خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب 04؍ فروری 2022ء
ابنِ ابی قحافہ کی مثال فرشتوں میں میکائیل کی مانند ہےیعنی حضرت ابوبکرؓ کی مثال۔ جب وہ مغفرت طلب کرتا ہے تو ان لوگوں کے لیے جو زمین میں ہیں اور انبیاء میں اس کی مثال حضرت ابراہیمؑ کی مانند ہے
سوال نمبر1: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آج کل حضرت ابوبکر صدیقؓ کا ذکر ہو رہا ہے۔
سوال نمبر3: غزوہ بنو قریظہ کے موقع پر حضرت ابوبکرؓ اورحضرت عمرفاروقؓ نے آپﷺ کی خدمت میں کیا تجویز پیش کی اور اس پرآپﷺ نے کیا فرمایا؟
جواب: فرمایا: عبدالرحمٰن بن غنمؓ روایت کرتے ہیں کہ جب رسول اللہﷺ بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوئے تو حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ نے آپؐ کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہؐ ! لوگ اگر آپؐ کو دنیاوی زینت والے لباس میں دیکھیں گے تو ان میں اسلام قبول کرنے کی خواہش زیادہ ہو گی۔ پس آپؐ وہ حلّہ زیب تن فرمائیں جو حضرت سعد بن عبادہؓ نے آپؐ کی خدمت میں پیش کیا تھا۔ پس آپﷺ اسے پہنیں تا کہ مشرکین آپؐ پر خوبصورت لباس دیکھیں۔ آپﷺ نے فرمایا میں ایسا کروں گا۔ اللہ کی قسم!اگر تم دونوں میرے لیے کسی ایک امر پر متفق ہو جاؤتومیں تمہارے مشورے کے خلاف نہیں کرتااور میرے رب نے میرے لیے تمہاری مثال ایسی ہی بیان کی ہے جیسا کہ اس نے ملائک میں سے جبرئیل اور میکائیل کی مثال بیان کی ہے۔ جہاں تک ابنِ خطاب ہیں تو ان کی مثال فرشتوں میں سے جبرئیل کی سی ہے۔ اللہ نے ہر امّت کو جبرئیل کے ذریعہ ہی ہلاک کیا ہے اور ان کی مثال انبیاء میں سے حضرت نوح کی سی ہے جب انہوں نے کہا رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْاَرْضِ مِنَ الْكٰفِرِینَ دَیَّارًا (نوح: 27)اورابنِ ابی قحافہ کی مثال فرشتوں میں میکائیل کی مانند ہےیعنی حضرت ابوبکرؓ کی مثال۔ جب وہ مغفرت طلب کرتا ہے تو ان لوگوں کے لیے جو زمین میں ہیں اور انبیاء میں اس کی مثال حضرت ابراہیمؑ کی مانند ہے جب انہوں نے کہا فَمَنْ تَبِعَنِی فَاِنَّهٗ مِنِّی وَ مَنْ عَصَانِی فَاِنَّكَ غَفُوْرٌ رَّحِیمٌ(ابراہیم: 37)۔
سوال نمبر4: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت سعد بن معاذؓ کی کونسی دعا کا ذکر فرمایا اوروہ دعا کس طرح پوری ہوئی؟
جواب: فرمایا: حضرت سعد بن معاذؓ نے جب بنو قریظہ کے متعلق فیصلہ کیا تو رسول اللہﷺ نے ان کی تعریف کی اور فرمایا کہ تم نے اللہ کے حکم کے مطابق فیصلہ کیا ہے۔ اس پر حضرت سعدؓ نے دعا کی کہ اے اللہ! اگر تُو نے آنحضرتﷺ کی قریش کے ساتھ کوئی اور جنگ مقدر کر رکھی ہے تو مجھے اس کے لیے زندہ رکھ اور اگر آنحضرتﷺ اور قریش کے درمیان جنگ کا خاتمہ کر دیا ہے تو مجھے وفات دے دے۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ ان کا زخم کھل گیا حالانکہ آپؓ تندرست ہو چکے تھے اور اس زخم کا معمولی نشان باقی رہ گیا تھا اور وہ اپنے خیمے میں واپس آ گئے جو رسول اللہﷺ نے ان کے لیے لگوایا تھا۔ حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اور حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ ان کے پاس تشریف لائے اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اس کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمدﷺ کی جان ہے کہ مَیں حضرت عمرؓ کے رونے کی آواز کو حضرت ابوبکرؓ کے رونے کی آواز سے الگ پہچان رہی تھی جبکہ مَیں اپنے حجرے میں تھی۔ یعنی اس وقت جب حضرت سعدؓ کی نزع کی کیفیت طاری ہوئی، تو یہ دونوں رو رہے تھے۔ میں اپنے حجرے میں تھی اور وہ ایسے ہی تھے جیسےکہ اللہ عز وجل نے فرمایا ہے رُحَمَآءُ بَیْنَہُمْ(الفتح: 30)۔
سوال نمبر5: صلح حدیبیہ کب ہوئی؟
جواب: ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ ہوئی۔
سوال نمبر6: صلح حدیبیہ کے موقع پرحضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہﷺ کو کیا مشورہ دیا؟
جواب: فرمایا: جب رسول اللہﷺکو معلوم ہوا کہ کفارِ مکہ نے آپﷺ کو مکہ میں داخل ہونے سے روکنے کی تیاری کر لی ہے تو آپﷺ نے صحابہ سے مشورہ طلب کیا۔ حضرت ابوبکرؓ نے مشورہ دیتے ہوئے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ ! ہم تو محض عمرے کے لیے آئے ہیں ہم کسی سے لڑنے نہیں آئے۔ میری رائے یہ ہے کہ ہم اپنی منزل کی طرف جائیں۔ اگر کوئی ہمیں بیت اللہ سے روکنے کی کوشش کرے گا تو ہم اس سے لڑائی کریں گے۔
سوال نمبر7: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے صلح حدیبیہ میں عروہ اورحضرت ابوبکرؓ کے درمیان مکالمےکی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے لکھا ہے کہ عروہ آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا اورآپؐ کے ساتھ گفتگو شروع کی۔ آپؐ نے اس کے سامنے اپنی وہی تقریر دہرائی جو اس سےقبل آپؐ بُدَیل بن وَرْقَا کے سامنے فرماچکے تھے۔ عُروہ اصولاً آنحضرتﷺ کی رائے کے ساتھ متفق تھا مگر قریش کی سفارت کاحق ادا کرنے اوران کے حق میں زیادہ سے زیادہ شرائط محفوظ کرانے کی غرض سے کہنے لگا۔ اے محمد(ﷺ )! اگر آپؐ نے اس جنگ میں اپنی قوم کو ملیا میٹ کردیا تو کیاآپؐ نے عربوں میں کسی ایسے آدمی کا نام سنا ہے جس نے آپؐ سے پہلے ایسا ظلم ڈھایا ہو لیکن اگر بات دگرگوں ہوئی یعنی قریش کو غلبہ ہو گیا توخدا کی قسم! مجھے آپؐ کے اردگرد ایسے منہ نظر آرہے ہیں کہ انہیں بھاگتے ہوئے دیر نہیں لگے گی اور یہ سب لوگ آپ کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔ حضرت ابوبکرؓ جو اس وقت آنحضرتﷺ کے پاس ہی بیٹھے تھے عروہ کے یہ الفاظ سن کر غصہ سے بھر گئے اورفرمانے لگے جاؤ جاؤ اورلات کو، یعنی اُن کا بت جو لات ہے، اس کو چومتے پھرو۔ کیا ہم خدا کے رسول کوچھوڑ جائیں گے؟ حضرت ابوبکرؓ کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگ بت پرست ہو اور ہم لوگ خدا پرست ہیں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ تم تو بتوں کی خاطر صبر و ثبات دکھاؤ اور ہم خدا پر ایمان لاتے ہوئے رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر بھاگ جائیں۔ عروہ نے طیش میں آکر پوچھا یہ کون شخص ہے جو اس طرح میری بات کاٹتا ہے؟ لوگوں نے کہایہ ابوبکرؓ ہیں۔ ابوبکر کا نام سن کر عروہ کی آنکھیں شرم سے نیچی ہو گئیں۔ کہنے لگا اے ابوبکرؓ ! اگر میرے سرپر تمہارا ایک بھاری احسان نہ ہوتا۔ حضرت ابوبکرؓ نے ایک دفعہ اس کا قرض ادا کر کے اس کی جان چھڑائی تھی۔ تو خدا کی قسم میں تمہیں اس وقت بتاتا کہ ایسی بات کاجو تم نے کہی ہے کس طرح جواب دیتے ہیں۔
سوال نمبر8: حضرت ابو جندلؓ کے قریش کو واپس کرنے پرحضرت عمرؓ نے رسول اللہﷺ کےساتھ کیا گفتگو کی؟
جواب: فرمایا: صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضرتﷺ کے ساتھ قریش کا معاہدہ ہو رہا تھا اور شرائط طے پا چکی تھیں۔ اس وقت حضرت ابوجندل جو کہ سُہَیل بن عَمرو کے بیٹےتھے اپنی زنجیروں میں لڑکھڑاتے ہوئے آئے۔ سُہَیل بن عَمرو نے جو مکہ کی طرف سے بطور سفیر آئے تھے اس نے ان کو واپس کرنے کا مطالبہ کیا۔ آنحضورﷺ نے اس کو قریش کو واپس کر دیا…’’مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے‘‘ابوجندل سے زیادتی کا ’’اورمذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگررسول اللہﷺ کے سامنے سہم کر خاموش تھے۔ آخر حضرت عمرؓ سے نہ رہا گیا۔ وہ آنحضرتﷺ کے قریب آئے اورکانپتی ہوئی آواز میں فرمایا۔ کیا آپؐ خدا کے برحق رسول نہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں ضرور ہوں۔ عمرؓ نے کہاکیا ہم حق پرنہیں اورہمارا دشمن باطل پر نہیں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ہاں ضرورایسا ہی ہے۔ عمرؓ نے کہا تو پھر ہم اپنے سچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟ آپؐ نے حضرت عمرؓ کی حالت کودیکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا۔ دیکھو عمر! میں خدا کا رسول ہوں اور میں خدا کی منشاء کو جانتا ہوں اوراس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے مگر حضرت عمرؓ کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا۔ کہنے لگے کیا آپؐ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کاطواف کریں گے؟ آپؐ نے فرمایا ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہو گا؟ عمرؓ نے کہانہیں ایسا تو نہیں کہا۔ آپؐ نے فرمایاتو پھر انتظار کرو۔ تم ان شا اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے۔ مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمرؓ کی تسلی نہیں ہوئی لیکن چونکہ آنحضرتﷺ کا خاص رعب تھا اس لئے حضرت عمرؓ وہاں سے ہٹ کر حضرت ابوبکرؓ کے پاس آئے اوران کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش کی باتیں کیں۔ اور حضرت ابوبکرؓ نے بھی اسی قسم کے جواب دئے مگر ساتھ ہی حضرت ابوبکرؓ نے نصیحت کے رنگ میں فرمایادیکھو عمر سنبھل کر رہو۔ رسولِ خدا کی رکاب پرجو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دینا کیونکہ خدا کی قَسم! یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہرحال سچا ہے۔ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ توگیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اورمیں توبہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کودھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجا لایا۔ ‘‘
سوال نمبر9: صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صلح نامہ لکھا گیا تواس موقع پر مسلمانوں کی طرف سے کونسے گواہ تھے؟
جواب: فرمایا: ذوالقعدہ چھ ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر جب صلح نامہ لکھا گیا تو اس معاہدے کی دو نقلیں تیار کی گئیں اور بطور گواہ کے فریقین کے متعدد معززین نے ان پراپنے دستخط کیے۔مسلمانوں کی طرف سے دستخط کرنے والوں میں سے حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ، حضرت سعد بن ابی وقاصؓ، حضرت ابوعبیدہ بن جراحؓ تھے۔
سوال نمبر10: سریہ بنو فزارہ کب ہوا؟
جواب: فرمایا: یہ سریہ چھ ہجری میں ہوا ہے۔ بنو فَزَارَہ نَجْد اور وادِی الْقُریٰ میں آباد تھے۔
سوال نمبر11: حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خیبر کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: رسول اللہﷺ ماہ محرم سات ہجری میں خیبر کی طرف روانہ ہوئے۔ خیبر ایک نخلستان ہے جو مدینہ منورہ سے ایک سو چوراسی کلو میٹر شمال میں واقع ہے۔ یہاں ایک آتش فشانی چٹانوں کا سلسلہ ہے۔ یہاں یہود کے بہت سے قلعے تھے جن میں سے بعض کے آثار اب بھی باقی ہیں۔ ان قلعوں کو مسلمانوں نے غزوۂ خیبر میں فتح کیا تھا۔ یہ علاقہ نہایت زرخیز اور یہود کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ آپﷺ نے اپنے بعد مدینہ پر سِبَاعْ بن عُرْفُطَہ غِفَارِی کو امیر مقرر کیا۔
سوال نمبر12: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے قلعہ قموص کی فتح کے حوالہ سےکیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: تاریخ و سیرت کی اکثر کتب میں یہی ملتا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو یکے بعد دیگرے امیر لشکر بنایا گیا تھا لیکن ان کے ہاتھ سے قلعہ فتح نہ ہو سکا۔ البتہ ایک کتاب ہے جس کا نام’’سیدنا صدیقِ اکبر‘‘ہے۔ اس میں مصنف نے لکھا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ سے وہ قلعہ فتح ہوا تھا لیکن اس نے کوئی حوالہ نہیں دیا۔ بہرحال مصنف لکھتا ہے کہ ایک قلعہ کی فتح کے لیے حضرت ابوبکرؓ ا میرِ لشکر ہو کر گئے جو آپؓ کے ہاتھ پر فتح ہوا۔ دوسرے قلعہ پر حضرت عمرؓ کو مقرر کیا گیا وہ بھی کامیاب ہوئے۔ تیسرے قلعہ کو سر کرنے کی مہم محمد بن مَسْلَمہؓ کے سپرد ہوئی لیکن وہ اس میں کامیاب نہ ہوئے تو حضورﷺ نے فرمایا صبح میں ایسے شخص کو امیر لشکر بنا کر عَلم دوں گا جو خدا اور اس کے رسول کو بہت دوست رکھتا ہے اور اس کے ہاتھ سے قلعہ فتح ہو گا۔ چنانچہ حضرت علیؓ کو عَلم عنایت ہوا اور قلعہ قَمُوْصفتح ہوا۔
سوال نمبر13: سریہ حضرت ابوبکر بطرف نجد کب ہوا؟
جواب: یہ سریہ شعبان سات ہجری میں ہوا۔
سوال نمبر14: غزوہ فتح مکہ کب ہوا؟
جواب: غزوہ فتح مکہ رمضان آٹھ ہجری میں ہوا۔
سوال نمبر15: حضرت مصلح موعودؓ نے غزوہ فتح مکہ کی تیاری کے حوالہ سے کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں کہ رسول کریمﷺ نے اپنی ایک بیوی سے کہا کہ میر ا سامانِ سفرباندھنا شروع کرو۔ انہوں نے رختِ سفر باندھنا شروع کیا اور حضرت عائشہؐ سے کہاکہ میرے لیے ستّو وغیر ہ یا دانے وغیرہ بھون کر تیار کرو…دوتین دن کے بعد آپؐ نے حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بلایا اور کہا دیکھو تمہیں پتہ ہے خُزَاعہ کے آدمی اس طرح آئے تھے اور مجھے خدا نے اِس واقعہ کی پہلے سے خبر دے دی تھی کہ انہوں نے غداری کی ہے اور ہم نے ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے۔ اب یہ ایمان کے خلاف ہے کہ ہم ڈر جائیں اور مکہ والوں کی بہادری اور طاقت دیکھ کر ان کے مقابلہ کے لیے تیار نہ ہو جائیں۔ تو ہم نے وہا ں جانا ہے تمہاری کیا رائے ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے کہا۔ یارسول اللہؐ ! آپ نے تو ان سے معاہدہ کیا ہوا ہے اور پھر وہ آپؐ کی اپنی قوم ہے۔ مطلب یہ تھا کہ کیا آپؐ اپنی قوم کو ما ریں گے؟ حضورﷺ نے فرمایا۔ ہم اپنی قوم کو نہیں ماریں گے۔ معاہدہ شکنوں کو ماریں گے۔ پھر حضرت عمرؓ سے پوچھا۔ توانہوں نے کہا۔ بسم اللہ میں تو روز دعائیں کیا کرتا تھا کہ یہ دن نصیب ہو اور ہم رسو ل اللہﷺ کی حفاظت میں کفار سے لڑیں۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا۔ ابوبکر بڑا نرم طبیعت کاہے مگر قولِ صادق عمرؓ کی زبان سے زیادہ جاری ہوتا ہے۔ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ تیاری کرو۔ پھر آپؐ نے ارد گرد کے قبائل کو اعلان بھجوایا کہ ہر شخص جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہے وہ رمضان کے ابتدائی دنوں میں مدینہ میں جمع ہو جائے۔ چنا نچہ لشکر جمع ہونے شروع ہوئے اور کئی ہزار آدمیوں کا لشکر تیا ر ہو گیا اور آپؐ لڑنے کے لیے تشریف لے گئے۔ جب رسول کریمﷺ نکلے تو آپؐ نے فرمایا اےمیرے خدا! میں تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو مکہ والوں کے کانوں کو بہرا کر دے اور ان کے جاسوسوں کو اندھا کر دے۔ نہ وہ ہمیں دیکھیں اور نہ ان کے کانوں تک ہماری کوئی بات پہنچے۔ چنانچہ آپؐ نکلے۔ مدینہ میں سینکڑوں منافق موجود تھے لیکن دس ہزار کا لشکر مدینہ سے نکلتا ہے اور کوئی اطلاع تک مکہ میں نہیں پہنچتی۔ یہ اللہ تعالیٰ کے کام تھے۔
سوال نمبر16: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے ابو سفیان کے ایمان لانے کا کیا واقعہ بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: مسلمانوں کا قافلہ عشاء کے وقت مَرُّالظَّہْرَان میں اترا۔ آپؐ نے اپنے صحابہ کو حکم دیا تو انہوں نے دس ہزار جگہ آگ روشن کی۔ قریش کو آپؐ کی روانگی کی خبر نہیں پہنچی…جب یہ قافلہ وہاں ٹھہر گیا اور دس ہزار جگہوں پر آگ روشن ہو گئی تو قریش نے ابوسفیان کو بھیجا کہ وہ حالات معلوم کرے۔ انہوں نے کہا اگر تُو محمدﷺ سے ملے تو ہمارے لیے ان سے امان لے لینا۔ ابو سفیان بن حَرْب، حکیم بن حِزَام اور بُدَیل بن وَرْقَاءروانہ ہوئے۔ جب انہوں نے لشکر دیکھا تو سخت پریشان ہو گئے۔ رسولﷺ نے اس رات پہرے پر حضرت عمرؓ کو نگران مقرر فرمایا۔ حضرت عباسؓ نے ابوسفیان کی آواز سنی تو پکار کر کہا کہ ابوحَنْظَلَہ، یہ ابوسفیان کی کنیت ہے، اس نے کہا لبیک۔ یہ تمہارے پیچھے کیا ہے؟ ابوسفیان نے حضرت عباسؓ سے پوچھا کہ تمہارے پیچھے کیا ہے؟ انہوں نے کہا یہ دس ہزار کے ساتھ رسول اللہﷺ ہیں۔ حضرت عباسؓ نے اسے پناہ دی۔ اسے اور اس کے دونوں ساتھیوں کو آنحضورﷺ کی خدمت میں پیش کیا۔ تینوں اسلام لے آئے۔
٭…٭…٭