متفرق

الفضل کا نام اور اس کے مقاصد کے حصول کے لیے دعا

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں :الغرض جب اس طرح روپیہ کا انتظام ہو گیا تو حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓسے میں نے اخبار کی اجازت مانگی اور نام پوچھا۔ آپ نے اخبار کی اجازت دی اور نام الفضل رکھا۔ چنانچہ اس مبارک انسان کا رکھا ہوا نام ’’الفضل‘‘ فضل ہی ثابت ہوا۔ اسی زمانہ میں ’’پیغام صلح‘‘لاہور سے شائع ہوا۔ تجویز پہلے میری تھی مگر پیغام صلح الفضل سے پہلے شائع ہوا کیونکہ ان لوگوں کے پاس سامان بہت تھا۔

سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محموداحمد صاحب (مصلح موعود ؓ) نے ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء کو ہفتہ وار الفضل جاری فرمایا اور اس کے پہلے پر چہ میں اس کے مقاصد اوران کی قبولیت کے لئے دعائیں کرتے ہوئے تحریر فرمایا:’’خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہوئےاس سے نصرت و توفیق چاہتے ہوئے میں الفضل جاری کر تا ہوں …. میں بھی اپنے ایک مقتدر اور راہنما اپنے مولا کے پیارے بندے کی طرح اس بحر نا پیدا کنار میں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجز وانکسار یہ دعا کرتا ہوں کہ بِسۡمِ اللّٰہِ مَ‍‍جۡؔرٖٮہَا وَمُرۡسٰٮہَا ؕ اِنَّ رَبِّیۡ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ۔اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ اور اس کی برکت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔تحقیق میرارب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے۔اے میرے قادر مطلق خدا، اے میرے طاقتور بادشاہ، اے میرے رحمان و رحیم مالک، اے میرے رب میرے مولا، میرے ہادی، میرے رازق، میرے حافظ، میرے ستار، میرے بخشنہار، ہاں اے میرے شہنشاہ جس کے ہاتھوں میں زمین وآسمان کی کنجیاں ہیں اور جس کے اذن کے بغیر ایک ذرہ اور ایک پتہ نہیں ہل سکتا، جو سب نفعوں اور نقصانوں کا مالک ہے۔ جس کے ہاتھ میں سب چھوٹوں اور بڑوں کی پیشانیاں ہیں۔ جو پیدا کر نے والا اور مارنے والا ہے۔ جو مار کر پھر جلائے گا اور ذرہ ذرہ کا حساب لے گا۔ جو ایک ذلیل بوند سے انسان کو پیدا کرتا ہے۔ جو ایک چھوٹے سے بیج سے بڑے بڑے درخت اگا تا ہے۔ ہاں اے میرے دلدار میرے محبوب خدا تُو دلوں کا واقف ہے۔اور میری نیتوں اور ارادوں کو جانتا ہے۔ میرے پوشیدہ رازوں سے واقف ہے۔میرے حقیقی مالک میرے متولی۔تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کرنے کے لئے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادہ سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے۔ تیرے پاک رسول کے نام کے بلند کرنے اور تیرے مامور کی سچائیوں کو دنیا پر ظاہر کرنے کے لئے یہ ہمت میں نے کی ہے۔ تو میرے ارادوں کا واقف ہے۔ میری پوشیدہ باتوں کا راز دار ہے۔ میں تجھی سے اور تیرے ہی پیارے چہرہ کا واسطہ دے کر نصرت و مدد کا امیدوار ہوں۔ تو جانتا ہے کہ میں کمزور ہوں میں ناتواں ہوں۔ میں ضعیف ہوں۔ میں بیمار ہوں۔ میں تو اپنے پہلے کاموں کا بوجھ بھی اٹھا نہیں سکتا۔ پھر یہ اور بوجھ اٹھانے کی طاقت مجھ میں کہاں سے آئےگی۔ میری کمر تو پہلے ہی خم ہے۔ یہ ذمہ داریاں مجھےاور بھی کبڑا کر دیں گی۔ ہاں تیری ہی نصرت ہے جو مجھے کامیاب کرسکتی ہے۔صرف تیری ہی مدد سے میں اس کام سے عہدہ برآ ہوسکتا ہوں۔ تیرا ہی فضل ہے۔ جس کے ساتھ میں سرخرو ہوسکتا ہوں اور تیرے ہی رحم سے میں کامیابی کا منہ دیکھ سکتا ہوں۔ دین اسلام کی ترقی اور اس کی نصرت خود تیرا کام ہے اور تو ضرور اسے کر کے چھوڑے گا مگر ثواب کی لالچ اور تیری رضا کی طمع ہمیں اس کام میں حصہ لینے کے لئے مجبور کرتی ہے۔ پس اے بادشاہ ہماری کمزوریوں پر نظر کر اور ہمارے دلوں سے زنگ دُور کر۔ اسلام کی ترقی کے دن پھر آئیں اور پھر یہ درخت بارآور ہو اور اس کے شیر یں پھل ہم کھائیں اور تیرا نام دنیا میں بلند ہو تیری قدرت کا اظہار ہو۔ نور چمکے اور ظلمت دُور ہو۔ ہم پیاسے ہیں اپنے فضل کی بارش ہم پر برسا اور ہمیں طاقت دے کہ تیرے سچے دین کی خدمت میں ہم اپنا جان و مال قربان کر یں اور اپنے وقت اس کی اشاعت میں صرف کر یں۔ تیری محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں ہو اور تیرا عشق ہمارے ہر ذرہ میں سرایت کر جائے۔ ہماری آنکھیں تیرے ہی نور سے دیکھیں اور ہمارے دل تیری ہی یاد سے پر ہوں اور ہماری زبانوں پر تیرا ہی ذکر ہوتو ہم سے راضی ہو جائےاور ہم تجھ سے راضی ہوں تیرا نور ہمیں ڈھا نک لے اے میرے مولا اس مشت خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیروں میں ہوں تو آپ ہی رستہ دکھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فائدہ اٹھائیں اور اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے بھی اسے مفید بنا۔ اس کے سبب سے بہت سی جانوں کو ہدایت ہو۔ میری نیتوں کا تو واقف ہے، میں تجھے دھوکا نہیں دے سکتا۔ کیونکہ میرے دل میں خیال آنے سے پہلے تجھے اس کی اطلاع ہوتی ہے۔ پس تو میرے مقاصد و اغراض کو جانتا ہے اور میری دلی تڑپ سے آگاہ ہے لیکن میرے مولا میں کمزور ہوں اور ممکن ہے کہ میری نیتوں میں بعض پوشیدہ کمزوریاں بھی ہوں تو ان کو دور کر اور ان کے شر سے مجھے بچالے اور میری نیتوں کو صاف کر اور میرے ارادوں کو پاک کر تیری مدد کے بغیر میں کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ پس اس ناتوان وضعیف کو اپنے دروازہ سے خائب و خاسرمت پھیر یو کہ تیرے جیسے بادشاہ سے میں اس کا امید وار نہیں تو میرا دستگیر ہو جا اور مجھے تمام ناکامیوں سے بچالے۔ آمین ثم آمین ثم آمین‘‘۔(الفضل ۱۸؍جون ۱۹۱۳ء صفحہ۳)

(مرسلہ:مینیجر روزنامہ الفضل انٹرنیشنل)

مزید پڑھیں: الفضل کے اجراء کا پس منظر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button