پُرسکون عائلی زندگی کے لیے پُرحکمت تعلیم
خاوند سے کامل وفا اور استغفار کی ترغیب
حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے جلسہ سالانہ جرمنی ۲۰۰۳ءکے موقع پر احمدی خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:’’بعض عورتوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ بعض دفعہ حالات خراب ہوجاتے ہیں، مرد کی ملازمت نہیں رہی یا کاروبار میں نقصان ہوا، وہ حالات نہیں رہے، کشائش نہیں رہی تو ایک شور برپا کر دیتی ہیں کہ حالات کا رونا، خاوندوں سے لڑائی جھگڑے، انہیں برا بھلا کہنا، مطالبے کرنا۔ تو اس قسم کی حرکتوں کا نتیجہ پھر اچھا نہیں نکلتا۔ خاوند اگر ذرا سا بھی کمزور طبیعت کا مالک ہے تو فوراً قرض لے لیتا ہے کہ بیوی کے شوق کسی طرح پورے ہوجائیں اور پھر قرض کی دلدل ایک ایسی دلدل ہے کہ اس میں پھر انسان دھنستا چلا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں کامل وفا کے ساتھ خاوند کا مددگار ہونا چاہئے، گزارا کرناچاہئے‘‘۔
نیز یہ بھی فرمایا: ’’ذرا سی بات پر شور شرابہ کرنے والی عورتوں کو یہ حدیث بھی ذہن میں رکھ کر استغفار کرتے رہنا چاہئے۔ حضرت ابنِ عباسؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا :مجھے آگ دکھائی گئی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اس میں داخل ہونے والوں کی اکثریت عورتوں کی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ کفر کا ارتکاب کرتی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ کیا وہ اللہ کا انکار کرتی ہیں ؟ آپﷺ نےفرمایا: نہیں، وہ احسان فراموشی کی مرتکب ہوتی ہیں۔ اگر تو اُن میں سے کسی سے ساری عمر احسان کرے اور پھر وہ تیری طرف سے کوئی بات خلاف طبیعت دیکھے تو کہتی ہے میں نے تیری طرف کبھی کوئی بھلائی نہیں دیکھی۔‘‘ (صحیح بخاری کتاب الایمان باب کفران العشیروکفر دون کفر فیہ)
دعاؤں، صدقات اور توبہ استغفار سے مشکل حالات کا مقابلہ
خانگی مشکلات کی صورت میں احمدی خواتین کو نصیحت کرتے ہوئے حضور ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’پھر بعض عورتوں کو اپنے گھروں اور سسرال کے حالات کی وجہ سے شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ بے صبری کا مظاہرہ کر رہی ہوتی ہیں اور بعض دفعہ تکلیف بڑھنے کے ساتھ رد عمل بھی اِس قدر ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف بھی شکوے پیدا ہوجاتے ہیں۔ تو بجائے شکووں کو بڑھانے کے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگتے ہوئے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ ٹھیک ہے میرے علم میں بھی ہے بعض دفعہ خاوندوں کی طرف سے اس قدر زیادتیاں ہوجاتی ہیں کہ ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہیں۔ تو ایسی صورت میں نظام سے، قانون سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اکثر دعا، صدقات اور رویّوں میں تبدیلی سے شکوے کی بجائے اُس کی مدد مانگنے کے لئے اُس کی طرف مزید جُھکنا چاہئے۔ آنحضرتﷺ نے ایک موقع پر فرمایا:اے عورتوں کے گروہ! صدقہ کیاکرو اور کثرت سے استغفار کیا کرو‘‘۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان، باب بیان نقصان الایمان بنقص الطاعات) (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ ۲۳؍اگست۲۰۰۳ء۔ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۱۸؍نومبر۲۰۰۵ء)
۲۵؍جون ۲۰۱۱ء کوجلسہ سالانہ جرمنی میں مستورات سےخطاب کرتے ہوئےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ’’پس توبہ استغفار سے ہمیں اپنے اعمال کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس مضمون کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ: وَمَنۡ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوۡبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا (الفرقان:۷۲) اور جو توبہ کرے اور نیک اعمال بجا لائے وہی ہے جو حقیقی مومن ہوتا ہے۔
پس حقیقی توبہ صرف زبانی توبہ نہیں ہے بلکہ اعمالِ صالحہ کے ساتھ اُس کو سجانے کی ضرورت ہے۔ اب جس نے حقیقی توبہ کی ہے وہ ہمیشہ اپنی غلطیوں اور کوتاہیوں کو سامنے رکھے گی۔ اس لئے کہ یہ بات اُس عمل سے اسے کراہت دلوائے گی، نفرت پیدا کرے گی اور جب کراہت پیدا ہو گی تو پھر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے صدقہ اور خیرات کی طرف توجہ ہو گی۔ وہ عمل جو خدا تعالیٰ کو نا پسندیدہ ہیں کبھی نہ کرنے کا وہ عہد بھی کرے گی۔ پھر بعض لوگ ہیں، بعض عورتیں ہیں اپنی بعض رنجشوں میں مثلاً اُن کی یہ عادت ہوتی ہے کہ دوسروں کونقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرتی ہیں۔ دلوں میں کینہ اور بُغض پنپتے رہتے ہیں۔ حقیقی توبہ یہ ہے کہ جن سے رنجشیں ہیں اُن سے نہ صرف صلح کرو بلکہ اُن کے نقصان کا ازالہ کرواور یہ ازالہ جب توبہ کے ساتھ ہو گا تو وہی نیک عمل ہو گا، وہی عملِ صالح ہو گا۔
بعض خاوند، بیویاں، ساس، بہوئیں، نندیں، بھابیاں مجھے تو خط لکھ دیتی ہیں کہ ہم سے غلطی ہو گئی اور ہم آئندہ ایسا کریں گی یا نہیں کریں گی لیکن جن کو نقصان پہنچایا ہوتا ہے یا جس کو نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے، اس سے نہ معافی مانگتی ہیں نہ اظہارِ ندامت کرتی ہیں۔ بہر حال اس طرف عورتوں کو بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور مردوں کو بھی، کیونکہ مردوں کا بھی یہی حال ہے۔ دنیاوی لالچیں اس طرح غالب آ جاتی ہیں کہ خدا کا خوف بالکل ختم ہو جاتا ہے۔ بعض دفعہ بعض لوگ ظاہری طور پر تو معذرت بھی کر لیتے ہیں لیکن بُغض اور کینہ جیسا کہ میں نے کہا اندر ہی اندر پک رہے ہوتے ہیں اور جب بھی موقع ملے پھر نقصان پہنچانے کی کوشش ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے حقیقی توبہ کو نیک عمل کے ساتھ مشروط کر دیا ہے، کہ اگر نیک عمل ہوگا تو حقیقی توبہ ہو گی۔ اگر کسی غلطی کا مداوا اور ازالہ ہو گا تو پھر ہی توبہ قبول ہو گی اور جب یہ ہو تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایسے لوگ حقیقی رنگ میں اللہ تعالیٰ کی طرف جھکنے والے ہیں۔ اس بارے میں اور جگہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ پس ہمیں ایسی توبہ اور استغفار کی ہر وقت تلاش رہنی چاہئے جو حقیقی توبہ ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتا ہے: وَاِنِّیۡ لَغَفَّارٌ لِّمَنۡ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اہۡتَدٰی (طٰہٰ:۸۳)
اور یقینا میں بہت بخشنے والا ہوں اُسے جو توبہ کرے اور ایمان لائے اور نیک عمل بجا لائے پھر ہدایت پر قائم رہے۔ اب یہاں فرمایا کہ ہدایت پر قائم رہے۔ پس مزید واضح کر دیا کہ توبہ کے ساتھ عملِ صالح ضروری ہے اور یہاں عملِ صالح کی مزید ہدایت فرما دی اور تلقین فرما دی کہ کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ میں نے خود آگے بڑھ کر صلح کر لی ہے بلکہ فرمایا کہ یہ جو ہدایت کا کام تم نے کیا ہے اگر یہ تمہارے نزدیک عملِ صالح ہے تو یہ ایک دفعہ کا عمل نہیں ہے کہ توبہ کر لی اور میں نے صلح کر لی اور معافی مانگ لی، بلکہ پھر اس پر ہمیشہ کے لئے قائم بھی رہنا ہےاورہدایت پریہ قائم رہنا تمہیں پھر خدا تعالیٰ کا قرب دلائے گا۔
پس دل صاف ہونے کا دعویٰ تبھی قابلِ قبول ہے جب اس پر قائم بھی ہو اور ہدایت پر نہ صرف قائم ہو بلکہ پھر ہر عورت کی، ہر مرد کی، ہر احمدی کی عملِ صالح ایک پہچان بن جائے اور یہ پہچان دوسروں کے لئے بھی سبق اور نمونہ ہو۔ اب ہر کوئی اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھ سکتا ہے۔ کیونکہ اگر حقیقت میں دل کو ٹٹولا جائے تو اپنے ضمیر کا فیصلہ سب سے اچھا فیصلہ ہوتا ہے بشرطیکہ دل صاف ہو، بشرطیکہ خدا تعالیٰ کا خوف ہو کہ کیا میری توبہ حقیقی ہے؟ کیا میراعملِ صالح اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے ہے؟ اور اگر ہے تو کیا میں خالصتاً للہ اب نیکیوں کو اختیارکرنے اور برائیوں کو چھوڑنے پر سختی سے قائم ہوں ؟ کچھ عرصے کے بعد جب آدمی جائزہ لیتا ہے تو پتہ لگ جاتا ہے کہ قائم ہوں کہ نہیں ہوں‘‘۔ (جلسہ سالانہ جرمنی خطاب ازمستورات فرمودہ ۲۵؍جون۲۰۱۱ءمطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۱۳؍اپریل۲۰۱۲ء)
(ماخوذ از عائلی مسائل اور ان کا حل صفحہ ۱۵۱-۱۵۶)