خالقِ کُل وہ ہمارا خالق
(قدسیہ نور فضا)
ابتدا نامِ خدا سے جو ہے رحمان، رحیم
دُور ہوں ہم سے بہت دُور شیاطینِ لئیم
استجابت پہ وہ قادر ہے، دعا تم مانگو
چاہتا ہے وہ جسے، اس کو بناتا ہے کلیم
خالقِ کُل ہے وہی تو ہے ہمارا خالق
ہے وہ رب عرشِ بریں کا، وہ جہاں کا مالک
لوٹتا کب ہے وہ خالی که مرادیں پائے
مانگتا اس کے جو در سے ہے کوئی بھی سالک
بحرِ عرفان میں ہر آن لپکتی جاؤں
غیر ممکن ہے کہ تعریف بیاں کر پاؤں
حمد کا تیری ادا حق جو کبھی کر پائے
وہ زباں ڈھونڈ کے لاؤں تو کہاں سے لاؤں
حسن و احسان کی جامع جو بنا تصویریں
ان گِنَت حمد پہ جس کی ہیں رقم تحریریں
عرش پر تخت نشیں ہے وہ ازل سے دیکھو
ہاتھ میں جس کے ہماری ہیں سبھی تقدیریں
خیر پھر کیوں نہ طلب اس سے کریں ہم پیارو
دور کرتا ہے ہمارے جو سبھی غم پیارو
اس کے دربار میں حاضر ہے تمہیں گر ہونا
تو چلو اس کی طرف آنکھ لیے نم پیارو
مہرباں اس سا کہاں کوئی کبھی دیکھا ہے
کیسے بتلاؤں کہ میرا وہ خدا کیسا ہے
مانگنے پر جو نوازے جو بلائیں ٹالے
ہاں خدا میرا خدا میرا خدا ایسا ہے
اس کی توحید پہ دل چاہے میں واری جاؤں
دیکھ کر اس کو تو قربان میں ساری جاؤں
قدسیہؔ اس کے لیے جان فدا ہے میری
سرخرو ہو کے، اگر پار اتاری جاؤں