الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ
(حصہ دوم۔ آخر)
آپ کو اکثر سچی خوابیں آتی تھیں جن کو پورا ہوتے ہم نے بھی دیکھا۔ مجھے بہت ڈر لگتا تھا جب کبھی کوئی مُنذرخواب سناتیں اور کچھ ہی دنوں بعدوہ بات پوری ہوجاتی۔ چونکہ عاجزی و انکساری طبیعت میں بہت زیادہ تھی اس لیے ہمیشہ بہت سرسری سا ذکر کرتی تھیںکہ کہیں کوئی اس وجہ سے بزرگ نہ سمجھنے لگ جائے۔ اسی حوالے سے مجھے یاد آیا کہ ایک روز میری چار سالہ بیٹی ہاجرہ نے انتہائی بھولپن میں اپنے اور حضرت ہاجرہ (علیہا السلام) کے ناموں میں مماثلت کا ذکر آپ کے سامنے کیا تو آپ نے بے ساختہ کہا کہ بیٹا! ’حضرت‘ والے کام تو کرنا پر ’حضرت‘ کہلوانے کا شوق نہ رکھنا۔
آپ مبلغین، واقفینِ زندگی کی اور اُن کی بیگمات کی بےحد عزت و قدرکرتی تھیں۔ خود بھی ایک واقف زندگی کی بیوی تھیںاور کافی مشکل وقت صبر اور سلیقہ سے گزارا ہوا تھا۔ حالانکہ بچپن سے شادی ہونے تک نوابی شان اور پُرآسائش زندگی کی عادی تھیں۔ ضمناً یاد آیا کہ ماموں جب میڈیکل کے چوتھے سال میں تھے تو شادی ہوگئی۔ میڈیکل کے بعد ہائوس جاب سے جب پہلی تنخواہ ملی تو ماموں نے ساری تنخواہ لفافہ میںڈال کر اپنے محترم والد حضرت مصلح موعودؓ کو بھجوادی۔ حضورؓ نے لفافہ پر جزاکم اللہ لکھ کر واپس کردی اور اس امر پر خوشی کا اظہار فرمایا۔ بعد میں ماموں بتاتے تھے کہ وہ باقاعدگی سے ہرماہ ساری تنخواہ بھیجتے اور حضورؓ واپس لَوٹا دیتے اور یہ سلسلہ کچھ سال چلتا رہا۔
خالہ مودی بیان کیا کرتی تھیں کہ ربوہ کے ابتدائی ایام میں قریبی دیہاتی عورتیں انڈے لالاکر بیچا کرتی تھیں لیکن اتنی توفیق بھی نہ تھی کہ زیادہ انڈے خریدکر مہمانوں کے لیے رکھے جاسکتے۔ البتہ انڈے کا پائوڈر ملا کرتا تھا جس کو گھول کر خاگینہ جیسا بنالیتے تھے۔ اِنہی دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ مع بیگم صاحبہ(یعنی بہن اور بہنوئی) آئے تو باجی جان (منصورہ بیگم صاحبہ) نے کہا کہ مَیں صبح ناشتے پرتلا ہوا انڈا کھائوں گی۔ اب شرم کے مارے نہ بتاسکیں کہ انڈے نہیں ہیں لیکن انڈوں کے پائوڈر کا خاگینہ بنادیا۔ باجی جان حیران ہیں کہ خاگینہ بنادیا اور انڈا تل کرنہ دیا۔ آپ اگر پائوڈر کا ذکر کرتی ہیں تو باجی جا ن کی نفیس طبیعت کراہت کرتی ہے اور اصل حقیقت مہمان کے سامنے بتانے کی ہمت نہیں ہے۔ کہتی تھیں کہ برسوں بعد جاکر ایک دفعہ باجی جان کو حقیقت بتائی کہ اصل ماجراکیا تھا۔
حضرت بڑی امی (حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ) ہجرت کے بعد لاہور میں رہائش پذیر تھیں۔ جب بھی ربوہ آنا ہوتا تو خالہ کے گھر ٹھہرا کرتی تھیں۔ ایک دفعہ خالہ نے بڑی امی کے سامنے بطور ایندھن جلائی جانے والی لکڑی کے مہنگے ہوجانے کی کوئی بات کی تو بڑی امی نے فوراً ٹوکا کہ مہمان کے سامنے ایسی بات نہیں کرتے جس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو بوجھ محسوس کرے۔ حالانکہ بڑی امی تو ماں تھیں اور ماں بھی ایسے احساس والی کہ بیٹی کے گھر آتے ہی بطور تحفہ اچھی خاصی رقم دے دیا کرتیں تاکہ اخراجات میں تنگی نہ ہو اور چونکہ اُن کی وجہ سے مہمان داری بھی بڑھ جاتی نیز اس لیے بھی کہ بیٹی کو دقت نہ ہولیکن بیٹی کی معمولی سی غلطی پر بھی ایسے مؤثر انداز میں نصیحت کی کہ آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رہی ۔
ربوہ کے کچے گھروں میں میرے میاں کی پیدائش ہوئی اور قریباً ڈیڑھ سال کے بعد قصر خلافت کے پاس اُن پکے گھروں میں آگئے جو ابا حضورؓ (حضرت مصلح موعودؓ) نے اپنے بیوی بچوں کوبطور تحفہ دیے تھے۔ اس وقت یہ سادہ سے کمروں کے گھر تھے جن کے سامنے برآمدے تھے۔ یہاںمیرے دیور مظفر کی پیدائش ہوئی اور خالہ بتاتی تھیں کہ جب بچے کی پیدائش گھر میں ہوئی تو شدید بارش ہورہی تھی اور چھت سے پانی کیچڑ کی طرح ٹپک ٹپک کے میرے سر اور ماتھے پر قطرہ قطرہ گرتا جاتا تھا۔ بچے کی پیدائش کی خبر سن کر اباحضورؓ خود چل کر اذان دینے تشریف لائے تھے جبکہ سڑکیں پانی سے بھری ہوئی تھیں اور حضورؓ شلوار کے پائینچے اٹھاکر چلے آتے تھے۔
قوّت برداشت اور صبر کی طاقت، دونوں میاں بیوی میں ہی بہت تھی۔ بہت سے واقعات میں نے دیکھے۔ جب خالہ منصورہ (آپ کی بڑی بہن) کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے آپا طاہرہ صدیقہ سے شادی کی تو بارات میں ساتھ جانے کے لیے خالہ کو ارشاد فرمایا۔ خالہ بہت ہمت و حوصلہ سے پوری تیار ہوکر گئیں اور مَیں دیکھ رہی تھی کہ کس طرح اپنی آنکھوں کو پونچھتی جاتی تھیں لیکن انتہائی وقار کے ساتھ شرکت کی تیاری بھی کررہی تھیں۔
آپ مہمان کا بےحد خوش اخلاقی سے ہمیشہ استقبال کرتیں اور فوراً خاطرمدارات کی فکر شروع کردیتیں۔ اپنے گھر کے ماحول کو بے حد سادہ اور کھلا رکھا تھا تاکہ خاندان کے بچے بِلاتکلّف آکر بیٹھ سکیں۔ جیسے کسی بڑے کا ایسا گھر ہو جس میں دُورو نزدیک کے سب رشتہ دار بے تکلفی سے آسکتے ہوں۔ خاندان کے گھروںکی بچیوں کو اجازت تھی کہ وہ ہمارے گھر سے گزر کر اپنے سکول جائیں (سکول ہمارے گھر کے بالکل سامنے تھا) بچیوں کو یہ Shortcut بے حد پسند تھا، کیونکہ راستے میں کھانے کومزیدار چیزیں بھی ملتی تھیں۔ پراٹھے، چٹنی اور آلو کی ترکاری روزانہ صبح خاص طورپر پکوا کر ہاٹ پلیٹ(hot plate) پر رکھی جاتی تھیں تاکہ لڑکیاں کچھ کھاسکیں۔ اور تو اور خالہ کی فیاضی کے چرچے اس قدر عام تھے کہ خاندان کی بعض بچیاں شرارت میںکبھی کبھار امرود بیچنے والی مائی کو خالہ کے گھر بھیج دیتیں کہ جائو وہاں جاکر بیچ آئو اور بعد میں خود اپنی ملازمہ کو بھیج کر منگواتیں کہ خالہ آج امرود کھانے کو بہت دل چاہ رہا ہے اگر ہیں تو بھیج دیں۔
میری سا س اور سسر کے گھر کا نام ’’بیت الاحسان‘‘ تھا۔ دونوں ہی دوسروں کے لیے سراپا احسان تھے۔ دونوں اللہ ملائی جوڑی، وسیع الحوصلہ، کریم الاخلاق اور طویل الایادی تھے جن کا دسترخوان کسی کے لیے ممنوع نہ تھا۔ کیا اپنے کیا پرائے حتی کہ گھریلو ملازمین،پر انے خدمتگار اور کچھ ریٹائرڈ ملازمین، بوڑھے بھی۔ سبھی نے اُن کے دسترخوان سے فیض پایا۔ کچھ یوں بھی تھا کہ مالیرکوٹلہ میں ابامیاں (حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ) کے خدمت گار اور کھِلائی (یعنی بچوں کو پالنے اور دودھ پلانے والیوں) کے خاندان نسلاً بعد نسلٍ ساتھ حویلی میں رہتے چلے آرہے تھے اور جب ابا میاںنے قادیان سے دائمی ہجرت اختیار کی تو اُن میں سے بعض خاندان بھی وہ ساتھ لے آئے جو قادیان کی کوٹھی ’’دارالسلام‘‘میں ساتھ ہی رہے۔ چنانچہ ہجرت کے موقع پر وہ بھی اُن کی بیگم یعنی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ کے ساتھ ہی پاکستان آگئے۔ پہلے لاہور میں اُن کے ساتھ رہے اور پھر ربوہ آگئے۔ اِس خاندان کی کچھ خواتین خالہ کے زیر کفالت بھی تھیں اور ایک خاتون ’’شاری‘‘ نام کی تھیں۔ گو انہوںنے خالہ کی خدمت بھی بہت کی تھی لیکن خالہ اور ماموں نے بھی مدد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ جب ڈھائی تین سال (یا زیادہ عرصہ ) اُن کے شوہر کے پاس ملازمت نہ تھی تو چھ سات بچے سب کے کھانے پینےو دیگر ضروریات کا خیال رکھا۔ اِسی طرح ایک پرانے مالی کی بیوی جن کو ’بابن‘ کہتے تھے۔ ان کو بھی کئی سال اپنے گھر رکھا علیحدہ سے کمرہ بناکر دیا ہوا تھا۔ خالہ سردارالنساء بیگم صاحبہ ایک بزرگ خاتون تھیں۔جب کچے گھروں سے قصر خلافت کے ساتھ والے موجودہ گھروں میں شفٹ ہوئے تو کچھ عرصہ بعد خالہ سردارالنساء صاحبہ بھی آگئیں اور ساتھ رہنے لگیں۔ اِس بزرگ خاتون کا خاندان حضرت مسیح موعودؑ اور خاص طورپر حضرت مصلح موعودؓ کے بچوں سے تعارف اس طرح سے ہواتھا کہ جس سال یعنی ۱۹۱۸ء میں ماموں منور کی پیدائش ہوئی تھی اور ماموں ابھی چند ماہ کے تھے اور حضرت مصلح موعودؓ کا بمبئی میںکچھ عرصہ قیام تھا۔ حضورؓ اورحضرت اُمّ ناصر صاحبہؓ اِن دنوں بہت بیمار تھے کہ حضورؓ نے کچھ احباب سے فرمایاکہ اگر کوئی خاتون بچہ کو سنبھالنے کے واسطے چند دنوں کے لیے آجائیں تاکہ والدہ کو سہولت ہوجائے تو ایک صاحب کی دو بیویاں تھیں۔ اپنی ایک بیگم لے آئے کہ یہ حضورؓ کے بچہ کو سنبھال لیں گی اور وہ خالہ سردارالنساء تھیں اوراُن کو یہ ننھا منور اتنا پسند آیا کہ وہ ہمیشہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر حضورؓ کے ساتھ ہی قادیان آگئیں۔ بعدازاں انہوںنے خاندان کے بہت سے بچوں کو پالا پوسا اور سب کے ساتھ ہی رہیں۔ البتہ ان کی زندگی کے آخری سال اس گھر میں اپنے شاہ جہاں (ماموں منور کا نام رکھا ہوا تھا) اور منورہ بیگم (خالہ کا نام تھا) کے پاس ہی گزرے۔ بےحد صاف ستھری اور نفیس طبیعت کی خاتون تھیں۔ موصیہ بھی تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین۔
خالہ کی شفقت میںبہت اثر ہے یعنی جس نے ان کا نمک کھایا اس نے بھی خوب حق ادا کیا۔ جو بچے گھر میں رکھ کر پڑھائے لکھائے یا جن سے خدمت بھی لی ان کی تربیت اور ان کے لیے خصوصی احساس کے ساتھ اِس قدر دعائیں کی ہیں کہ آج ان میں سے اکثریت کے اوپر ان کی تربیت اور دعا کا اثر نظرآتا ہے۔ وہ سب کے سب اب تک اِن دونوں کو اس قدر یاد کرتے ہیں اور محبت و تشکرکے ان جذبات کے ساتھ ہمیں ملتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ اُن میں سے ایک ہیں ہمارے بھائی عظیم۔ میری شادی سے کچھ سال قبل کی بات ہے کہ جب کشمیر سے چھوٹی سی عمر کا یہ لڑکا تلاشِ معاش میں نکلا۔ جو کبھی چندماہ ربوہ آکر رہ جاتا اور کبھی واپس چلا جاتا۔ چند سال یہ سلسلہ چلتا رہا پھر خالہ نے سمجھا بجھا کر اورکھانا پکانا وغیرہ سِکھا کر آہستہ آہستہ اپنے گھر کا ان کو ایک فرد ہی بناڈالا۔ بڑھاپے تک ان دونوں کی ہمہ وقت خدمت پر مامور رہے۔ گھر کے تمام کام سنبھالنے شروع کردیے اور خاص طورپر خالہ مودی کی زندگی کی آخری بیماری جو تقریباً تین سال پر محیط تھی اس میں بےلوث خدمت کی۔ جزاہ اللہ احسن الجزاء
خالہ حضرت مسیح موعودؑ کے اس ارشاد کی تصویر تھیں کہ ’’حسن واحسان سے لوگوں کے دل جیتو۔‘‘ حافظہ بلا کا تھا۔ خوب واقعات سناتیں۔ ایک خوبی یہ بھی نمایاں تھی کہ کبھی کسی فوت شدہ کا خصوصاً یا کسی کابھی ذکر بُرے رنگ میں نہ کرتیں۔ ہمیشہ اچھے پہلو یاد رکھتی تھیں اورحسِ مزاح بھی خوب تیز اور پُرلطف تھی جس کا اثر طبیعت کو فرحت و تازگی عطا کرتا تھا۔
جب ۱۹۸۴ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے ہجرت فرمائی تو کراچی کے سفر میں پیش آنے والے واقعات ایک گھریلو مجلس میں کسی کو بیان کرتے سنا تو سخت ناراض ہوئیں کہ کوئی بات باہر نکل جائے۔ ایسانہیں کرنا چاہیے۔ بہت محتاط طبیعت تھیں خصوصاً جما عتی معاملات میں۔
جب قادر شہید کی شہادت کی خبر آئی تو فوری طورپر سب پر ہی غم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا تھا۔ہم قادر کے والدین کے گھر جمع ہوئے تو وہاں خالہ نے مجھے اپنے پاس بلایا اوربےحد روتے ہوئے بمشکل کہا کہ ’’خاندان کے سب بچوں کو جاکر کہہ دو کہ وہ اپنی زندگیاں وقف کردیں۔‘‘ مجھے احساس ہوتا ہے کہ ان میں کس قدر مومنانہ فراست تھی کہ اگر قادر کو دین کے نام پر شہید کیا گیا ہے تو سب بچے اس راہ میں حاضر ہیں۔
مجھے میری امی کی وفات پر باربار سینہ سے لگا کر کہتی جاتی تھیں: ’’میں تمہاری ماںہوں۔ میں تمہاری ماں ہوں۔‘‘ اتنا پیار کرنے والی ہستی تو شادی کے پہلے دن سے ہی میری ماں تھیں۔ میرا دل تو اصل میں اپنے مالک حقیقی کا شکر گزار ہے جس نے مجھے ایک نہیں دو مائیں اور ایک نہیں دوباپ دیے تھے۔ اب اُن میں سے کوئی بھی نہیں۔ …صرف ان کی یادیں یا پھر مَیں اور میرے آنسو۔ …اور یادوں کا ایک لشکر۔ … دعاکا قطرہ قطرہ بن کر میرے وجود میں دوڑنے لگتا ہے۔ وہ نظارہ یا د آرہا ہے جب اسی کمرے میں ایک چوکے پر بیٹھی میری امی (سیدہ بشریٰ بیگم) کا خاص مصباح نمبرمیں لکھا ہوا میرا مضمون پڑھ رہی تھیں اور آنکھوں سے اشک بہ رہے تھے۔ اس وقت تصوّر بھی نہ تھا کہ آج ان پر بھی کچھ لکھ رہی ہوں گی اور اشکوں کا ایک سیلاب ہوگا۔
………٭………٭………٭………