عالمی امن کا حقیقی پیامبر
اللہ تعالیٰ نے تو حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے اُس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مضبوط ہوتا ہے
اسلام وہ عظیم مذہب ہے جو امن و سلامتی، محبت اور انسانی حقوق کی پاسداری کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام کے امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ خداوند تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لیےنام ہی ’’اسلام‘‘ پسند کیا۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے محض ’’امن و سلامت‘‘ ہے۔ لہٰذا اسلام وہ واحد مذہب ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام نے ہمیں روحانیت، اخلاق انسانی، حقوق بشریت اور احترام انسانیت کا درس دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں ظلم اور ظالم کے خلاف کھڑا ہونے کا حوصلہ و جذبہ دیا ہے۔ اسلام نے ہمیں مشکلات پر صبر کرنے کا درس دیا ہے۔ آج پوری دنیا امن اور انسانی حقوق کے نام پر اکٹھی ہو رہی ہے لیکن ہم فرقہ واریت، نسلی و لسانی و علاقائی تعصبات، انتہا پسندی، دہشتگردی، جنونیت، پسماندگی اور جہالت جیسی بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ ہم نے مذہب کے پیغام کو بھلا کر اپنے اوپر مذہبی ہونے کی مہر تو لگوا لی، لیکن اس مہر کے ساتھ ہم نے امن و سلامتی کی بجائے شدت پسندی کو ترجیح دی، ہم نے محبت کی بجائے نفرت کو ترجیح دی۔آج دنیا ایک عجیب اضطراب اور بے چینی کا شکار ہے۔ کہیں مالیاتی بحران سر اُٹھا رہے ہیں تو کہیں قوم پرستی کی تحریکیں ملکوں کو خانہ جنگی کی طرف دھکیل رہی ہیں۔ کہیں سُپرپاورز کہلانےوالے ممالک اپنے زعم میں طاقت کےزور پر اپنے مطالبات منوانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور متاثر ہونے والے ممالک ان کو آنکھیں دکھا رہے ہیں۔ بین الاقوامی تعلقات میں باہم اعتماد اور ہم آہنگی کا فقدان نظر آرہا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔وَ اعۡتَصِمُوۡا بِحَبۡلِ اللّٰہِ جَمِیۡعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوۡا (آلِ عمران آیت 104)کہ اے مومنو ! اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑ لواور تفرقہ نہ کرو۔اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ساری دنیا کی ہدایت اور وحدت کا ذریعہ حبل اللہ کی صورت میں اتارا ہے۔ حبل اللہ سے مراد دینِ اسلام اور محمد رسول اللہﷺ کا مقدس وجود بھی ہے اور مسیح پاک ؑ کا وجود بھی جن کو آنحضرت ﷺ کی غلامی میں ساری دنیا کے لیےمبعوث کیا گیا۔ پھر اس سے مراد خلافت احمدیہ بھی ہے جس کے ساتھ ایک مضبوط تعلق ہماری ترقی، وحدت اور نجات کا وسیلہ ہے۔ خدا تعالیٰ کی نازل کردہ اس رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور پکڑے رکھنا ہمارا فرض ہے۔
آج کی تاریخ میں ہم نہایت ہی خوش قسمت ہیں کہ روئے زمین پر خدا کی سب سے برگزیدہ ہستی مسیح آخرالزماں کا خلیفہ ہمارے درمیان موجود ہے۔ملت اسلامیہ کے بارے میں شب وروزسوچنے والا، عالم اسلام کی زبوں حالی، ساری ساری رات جاگ کر ان کربناک واقعات کی سوچوں میں مستغرق رہنے والا پاکیزہ وجود جو ہر رات اللہ تعالیٰ کے سامنے رو رو کر عالم اسلام کی سلامتی، خوشحالی، ترقی اور ماضی کی رفعت شان کی دعائیں مانگتا ہے، وہ ہر وقت اللہ تعالیٰ کے سامنے مسلمانوں کی بقا اور باہمی اتحاد کے لیےگڑگڑاتا ہے، آج خدا کا یہ نائب ہی اسلام کی کشتی کو حالات کے مہیب بھنور سے نکال سکتا ہے اور یہی پیارا وجود ہر روز ہماری راہنمائی کرتا ہے کہ عالم اسلام کو کس قسم کے فکری، علمی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور روحانی انقلاب کے ذریعے درخشاں اور تابناک مستقبل دیا جا سکتا ہے۔ اس دورِ آخرین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ زمانہ ایسا ہے کہ سوشل میڈیا اور باہم رابطہ کے وسائل کی ہمہ گیر وسعت کی وجہ سے ساری دنیا ایک مٹھی میں سمٹ کر GLOBAL VILLAGEکی صورت اختیار کرچکی ہے۔ قرآنی پیشگوئی وَإِذَا النُّفُوسُ زُوِّجَتْ (سورۃ التکویر8) کا کامل ظہور ہماری نظروں کے سامنے ہے۔ زمانہ کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے فرمایا ہے :’’اِس زمانہ کے لئے ایسے سامان میسر آگئے ہیں جو مختلف قوموں کو وحدت کا رنگ بخشتے جاتے ہیں۔‘‘ (چشمۂ معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 76)
پس یہ مبارَک دورِ خلافتِ خامسہ جس میں موجود ہونے کی سعادت ہم سب کو حاصل ہے۔ اِس دور میں جس کثرت اور وسعت سے اسلام کی اشاعت اکنافِ عالم میں ہورہی ہے وہ ہر لحاظ سے بے مثل اور یکتا ہے۔حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ نے جس کثرت سے ساری دنیا میں امن کے پیغام کی اشاعت اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب میں اسلام کے عافیت بخش پیغام کی منادی کی ہے اس کا اتنا گہرا تاثر قائم ہوا ہے کہ اب اِن ملکوں میں حضور انور کو امن کے سفیر کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے اور دنیا کے سربراہان میں یہ فکری وحدت پختہ تر ہوتی جارہی ہے کہ اگر دنیا میں واقعی امن قائم کیا جاسکتا ہے تو اُن نظریات کو اپنانے سے ہی ممکن ہے جو حقیقی اسلام پیش کرتا ہےاور جن کی منادی حضرت امام جماعت احمدیہ کی زبان سے ہو رہی ہے۔ سربراہان مملکت اور دنیا کے دانشوروں پر یہ بات اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے روشن ترہوتی جارہی ہے اور اب تو وہ برملا اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ حقیقی اسلام وہی ہے جو جماعت احمدیہ پیش کرتی ہے۔ اس سلسلہ میں غیر مسلم عمائدین کے اعترافات کا باب بہت وسیع ہے۔ ان میں سے ایک مثال پیش کرتا ہوں جو اس بات پر شاہدِ ناطق ہے کہ خلیفۂ وقت کی زبانِ مبارک سے بیان کردہ نظریات دنیا کے دلوں کو فتح کرتے چلے جارہے ہیں۔
2012ءمیں حضور انور نے برسلز میں یورپین پارلیمنٹ سے خطاب فرمایا۔ اس موقع پر Bishop Dr Amen Howard جنیوا (سوئٹزرلینڈ) سے حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کے خطاب میں شمولیت کے لیے آئے تھے، موصوف انٹرفیتھ انٹرنیشنل کے نمائندہ اورایک رفاہی تنظیم Feed a Familyکے بانی صدر بھی ہیں۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار جن الفاظ میں کیا وہ توجہ سے سننے والے ہیں۔ انہوں نے کہا:’’یہ شخص جادوگر نہیں لیکن ان کے الفاظ جادوکا سا اثر رکھتے ہیں۔ لہجہ دھیما ہے لیکن ان کے منہ سے نکلنے والے الفاظ غیر معمولی طاقت، شوکت اور اثر اپنے اندر رکھتے ہیں۔ اس طرح کا جرأت مند انسان میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا۔ آپ کی طرح کے صرف تین انسان اگر اِس دنیا کو مل جائیں تو امن عامہ کے حوالے سے اِس دنیا میں حیرت انگیز انقلاب مہینوں نہیں بلکہ دِنوں کے اندر برپا ہوسکتا ہے اور یہ دنیا امن اور بھائی چارہ کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ میں اسلام کے بارہ میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا تھا۔ اب حضور کے خطاب نے اسلام کے بارے میں میرے نقط ٔنظر کو کلیتہً تبدیل کر دیا ہے۔‘‘(بحوالہ احمدیہ گزٹ کینیڈامئی 2018ء صفحہ 20)
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کی ایک صفت ’’السلام‘‘بیان ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبہ والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے اور کبریائی والا ہے۔(الحشر: 24)یعنی حقیقی مومن کے لیے خدا تعالیٰ کی ذات ہی امن وسلامتی کا منبع و مرکز ہے۔ خداتعالیٰ کی ذات حقیقی اور دائمی امن کا ذریعہ ہے۔ اسی چشمۂ امن وسلامتی سے مومن کی روح کو سکون اور اطمینان نصیب ہوتا ہے۔ اس دَر سے دُوری امن و سلامتی سے دُوری ہے۔ جو اس امن وسلامتی کے چشمہ سے اپنی سیرابی کے سامان حاصل نہیں کرتا اسے کبھی حقیقی امن و سکون نصیب نہیں ہوسکتا۔سورة النور میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے خلافت کا جہاں وعدہ فرمایا ہے وہیںوَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًامیں اس بات کی ضمانت بھی دی تھی کہ خدا کا یہ خلیفہ ہر خوف کی حالت کو امن میں تبدیل کرنے کےلیے کوشاں رہے گا۔ اور جب کبھی بھی امت مسلمہ پر خوف کے آثار نمایاں ہونے لگیں گے، خدا کا یہ فرستادہ مسلمانوں کی رہ نمائی کرے گا۔خلافت احمدیہ پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس بات کا اندازہ بخوبی ہوجا تا ہے کہ کس طرح خلفائے مسیح موعودؑ مخلوقِ خدا کی دادرسی کرتے ہیں اور حقوق کی بابت کہیں وہ کسی بادشاہ یا حاکم وقت کو راہ نمائی فراہم کرتے دکھائی دیتے ہیں توکہیں پارلیمان میں خطاب کے ذریعہ اقوام عالم کو ظلم سے روکنے اور ہدایت کی طرف گامزن کرنے کےلیے کوشاںہیں۔ کبھی اپنے خطبات میں مسلمانوں کو اصلاح اور آئندہ کے لائحہ عمل کی بابت آگاہی فراہم کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں اپنے خطوط کے ذریعہ اسی امن کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کےلیے کوشاں۔حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دنیا بھر کے حکمرانوں کو درپیش عالمی خطرات کے تناظر میں قیام امن کی خاطر سنجیدہ تعاون اور جدو جہدکے لیےخطوط لکھنے کا اہتمام فرمایا۔یہ خطوط 1۔پوپ بینیڈکٹ 2۔اسرائیل کے وزیر اعظم، 3۔صدر اسلامی جمہوریہ ایران، 4۔صدر ریاست ہائے متحدہ امریکہ، 5۔وزیر اعظم کینیڈا، 6۔خادم حرمین شریفین سعودی عرب کے بادشاہ، 7۔عوامی جمہوریہ چین کے وزیراعظم، 8۔وزیراعظم برطانیہ، 9۔جرمنی کی چانسلر، 10۔صدر جمہوریہ فرانس، 11۔ملکہ برطانیہ، 12صدر روسی فیڈریشن، 13۔ایران کے مذہبی راہنما آیت اللہ خامنائی کی خدمت میں تحریر کیے گئے۔ان خطوط کو بہت قدر اور احترام کی نظر سے دیکھا گیا اور ان کے دور رس اثرات پیداہوئے جس پر زمانہ شاہد ہے۔حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےدنیا بھر کے مذہبی و سیاسی راہنماؤں اور عالمی طاقتوں کو خطوط لکھ کرجو زرِّیں اصول پیش فرمائے وہ دنیا کے ہر ملک و قوم کو امن کی راہ دکھا سکتے ہیں۔ آپ کے خطوط کا مرکزی نقطہ وہ دعائیں اور نیک تمنائیں تھیں جنہیں بار بار دہراتے ہوئے آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور التجاء کی :’’میں دعاگو ہوں کہ ہم سب اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے دُنیا کو امن اور پیار کا گہوارہ بنائیں اور اپنے خالق کو پہچاننے میں اپنا کردار ادا کریں۔‘‘(ملکہ برطانیہ کے نام خط،عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ 234)
آپ نے دنیا میں امن وآشتی کے فروغ کےلیےجو بصیرت افروزمنصوبہ پیش فرمایا اس کے زریں اصول درج ذیل ہیں:
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں’’امن عالم کو تباہ کرنے میں ایک بڑا عنصر یہ ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ وہ دانا، تعلیم یافتہ اور آزاد خیال ہیں۔ لہٰذا انہیں بانیان مذاہب کی تحقیر اور تذلیل کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ معاشرتی امن کے قیام کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہر شخص دل سے تمام کدورتیں نکال کر برداشت کے معیار کو بڑھائے۔ایک دوسرے کے انبیاء کی تکریم و تعظیم کے احترام میں اُٹھ کھڑا ہونے کی ضرورت ہے۔ دنیا جس بے چینی اور اضطراب کے دور سے گزر رہی ہے وہ اس بات کا متقاضی ہے کہ پیار اور محبت کی فضا قائم کی جائے۔ ہم اپنے ماحول میں باہمی محبت و اخوت کے پیغام کو فروغ دیں اور یہ کہ ہم پہلے سے بڑھ کر رواداری کے ساتھ بہتر انداز میں رہنا سیکھیں اور انسانی اقدار کو مقدم رکھیں۔‘‘(پوپ بینیڈکٹ کے نام خط،عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ152)
٭…’’میری آپ سے درخواست ہے کہ دنیا کو جنگ کے دہانہ پر پہنچانے کی بجائے اپنی انتہائی ممکنہ کوشش کریں کہ انسانیت عالمی تباہی سے محفوظ رہے۔ باہمی تنازعات کو طاقت کے استعمال سے حل کرنے کی بجائے گفت و شنید اور مذاکرات کا راستہ بنائیں تاکہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تابناک مستقبل مہیا کرسکیں نہ یہ کہ ہم انہیں معذوریوں کا تحفہ دینے والے ہوں۔‘‘(اسرائیلی وزیر اعظم کے نام خط،عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ 160)
٭…’’پس عالمی راہنماؤں کو اور خصوصاً آپ کو دوسروں پر بزورِ بازو حکومت کرنے اور کمزوروں کو دبانے کا تاثر ختم کرنا چاہئے اور اس کے بالمقابل امن وانصاف کے قیام اور ترویج کی کوششوں میں مصروف ہوجانا چاہئے۔ ایسا کرنے سے آپ خود بھی امن میں آجائیں گے، آپ کو استحکام نصیب ہوگا اور دنیا میں بھی امن قائم ہوجائے گا۔‘‘(اسرائیلی وزیر اعظم کے نام خط،عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ161)
٭…’’آج عالمی حالات پر نظر ڈالنے والا جان سکتا ہے کہ ایک نئی عالمی جنگ کی بنیادرکھی جا چکی ہے۔ دنیا کے کئی چھوٹے بڑے ممالک ایٹمی اثاثوں کے مالک ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کی باہمی دشمنیاں، کینے اورعداوتیں اپنے عروج پر ہیں۔اس گھمبیر صورت حال میں تیسری عالمی جنگ کے بادل ہمار ے سروں پر منڈلا رہے ہیں اور ایسی جنگ میں ضرور ایٹمی ہتھیار بھی استعمال ہوں گے۔ گویا یقیناً ہم خطرناک تباہی کے دہانہ پر کھڑے ہیں۔ اگر جنگ عظیم دوم کے بعد عدل وانصاف سے پہلو تہی نہ کی جاتی تو آج ہم اس دلدل میں نہ پھنستے جہاں ایک بار پھر خطرناک جنگ کے شعلے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لینے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔‘‘(امریکی صدر کے نام خط،عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ175۔176)
٭…’’درحقیقت کوئی بھی ملک اگر آپ پر جارحانہ حملہ کرے تو آپ کو دفاع کا پورا حق حاصل ہے۔ تاہم جس حد تک ممکن ہو تصفیہ طلب امور کے لئے افہام و تفہیم اور مذاکرات کی راہ اپنانے میں ہی عافیت ہے۔ میری آپ سے عاجزانہ استدعا ہے کہ اختلافی امور حل کرنے کے لئے طاقت کےاستعمال کی بجائے مذاکرات کا راستہ اختیار کریں۔‘‘(ایرانی صدر کے نام خط،عالمی بحران اورامن کا راستہ صفحہ170۔169)
٭…’’دوسری اقوام کی راہنمائی کرنے کے لئے طاقت کے استعمال کی بجائے سفارت کاری، سیاسی بصیرت اور دانش مندی کو بروئے کار لائیں۔ بڑی عالمی طاقتوں مثلاً امریکہ کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور چھوٹے ممالک کی غلطیوں کو بہانہ بنا کر دنیا کا نظم ونسق برباد نہیں کرنا چاہئے۔‘‘(کینیڈا کے وزیر اعظم کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ184)
٭…’’تمام مسلمانوں اور مسلمان حکومتوں کی نظر میں آپ کا ایک خاص مقام ہے جو آپ پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ امت مسلمہ کی درست راہنمائی کریں اور مسلمان ممالک کے مابین امن اور ہم آہنگی کی فضا پیدا کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔ نیز یہ بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ مسلمانوں کے درمیان باہمی محبت اور ہمدردی کا احساس پیدا کریں اور انہیں ’’رُحَمَاءُ بَینَھُم‘‘کی روح سے رُوشناس کروائیں۔‘‘(سعودی عرب کے حکمران کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ 191)
٭…’’آپ ایک عظیم ملک کے سربراہ ہیں۔ مزید یہ کہ دنیا کی آبادی کا ایک کثیر حصہ آپ کی حکمرانی کے تحت زندگی بسر کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ میں ضرورت پڑنے پر آپ کو ’’ویٹو‘‘ کی طاقت استعمال کرنے کا بھی حق حاصل ہے۔ اس لئے اس تناظر میں مَیں آپ سے ملتمس ہوں کہ دُنیا کو دَرپیش تباہی سے بچانے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ قوم، مذہب، رنگ و نسل اور ذات پات کے فرق سے قطع نظر ہمیں انسانیت کی بقا کے لئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے۔‘‘(عوامی جمہوریہ چین کے وزیر اعظم کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ 201)
٭…’’برطانیہ ایک ایسی عالمی طاقت ہے جو ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثر انداز ہوسکتی ہے اور ہوتی ہے۔ پس اگر آپ چاہیں تو عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرکے دنیا کی راہنمائی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا برطانیہ اور دیگر عالمی طاقتوں کو دنیا میں قیامِ امن کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔‘‘(برطانوی وزیر اعظم کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ209)
٭…’’دُنیا کی طاقت ور اقوام میں سے بعض کی یہ خواہش ہے کہ وہ کسی طرح چند مخصوص ممالک کی دولت اور وسائل پر اپنی دسترس قائم رکھیں اور دیگر ممالک کو ان وسائل تک رسائی نہ ہوسکے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک اپنے غیر منصفانہ فیصلوں میں عوام کی مدد یا امن عالم کے قیام کا تصور پیش کرتے ہیں۔ مزید برآں موجودہ سیاسی صورتحال کے پس منظر میں ایک بڑا بھاری عنصر عالمی معاشی انحطاط بھی ہے جو ہمیں ایک اور عالمی جنگ کی طرف دھکیل رہا ہے۔‘‘(جرمنی کی چانسلر کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ 216)
٭…’’مسلمانوں کی ایک معمولی اقلیت اسلام کی تصویر کو کلیة ًمسخ کرکے پیش کررہی ہے اور اپنے بگڑے ہوئے عقائد پر قائم ہے۔ رحمة للعالمین حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی محبت کے صدقہ میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ اسے حقیقی اسلام نہ سمجھیں اور نہ ہی ایسے بھٹکے ہوئے لوگوں کے ظالمانہ کردار کو بہانہ بنا کر امن پسند مسلم اکثریت کے جذبات کو مجروح کریں۔‘‘(فرانسیسی صدر کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ صفحہ 224)
٭…’’خدا کرے کہ جنگ، بد امنی اور دشمنیوں میں گھری ہوئی دنیا امن، محبت، اخوت اور اتحاد کا گہوارہ بن جائے۔‘‘(ملکہ برطانیہ کے نام خط، عالمی بحران اور امن کا راستہ 232)
٭…’’یہ مسلمانوں کی یا نام نہاد مسلمانوں کی بدقسمتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تو حقیقی مسلمان کی نشانی یہ بتائی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق کی وجہ سے اُس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی مخلوق سے مضبوط ہوتا ہے اور پھر خاص طور پر مسلمان کے دوسرے مسلمان سے تعلق میں تو ایک خاص بھائی چارے کا بھی تعلق قائم ہو جاتا ہے۔ یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے کہ جتنی توجہ نیک اعمال کرنے کی طرف اسلام نے دلائی ہے۔ امن، پیار اور محبت کے راستوں کی طرف چلنے کی توجہ اسلام نے دلائی ہے اتنے ہی مسلمان زیادہ بگڑ رہے ہیں۔ اتنے ہی زیادہ ان لوگوںمیں ظالم پیدا ہو رہے ہیں۔ عیسائی ملکوں میں دیکھیں تو مسلمانوں کو ہی فتنے کا موجب ٹھہرایا جاتا ہے۔ اُن ملکوں کی جیلوں میں بھی کہا یہ جاتا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے اگر نسبت دیکھیں تو مسلمان قیدی زیادہ ہیں۔ تو یہ مسلمانوں کی بگڑی ہوئی حالت ہی تھی جس کو سنوارنے کے لئے مسیح موعود ؑنے آنا تھا اور آیا لیکن یہ کہتے ہیں کہ نہ ہمیں کسی مصلح کی ضرورت ہے اور نہ کسی مسیح کی ضرورت ہے۔ ہمارے لئے جو ہماری تعلیم ہے، یہی کافی ہے۔ اگر تعلیم کافی ہے تو علماء نے اپنے ذاتی اَناؤں اور مقاصد کے لئے یہ جو مختلف قسم کے گروہ بنائے ہوئے ہیں یہ کس لئے ہیں؟ ان کو صحیح اسلامی تعلیم پر کیوں نہیں چلاتے۔ کیوں اتنی زیادہ گروہ بندیاں ہیں اور ایک دوسرے کو پھاڑ ڈالنے پر تلے ہوئے ہیں…۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ1؍مارچ2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل22؍مارچ2013ءصفحہ6)
٭…’’دنیا بڑی خوفناک تباہی کی طرف بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نہ مسلمانوں میں انصاف رہا ہے، نہ غیر مسلموں میں انصاف رہا ہے اور نہ صرف انصاف نہیں رہا بلکہ سب ظلموں کی انتہاؤں کو چھو رہے ہیں۔ پس ایسے وقت میں دنیا کی آنکھیں کھولنے اور ظلموں سے باز رہنے کی طرف توجہ دلا کر تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچانے کا کردار صرف جماعت احمدیہ ہی ادا کر سکتی ہے۔ اس کے لئے جہاں ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اپنے دائرے میں عملی کوشش کرنی چاہئے، وہاں عملی کوشش کے ساتھ ہمیں دعاؤں کی طرف بھی بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ مسلمان ممالک کی ناانصافیوں اور شامتِ اعمال نے جہاں اُن کو اندرونی فسادوں میں مبتلا کیا ہوا ہے وہاں بیرونی خطرے بھی بہت تیزی سے اُن پر منڈلا رہے ہیں بلکہ اُن کے دروازوں تک پہنچ چکے ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ بڑی جنگ منہ پھاڑے کھڑی ہے اور دنیا اگر اُس کے نتائج سے بےخبر نہیں تو لاپرواہ ضرور ہے۔ پس ایسے میں غلامانِ مسیح محمدی کو اپنا کردار ادا کرتے ہوئے دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے دعاؤں کا حق ادا کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا حق ادا کرنے والا بنائے اور دنیا کو تباہی سے بچا لے۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ26؍اپریل2013ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل17؍مئی2013ءصفحہ7)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز معاشرے میں قیام امن کے حوالے سے فر ماتے ہیں: ’’…آج معاشرے کے اکثر فساد اس لئے ہیں کہ امانت کی ادائیگی صحیح طرح نہیں کی جاتی اور عہدوں کا پاس نہیں کیا جاتا۔ صرف اپنے حقوق کا خیال نہیں ہونا چاہئے بلکہ دوسروں کے حقوق کا خیال بھی ہونا چاہئے۔ جب یہ صورتحال پیدا ہو گی تو امن اور سلامتی معاشرے میں قائم ہو گی۔ پھر یہ کہ صرف حقوق کا خیال نہیں کرنا بلکہ دوسرے کا حق نہ ہونے کے باوجود احسان کرتے ہوئے، قربانی کر کے دوسرے کی ضروریات کا بھی خیال رکھنااور پھر یقیناً معاشرے میں امن اور سلامتی اور پیار پھیلانا ہے۔‘‘(الفضل انٹر نیشنل 8؍جون2007ءصفحہ7)
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز موجودہ حالات کے تناظر میں عالمی جنگ کی ہولناکی سے متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آج بھی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ وہ جنگیں اور دیگر اقدامات جو امن کو قائم کرنے کی خاطر کیے جا رہے ہیں ایک اَور عالمی جنگ کا پیش خیمہ بن رہے ہیں۔ موجودہ اقتصادی اور سماجی مسائل اس صورتحال میں اور بھی زیادہ ابتری کا باعث بن رہے ہیں۔ قرآن کریم نے دنیا میں امن قائم کرنے کے لیے بعض سنہری اُصول عطا فرمائے ہیں۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہوس سے دشمنی بڑھتی ہے۔ کبھی یہ ہوس توسیع پسندانہ عزائم سے ظاہر ہوتی ہے۔ کبھی اس کا اظہار قدرتی وسائل پر قبضہ کرنے سے ہوتا ہے اور کبھی یہ ہوس اپنی برتری دوسروں پر ٹھونسنے کی شکل میں نظر آتی ہے۔ یہی لالچ اور ہوس ہے جو بالآخر ظلم کی طرف لے جاتا ہے۔ خواہ یہ بے رحم جابر حکمرانوں کے ہاتھوں سے ہو جو اپنے مفادات کے حصول کے لیے لوگوں کے حقوق غصب کر کے اپنی برتری ثابت کرنا چاہتے ہوں یا جارحیت کرنے والی اَفواج کے ہاتھوں سے ہو۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مظلوموں کی چیخ و پکار کے نتیجہ میں بیرونی دُنیا مدد کے لیے آجاتی ہے۔ بہر حال اِس کا نتیجہ جو بھی ہو ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ سنہری اصول سکھایا ہے کہ ظالم اور مظلوم دونوں کی مدد کرو۔ صحابہؓ نے پوچھا کہ مظلوم کی مدد کرنا تو سمجھ میں آتا ہے لیکن ظالم کی مدد کس طرح کر سکتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ اُس کے ہاتھوں کو ظلم سے روک کر، کیونکہ بصورتِ دیگر اُس کا ظلم میں بڑھتے چلے جانا اُسے خدا کے عذاب کا مورد بنا دے گا۔ (صحیح البخاری کتاب الاکراہ باب یمین الرجل لصاحبہ حدیث نمبر 6952)پس اگر ہم معاشرے میں امن کو برباد کرنے والے عوامل کا انصاف کے ساتھ جائزہ نہیں لیں گے تو دنیا میں امن کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔ دنیا کو ایک دوسرے کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کی بجائے اپنے اختلافات کو بھلا کر، باہمی احترام کے ساتھ اور مل جل کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کو ایک بہترین مستقبل مہیا کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں تا کہ ایسے معاشرے کو قائم کیا جاسکے جو متحد ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی رواداری پر مبنی ہو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
تاریخ احمدیت ایسے بے شمار واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں خلافت راشدہ احمدیہ بھرپور کاوشوں اور دعاؤں کےذریعہ امت مسلمہ اور انسانیت کے اتحاد اور قیام امن کی خاطرکوشاںرہی۔ اللہ کرے کہ دنیا عموماًاور مسلمان خصوصاًاپنے مقام کو گردانیں اور خدا کے بھیجے ہوئے فرستادےکو پہچاننے میں اب مزید تاخیر نہ کریں تا عافیت کا یہ حصار ان کو شَشْ جِہَتْ سے ڈھانپ لے اور ان کی دائمی نجات کا موجب ہوسکے، آمین۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ خلافت احمدیہ سے وابستہ رکھے۔ ہم ہمیشہ اس حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے والے ہوں۔ خلافت احمدیہ کے سلطان نصیر بننے والے ہوں اور خلافت حقہ کے زیر سایہ دنیا میں پائیدار امن کے قیام کے لیے ہمیشہ کوشاں رہیں۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطافرمائے۔ اللہ تعالیٰ دنیا کو حقیقی امن اور اطمینانِ قلب نصیب کرے۔ اللّٰھم آمین۔
صدق سے میری طرف آؤ اسی میں خیر ہے
ہیں درندے ہر طرف، میں عافیت کا ہوں حصار
٭…٭…٭