے لیے چلے جائیں گے اور صرف ہماری عورتوں اور بچوں کو ہمارے لیے چھوڑ دیں جنہیں ہم اپنے ساتھ لے جائیں اور باقی مال و دولت آپ رکھ لیں اور مال میں ہتھیار وغیرہ بھی شامل ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کی یہ بات قبول فرما لی اور انہیں مدینہ سے نکل جانے کا حکم دیا۔ سیرت الحلبیہ میں اس طرح درج ہے۔
(ماخوذ از السیرۃ الحلبیہ جلد 2 صفحہ 285و287 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)
لیکن سیرت کی اکثر کتب میں یہ بھی لکھا ہے۔ عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول کے حوالے سے یہ روایت ہے کہ اس موقع پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بار بار حاضر ہوا۔ وہ کیونکہ بنو قینقاع کا حلیف تھا اس لیے اس نے بار بار سفارش اور التجا کی اور مختلف طریقوں سے اس امر کا اظہار کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بنو قینقاع کو معاف کر دیں۔ ان کو قتل نہ کریں اور انہیں جانے دیں اور انہیں بخش دیں۔
(سبل الھدی والرشاد جلد4 صفحہ179-180 دارالکتب العلمیۃ بیروت1993ء)
(سیرت ابن ہشام صفحہ 514 دارالکتب العلمیۃ 2001ء)
(شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 351 دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)
اس روایت سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کا ارادہ فرمایا تھا اور یہ کہ عبداللہ بن اُبَی کی مسلسل سفارش سے ان کومعاف کیا گیا تھا لیکن یہ درست نہیں ہے۔
کبھی آپؐ نے ان کی عورتوں، بچوں یا ان لوگوں کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ درحقیقت اس طرح کی جو روایات ہیں وہ مشکوک ہیں۔ چنانچہ ایسی روایات پر محاکمہ کرتے ہوئے ایک مؤرخ سید برکات احمد ہیں۔ ان کی کتاب میں لکھا ہے کہ یہود کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد جب عبداللہ بن اُبَیحضورؐ کی خدمت میں آیا اور بولا میرے آدمیوں کے لیے نرمی کا برتاؤ کیجئے گا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تیرا ستیاناس ہو مجھے چھوڑ دے۔ ابن اُبَینے جواب دیا ہرگز نہیں۔ واللہ! میں آپؐ کو جانے نہیں دوں گا جب تک آپؐ میرے آدمیوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ نہیں کریں گے۔ کیا آپؐ ان کو تہ تیغ کر دیں گے۔ خدا کی قسم! مجھے پورا یقین ہے کہ حالات تبدیل ہو کر رہیں گے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھی بات ہے۔ تو تم ہی انہیں لے جاؤ۔ ابن اسحاق، واقدی اور ابنِ سعد تینوں اس قصہ کو بیان کرتے ہیں۔ ان تینوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر عبداللہ بن اُبَیکا کچھ اثر تھا لیکن خود عبداللہ بن اُبَیکے سفارشی الفاظ مشتبہ معلوم ہوتے ہیں۔ ابن اسحاق کے بیان میں اس کا قطعاً اظہار نہیں ہوتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی بات فرمائی ہو جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکے کہ آپؐ بنو قینقاع کو تہ تیغ کر دینے کا ارادہ کر چکے تھے۔ ایک مؤرخ سے تو یہ ثابت نہیں ہوتا۔ واقدی کے ہاں اس ارادہ کی طرف اشارہ ضرور ملتا ہے اور اسی بات کو ابن سعد نے بھی دہرایا ہے لیکن اس موقع پر ہمیں یہ بات ذہن میں ضرور رکھنی چاہیے کہ
اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سیاسی راہنما بھی تھے لیکن دشمنوں کے ساتھ بے جا سختی کا معاملہ کبھی نہیں کرتے تھے۔ آپؐ تشدد کو ناپسند کرتے تھے اور میدان جنگ میں بھی اگر جاتے تو بوجہ مجبوری جاتے تھے اور وہاں بھی خواہ مخواہ خونریزی سے پرہیز کرتے تھے۔
(ماخوذ از رسول اکرمﷺ اور یہود حجاز از سید برکات احمد صفحہ 98-99، مکتبہ عالیہ لاہور )
بہرحال محاصرہ تو ہوا تھا اور انہوں نے پناہ بھی مانگی تھی۔ اس لیے
بنو قینقاع کی جلا وطنی
بھی ہوئی۔ اس کی تفصیل یوں ہے۔ اس یہودی قبیلہ کی درخواست کے مطابق ان کو جلا وطن کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یہود کو مدینہ سے جلا وطن کرنے کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عُبَادَہ بن صامتؓ کے سپرد فرمائی اور مدینہ سے تین دن میں نکل جانے کی مہلت دی۔ چنانچہ وہ تین دن میں مدینہ سے چلے گئے، نکل گئے۔ ایک قول یہ ہے کہ یہود نے عبادہؓ سے مزید مہلت طلب کی لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے ایک گھنٹے کی مزید مہلت نہیں دی اور اپنی نگرانی میں جلا وطن کیا۔ یہ لوگ یہاں سے نکل کر اَذْرِعَاتْ کے علاقے میںچلے گئےجو شام کی طرف ایک شہر ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ جلا وطن کرنے پر حضرت محمد بن مَسْلَمہؓکو مامور فرمایا تھا۔ عین ممکن ہے کہ دونوں کو یہ ذمہ داری سپرد کی ہو۔
بہرحال جب وہ لوگ چلے گئے تو یہود کے گھروں سے کافی ہتھیار ملے کیونکہ یہ دوسرے یہودیوں میں سے سب سے زیادہ مالدار اور سب سے زیادہ بہادر اور جنگجو لوگ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہتھیاروں میں سے اپنے لیے تین کمانیں، دو زرہیں ،تین تلواریں اور تین نیزے منتخب فرمائے۔ کمانوں کے نام کَتُوم، رَوْحَاء اور بَیْضَاءہے۔ کَتُوم غزوۂ احد میں ٹوٹ گئی تھی۔ دو زرہیں جن کےنام صَغْدِیَہاور فِضَّہ ہیں۔ اسی طرح تین نیزے اور تین تلواریں منتخب فرمائیں۔ ایک تلوار کو قَلَعِی دوسرے کو بَتَّار کہا جاتا تھا۔ تیسری کا کوئی نام نہیں تھا۔ سیرت الحلبیہ کی یہ روایت ہے۔
(السیرۃ الحلبیہ جلد دوم صفحہ 287 مکتبہ دارالکتب العلمیۃ بیروت،2002ء)
(معجم البلدان جلد 1 صفحہ 165، المکتبۃ العصریۃ)
بنو قینقاع کے غزوے کا ذکر سیرت خاتم النبیینؐ میں یوں ہے: ’’جس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لائے تھے اس وقت مدینہ میں یہود کے تین قبائل آباد تھے۔ ان کے نام بنوقینقاع، بنونضیر اور بنوقریظہ تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں آتے ہی ان قبائل کے ساتھ امن وامان کے معاہدے کر لئے اورآپس میں صلح اورامن کے ساتھ رہنے کی بنیاد ڈالی۔ معاہدہ کی رو سے فریقین اس بات کے ذمہ دار تھے کہ مدینہ میں امن وامان قائم رکھیں اوراگر کوئی بیرونی دشمن مدینہ پر حملہ آور ہوتو سب مل کر اس کا مقابلہ کریں۔ شروع شروع میں تو یہود اس معاہدہ کے پابند رہے اورکم ازکم ظاہری طورپرانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کوئی جھگڑا پیدا نہیں کیا لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ مسلمان مدینہ میں زیادہ اقتدار حاصل کرتے جاتے ہیں توان کے تیور بدلنے شروع ہو گئے اور انہوں نے مسلمانوں کی اس بڑھتی ہوئی طاقت کوروکنے کا تہیہ کر لیا اوراس غرض کے لئے انہوں نے ہرقسم کی جائز وناجائز تدابیر اختیار کرنا شروع کیں۔ حتی ٰکہ انہوںنے اس بات کی کوشش سے بھی دریغ نہیں کیا کہ مسلمانوں کے اندر پھوٹ پیدا کر کے خانہ جنگی شروع کرا دیں۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ ایک موقعہ پر قبیلہ اوس اورخزرج کے بہت سے لوگ اکٹھے بیٹھے ہوئے باہم محبت واتفاق سے باتیں کررہے تھے کہ بعض فتنہ پرداز یہود نے اس مجلس میں پہنچ کر جنگِ بُعاث کا تذکرہ شروع کر دیا۔ یہ وہ خطرناک جنگ تھی جوان دوقبائل کے درمیان ہجرت سے چند سال قبل ہوئی تھی اورجس میں اوس اور خزرج کے بہت سے لوگ ایک دوسرے کے ہاتھ سے مارے گئے تھے۔‘‘ جیسے پہلے بھی تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے۔ ’’اس جنگ کا ذکر آتے ہی بعض جوشیلے لوگوں کے دلوں میں پرانی یاد تازہ ہو گئی اور گزشتہ عداوت کے منظر آنکھوں کے سامنے پھر گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ باہم نوک جھونک اورطعن وتشنیع سے گزر کر نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ اسی مجلس میں مسلمانوں کے اندر تلوار کھچ گئی مگر خیر گزری کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوبروقت اس کی اطلاع مل گئی اور آپؐ مہاجرین کی ایک جماعت کے ساتھ فوراً موقعہ پر تشریف لے آئے اورفریقین کو سمجھا بجھا کر ٹھنڈا کیا اور پھر ملامت بھی فرمائی کہ تم میرے ہوتے ہوئے جاہلیت کاطریق اختیار کرتے ہو اورخدا کی اس نعمت کی قدر نہیں کرتے کہ اس نے اسلام کے ذریعہ تمہیں بھائی بھائی بنا دیا ہے۔ انصار پر آپؐ کی نصیحت کاایسا اثر ہوا کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اوروہ اپنی اس حرکت سے تائب ہوکر ایک دوسرے سے بغلگیر ہو گئے۔
جب جنگِ بدر ہو چکی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مسلمانوں کو باوجود ان کی قلت اور بےسروسامانی کے قریش کے ایک بڑے جرّار لشکر پر نمایاں فتح دی اور مکہ کے بڑے بڑے عمائد خاک میں مل گئے تومدینہ کے یہودیوں کی آتشِ حسد بھڑک اٹھی اورانہوں نے مسلمانوں کے ساتھ کھلم کھلا نوک جھونک شروع کر دی اور مجلسوں میں برملا طور پر کہنا شروع کیا کہ قریش کے لشکر کو شکست دینا کون سی بڑی بات تھی ہمارے ساتھ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کامقابلہ ہو تو ہم بتادیں کہ کس طرح لڑا کرتے ہیں۔ حتی ٰکہ ایک مجلس میں انہوں نے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر اسی قسم کے الفاظ کہے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ جنگِ بدر کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو آپؐ نے ایک دن یہودیوں کو جمع کرکے ان کو نصیحت فرمائی اور اپنا دعویٰ پیش کرکے اسلام کی طرف دعوت دی۔ آپؐ کی اس پُرامن اورہمدردانہ تقریر کا رؤسائے یہود نے ان الفاظ میں جواب دیا کہ ’’اے محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) تم شاید چند قریش کوقتل کرکے مغرور ہوگئے ہو۔ وہ لوگ لڑائی کے فن سے ناواقف تھے۔ اگر ہمارے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو تمہیں پتہ لگ جاوے کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔‘‘ یہود نے صرف عام دھمکی پرہی اکتفاء نہیں کی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے بھی منصوبے شروع کر دیئے تھے کیونکہ روایت آتی ہے کہ جب ان دنوں میں طَلْحَہ بن بَرَاء جوایک مخلص صحابی تھے فوت ہونے لگے توانہوں نے وصیت کی کہ اگر میں رات کو مروں تونماز جنازہ کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کواطلاع نہ دی جاوے تا ایسا نہ ہو کہ میری وجہ سے آپؐ پر یہود کی طرف سے کوئی حادثہ گزر جاوے۔ الغرض جنگِ بدر کے بعد یہود نے کھلم کھلا شرارت شروع کر دی اورچونکہ مدینہ کے یہود میں بنوقینقاع سب میں زیادہ طاقتور اوربہادر تھے اس لئے سب سے پہلے انہی کی طرف سے عہدشکنی شروع ہوئی۔ چنانچہ مورخین لکھتے ہیں کہ …
مدینہ کے یہودیوں میں سے سب سے پہلے بنو قینقاع نے اس معاہدہ کو توڑا جواُن کے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ہوا تھا اور بدر کے بعد انہوں نے بہت سرکشی شروع کردی اور برملا طور پر بغض وحسد کا اظہار کیا اور عہدوپیمان کو توڑ دیا۔
مگرباوجود اس قسم کی باتوں کے مسلمانوں نے اپنے آقا کی ہدایت کے ماتحت ہر طرح سے صبر سے کام لیا اور اپنی طرف سے کوئی پیش دستی نہیں ہونے دی مگر حدیث میں آتا ہے کہ
اس معاہدہ کے بعد جویہود کے ساتھ ہوا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاص طورپر یہود کی دلداری کا خیال رکھتے تھے۔‘‘
ان کی طرف سے دشمنی کا روّیہ تھا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دلداری کا روّیہ۔ ’’چنانچہ ایک دفعہ ایک مسلمان اورایک یہودی میں کچھ اختلاف ہو گیا۔ یہودی نے حضرت موسیٰؑ کی تمام انبیاء پر فضیلت بیان کی۔ صحابی کواس پر غصہ آیااوراس نے یہودی کے ساتھ کچھ سختی کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو افضل الرسل بیان کیا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو آپؐ ناراض ہوئے اور اس صحابی کو ملامت فرمائی اورکہا کہ ’’تمہارا یہ کام نہیں کہ تم خدا کے رسولوں کی ایک دوسرے پر فضیلت بیان کرتے پھرو۔‘‘ اورپھر آپؐ نے موسیٰؑ کی ایک جزوی فضیلت بیان کر کے اس یہودی کی دلداری فرمائی مگرباوجود اس دلدارانہ سلوک کے یہودی اپنی شرارت میں ترقی کرتے گئے اوربالآخر خود یہود کی طرف سے ہی جنگ کاباعث پیدا ہوا اوران کی قلبی عداوت ان کے سینوں میں سما نہ سکی اوریہ اس طرح پرہوا کہ ایک مسلمان خاتون بازار میں ایک یہودی کی دکان پرکچھ سوداخریدنے کے لئے گئی۔‘‘ جیساکہ تفصیل سے ذکر ہو چکا ہے۔ ’’بعض شریریہودیوں نے جو اس وقت اس دکان پر بیٹھے ہوئے تھے اسے نہایت اوباشانہ طریق پر چھیڑا اورخود دکاندار نے یہ شرارت کی کہ اس عورت کے تہ بندکے نچلے کونے کو اس کی بے خبری کی حالت میں کسی کانٹے وغیرہ سے اس کی پیٹھ کے کپڑے سے ٹانک دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جب وہ عورت ان کے اوباشانہ طریق کو دیکھ کر وہاں سے اٹھ کرلَوٹنے لگی تو وہ ننگی ہوگئی۔ اس پر اس یہودی دکاندار اوراس کے ساتھیوں نے زور سے ایک قہقہہ لگایا اورہنسنے لگ گئے۔ مسلمان خاتون نے شرم کے مارے ایک چیخ ماری اورمدد چاہی۔ اتفاق سے ایک مسلمان اس وقت قریب موجود تھا۔ وہ لپک کر موقعہ پر پہنچا اورباہم لڑائی میں یہودی دکاندار مارا گیا۔ جس پر چاروں طرف سے اس مسلمان پر تلواریں برس پڑیں اوروہ غیور مسلمان وہیں پر ڈھیر ہو گیا۔ مسلمانوں کو اس واقعہ کا علم ہوا تو غیرت قومی سے ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور دوسری طرف یہود جو اس واقعہ کو لڑائی کا بہانہ بنانا چاہتے تھے ہجوم کرکے اکٹھے ہو گئے اورایک بلوہ کی صورت پیدا ہو گئی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع ہوئی تو آپؐ نے رؤسائے بنوقینقاع کوجمع کر کے کہا کہ یہ طریق اچھا نہیں۔‘‘ اب آپؐ کا طریقہ دیکھ لیں۔ کس طرح آپؐ نے کوشش کی کہ کسی طرح یہ معاملہ ٹھنڈا ہو۔ ’’تم ان شرارتوں سے بازآجاؤ اورخدا سے ڈرو۔ انہوں نے بجائے اس کے کہ اظہار افسوس وندامت کرتے اورمعافی کے طالب بنتے سامنے سے نہایت متمردانہ جواب دئیے۔‘‘ یعنی بڑی سرکشی اور نافرمانی والا جواب دیا ’’اور پھر وہی دھمکی دہرائی کہ بدر کی فتح پر غرور نہ کرو۔ جب ہم سے مقابلہ ہوگا تو پتہ لگ جائے گا کہ لڑنے والے ایسے ہوتے ہیں۔ ناچار آپؐ صحابہؓ کی ایک جمعیت کو ساتھ لے کر بنو قینقاع کے قلعوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ اب یہ آخری موقعہ تھا کہ وہ اپنے افعال پرپشیمان ہوتے۔‘‘ جب آپؐ روانہ ہوئے تب بھی معافی مانگ لیتے تو معاملہ ختم ہو جاتا۔ ’’مگر وہ سامنے سے جنگ پرآمادہ تھے۔ الغرض جنگ کا اعلان ہوگیا اوراسلام اوریہودیت کی طاقتیں ایک دوسرے کے مقابل پرنکل آئیں۔ اس زمانہ کے دستور کے مطابق جنگ کا ایک طریق یہ بھی ہوتا تھا کہ اپنے قلعوں میں محفوظ ہوکر بیٹھ جاتے تھے اورفریق مخالف قلعوں کامحاصرہ کرلیتا تھا اور موقعہ موقعہ پرگاہے گاہے ایک دوسرے کے خلاف حملے ہوتے رہتے تھے۔ حتی ٰکہ یاتو محاصرہ کرنے والی فوج قلعہ پر قبضہ کرنے سے مایوس ہو کر محاصرہ اٹھا لیتی تھی اوریہ محصورین کی فتح سمجھی جاتی تھی اوریا محصورین مقابلہ کی تاب نہ لا کر قلعہ کادروازہ کھول کراپنے آپ کو فاتحین کے سپرد کر دیتے تھے۔ اس موقعہ پر بھی بنوقینقاع نے یہی طریق اختیار کیا اور اپنے قلعوں میں بند ہو کر بیٹھ گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا محاصرہ کیااورپندرہ دن تک برابر محاصرہ جاری رہا۔ بالآخر جب بنوقینقاع کاسارا زور اور غرور ٹوٹ گیا توانہوں نے اس شرط پر اپنے قلعوں کے دروازے کھول دیئے کہ ان کے اموال مسلمانوں کے ہو جائیں گے مگر ان کی جانوں اوران کے اہل وعیال پرمسلمانوں کاکوئی حق نہیں ہو گا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط کو منظور فرمالیا کیونکہ گوموسوی شریعت کی رو سے یہ سب لوگ واجب القتل تھے اورمعاہدہ کی رو سے ان لوگوں پر موسوی شریعت کا فیصلہ ہی جاری ہونا چاہئے تھا مگر اس قوم کایہ پہلا جرم تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحیم وکریم طبیعت انتہائی سزا کی طرف جوایک آخری علاج ہوتا ہے ابتدائی قدم پر مائل نہیں ہوسکتی تھی لیکن دوسری طرف ایسے بدعہد اور معاند قبیلہ کامدینہ میں رہنا بھی ایک مارآستین کے پالنے سے کم نہ تھا۔ خصوصاً جب اوس اورخزرج کاایک منافق گروہ پہلے سے مدینہ میں موجود تھا اوربیرونی جانب سے بھی تمام عرب کی مخالفت نے مسلمانوں کاناک میں دم کررکھا تھا۔ ایسے حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فیصلہ ہوسکتا تھا کہ بنوقینقاع مدینہ سے چلے جائیں۔ یہ سزا ان کے جرم کے مقابل میں اورنیزاس زمانہ کے حالات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک بہت نرم سزا تھی اور دراصل اس میں صرف خود حفاظتی کاپہلو ہی مدنظر تھا۔ ورنہ عرب کی خانہ بدوش اقوام کے نزدیک نقل مکان کوئی بڑی بات نہ تھی۔ خصوصاً جبکہ کسی قبیلہ کی جائیدادیں زمینوں اور باغات کی صورت میں نہ ہوں جیسا کہ بنو قینقاع کی نہیں تھیں۔‘‘کوئی ان کی جائیدادیں ایسی نہیں تھیں جو غیرمنقولہ ہوں۔ زمینیں یا اس قسم کی جائیدادیں جن پر ان کا انحصار ہو۔ ’’اورپھر سارے کے سارے قبیلہ کو بڑے امن وامان کے ساتھ ایک جگہ چھوڑ کر دوسری جگہ جاکر آباد ہونے کا موقعہ مل جاوے۔ چنانچہ بنو قینقاع بڑے اطمینان کے ساتھ مدینہ چھوڑ کرشام کی طرف چلے گئے۔ ان کی روانگی کے متعلق ضروری اہتمام اورنگرانی وغیرہ کا کام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابی عبادہ بن صامتؓ کے سپرد فرمایا تھا جو ان کے حلفاء میں سے تھے۔‘‘ یہ ان کے یعنی بنو قینقاع کے حلیف تھے۔ ’’چنانچہ عبادہ بن صامتؓ چند منزل تک بنوقینقاع کے ساتھ گئے اورپھرانہیں حفاظت کے ساتھ آگے روانہ کرکے واپس لوٹ آئے۔ مالِ غنیمت جومسلمانوں کے ہاتھ آیا وہ صرف آلاتِ حرب اورآلاتِ پیشہ زرگری پر مشتمل تھا۔
بنوقینقاع کے متعلق بعض روایتوں میں ذکر آتا ہے کہ جب ان لوگوں نے اپنے قلعوں کے دروازے کھول کر اپنے آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کردیا توان کی بدعہدی اور بغاوت اورشرارتوں کی وجہ سے آپؐ کا ارادہ ان کے جنگجو مردوں کو قتل کروا دینے کا تھا مگر عبداللہ بن اُبَی بن سَلُول رئیس منافقین کی سفارش پر آپؐ نے یہ ارادہ ترک کر دیا لیکن محققین نے ان روایات کو صحیح تسلیم نہیں کیا کیونکہ جب دوسری روایات میں یہ صریحاً مذکور ہے کہ بنو قینقاع نے اس شرط پر دروازے کھولے تھے کہ ان کی اوران کے اہل وعیال کی جان بخشی کی جائے گی تویہ ہرگز نہیں ہوسکتا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کرلینے کے بعد دوسرا طریق اختیار فرماتے‘‘ اور اس شرط کو توڑ دیتے۔ ’’البتہ بنوقینقاع کی طرف سے جان بخشی کی شرط کاپیش ہونا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ خود ہی سمجھتے تھے کہ ان کی اصل سزاقتل ہی ہے مگر وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے رحم کے طالب تھے اور یہ وعدہ لینے کے بعد اپنے قلعے کا دروزاہ کھولنا چاہتے تھے کہ ان کو قتل کی سزا نہیں دی جاوے گی لیکن گو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رحیم النفسی سے انہیں معاف کردیا تھا مگر معلوم ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ کی نظر میں یہ لوگ اپنی بداعمالی اورجرائم کی وجہ سے اب دنیا کے پردے پر زندہ چھوڑے جانے کے قابل نہیں تھے۔ چنانچہ روایت آتی ہے کہ جس جگہ یہ لوگ جلاوطن ہوکر گئے تھے وہاں انہیں ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہ گزرا تھاکہ ان میں کوئی ایسی بیماری وغیرہ پڑی کہ سارے کا سارا قبیلہ اس کا شکار ہوکر پیوند خاک ہو گیا۔
غزوۂ بنوقینقاع کی تاریخ کے متعلق
کسی قدر اختلاف ہے۔ واقدی اورابن سعد نے شوال دو ہجری بیان کی ہے اور متاخرین نے‘‘ بعد میں آنے والے مؤرخین نے ’’ زیادہ تر اِسی کی اتباع کی ہے۔ لیکن ابن اسحاق اورابن ہشام نے اسے غزوہ سَوِیق کے بعدرکھا ہے جو مسلمہ طورپر ماہ ذی الحجہ دو ہجری کے شروع میں ہوا تھا اورحدیث کی ایک روایت میں یہ بھی اشارہ ملتاہے کہ غزوۂ بنوقینقاع حضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے بعد ہوا تھا کیونکہ اس روایت میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت علیؓ نے اپنے ولیمہ کی دعوت کاخرچ مہیا کرنے کے لئے یہ تجویز کی تھی کہ بنوقینقاع کے ایک یہودی زرگر کو ساتھ لے کر جنگل میں جائیں اوروہاں سے اذخر گھاس لاکر مدینہ کے زرگروں کے پاس فروخت کریں۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے وقت جو عام مؤرخین کے نزدیک ذوالحجہ دو ہجری میں ہوا تھا ابھی تک بنوقینقاع مدینہ میں ہی تھے۔ ان وجوہات کی بناء پر‘‘ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کہتے ہیں کہ ’’میں نے غزوہ بنوقینقاع کوغزوۂ سویق اورحضرت فاطمہؓ کے رخصتانہ کے بعد اَواخر 2 ہجری میں رکھا ہے۔
… اس موقعہ پریہ ذکر بھی خالی ازفائدہ نہ ہوگا کہ غزوۂ بنوقینقاع کا سبب بیان کرتے ہوئے مسٹر مارگولیس نے اپنی طرف سے ایک عجیب وغریب بات بنا کر لکھی ہے جس کا قطعاً کسی روایت میں اشارہ تک نہیں آتا۔ بخاری میں ایک روایت آتی ہے کہ حضرت حمزہؓ نے شراب کے نشہ میں (اس وقت تک ابھی شراب حرام نہیں ہوئی تھی) حضرت علیؓ کے وہ اونٹ مار دیئے تھے جوانہیں جنگِ بدر کی غنیمت میں حاصل ہوئے تھے۔ اس منفرد واقعہ کوبغیر کسی قسم کی تاریخی سند کے غزوۂ بنوقینقاع کے ساتھ جوڑ کر مسٹرمارگولیس رقمطراز ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبیلہ بنوقینقاع پراس غرض سے چڑھائی کی تھی کہ تا اس کی غنیمت سے حضرت علیؓ کے اس نقصان کی تلافی کریں۔‘‘ کوئی بے تکی بات جوڑی ہے۔ ’’تاریخ نویسی میں یہ جرأت غالباً اپنی مثال آپ ہی ہے اورپھر لطف یہ ہے کہ مسٹرمارگولیس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں نے یہ بات اپنی طرف سے قیاس کرکے زائد کی ہے۔‘‘
(سیرت خاتم النبیینؐ از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے صفحہ 457تا 462)
حوالے تو کوئی نہیں ملے ۔لیکن میرا خیال ہے کہ اس لیے اَور کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ دو اونٹوں کی قیمت کے لیے ایک قبیلے سے پوری جنگ کی جائے۔ عجیب سوچیں ہیں ان کی۔ مستشرقین یا غیر مسلم تاریخ دان جو ہیں مسلمانوں کے بغض اور عداوت میں اتنے بڑھے ہوئے ہیں کہ تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ان کے لیے بڑا آسان ہے اور یہ اکثر جگہ نظر آتا ہے۔ بہرحال اس ضمن میں باقی باتیں ان شاء اللہ آئندہ۔
آج کل دنیا کے جو حالات ہیں مَیں دعا کے لیے ان کی یاددہانی دوبارہ کروا دوں۔
حماس اور اسرائیل کی جنگ اور اس کے نتیجہ میں معصوم فلسطینی عورتوں اور بچوں کی شہادتیں بڑھتی جارہی ہیں۔
جنگ کے حالات جس تیزی سے شدت اختیار کر رہے ہیں اور اسرائیل کی حکومت اور بڑی طاقتیں جس پالیسی پر عمل کرتی نظر آ رہی ہیں اس سے تو عالمی جنگ اب سامنے کھڑی نظر آ رہی ہے۔
اور اب تو بعض مسلمان ملکوں کے سربراہوں نے بھی کھل کے یہ کہنا شروع کر دیا ہے ۔ روس، چین نے بھی اور اسی طرح مغربی تجزیہ نگاروں نے بھی یہ کہنا اور لکھنا شروع کر دیا ہے کہ اب جنگ کا یہ دائرہ وسیع ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اگر فوری حکمت والی پالیسی اختیار نہ کی گئی تو دنیا کی تباہی ہے۔
سب کچھ خبروں میں آ رہا ہے۔ آپ سب کے سامنے صورتحال ہے۔ اس لیے
احمدیوں کو دعاؤں کی طرف خاص توجہ دینی چاہیے۔ relaxنہ ہو جائیں۔ کم از کم ہر نماز میں ایک سجدہ یا کم از کم کسی ایک نماز میں ایک سجدہ تو ضرور اس کے لیے ادا کرنا چاہیے۔ اس میں دعا کرنی چاہیے۔
مغربی دنیا کا تو کسی بھی ملک کا سربراہ ہو وہ اس معاملے میں انصاف سے کام لینا نہیں چاہتا۔ نہ اس بارے میں کچھ کہنے کی جرأت رکھتا ہے۔ احمدی ان بحثوں میں نہ پڑیں کہ کس ملک کا وزیر اعظم یا سربراہ اچھا ہے اور کس کا اچھا نہیں اور اس کو یہ نہیں کہنا چاہیے ۔مسلمانوں کو اس کے خلاف نہیں بولنا چاہیے۔ یہ سب فضول باتیں ہیں۔
جب تک کوئی جرأت سے جنگ بندی کی کوشش نہیں کرتا وہ بہرحال دنیا کو تباہی کی طرف لے جانے کا ذمہ دار ہے۔
پس اپنے ماحول میں دعاؤں کے ساتھ اس بات کو پھیلانے کی کوشش کریں کہ ظلم کو روکو۔ اگر کسی احمدی کے کسی سے تعلقات ہیں تو اسے سمجھائیں۔ یہی جرأت ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کا معیار ہے۔ اسرائیلی حکومت کے نمائندے کہتے ہیں کہ حماس نے ہمارے معصوموں کو مارا، ہم بدلہ لیں گے اور یہ بدلہ اب تمام حدیں پار کر گیا ہے۔ جتنا اسرائیلی جانوں کو نقصان ہو ا ہے جو بیان کی جاتی ہیں اس سے چار پانچ گنا زیادہ فلسطینی جانوں کا نقصان ہو چکا ہے۔
اگر ان کا حماس کو ختم کرنے کا ٹارگٹ ہے جیسے یہ کہتے ہیں تو پھر ان سے دُوبدُو جنگ کریں۔ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو کیوں نشانہ بنا رہے ہیں؟
پھر پانی، خوراک، علاج سب سے ان لوگوں کو محروم کر دیا ہے۔ حقوقِ انسانی اور جنگوں کے اصول کے ان حکومتوں کے تمام دعوے یہاں آ کر ختم ہو جاتے ہیں۔ ہاں بعض اس طرف توجہ بھی دلاتے ہیں جیسے گذشتہ دنوں امریکہ کے سابق صدر اوبامہ نے کہا تھا کہ
جنگ اگر کرنی بھی ہے تو جنگی اصولوں کو سامنے رکھنا چاہیے۔ سویلین پر ظلم نہیں ہونا چاہیے۔
یو این (UN)کے سیکرٹری جنرل صاحب بھی بولے تھے۔ اس پر اسرائیلی حکومت نے شور مچا دیا۔ تو باقی دنیا کے امن کے دعویداروں نے جو اپنے آپ کو سب سے بڑا امن کو قائم کرنے والا سمجھتے ہیں یا چیمپئن سمجھتے ہیں سیکرٹری جنرل کے بیان کی تائید میں کچھ نہیں بولے بلکہ انہوں نے ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔ بہرحال
حالات خطرناک ہیں اور خطرناک تر ہوتے جا رہے ہیں۔
مغربی میڈیا ایک طرف کی خبریں تو بڑھا چڑھا کر دیتا ہے اور دوسری طرف کی ایک کونےمیں چھوٹی سی خبر۔ جیسے گذشتہ دنوں رہائی پانے والی جو عورتیں تھیں ان میں سے ایک عورت نے کہا کہ مجھ سے قید میں بہتر سلوک ہوا۔ اس کی خبر تو ایک کونے میں چلی گئی اور جو یہ بیان ہے کہ حماس کی قید جہنم تھی اسے مستقل بڑی خبر کا حصہ بنا کے پیش کیا جاتا ہے۔
انصاف تو یہ ہے کہ سب صورتحال سامنے رکھی جائے پھر دنیا کو اپنا فیصلہ کرنے دیں کہ کون ظالم ہے، کون مظلوم ہے اور کس حد تک یہ جنگ جائز ہے اور کہاں جا کے یہ ختم ہونی چاہیے۔
دنیا کے سامنے ساری صورتحال آنی چاہیے نہ کہ ایک طرفہ رائے۔ بہرحال
ہمیں دعاؤں کی طرف بہت توجہ دینی چاہیے۔ ظلم کو ختم کرنے کے لئے اپنے دائرے میں کوشش بھی کرنی چاہیے اور دعا بھی۔
مسلمان مظلوموں کے لیے بھی اور مسلمان حکومتوں کو ایک جامع اور دیرپا منصوبہ بندی کے لیے بھی دعاکرنی چاہیے۔
مسلمانوں کی مشکلات دُور ہونے کے لیے ہمیں خاص درد رکھنا چاہیے۔ ہم تو اس مسیح موعودؑکے ماننے والے ہیں جس نے مسلمانوں کے لیے باوجود اس کے کہ ہمیں ان سے تکلیفیں پہنچتی رہتی ہیں
اپنے جذبات کا اظہار یوں کیا کہ
’’اے دل تو نیز خاطر اینان نگاہ دار
کاخر کنند دعوئے حب پیمبرمؐ‘‘
(ازالۂ اوہام حصہ اوّل، روحانی خزائن جلد3صفحہ182)
اے دل! تُو ان لوگوں کا لحاظ رکھ۔ آخر وہ میرے پیغمبرؐکی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پس
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے بہت دعا کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق بھی دے اور مسلمانوں کو بھی اور دنیا کو عقل بھی دے۔
٭…٭…٭