خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب
خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز 15؍جولائی2022ء
سوال نمبر1:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے یہ خطبہ کہاں ارشاد فرمایا؟
جواب:حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے یہ خطبہ مسجد مبارک،اسلام آباد، ٹلفورڈ(سرے) یوکےمیں ارشاد فرمایا۔
سوال نمبر2: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےخطبہ کے عنوان کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایاکہ مسلمانوں کی مرتدین باغیوں کے خلاف کارروائیوں کا ذکرہو رہا ہے۔
سوال نمبر3:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے کندہ قبیلہ کے مرتدین کے خلاف کارروائیوں کی کیا تفصیل بیان فرمائی؟
جواب: فرمایا: کِنْدَہ قبیلہ کے مرتدین کے خلاف کارروائیوں کے متعلق تاریخ طبری میں لکھا ہے کہ ارتداد سے پہلے جب کِنْدَہ اور حَضْرمَوت کا سارا علاقہ اسلام لے آیا۔ ان سے زکوٰة وصول کرنے کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ حَضْرمَوت میں سے بعض لوگوں کی زکوٰة کِنْدَہ میں جمع کی جائے اور بعض اہلِ کِنْدَہ کی زکوٰة حَضْرمَوت میں جمع کی جائے یعنی ان کو وہاں بھجوا دی جائے، ایک دوسرے پر خرچ ہو اور اہلِ حَضْرمَوت میں سے بعض کی زکوٰة سَکُوْن میں جمع کی جائے اور بعض اہلِ سَکُوْن کی زکوٰة حَضْرمَوت میں جمع کی جائے۔ اس پر کِنْدَہ کے بعض لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! ہمارے پاس اونٹ نہیں ہیں۔ اگر آپﷺ مناسب خیال فرمائیں تو یہ لوگ سواری پر ہمارے پاس اموالِ زکوٰة پہنچا دیا کریں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان لوگوں سے کہا یعنی حَضْرمَوت والوں سے کہ اگر تم ایسا کر سکتے ہو تو اس پر عمل کرنا۔ انہوں نے کہا ہم دیکھیں گے۔ اگر ان کے پاس جانور نہ ہوئے تو ہم ایسا کریں گے۔ پھر جب رسول اللہﷺ کی وفات ہو گئی اور زکوٰة وصول کرنے کا وقت آیا تو زِیادؓ نے لوگوں کو اپنے پاس بلایا۔ وہ آپ کے پاس حاضر ہوئے اور بَنُووَلِیعَہ یعنی اہلِ کِنْدَہ نے کہا کہ تم نے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ سے وعدہ کیا تھا اموالِ زکوٰة ہمارے پاس پہنچا دو تو انہوں نے کہا تمہارے پاس باربرداری کے جانور ہیں؟ اپنے جانور لاؤ اور اموالِ زکوٰة لے جاؤ۔ انہوں نے خود اموالِ زکوٰة پہنچانے سے انکار کر دیا اور کندی اپنے مطالبہ پر مصر رہے…جب کِندی حضرت زِیادؓ سے خفا ہو کر واپس چلے گئے تو حضرت زِیادؓ نے بنو عمرو سے زکوٰة کی وصولی اپنے ذمہ لے لی۔ کِنْدَہ کے ایک نوجوان نے حضرت زِیادؓ کو غلطی سے اپنے بھائی کی اونٹنی زکوٰة کے لیے پیش کر دی۔ حضرت زِیادؓ نے اس کو آگ سے داغ کر زکوٰة کا نشان لگا دیا۔ مہر لگا دی کہ یہ بیت المال کی ہے اور زکوٰة کا مال ہے اور جب اس لڑکے نے اونٹنی بدلنے کاکہا کہ غلطی سے ہو گیا تھا تو حضرت زِیادؓ سمجھے کہ یہ بہانے بنا رہا ہے۔اس لیے آپؓ راضی نہ ہوئے۔ اس پر انہوں نےیعنی اونٹنی دینے والوں نے اپنے قبیلے کے لوگوں کو اور اَبُوسُمَیط کو مدد کے لیے پکارا۔ اَبُوسُمَیط نے جب حضرت زِیادؓ سے اونٹنی بدلنے کا مطالبہ کیا تو حضرت زِیادؓ اپنے موقف پر مصر رہے۔ اَبُوسُمَیط کو غصہ آیا۔ اس نے زبردستی اونٹنی کھول دی جس پر حضرت زِیادؓ کے ساتھیوں نے اَبُوسُمَیط اور اس کے ساتھیوں کو قید کر لیا اور اونٹنی کو بھی قبضہ میں لے لیا۔ ان لوگوں نے ایک دوسرے کو مدد کے لیے پکارا۔ چنانچہ بنومُعَاوِیہ اَبُوسُمَیط کی مدد کے لیے آ گئے۔انہوں نے حضرت زِیادؓ سے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا لیکن حضرت زِیادؓ نے ان کے منتشر ہونے تک قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے کہا اس طرح نہیں، تم لوگ چلے جاؤ پھر مَیں دیکھوں گا۔ جب یہ لوگ منتشر نہ ہوئے تو حضرت زِیادؓ نے ان پر حملہ کر کے ان کے بہت سے آدمیوں کو قتل کر دیا اور کچھ لوگ وہاں سے فرار ہو گئے۔حضرت زِیادؓ نے واپس آ کر ان کے قیدی بھی رہا کر دیے مگر ان لوگوں نے واپس جا کر جنگ کی تیاری شروع کر دی۔ چنانچہ بَنُو عَمرو، بَنُو حَارِث اور اَشْعَثْ بن قَیس اور سِمْط بن اَسْوَد اپنے اپنے مورچوں میں چلے گئے اور انہوں نے زکوٰة دینے سے انکار کر دیا اور ارتداد اختیار کر لیا جس پر حضرت زِیادؓ نے فوج جمع کر کے بنو عمرو پر حملہ کر دیا اور ان کے بہت سے آدمی قتل ہوئے اور جو بھاگ سکتے تھے وہ بھاگ گئے اور ایک بڑی تعداد کو حضرت زِیادؓ نے قید کر کے مدینہ روانہ کر دیا۔ راستے میں اَشْعَثْ اور بَنُوحارِث کے لوگوں نے حملہ کر کے مسلمانوں سے اپنے قیدی چھڑوا لیے۔ اس واقعہ کے بعد اطراف کے کئی قبائل بھی ان لوگوں کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے بھی ارتداد کا اعلان کر دیا۔ اس پر حضرت زِیادؓ نے مدد کے لیے حضرت مُہَاجرؓ کی طرف خط لکھا۔ حضرت مُہَاجرؓ نے حضرت عکرمہ ؓکو اپنا نائب بنایا اور خود اپنے ساتھیوں کو لے کر کِنْدَہ پر حملہ آور ہوئے۔ کِنْدَہ کے لوگ بھاگ کر نُجَیر نامی اپنے ایک قلعہ میں محصور ہو گئے۔اس قلعہ کے تین راستے تھے۔ ایک راستے پر حضرت زِیادؓ اتر گئے۔دوسرے پر حضرت مُہَاجرؓ نے ڈیرہ ڈال لیا اور تیسرا راستہ کِنْدَہ ہی کے تصرف میں رہا یہاں تک کہ حضرت عکرمہؓ پہنچے اور اس راستے پر قابض ہو گئے۔ حضرت زِیادؓ اور حضرت مُہَاجرؓ کا لشکر پانچ ہزار مُہَاجرین اور انصار صحابہ اور دیگر قبائل پر مشتمل تھا۔ جب قلعہ نُجَیر کے محصورین نے دیکھا کہ مسلمانوں کو برابر امداد پہنچ رہی ہے تو ان پر دہشت طاری ہو گئی۔ اس وجہ سے ان کا سردار اَشْعَثْ فوراً حضرت عکرمہ ؓکے پاس پہنچ کر امان کا طالب ہوا۔حضرت عکرمہؓ اَشْعَثْ کو لے کر حضرت مُہَاجرؓ کے پاس آئے۔ اَشْعَثْ نے اپنے لیے اور اپنے ساتھ نو افراد کے لیے اس شرط پر امان طلب کی کہ وہ مسلمانوں کے لیے قلعہ کا دروازہ کھول دیں گے۔ حضرت مُہَاجرؓ نے یہ شرط تسلیم کر لی۔ جب اَشْعَثْ نے نو افراد کے نام لکھے تو جلد بازی اور دہشت کی وجہ سے اپنا نام لکھنا بھول گیا۔ پھر حضرت مُہَاجرؓ کے پاس تحریر لے کر گیا جس پر انہوں نے مہر ثبت کر دی۔ پھر اَشْعَثْ واپس چلا گیا۔ جب اس نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا تو مسلمان اس میں داخل ہو گئے۔ فریقین کی لڑائی میں سات سو کندی قتل کر دیے گئے۔ قلعہ والوں نے بھی آگے سے مقابلہ کیا اور لڑائی کی۔ بہرحال ان کے آدمی قتل کیے اور ایک ہزار عورتوں کو قید کر لیا گیا۔
سوال نمبر4:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت ابوبکرؓ کے کندہ قبیلہ کے سرداراشعث کے ساتھ حسن سلوک کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب :فرمایا:جب مسلمان فتح کی خبر اور قیدیوں کے ساتھ حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے اَشْعَثْ کو طلب کیا اور فرمایا تم بنو وَلِیعَہ کے فریب میں آگئے اور وہ ایسے نہیں کہ تم انہیں فریب دے سکو اور وہ بھی تمہیں اس کام کا اہل نہیں سمجھتے تھے۔ وہ خود ہلاک ہوئے اور تمہیں بھی ہلاک کیا۔ کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ تمہیں رسول اللہ ﷺ کی بددعا کا ایک حصہ پہنچا۔ دراصل آنحضرت ﷺ نے کِنْدَہ قبیلے کے چار سرداروں پر لعنت کی تھی جنہوں نے اَشْعَثْ کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا پھر مرتد ہو گئے۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا:تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کروں گا؟ اَشْعَثْ نے کہا مجھے آپ کی رائے کا علم نہیں۔ حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا کہ میرے خیال میں تمہیں قتل کر دینا چاہیے۔ اس نے کہا مَیں وہ ہوں جس نے اپنی قوم کے دس آدمیوں کی جان بخشی کا تصفیہ کرایا ہے۔ میرا قتل کیسے جائز ہو سکتا ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ کیا مسلمانوں نے معاملہ تمہارے سپرد کیا تھا؟ اس نے کہا جی ہاں۔ تو حضرت ابوبکرؓ نے فرمایا: جب انہوں نے معاملہ تمہارے سپرد کیا اور پھر تم ان کے پاس آئے تو کیا انہوں نے اس پر مہر ثبت کی تھی۔ اس نے کہا جی ہاں۔ آپؓ نے فرمایا کہ تحریر پر مہر ثبت ہونے کے بعد صلح اس کے مطابق واجب ہو گئی جو اس میں تحریر تھا۔ اس سے پہلے تم صرف مصالحت کی گفتگو کر رہے تھے۔ جب اَشْعَثْ ڈرا کہ وہ مارا جائے گا تو اس نے عرض کیا کہ اگر آپ مجھ سے کسی بھلائی کی توقع رکھتے ہیں تو ان قیدیوں کو آزاد کر دیجیے اور میری لغزشیں معاف فرمائیے اور میرا اسلام قبول کر لیجیے اور میرے ساتھ وہی سلوک روا رکھیے جو مجھ جیسوں کے ساتھ آپ کیا کرتے ہیں اور میری بیوی میرے پاس واپس لَوٹا دیجیے… اَشْعَثْ نے حضرت ابوبکرؓ سے عرض کیا کہ آپؓ مجھے اللہ کے دین کے لیے اپنے علاقے کے بہترین لوگوں میں پائیں گے۔ اس پر حضرت ابوبکرؓ نے اس کی جان بخش دی اور اس کا اسلام قبول کر لیا اور اس کے گھر والے اس کے سپرد کر دیے۔ نیز فرمایا: جاؤ اور مجھے تمہارے متعلق خیر کی خبریں پہنچیں۔اسی طرح حضرت ابوبکرؓ نے تمام قیدیوں کو بھی آزاد کر دیااور وہ سب اپنے اپنے علاقوں میں چلے گئے۔
سوال نمبر5:حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین اور باغیوں کے خلاف کام کرنےوالے عمّال کو کیا نصیحت فرمائی؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے مرتدین اور باغیوں کے خلاف کام کرنے والے عُمَّال کو تحریر فرمایا:اَمَّا بَعْد! میرے نزدیک زیادہ پسندیدہ امر یہ ہے کہ آپ لوگ حکومت میں صرف انہی اشخاص کو شریک کریں جن کا دامن ارتداد اور بغاوت کے داغ سے پاک رہا ہو۔ بےشک وہ واپس آ گئے ہیں لیکن یہ دیکھو ان میں وہ شامل تو نہیں جو پہلے ارتداد اختیار کر چکے ہیں یا بغاوت کر چکے ہیں۔ پھر فرمایا کہ آپ سب اسی پر عمل کریں اور اسی پر کاربند رہیں۔ فوج میں جو لوگ واپسی کے خواہاں ہوں ان کو واپسی کی اجازت دے دو اور دشمن سے جہاد کرنے میں کسی مرتد باغی سے ہرگز مدد نہ لو۔
سوال نمبر6: مولانا مودودی کے نظریہ’’صحابہ نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرت ﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا‘‘کی تردید میں حضرت مصلح موعودؓ نےکیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہ مدعیانِ نبوت سے صحابہ نے کیوں جنگیں کیں حضرت مصلح موعودؓنے بیان فرمایا ہے کہ مولانا مودودی صاحب کا یہ لکھنا کہ صحابہ نے ہر اس شخص کے خلاف جنگ کی جس نے آنحضرتﷺ کے بعد نبوت کا دعویٰ کیا۔صحابہ کے اقوال کے خلاف ہے۔مولانا مودودی صاحب کو یاد رکھنا چاہیے۔ (اس وقت ان کی زندگی کی بات ہے) کہ رسولِ کریم ﷺ کے بعد جن لوگوں نے دعویٔ نبوت کیا اور جن سے صحابہ نے جنگ کی وہ سب کے سب ایسے تھے جنہوں نے اسلامی حکومت سے بغاوت کی تھی اور اسلامی حکومت کے خلاف اعلانِ جنگ کیا تھا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ مولانا کو اسلامی لٹریچر کے مطالعہ کا بہت بڑا دعویٰ ہے۔ کاش وہ اس امر کے متعلق رائے ظاہر کرنے سے پہلے اسلامی تاریخ پڑھ کر دیکھ لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ مسیلمہ کَذاب، اَسْوَد عَنْسی، سَجَاح بنتِ حَارِث اور طُلَیحہ بن خُوَیلِدْ اَسَدِی یہ سب کے سب ایسے لوگ تھے جنہوں نے مدینہ کی حکومت کی اتباع سے انکار کر دیا تھا اور اپنے اپنے علاقوں میں اپنی حکومتوں کا اعلان کر دیا تھا۔حضرت مصلح موعودؓ نے لکھا ہے کہ تاریخ ابنِ خلدون کو اگر غور سے پڑھتے تو یہ واضح ہو جاتا کہ مولانا صاحب کا جو نظریہ ہے وہ غلط ہے۔ چنانچہ وہاں لکھا ہے کہ تمام عرب خواہ وہ عام ہوں یا خاص ہوں ان کے ارتداد کی خبریں مدینہ میں پہنچیں۔ صرف قریش اور ثقیف دو قبیلے تھے جو ارتداد سے بچے اور مسیلمہ کا معاملہ بہت قوت پکڑ گیا اور طَے اور اَسَد قوم نے طُلَیحَہ بن خُوَیلِدکی اطاعت قبول کر لی اور غَطَفَان نے بھی ارتداد قبول کر لیا اور ہَوَازِن نے بھی زکوٰة روک لی اور بنی سُلَیم کے امرا ءبھی مرتد ہو گئے اور رسولِ کریم ﷺ کے مقرر کردہ امراء یمن اور یمَامہ اور بنی اسد اور دوسرے ہر علاقہ اور شہر سے واپس لَوٹے اور انہوں نے کہا کہ عربوں کے بڑوں نے بھی اور چھوٹوں نے بھی سب کے سب نے اطاعت سے انکار کر دیا ہے…حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں اِس حوالہ سے ظاہر ہے کہ صحابہؓ نے جن لوگوں سے لڑائی کی تھی وہ حکومت کے باغی تھے۔انہوں نے ٹیکس دینے سے انکار کر دیا تھا اور انہوں نے مدینہ پر حملہ کر دیا تھا۔مدینہ کے ارد گرد جمع ہو گئے تھے کہ اگر یہاں بات نہ مانی تو ہم حملہ کریں گے۔ مسیلمہ نے تو خود رسولِ کریمﷺ کے زمانہ میں آپؐ کو لکھا تھا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ آدھا ملک عرب کا ہمارے لیے ہے اور آدھا ملک قریش کے لیے ہے۔اور رسول کریمﷺ کی وفات کے بعد اس نے حجر اور یمامہ میں سے ان کے مقرر کردہ والی ثُمَامہ بن آثال کو نکال دیا اور خود اس علاقہ کا والی بن گیاتھا۔ اور اس نے مسلمانوں پر حملہ کر دیا۔ اسی طرح مدینہ کے دو صحابہ حبیب بن زیدؓ اور عبداللہ بن وہبؓ کو اس نے قید کر لیا اور ان سے زور کے ساتھ اپنی نبوت منوانی چاہی ……اسی طرح طبری نے لکھا ہے کہ اسود عنسی نے بھی علم بغاوت بلند کیا تھا اور رسولِ کریم ﷺ کی طرف سے جو حکام مقرر تھے ان کو اس نے تنگ کیا تھا اور ان سے زکوٰة چھین لینے کا حکم دیا تھا۔ پھر اس نے صَنْعَاء میں رسولِ کریم ﷺ کے مقرر کردہ حاکم شَہْرِ بن بَاذَان پر حملہ کر دیا۔ بہت سے مسلمانوں کو قتل کیا، لُوٹ مار کی، گورنر کو قتل کر دیا اور اس کو قتل کر دینے کے بعد اس کی مسلمان بیوی سے جبراً نکاح کر لیا۔ بنو نجران نے بھی بغاوت کی اور وہ بھی اسود عنسی کے ساتھ مل گئے اور انہوں نے دو صحابہ عمرو بن حَزمؓ اور خالد بن سعیدؓ کو علاقہ سے نکال دیا۔ان واقعات سے ظاہر ہے کہ مدعیانِ نبوت کا مقابلہ اس وجہ سے نہیں کیا گیا تھا کہ وہ رسولِ کریم ﷺ کی امت میں سے نبی ہونے کے دعویدار تھے اور رسولِ کریم ﷺ کے دین کی اشاعت کے مدعی تھے بلکہ صحابہ نے ان سے اس لیے جنگ کی تھی کہ وہ شریعتِ اسلامیہ کو منسوخ کر کے اپنے قانون جاری کرتے تھے اور اپنے علاقہ کی حکومت کے دعویدار تھے اور صرف علاقہ کی حکومت کے دعویدار ہی نہیں تھے بلکہ انہوں نے صحابہ کو قتل کیا، اسلامی ملکوں پر چڑھائیاں کیں، قائم شدہ حکومت کے خلاف بغاوت کی اور اپنی آزادی کا اعلان کیا۔ان واقعات کے ہوتے ہوئے آپؓ لکھتے ہیں کہ مولانا مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ رسولِ کریم ﷺ کے تمام صحابہؓ نے مدعیانِ نبوت کا مقابلہ کیا، یہ جھوٹ نہیں تو اَور کیا ہے؟ اگر کوئی شخص یہ کہہ دے کہ صحابہ کرامؓ انسانوں کے قتل کو جائز قرار دیتے تھے تو کیا یہ محض اس وجہ سے ٹھیک ہو جائے گا کہ مسیلمہ کذاب بھی انسان تھا اور اسود عنسی بھی انسان تھا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ جو لوگ توڑ مروڑ کر اسلام کی تاریخ پیش کرتے ہیں وہ اسلام کی خدمت نہیں کر رہے۔ اگر ان کے مدِنظر اسلام کی خدمت ہے تو وہ سچ کو سب سے بڑا مقام دیں اور غلط بیانی اور واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے سے کُلّی طور پر احتراز کریں۔
سوال نمبر7:بغاوتوں کے خاتمہ اور مرتدین کی سرکوبی کرنے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی عاجزی اورقیام امن کےلیے اقدامات کی بابت حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنےکیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:حضرت ابوبکرؓ نے اس ملک گیر فتنہ کا جس منصوبہ بندی اور سُرعت کے ساتھ قلع قمع کیا وہ آپ کی اعلیٰ صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے اور صاف نظر آتا ہے کہ کس طرح قدم قدم پر آپ کو الٰہی تائید و نصرت حاصل تھی۔ایک سال سے بھی کم مدت میں فتنۂ ارتداد اور بغاوت پر قابو پا لینا، سرزمین عرب پر اسلام کی حاکمیت کو دوبارہ قائم کر دینا ایک حیرت انگیز کارنامہ ہے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کو اسلام کے غلبہ سے بے حد خوشی تھی لیکن اس مسرت میں غرور اور تکبر کا نام تک نہیں تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ جو کچھ ہوا محض اللہ کے فضل اور اس کی مہربانی سے ہوا۔ ان کی یہ طاقت نہیں تھی کہ وہ مٹھی بھر مسلمانوں کے ذریعہ سے سارے عرب کے مرتدین کی جرار فوجوں کا مقابلہ کر کے انہیں شکست دے کر اسلام کا عَلَم نہایت شان و شوکت سے دوبارہ بلند کر سکتے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ کے سامنے اب یہ مسئلہ تھا کہ وحدتِ دینی کو تقویت دینے اور اسلام کو بامِ عروج تک پہنچانے کے لیے کیا کیا اقدامات کیے جائیں۔ حضرت ابوبکر صدیق ؓکی سیاست کا محور صرف اور صرف رعبِ اسلام تھا اور یہی خواہش ہر لحظہ ان کے دل و دماغ میں رہتی تھی۔ہرچند کہ مرتد باغیوں کا قلع قمع کرنے کے بعد ہر شخص کو یہ یقین ہو گیا تھا کہ اب خلیفہ رسول ﷺ کے سامنے کوئی فتنہ پرداز جم نہیں سکتا لیکن عام لوگوں کی طرح حضرت ابوبکرؓ کسی خوش فہمی کا شکار نہ تھے۔ آپؓ جانتے تھے کہ بیرونی طاقتیں ارتداد اور بغاوت کے فتنہ خوابیدہ کو پھر سے بیدار کر کے بدامنی پھیلانے کا موجب بن سکتی ہیں۔ یہ فتنہ عارضی طور پہ نہ سو گیا ہو۔ بیرونی طاقتیں جو مخالف ہیں اسلام کی وہ بڑی بڑی حکومتیں تھیں، وہ عرب کی سرحدوں پر دوبارہ بدامنی پھیلا سکتی ہیں اس لیے وہ کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں تھے۔ عرب قبائل کی اس متوقع شورش انگیزی سےبچنے کے لیے مناسب سمجھا گیا کہ عرب قبائل کی توجہ ایران اور شام کی طرف منعطف کی جائے تا کہ انہیں حکومت کے خلاف فساد برپا کرنے کا موقع نہ مل سکے اور اس طرح مسلمانوں کو اطمینان نصیب ہو اور وہ دلجمعی سے احکام دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔
سوال نمبر8:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےعرب کی سرحدوں کے دفاع اور اسلامی ریاست کو محفوظ رکھنے کی بابت کیا بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:عرب کی سرحدوں کے دفاع اور اسلامی ریاست کو اپنے مضبوط حریفوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہو گیا تھا کہ ان طاقتور قوموں تک اسلام کا پیغام پہنچایا جائے تا کہ یہ قومیں اسلام کے عالمگیر پیغام کو تسلیم کر کے یا سمجھ کر خود بھی امن و سلامتی کے ساتھ اپنی زندگیاں بسر کریں اور دوسرے بھی ان کی چیرہ دستیوں سے محفوظ اور مامون ہو کر امن اور سلامتی کے ساتھ آزادانہ طور پر اپنے اپنے دین و مذہب پر کاربند ہو سکیں۔
سوال نمبر9:حضرت خالدبن ولیدؓ کو عراق کی طرف روانگی کاحکم دیتے ہوئے حضرت ابوبکرؓ نےانہیں کیا ہدایات دیں؟
جواب: فرمایا:حضرت خالد بن ولیدؓ جب یمامہ سے فارغ ہو گئے تو حضرت ابوبکرؓ نے انہیں لکھا کہ فَرْجُ الْہِنْد یعنی اُبُلَّہ سے آغاز کریں اور عراق کے بالائی علاقے سے عراق پہنچیں اور لوگوں کو اپنے ساتھ ملائیں اور انہیں اللہ کی طرف دعوت دیں۔ اگر وہ اسے قبول کر لیں تو ٹھیک ورنہ ان سے جزیہ وصول کریں اور اگر وہ جزیہ دینے سے انکار کریں تو پھر ان سے قتال کریں اور حکم فرمایا کہ کسی کو اپنے ساتھ قتال کے لیے نکلنے پر مجبور نہ کریں اور اسلام سے مرتد ہونے والے کسی بھی شخص سے مددنہ لیں خواہ وہ بعد میں اسلام میں واپس بھی آ چکا ہو اور جس مسلمان کے پاس سے گزریں تو اسے اپنے ساتھ ملا لیں۔ پھر حضرت ابوبکرؓ حضرت خالدؓ کی امداد کے لیے لشکر کی تیاری میں لگ گئے۔حضرت خالد بن ولیدؓ نے یمامہ سے عراق کی طرف کوچ کے وقت اپنی فوج کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا تھااور سب کو ایک ہی راستے پر روانہ نہیں کیا تھا بلکہ حضرت مثنی کو اپنی روانگی سے دو روز قبل روانہ کیا۔ ان کے بعد عَدِی بن حَاتِم اور عَاصِم بن عَمرو کو ایک ایک دن کے فاصلے سے روانہ کیا۔ سب کے بعد حضرت خالد بن ولیدؓ خود روانہ ہوئے۔ ان سب سے حَفِیر پر جمع ہونے کا وعدہ کیا تا کہ وہاں سے ایک دم اپنے دشمن سے ٹکرائیں۔ یہ سرحد فارس کی تمام سرحدوں میں شان و شوکت کے لحاظ سے سب سے بڑی اور مضبوط سرحد تھی اور اس کا حاکم ہُرْمُزْ تھا۔ یہاں کا سپہ سالار ایک طرف خشکی میں عربوں سے نبرد آزما ہوتا تھا اور دوسری طرف سمندر میں اہل ہند سے۔بہرحال حضرت خالدؓ کے لشکر کی تعداد بہت کم تھی کیونکہ ایک تو اس کا بہت حصہ جنگ یمامہ میں کام آ چکا تھا۔ دوسرے حضرت ابوبکرؓ نے انہیں ہدایت کی تھی کہ اگر کوئی شخص عراق نہ جانا چاہے تو اس پر زبردستی نہ کی جائے اور اس کے ساتھ ہی ایک نہایت ہی اہم ہدایت یہ بھی دی کہ اس کے علاوہ کسی سابق مرتد کو جو دوبارہ اسلام لے بھی آیا ہو اس وقت تک اسلامی لشکر میں شامل نہ کیا جائے جب تک خلیفہ سے خاص طور پر اجازت حاصل نہ کر لی جائے۔
سوال نمبر10:حضرت خالدبن ولیدؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی خدمت میں جب مزیدکمک بھیجنے کے لیے لکھاتوآپؓ نے کس کو بھجوایا اورکیا ہدایت فرمائی؟
جواب:فرمایا:حضرت خالدؓ نے حضرت ابوبکرؓ کی خدمت میں مزید کمک بھیجنے کے لیے لکھا تو انہوں نے صرف ایک شخص قَعْقَاعْ بن عَمروکو ان کی مدد کے لیے روانہ فرمایا۔لوگوں کو بہت تعجب ہوا اور انہوں نے عرض کیا آپ خالد کی مدد کے لیے صرف ایک شخص کو روانہ کر رہے ہیں حالانکہ لشکر کا بیشتر حصہ اب ان سے الگ ہو چکا ہے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا جس لشکر میں قَعْقَاعْ جیساشخص شامل ہو وہ کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔ پھر بھی قَعْقَاعْ کے ہاتھ آپؓ نے خالد کو ایک خط بھیجا جس میں لکھا کہ وہ ان لوگوں کو اپنے لشکر میں شامل ہونے کی ترغیب دیں جو رسول اللہ ﷺ کے بعد بدستور اسلام پر قائم رہے اور جنہوں نے مرتدین کے خلاف جنگوں میں حصہ لیا۔یہ خط موصول ہونے پر حضرت خالدؓ نے اپنے لشکر کو ترتیب دینا شروع کر دیا۔
سوال نمبر11:حضرت ابوبکرؓ نے عراق میں عرب کاشتکاروں کی بابت اپنے سپہ سالاروں کو کیا تاکیدفرمائی؟
جواب: فرمایا:عراق کے کاشتکاروں کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ نے جو وصیت کی تھی اور جو حکمتِ عملی تھی اس کے بارے میں لکھا ہے کہ عرب عراق کی سرزمینوں میں بطور کاشتکار کام کرتے تھے۔ فصل تیار ہونے پر انہیں بٹائی کا بہت تھوڑا حصہ ملتا تھا۔ اکثر حصہ ان ایرانی زمینداروں کے پاس چلا جاتا تھا جو ان زمینوں کے مالک تھے۔ یہ زمیندار غریب عربوں پر بےحد ظلم توڑتے تھے اور ان کے ساتھ غلاموں سے بھی بدتر سلوک کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرؓنے عراق میں اپنے سالاروں کو حکم دے دیا کہ جنگ کے دوران میں ان عرب کاشتکاروں کو کوئی تکلیف نہ دی جائے اور نہ انہیں قتل کیا جائے اور نہ قیدی بنایا جائے۔ غرض ان سے کسی قسم کی بدسلوکی نہ کی جائے کیونکہ وہ بھی ان کی طرح عرب ہیں اور ایرانیوں کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ انہیں اس بات کا احساس دلانا چاہیے کہ یہاں عربوں کی حکومت قائم ہونے سے ان کی مظلومانہ زندگی کے دن ختم ہو جائیں گے اور اب وہ اپنے ہم قوم لوگوں کی بدولت حقیقی عدل و انصاف اور جائز آزادی اور مساوات سے بہرہ ور ہو سکیں گے۔حضرت ابوبکرؓ کی اس حکمت عملی نے مسلمانوں کوبےحد فائدہ پہنچایا۔ ان کی فتوحات کے راستے میں آسانیاں پیدا ہو گئیں اور انہیں یہ خدشہ نہ رہا کہ پیش قدمی کرتے وقت کہیں پیچھے سے حملہ ہو کر ان کا راستہ مسدود نہ ہو جائے۔