الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۱؍ستمبر۲۰۱۴ء میں مکرم مظفراحمد درّانی صاحب کے قلم سے محترم عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ جب خاکسار کی تقرّری گھانا کے لیے ہوئی تو خاکسار مع فیملی۹؍اگست۲۰۰۴ء کو گھانا پہنچا۔ قبل ازیں ایم ٹی اے پر حضورانور کے دورہ کی جھلکیوں میں دیکھا ہوا تھا کہ گھانا کے خدام کا ایک مخصوص یونیفارم ہے لیکن وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ انصار اور لجنہ کا بھی مخصوص یونیفارم ہے بلکہ گھانا سے حج پر جانے والے احمدی مردوں اور عورتوں کے بھی مخصوص یونیفارم ہیں۔ اس سلسلے کی تحریک تیس سال قبل محترم امیر عبدالوہاب صاحب نے کی تھی جو اب پوری طرح رائج ہوچکا ہے۔
محترم امیر صاحب کی سرپرستی میں جماعت اور حکومت میں مکمل ہم آہنگی دیکھی۔ سرکاری میٹنگز میں جماعت کے نمائندگان مدعو کیے جاتے ہیں جبکہ جماعتی اجتماعات میں اعلیٰ سرکاری حکام شامل ہوتے ہیں۔ خاکسار کے ٹمالے میں قیام کے دوران نائب صدر مملکت نے وہاں کا تین روزہ سرکاری دورہ کیا تو دیگر مساجد ہونے کے باوجود وہ نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے اپنے سرکاری پروٹوکول کے ساتھ احمدیہ مسجد میں تشریف لائے۔ نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد ہماری دعوت پر انہوں نے مختصر خطاب میں یہ بھی کہا کہ ’’احمدیت سے اُن کا تعارف اُس وقت سے ہے جب وہ ٹمالے سیکنڈری سکول کے طالب علم تھے اور مولوی وہاب آدم صاحب وہاں دینی تعلیم دینے جایا کرتے تھے۔…‘‘ موصوف نے لندن کے اپنے وزٹ کے دوران حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کرنے اور مسجد بیت الفتوح لندن دیکھنے کا بھی ذکر کیا۔
اکرا میں احمدیہ مشن اتنا معروف ہے کہ ٹیکسی والے کو صرف یہی بتانا کافی ہے، باقی ایڈریس بتانے کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوئی۔ گھانا کے اجتماعات میں عوام الناس بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں چنانچہ ۲۰۰۸ء کے خلافت جوبلی جلسہ سالانہ نے تعداد کے لحاظ سے دنیا بھر میں سب سے بڑا جلسہ ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔ ایسے پروگراموں میں مَیں نے مکرم امیر صاحب کو کبھی کسی ضرورت کے لیے اُٹھ کر جاتے نہیں دیکھا۔ آپ شروع سے آخر تک پوری بشاشت کے ساتھ مجلس میں تشریف فرما رہتے۔
گھانا میں بین المذاہب کانفرنس بہت منظّم ہے۔ اس تنظیم کے زیرانتظام ہر سال کسی ملک میں عالمی کانفرنس منعقد ہوتی ہے۔ گھانا کی تمام مذہبی تنظیموں کی طرف سے کئی سال تک محترم عبدالوہاب صاحب کو بطور نمائندہ اس کانفرنس میں خطاب کے لیے بھجوایا جاتا رہا ہے۔
آپ ڈسپلن کی پابندی کرتے اور اسی بات کی دوسروں سے بھی توقع رکھتے۔ ۲۰۰۵ء میں خدام کے سالانہ اجتماع میں فٹ بال کے میچ میں جھگڑا ہوگیا۔ مہمانوں میں غیرازجماعت بھی تشریف فرما تھے۔ عموماً یہی تأثر ہے کہ نومبائعین سے درگزر سے کام لیا جاتا ہے کہ آہستہ آہستہ تربیت اور نظام جماعت راسخ ہوجائے گا۔ مگر اس جھگڑے کے بعد آپ نے ایک تحقیقاتی کمیٹی قائم کی اور اُس کی رپورٹ پر جماعت کو بدنام کرنے والے خدام کی اخراج از نظام جماعت کی سفارش کی۔ چنانچہ سزا ہوئی جس پر اُن خدام، اُن کے والدین اور انتظامیہ نے اپنی اصلاح کی اور توبہ و استغفار کرتے ہوئے معافی مانگی تب جاکر اُن کو معافی ہوئی۔
محترم عبدالوہاب صاحب نماز باجماعت کے بہت پابند تھے بلکہ اکثر سفر و حضر میں خود امامت کرواتے تھے۔ جلسہ اور اجتماعات کے موقع پر خود بھی اجتماعی نماز تہجد میں شامل ہوتے اور دوسروں کو بھی تحریک کرتے۔ بلکہ شامل نہ ہوسکنے والے اپنے بعض ساتھیوں سے بعد میں استفسار بھی کرتے۔ لمبا سفر کرکے بھی اگر کسی جگہ پہنچتے تو بڑھاپے اور تھکاوٹ کے باوجود نماز تہجد باجماعت سے کبھی ناغہ نہیں کرتے تھے۔
آپ سر کی ٹوپی اور پاؤں کے جوتوں تک سفید لباس ہی استعمال کرتے تھے اور یہ آپ کی پہچان بن چکا تھا۔ جب کماسی کے پیراماؤنٹ چیف کی وفات ہوئی تو سارا شہر سیاہ ماتمی لباس میں تھا لیکن آپ نے چیف کے ورثاء سے رابطہ کرکے اپنے لباس کے حوالے سے اجازت لی اور پھر اُن کے پاس تعزیت کے لیے تشریف لے گئے۔
آپ بچوں کے اجلاسات میں جاتے تو اُن کی حوصلہ افزائی کے لیے اپنے پاس ٹافیاں بھی رکھتے۔ بچوں کو ٹافیاں دینے کا طریق یہ تھا کہ اپنے دونوں ہاتھوں کی مٹھیوں کو بند کرکے بچے سے پوچھتے کہ بوجھو ٹافی کس مٹھی میں ہے؟ جب تک بچہ بوجھنے میں کامیاب نہ ہوجاتا اُس کو موقع دیتے رہتے۔ ویسے ٹافی ہر بار آپ کی دائیں مٹھی میں ہی ہوتی۔
مرکز کی طرف سے آنے والی ہدایات پر فوری عملدرآمد کرکے رپورٹ مرکز میں بھجواتے۔ محترم مولانا بشارت احمد بشیر صاحب سابق مبلغ گھانا کا بڑی محبت سے ذکر کیا کرتے تھے جن کے ذریعے آپ کو دینی تعلیم کے حصول کے لیے مرکز ربوہ آنے کی توفیق ملی۔
جب اکرا میں کوئی میٹنگ وغیرہ ہوتی تو وہاں ٹھہرنے والے مہمانوں کو ہمیشہ نماز فجر کے فوراً بعد اپنے گھر میں بلاکر خود چائے بناکر کیک کے ساتھ اُن کی تواضع کرتے۔ یہ کیک آپ کی بیگم صاحبہ نے تیار کیے ہوتے۔
مشن ہاؤس میں نصب ایک تختی پر تمام سابقہ امراء کے اسماء درج ہیں۔ اس فہرست میں آپ کے نام کے علاوہ باقی سب ناموں کے ساتھ الحاج کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ ایک بار خاکسار نے عرض کیا کہ اگر آپ بھی حج کی سعادت حاصل کرلیں تو تمام نیشنل امراء میں یہ بات مشترک ہوجائے گی۔ آپ نے کہا کہ میری بہت خواہش ہے اور کئی بار کوشش بھی کی ہے لیکن سعودی حکومت مجھے حج کا ویزا نہیں دیتی۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ربوہ ۱۹؍ستمبر۲۰۱۴ء میں محترم مولانا عبدالوہاب بن آدم صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے مکرم قریشی داؤد احمد صاحب مربی سلسلہ لکھتے ہیں کہ خاکسار کو گھانا میں سوا سات سال تک خدمت بجالانے کی توفیق ملی۔ اس دوران مرحوم کو بڑے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔
پاکستان سے گھانا آکر خدمت کرنے والے مربیان، اساتذہ اور ڈاکٹروں کے ساتھ آپ خاص شفقت فرماتے۔ کوئی بیمار ہوتا تو تیمارداری فرماتے اور علاج کے لیے بےچین رہتے۔کسی کے عزیز کی وفات کی خبر آتی تو نہ صرف تعزیت کے لیے جاتے بلکہ دوسروں کو بھی ہدایت دیتے۔ ایک عظیم خلق اُن کا یہ بھی تھا کہ جب بھی ملاقات ہوتی تو اتنے تپاک اور خلوص سے ملتے گویا ایک عرصے بعد ملاقات ہوئی ہو اور ہمیشہ بغلگیر ہوکر ملتے۔ حالانکہ بعض اوقات خاکسار ہر دوسرے تیسرے دن اکرا جایا کرتا تھا لیکن اُن کے ملنے اور مہمان نوازی کے انداز ہمیشہ وہی رہے۔ ملنے کے اس انداز میں کسی کی عمر، عہدہ یا بزرگی حائل نہ ہوتی تھی۔ ہر آنےوالے سے اسی تپاک سے ملتے تھے۔ بچوں کے لیے اپنی جیب میں ٹافیاں اور غبارے وغیرہ رکھا کرتے تھے۔ بچے بھی آپ کے اس وصف سے واقف تھے چنانچہ بھاگ کر آپ سے ملتے۔
کسی میٹنگ وغیرہ کے بعد جب کوئی روانہ ہونے لگتا تو آپ اپنی مصروفیات چھوڑ کر اُس کے ساتھ نیچے گاڑی کے پاس تشریف لاتے، پھر بغلگیر ہوکر ملتے، دعا کرواتے اور پھر روانہ کرتے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا کہ تھوڑے تھوڑے وقفہ سے کئی افراد رخصت ہو رہے ہوتے تو بھی آپ کا یہی طریق ہوتا۔ ایک بار جب خاکسار پاکستان میں رخصت گزار کر واپس اکرا (گھانا)پہنچا تو فلائٹ نے رات گیارہ بجے کے بعد پہنچنا تھا اس لیے مَیں نے ایئرپورٹ سے اپنے شہر ٹیما جانے کے لیے ایک دوست کو کہا ہوا تھا کہ وہ گاڑی لے آئے۔ خیال بھی نہ تھا کہ اتنی رات گئے کوئی اَوربھی آئے گا۔ لیکن رات کے اُس پہر بزرگوار عبدالوہاب آدم صاحب پر نظر پڑی جو ایئرپورٹ کے اُس دروازے میں کھڑے تھے جہاں سے جہاز سے اُتر کر ہم نے گزرنا تھا۔ آپ نے امیگریشن کے مراحل اپنی نگرانی میں طے کروانے کے بعد دعا کروائی اور پھر ہمیں ٹیما کے لیے رخصت کیا۔
خلافت سے بےپناہ عقیدت تھی۔ خلیفۂ وقت کی خدمت میں خط لکھتے ہوئے اگر کوئی غلطی ہوجاتی تو Tipp-ex لگاکر درستی کرنے کی بجائے پورا صفحہ دوبارہ لکھنے کو ترجیح دیتے۔ اردو زبان پر بھی بہت مہارت تھی۔ خط لکھواتے تو نہایت موزوں الفاظ کا انتخاب کرتے۔
گھانا اور انگلستان کا مقامی وقت ایک ہی ہے اس لیے خلیفہ وقت کا خطبہ جمعہ براہ راست وہاں دیکھا اور سنا جاسکتا ہے۔ آپ خود مسجد میں بیٹھ کر سارا خطبہ سنتے اور پھر مقامی زبان میں اس کا خلاصہ بھی بیان کردیتے۔
بہت سے لوگ آپ سے بذریعہ خط و کتابت رابطہ رکھتے تھے۔ آپ ہر خط کا جواب لازماً دیتے تھے۔
۱۹۸۸ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ جب گھانا کے دورہ پر تشریف لائے تو حضورؒ کی خدمت میں بازار سے خریدے ہوئے مشروبات پیش کیے گئے۔ اس پر حضورؒ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ناریل کی صورت میں آپ کو ان مشروبات سے بہتر اور سستا مشروب عطا فرمایا ہے، آپ وہ استعمال کیوں نہیں کرتے۔ اس کے بعد سے محترم امیر صاحب اپنے مہمانوں کو (الّاماشاءاللہ) ناریل ہی پیش کرتے۔
آپ جماعت کے چھوٹے سے چھوٹے مفاد کا بھی خیال رکھتے۔ رات گئے جب مصروفیات سے فارغ ہوتے تو مشن ہاؤس کا چکر لگاکر بلاوجہ جلنے والی لائٹس کو بجھادیتے اور اس بات پر افسوس کا اظہار بھی کرتے کہ باربار کی تلقین کے باوجود چوکیدار اس طرف توجہ نہیں کرتے۔ آپ ذاتی طور پر تمام امور کی نگرانی کرتے۔ جلسہ سالانہ سے قبل ہونے والے وقارعمل کے موقع پر خود موجود ہوتے اور اگر کبھی کسی دوسری جگہ مصروف ہوتے تو بعد میں ضرور ’’بستان احمد‘‘ جلسہ گاہ جاکر کام کا جائزہ لیتے۔ اسی طرح اکرا کے ٹریڈفیئرورلڈ سینٹر میں کتب کی نمائش کا سٹال ہر سال لگایا جاتا تھا۔ آپ اس کے انعقاد میں ذاتی دلچسپی لیتے۔ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی کتاب Revelation, Rationality, Knowledge & Truth کی اشاعت کے بعد تقریب رُونمائی کے سلسلے میں بہت اعلیٰ تقریب آپ نے اسی سینٹر میں منعقد کروائی۔
گھانا میں جلسہ سالانہ کے علاوہ ریجنل کانفرنسز بھی منعقد ہوتی تھیں جو تربیت کے لحاظ سے بڑی اہم تھیں۔ محترم امیر صاحب لمبے فاصلوں اور سفر کی دشواریوں کے باوجود ان میں شامل ہوتے۔ آپ دین کا وسیع علم رکھنے والے اور اُس علم کا برمحل استعمال کرنے والے بزرگ تھے۔ ۲۰۱۳ء میں مجلس انصاراللہ برطانیہ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر آپ نے جو خطاب فرمایا تھا وہ نہایت اعلیٰ تھا۔
………٭………٭………٭………