متفرق مضامین

رسولِ مقبول حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیینﷺ کے خاکوں کی اشاعت پر ہمارے دل چھلنی اور غم زدہ ہیں

(سید شمشاد احمد ناصر۔ مبلغ سلسلہ امریکہ)

جماعت احمدیہ کے قیام کا ایک بہت بڑا مقصد دنیا میں آنحضرتﷺ اور قرآن کریم کی عظمت کو قائم کرنا ہے۔ اسی مقصد کے لیے اللہ تعالیٰ نے آخرین میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کو دنیا میں مبعوث فرمایا۔ آپؑ ایک جگہ اپنی بعثت کی غرض بیان فرماتے ہیں کہ

’’مجھے بھیجا گیا ہے تاکہ مَیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کھوئی ہوئی عظمت کو پھر قائم کروں اور قرآن شریف کی سچائیوں کو دنیا کو دکھاؤں اور یہ سب کام ہو رہا ہے لیکن جن کی آنکھوں پر پٹی ہے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتے…۔‘‘

(ملفوظات جلد 3صفحہ 9، ایڈیشن 1988ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ اور آپؑ کے خلفائے کرام نے افراد جماعت کی بھی اور تمام دنیا کی بھی بروقت ہر معاملہ میں رہ نمائی فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کے زمانے سے ہی عیسائی دنیا اوردیگر مذاہب کے پیروکاروں میں آنحضرتﷺ کی مقدس ذات پر تہمتیں لگانے اور آپؐ پر جھوٹے الزامات لگانے کا رجحان تیزی پکڑنے لگا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہر محاذ پر دین اسلام اور آنحضرتﷺ کی ذات اطہر کا دفاع کیا اور دلائل کے ساتھ ان کا جھوٹا ہونا ثابت کیا جس پر آپ کی تصانیف اور اس دور کے اخبارات و رسائل شاہد ناطق ہیں۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی تصنیف لطیف آئینہ کمالات اسلام میں فرماتے ہیں:

’’اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربّانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟ کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کر لیا۔اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمنِ رسول بن گئے اور اس قدر بدگوئی اوراہانت اوردُشنام دہی کی کتابیں نبی کریمﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننےسے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کر تے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جو ان گالیوں اور اس توہین سے جو ہمارے رسول کریم ؐکی کی گئی دُکھا۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5صفحہ 51-52)

اس وقت بھی مغربی ممالک میں آزادیٔ صحافت کے نام پر آنحضرتﷺ کی ذاتِ مقدس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اس بات سے ہم احمدیوں کے دل چھلنی اور غمزدہ ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں ایک مرتبہ پھر بہت افسوسناک حادثہ رونما ہوا۔ جس کو بیان کرنے کی نہ قلم میں اور نہ ہی زبان میں طاقت ہے۔

مغربی ممالک میں آئے دن مسلمانوں کو دکھ دینے کے لیے اس قسم کی شرارتیں کی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ ہمارے ملکوں میں آزادیٔ اظہار کی اجازت ہے اور یہ بنیادی انسانی حق ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ردعمل مسلمانوں کی طرف سے دیکھنے میں آرہا ہے وہ بھی درست نہیں۔ بطور رد عمل ایک شرپسند نے اس استاد کا سر قلم کر دیا جس نے اپنی کلاس میں نبی اکرمﷺ کے خاکے دکھانے کی مذموم حرکت کی تھی۔ یہ فعل نہ ہی اسلام کی تعلیم کے موافق ہے اور نہ ہی آنحضرتﷺ کے اسوہ کے مطابق۔

مغرب یہ چاہتا ہے کہ مسلمان اس قسم کا ردعمل دکھائیں تاکہ وہ ان پر مزید پابندیاں لگاسکیں۔ رسول کریمﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپؐ کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور ہوش کے ناخن لیے جائیں نہ یہ کہ ہم عقل اور ہوش کوکھوبیٹھیں۔

جہاں ہر سچا مسلمان اس قتل کی پرزور مذمت کرتا ہے وہاں فرانس سمیت دیگر ممالک سے اپیل کی جاتی ہے جہاں آزادی صحافت، آزادی مذہب، آزادی ضمیر کا نعرہ لگایا جاتا ہے کہ کسی بھی مذہب کے مقدس بانی کی ہتک کر کے اس سے عقیدت رکھنے والوں کا دل دکھانا چاہے وہ تھوڑی تعداد میں ہوں یا زیادہ کسی بھی صورت مناسب فعل نہیں۔

آزادی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اپنی حدود سے تجاوز کریں۔دوسروں کے احساسات ، مذہب کا احترام اور مقدس وجودوں کا احترام بہرحال ضروری اور مقدم ہے۔

اسی طرح فرانس کے ہی ایک شہر نیس میں ایک چرچ میں عبادت کے دوران حملہ ہوا اور ایک خاتون کا سر قلم کر دیا گیا۔ جس کی وجہ سے وہاں کے میئر نے اسے ’’اسلاموفاشزم‘‘ قرار دیا ہے۔ مشتبہ حملہ آور کو جب گرفتار کیا گیا تو وہ لگاتار اونچی آواز سے ’اللہ اکبر‘ کے نعرے لگا رہا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں چرچ کا ایک نگران بھی شامل ہے۔ وزیراعظم فرانس نے کہا کہ کسی شک کے بغیر یہ ہمارے ملک کو درپیش ایک انتہائی سنگین نیا چیلنج ہے۔ بی بی سی اردونے لکھا کہ فرانسیسی حکومت نے انتہا پسند اسلامی عناصر کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے۔

جواب میں ترک صدرنے فرانسیسی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا۔ پاکستان کے وزیراعظم نے بھی مغربی ممالک کے سربراہوں کو خطوط لکھے۔

بی بی سی نے اپنی 27؍اکتوبر کی اشاعت میں لکھا کہ اس وجہ سے انڈیا اور پاکستان میں صارفین دو حصوں میں بٹ گئے ہیں اور اپنے اپنے تبصرے ٹویٹ کر رہے ہیں۔

بات مزید بڑھ رہی ہے اسے یہاں ہی روکنا ہو گا اور اس کا طریق اسلامی شریعت میں پہلے سے موجود ہے۔ ضرورت صرف عمل کی ہے۔

اسلام کہیں بھی دہشت گردی کی قطعاً قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اگر اسلام کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو نبی رحمت ،نبی معصوم، حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیینﷺ نے ہر ایک کے ساتھ بلکہ دشمنوں کے ساتھ بھی رحمت کا سلوک فرمایاہے۔بس وہی طریق اختیار کرنا پڑے گا جو آپؐ کا ہے۔

یہ واقعات پہلی دفعہ رونما نہیں ہوئے۔ فروری 2006ءمیںڈنمارک اوردوسرےمغربی ممالک کے اخباروںمیں آنحضرتﷺ کے بارے میں انتہائی ناروا اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے کارٹون شائع ہونے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اس وقت بھی مسلمانوں کا ردعمل ہڑتالوں، آگیں لگانے اورمغربی ممالک کے جھنڈے جلانے کی صورت میں ظاہر ہوا۔

اس موقع پر حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے مغربی ممالک کے غیرمسلموں، آزادیٔ صحافت کے دلدادہ لوگوں اور مسلمانوں کو اسلامی تعلیم بتا کر بروقت رہ نمائی فرمائی۔آپ نے اپنے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ

’’آج کل ڈنمارک اور مغرب کے بعض ممالک میں آنحضرتﷺ کے بارے میں انتہائی غلیظ اور مسلمانوں کے جذبات کو انگیخت کرنے والے کارٹون اخباروں میں شائع کرنے پر تمام اسلامی دنیا میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ رہی ہے اور ہر مسلمان کی طرف سے اس بارے میں رد عمل کا اظہار ہو رہاہے…… اور ظاہر ہے احمدی بھی جو آنحضرتﷺ سے محبت و عشق میں یقیناً دوسروں سے بڑھا ہوا ہے کیونکہ اس کو حضرت مسیح موعودؑ کی وجہ سے حضرت خاتم الانبیاء، محمد مصطفیٰﷺ کے مقام کا فہم و ادراک دوسروں سے بہت زیادہ ہے…… لیکن جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارا رد عمل کبھی ہڑتالوں کی صورت میں نہیں ہوتا اور نہ آگیں لگانے کی صورت میں ہوتا ہے اور نہ ہی ہڑتالیں اور توڑ پھوڑ، جھنڈے جلانا اس کا علاج ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍فروری2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍مارچ2006ءصفحہ5)

حضورِ انور نے اس موقعے پر بھی فرمایا کہ احمدی کا کام ہے کہ ان دلآزار حرکتوں کے جواب میں نبی اکرمﷺ کی پاکیزہ سیرت کو زیادہ سے زیادہ دنیا کے سامنے اجاگر کریں۔

اس وقت یہ حرکات کرنے والے لوگوں نے اپنے رویہ پر معافی بھی مانگ لی۔ اس کا ذکر کرتے ہوئے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اسی خطبہ جمعہ میں فرمایا کہ

’’…جب ان لوگوں نے اپنے رویے پر معافی وغیرہ مانگ لی اور پھر مسلمانوں کا ردعمل جب سامنے آتا ہے تو اس پر باوجود یہ لوگ ظالم ہونے کے، بہرحال انہوں نے ظلم کیا ایک نہایت غلط قدم اٹھایا، اب مظلوم بن جاتے ہیں۔ تو اب دیکھیں کہ وہ ڈنمارک میں معافیاں مانگ رہے ہیں۔اور مسلمان لیڈر آڑے آئے ہوئے ہیں۔ پس ان مسلمانوں کو بھی ذرا عقل کرنی چاہئے کچھ ہوش کے ناخن لینے چاہئیں اور اپنے ردعمل کے طریقے بدلنے چاہئیں …یقینی طور پر سب سے زیادہ اس حرکت پر ہمارے دل چھلنی ہیں لیکن ہمارے ردعمل کے طریق اور ہیں۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍فروری2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍مارچ2006ءصفحہ6)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزیدفرمایا کہ

’’یہی اسلوب ہمیں حضرت مسیح موعودؑ نے سکھائے کہ اس قسم کی حرکت کرنے والوں کو سمجھاؤ۔ آنحضرتﷺ کے محاسن بیان کرو، دنیا کو ان خوبصورت اور روشن پہلوؤں سے آگاہ کرو جو دنیا کی نظر سے چھپے ہوئے ہیں اور اللہ سے دعا کرو کہ یا تو اللہ تعالیٰ ان حرکتوں سے باز رکھے یا پھر خود ان کی پکڑ کرے۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے اپنے طریقے ہیں، وہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس طریقے سے کس کو پکڑنا ہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ10؍فروری2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل3؍مارچ2006ءصفحہ7)

پھر ستمبر 2006ء میں پوپ نے بھی اسلام کے خلاف معترضانہ بیان دیا جس سے مسلمانوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور اس وقت بھی مسلمانوں نے اس قسم کا ردعمل ظاہر کیا جس کی اسلام اجازت نہیں دیتا۔

اس موقع پر بھی جماعت احمدیہ کے امام سیدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ستمبر 2006ء میں تفصیل کے ساتھ پوپ کے معترضانہ بیان پر جامع اور بھرپور تبصرہ فرمایا اور اسلام کی جبر کے خلاف اور مذہبی آزادی کے حوالے سے خوبصورت تعلیم بیان فرما کر سب کی رہ نمائی فرمائی۔ اس میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے قرآنی آیات سے استدلال فرمایا۔ نیز آنحضرتﷺ کے نمونہ اور واقعات سنا کر ثابت فرمایا کہ پوپ کے اعتراضات نہ صرف غلط بلکہ یہ سب کچھ بہتان ہے اور اس کا بطلان ثابت فرمایا۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

’’فتح مکہ کے موقع پر عکرمہ جو شدید ترین مخالف اسلام تھا اور جو فرار ہو گیا۔ جب اس کی بیوی نے اس کو واپس لانے کے لئے آپؐ سے معافی کی درخواست کی اور آپؐ نے معاف فرما دیاتو پھر ان میں ایسا انقلاب آیا جو تلوار کے زور سے نہیں لایاجاسکتا۔ ایمان میں وہ ترقی ہوئی جو بغیر محبت کے نہیں ہوسکتی۔ اخلاص سے اس طرح دل پر ہوئے جوبغیر محبت کے نہیں ہوسکتے۔ قربانی کے معیار اس طرح بڑھے جودلوں کے بدلنے کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍ستمبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍اکتوبر2006ءصفحہ7)

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مزیدفرمایا کہ

’’حضرت عمرؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تاکیدی ارشادات کے ماتحت اپنی غیرمسلم رعایا کا اس قدر خیا ل تھا کہ انہوں نے فوت ہوتے وقت خاص طورپر ایک وصیت کی جس کے الفاظ یہ تھے کہ مَیں اپنے بعد میں آنے والے خلیفہ کو نصیحت کرتاہوں کہ وہ اسلامی حکومت کی غیر مسلم رعایا سے بہت نرمی اور شفقت کا معاملہ کرے، ان کے معاہدات کو پورا کرے، ان کی حفاظت کرے، ان کے لئے ان کے دشمنوں سے لڑے اور ان پر قطعاً کوئی ایسا بوجھ یا ذمہ داری نہ ڈالے جو ان کی طاقت سے زیادہ ہو۔ (کتاب الخراج صفحہ72)‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍ستمبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍اکتوبر2006ءصفحہ7)

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے آخر پر تمام دنیا کے احمدیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:

’’مَیں ہر احمدی سے یہ کہتا ہوں کہ اسلام کے خلاف جو محاذ کھڑے ہو رہے ہیں اُن سے ہم کامیابی سے صرف خدا کے حضور جھکتے ہوئے اور اس سے مدد طلب کرتے ہوئے گزر سکتے ہیں۔ پس خدا کو پہلے سے بڑھ کر پکاریں کہ وہ اپنی قدرت کے جلوے دکھائے۔ جھوٹے خداؤں سے اس دنیا کو نجات ملے۔ آج اگر یہ لوگ اپنی امارت اور طاقت کے گھمنڈ میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر حملے کر رہے ہیں تو ہماری دعاؤں کے تیروں سے انشاء اللہ تعالیٰ ان کے گھمنڈ ٹوٹیں گے۔ پس اُس خدا کو پکاریں جو کائنات کا خدا ہے۔ جو رب العالمین ہے جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا خدا ہے تاکہ جلد تر اس واحد ولاشریک خدا کی حکومت دنیا میں قائم ہو جائے۔ مسلمان ملکوں کو بھی سوچنا چاہئے کہ اپنے فروعی اختلافات کو ختم کریں، آپس کی لڑائیوں اور دشمنیوں کو ختم کریں۔ ایک ہو کرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کو بلند کرنے کی کوشش کریں۔ اور ایسے عمل سے باز آ جائیں جن سے غیروں کو ان پر انگلی اٹھانے کی جرأت ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی مدد کرے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ15؍ستمبر2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل6؍اکتوبر2006ءصفحہ10)

موجودہ حالات میں بھی جبکہ فرانس میں یہ واقعات پیش آئے جن کا ذکر میںکر چکا ہوں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک بار پھران کی پرزور مذمت کی۔چنانچہ 29؍اکتوبر 2020ء کی پریس ریلیز میں فرمایا کہ

سموئیل پائے کا قتل اور نیس میں چرچ پر جو حملہ کیا گیا ہے اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں یہ جارحانہ حملہ اور کارروائی قطعاً اسلام کی تعلیم نہیں ہے۔ہمارا مذہبِ اسلام اس قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کسی صورت میں بھی قطعاً اجازت نہیں دیتا۔ اگر کوئی شخص اس کے برعکس دعویٰ کرتا ہے تو معلوم ہونا چاہیے کہ وہ آنحضرتﷺ کی تعلیمات اور آپؐ کے اسوہ ٔحسنہ کے بالکل خلاف ہے۔

مَیں جماعت احمدیہ عالمگیر کے مذہبی رہ نما کی حیثیت سے متاثرہ افراد کے پسماندگان سے اور فرانس کی قوم سے اظہار ہمدردی اور تعزیت کرتا ہوں اوریہ بات سب پر واضح ہونی چاہیے کہ ہمارا اس قسم کے واقعات کی مذمت کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ یہ ابتدا سے ہی ہماری پالیسی اور پوزیشن رہی ہے۔ جماعت احمدیہ کے بانی اور آپؑ کے خلفاء نے ہمیشہ ہی دہشت گردی اور نفرت انگیز باتوں کے پھیلاؤ اورایک دوسرے کے ساتھ جارحانہ کارروائی جس سے خون ریزی ہو، ہمیشہ ہی مذمت کی ہے۔

اس واقعہ نے مسلمانوں اور فرانس کے رہنے والوں کے درمیان کھچاؤ اور تناؤ کی صورت پیدا کر دی ہے جس سے امن کو نقصان پہنچا ہے۔ ہم سب کو متحد ہو کر اس دہشت گردی کے خلاف قدم اٹھانا ہو گا اور باہم محبت اور برداشت اور ایک دوسرے کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کرنا ہو گی۔ جماعت احمدیہ ہر ممکن کوشش کرے گی کہ باہمی امن قائم ہو اور اسلام کی صحیح تعلیمات سے آگاہی ہو۔(ماخوذ از پریس ریلیز)

ہمیں ان تمام واقعات پر دلی افسوس ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ مغربی ممالک آزادی کے نام پر مسلمانوں پر زیادتی نہ کریں اور اس قسم کے خاکے شائع کر کے یا آنحضرتﷺ کی مقدس ذات پر کیچڑ اچھال کر ہمارے دلوں کو زخمی نہ کریں۔ آزادی صحافت کی حدودسے تجاوز نہ کریں۔ دوسرے کے جذبات، احساسات اور مقدس وجود وں کا احترام کریں اور شرارت و فساد کے طریقوں سے باز رہیں اور حلم و آشتی، پیار و محبت میں تعاون کریں۔

اسی طرح مسلمان بھی ایساردعمل دکھائیں جو اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہو۔ ہمیں ہر قسم کے فساد، قتل و غارت اور ہر اس عمل سے باز رہنا چاہیے جس سے اسلام کے خوبصورت نام پر داغ پڑتا ہو۔ یا آنحضرتؐ کی ذات مقدسہ پر حرف آتا ہو۔ مسلمانوں کو چاہیے باتوں کا جواب تلوار سے نہ دیں۔ آنحضرتﷺ نے تو ہر قیمت پر امن کو قائم رکھنے کی کوشش اور سنت قائم فرمائی ہے۔ صلح حدیبیہ اس کی شاندار مثال ہے۔

اس وقت اکناف عالم میں مسلمان اپنی انتہا پسندی کی وجہ سے بدنام ہو رہےہیں۔ کچھ عرصہ پہلے پاکستان کی عدالت عالیہ میں ایک شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیاکیونکہ وہ شخص ان کے عقیدہ کے مطابق گستاخ رسول تھا۔ کیا یہ پاکستان میں انتہا پسندی کی مثال نہیں ؟

چرچوں کو نذر آتش کر دینا، ان کی پوری آبادی کو جلا دینا، عورتوں اور بچوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دینا، کیا یہ مذہبی انتہا پسندی نہیں ہے؟

کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کا قتل، ہندوؤں کےساتھ زیادتی کیا یہ انتہا پسندی نہیں؟

کچھ دن پہلےسوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں چند انتہا پسند نوجوانوں نے ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی تصویر پر سیاہی لگائی۔ ان کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے تھے۔

جب مسلمان کہلانے والے ممالک اقلیتوں کے ساتھ یہ سلوک کریں گےتو مغربی ممالک سے پھر مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں کیا توقع رکھ سکتے ہیں؟

مغرب کو اسلام کی خوبصورت تعلیم سمجھانے کی ضرورت ہے۔ اور وہ ان کو گولی مار کر اور قتل کر کے نہیں سمجھایا جا سکتا۔ رسول کریم خاتم النبیینﷺ کے ساتھ محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپؐ کی سنت کو زندہ کیا جائے۔ آپؐ کی تعلیم پر عمل کیا جائے۔اور ہر اس فعل سے اجتناب کیا جائےجس سے اسلام پر داغ پڑتا ہو۔

ہم سوچیں کہ ہم آپﷺ کی تعلیمات پر کتنا عمل کر رہے ہیں ؟

کیا ہم میں انتہا پسندی تو نہیں ؟

کیا ہم دوسرے مذاہب کے مقدس وجودوں کا باوجود ان سے عقائد میں اختلاف رکھنے کےاحترام کرتے ہیں؟

اگرکوئی غلط کرتا ہے تو اسے پیار اور محبت سے سمجھانا ہی عین اسلام ہے۔ ڈنڈے سے آپ دوسرے کا سر تو پھوڑ سکتے ہیں اس کے دل میں محبت پیدا نہیں کر سکتے۔ کسی کے خیالات بدلنے کے لیے اس کے سامنے بہتر خیالات پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ کیا آپ دوسروں سے اس بات کی توقع رکھتے جو خود نہیں کرتے؟ مسلمانوں کے اس ردعمل سے اسلام کی کوئی خدمت نہیں ہوتی بلکہ الٹا نقصان ہوتا ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب پیغام صلح میں فرماتے ہیں :

’’خداتعالیٰ نے قرآن شریف میں اس قدر ہمیں طریق ادب اور اخلاق کا سبق سکھلایا ہے کہ وہ فرماتا ہے کہ

وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیۡنَ یَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَیَسُبُّوا اللّٰہَ عَدۡوًۢا بِغَیۡرِ عِلۡمٍ (سورۃالانعام :109)

یعنی تم مشرکوں کے بتوں کو بھی گالی مت دو کہ وہ پھر تمہارے خدا کو گالیاں دیں گے۔ کیوں کہ وہ اس خدا کو جانتے نہیں۔ اب دیکھو کہ باوجودیکہ خدا کی تعلیم کی رو سے بُت کچھ چیز نہیں ہیں مگر پھر بھی خدا مسلمانوں کو یہ اخلاق سکھلاتا ہے کہ بتوں کی بدگوئی سے بھی اپنی زبان بند رکھو اور صرف نرمی سے سمجھاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ مشتعل ہو کر خدا کو گالیاں نکالیں اور ان گالیوں کے تم باعث ٹھہرو۔ پس ان لوگوں کا کیا حال ہے جو اسلام کے اس عظیم الشان نبی کو گالیاں دیتے اور توہین کے الفاظ سے اس کو یاد کرتے اور وحشیانہ طریقوں سے اس کی عزت اور چال چلن پر حملہ کرتے ہیں۔ وہ بزرگ نبی جس کا نام لینے پر اسلام کے عظیم الشان بادشاہ تخت سے اترتے ہیں اور اس کے احکام کے آگے سرجھکاتے اور اپنے تئیں اس کے ادنیٰ غلاموں سے شمار کرتے ہیں۔ کیا یہ عزت خدا کی طرف سے نہیں۔ خداداد عزت کے مقابل پر تحقیر کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو خدا سے لڑنا چاہتے ہیں۔ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم خدا کے وہ برگزیدہ رسول ہیں جن کی تائید اور عزت ظاہر کرنے کے لئے خدا نے دنیا کو بڑے بڑے نمونے دکھائے ہیں۔کیا یہ خدا کے ہاتھ کا کام نہیں جس میں بیس کروڑ انسانوں کا محمدی درگاہ پر سرجھکا رکھا ہے۔ اگرچہ ہر ایک نبی اپنی نبوت کی سچائی کے لئے کچھ ثبوت رکھتا ہےلیکن جس قدر ثبوت آنجناب کی نبوت کے بارے میں ہیں جو آج تک ظاہر ہو رہے ہیں۔ان کی نظیر کسی نبی میں نہیں پائی جاتی۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ 460-461)

اسی کتاب میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں :

’’جو لوگ ناحق خدا سے بے خوف ہو کر ہمارے بزرگ نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرے الفاظ سے یاد کرتے اور آنجناب پر ناپاک تہمتیں لگاتے اور بدزبانی سے باز نہیں آتے۔ ان سے ہم کیونکر صلح کریں۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ ہم شورہ زمین کے سانپوں اور بیابانوں کے بھیڑیوں سے صلح کر سکتے ہیں۔لیکن ان لوگوں سے ہم صلح نہیں کر سکتے جو ہمارے پیارے نبی پر جو ہمیں اپنی جان اور ماں باپ سے بھی پیارا ہے ناپاک حملے کرتے ہیں۔خدا ہمیں اسلام پر موت دے۔ہم ایسا کام کرنا نہیں چاہتے جس میں ایمان جاتا رہے۔‘‘

(پیغام صلح، روحانی خزائن جلد 23صفحہ459)

مغربی ممالک کی ان شرانگیز حرکتوں سے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ خاتم النبیینﷺ کی ہتک تو ہرگز نہیں ہو گی اور نہ وہ اس پر قاد رہیں۔ کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے:

إِنَّ اللّٰهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا (الاحزاب:57)

یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

اور آپؐ کی ہتک کر بھی کون سکتا ہے کیونکہ آپؐ کا نام ’’محمد‘‘ﷺ ہے۔جس کا مطلب حد درجہ تعریف کیا گیاہے۔ آپؐ کی تعریف تو قیامت تک ہوتی رہے گی۔ اور جو شخص بھی آپؐ کی ہتک، گستاخی اور آپؐ کی شان میں بدتمیزی کرے گا اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهُ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِيْنًا (الاحزاب:58)

ىقىناً وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کو اذىت پہنچاتے ہىں اللہ نے ان پر دنىا مىں بھى لعنت ڈالى ہے اور آخرت مىں بھى اور اس نے ان کے لئے رُسواکُن عذاب تىار کىا ہے۔

پس گستاخانِ رسول کا معاملہ خدا نے اپنے ہاتھ میں لیا ہوا ہے۔ ہم نے یہ دیکھنا ہے کہ ہم کہاں تک آپﷺ کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔

محمدؐ ہی نام اور محمدؐ ہی کام

علیک الصلوٰة علیک السلام

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام اور آنحضرتﷺ کی تعلیمات پر عمل کرنے کی توفیق دے۔ آمین

یَا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا

فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا وَبَعْثٍ ثَانٖ

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button