حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ فرماتے ہیں:
ہم میں سے کتنے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کو اپنے اوپر لاگو کرنے والے ہیں؟ دوسروں کو تو چھوڑیں …ہم میں سے کتنے ہیں؟ یہ جائزے لینے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے جنّوں اور انسانوں کو عبادت کے لئے پیدا کیا ہے۔ کیا ہم اپنے دنیاوی کاموں کو اپنی عبادت پر قربان کرتے ہیں یا اس کے الٹ ہے کہ ہماری عبادتیں ہمارے دنیاوی کاموں پر قربان ہو رہی ہیں؟ ایسے بھی ہیں جو اگر وقت پر نماز پڑھ بھی لیں تو گلے سے اتارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا حال تو علیحدہ ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نہیں مانا۔ ہم میں سے بھی ایسے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ لوگوں سے معاملات میں احسان کا سلوک کرو۔ لیکن بہت سے ایسے ہیں جو احسان کا سلوک تو ایک طرف رہا دوسرے کے حق مارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر ایسے بھی ہیں جو دنیا کا نقصان تو برداشت نہیں کرتے لیکن دین کا نقصان ہو رہا ہو تو برداشت کر لیتے ہیں۔ کتنے ہی ہم میں سے ایسے ہیں جو جذبات پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ ذرا ذرا سی بات پر بھڑک جاتے ہیں۔ اگر غیر یہ کریں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ یہ لوگ جاہل ہیں۔ لیکن اگر ہم میں سے کوئی ایسا کرے تو بہرحال یہ قابل افسوس بات ہے۔ پس ہر کوئی خود ان باتوں میں اپنا جائزہ لے سکتا ہے۔ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنے چاہئیں کہ اللہ تعالیٰ ایک نئی قوم زندوں کی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ پس ہم نے ان زندوں میں شامل ہونے کے لئے بیعت کی ہے اس لئے اس کا حق ادا کرنے کے لئے آپ کی باتوں پر ہمیں توجہ دینی ہو گی تا کہ زندوں کی قوم میں شامل ہو سکیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 6؍ مئی 2016ء مطبوعہ الفضل انٹر نیشنل 27؍مئی 2016ء)