خطبہ جمعہ بطرز سوال و جواب فرمودہ ۷؍ اپریل ۲۰۲۳ء بمقام مسجد بیت الفتوح، مورڈن، یوکے)
سوال نمبر۱: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے خطبہ کے عنوان کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب:فرمایا: قرآن کریم کے محاسن و خوبیاں میں کچھ عرصہ سے حضرت مسیح موعود ؑکے ارشادات کی روشنی میں بیان کررہا ہوں۔ آج بھی قرآن کریم کی تعلیم کی تکمیل کے بارہ میں آپؑ کے کچھ ارشادات پیش کروں گا۔
سوال نمبر۲:حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اعتراض ’’جب قرآن کریم کو آخری شریعت اور آپﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں توپھرآپؑ کےدعویٰ کی کیاحیثیت ہے‘‘ کاکیا جواب بیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: حضرت مسیح موعود ؑنے ایک جگہ اس کا جواب اس طرح بھی فرمایا ہے کہ اگر تم اسلامی تعلیم پر عمل کررہے ہوتے تو پھر ٹھیک ہے میرے آنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی لیکن زمانے کی عمومی حالت اور خاص طور پرمسلمانوں کی اپنی حالت اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ کسی معلم کی ضرورت ہے۔پھر اس تعلیم کو بھول جانے کے بارے میں خود آنحضرتﷺ نے فرمایا تھا اور اس کی اصلاح کے لیے یہ بھی فرمایا تھا کہ ہر صدی میں مجدد آئیں گے۔ یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسلمان قرآن کی تعلیم کامل ہونے کے باوجود اس تعلیم کو بھول جائیں گے، نئی بدعات ان میں پیدا ہو جائیں گی اس لیے تجدید دین کے لیے مجدد آتے رہیں گے اور آخری زمانے میں مسیح موعود اور مہدی معہود آئیں گے جو دین کو ثریا سے زمین پر لائیں گے۔حضرت مسیح موعود ؑ نے اپنے لٹریچر میں، تحریرات میں، کتب میں، ہر جگہ یہ فرمایا ہے کہ مَیں آنحضرتﷺ کی غلامی میں آپؐ کی شریعت اور دین اور قرآن کریم کی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے آیا ہوںاور اب آنحضرت ﷺکے ذریعہ اکمالِ دین ہو چکا ہے۔ اسے اور اسی تعلیم کو ہی دنیا کے ہر کونے میں پہنچانے آیا ہوں۔ تعلیم کی تکمیل قرآن کریم کے آنحضرتﷺ پر نازل ہونے سے ہوئی اور اُس زمانے میں کیونکہ اشاعتِ ہدایت اور تعلیم کے وسائل نہیں تھے اس لیے اس کی اشاعت کے لیے اِس زمانے میں اپنے وعدے کے مطابق اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے غلامِ صادق کو بھیجا۔ پس یہی کام ہے جسے حضرت مسیح موعودؑنے سرانجام دیا اور اسی کے جاری رکھنے کے لیے جماعت احمدیہ کا قیام عمل میں آیا۔ اور یہی کام ہے جو جماعت احمدیہ آپؑ کے دیے ہوئے لٹریچر اور آپؑ کی بیان کردہ قرآنی تفسیر کے مطابق کر رہی ہے۔
سوال نمبر۳:حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقرآنی تعلیم کےاکمال کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:(آپؑ )فرماتے ہیں ’’چونکہ قرآن شریف امر معروف اور نہی منکر میں کامل ہے۔‘‘جو کام کرنے والے ہیں ان کی ہدایت دینے میں اور جن سے روکا گیا ہے ان کے بارے میں بتانے میں کامل ہے،مکمل طور پر بتادیا ہے کہ کیا کرنا ہے کیا نہیں کرنا ’’اور خدا نے اس میں یہی ارادہ کیا ہے کہ جو کچھ انسانی فطرت میں انتہا تک بگاڑ ہو سکتا ہے اور جس قدر گمراہی اور بدعملی کے میدانوں میں وہ آگے سے آگے بڑھ سکتے ہیں ان تمام خرابیوں کی قرآن شریف کے ذریعہ سے اصلاح کی جائے اس لئے ایسے وقت میں اس نے قرآن شریف کو نازل کیا کہ جبکہ نوعِ انسان میں یہ تمام خرابیاں پیدا ہو گئی تھیں اور رفتہ رفتہ انسانی حالت نے ہر ایک بد عقیدہ اور بدعمل سے آلودگی اختیار کر لی تھی اور یہی حکمتِ الٰہیہ کا تقاضا تھا کہ ایسے وقت میں اس کا کامل کلام نازل ہو کیونکہ خرابیوں کے پیدا ہونے سے پہلے ایسے لوگوں کو ان جرائم اور بد عقائد کی اطلاع دینا کہ وہ ان سے بکلی بے خبر ہیں یہ گویا ان کو ان گناہوں کی طرف خود میلان دیتا ہے۔‘‘پہلے ہی بتا دینا کہ یہ یہ گناہ ہیں اور جن کا ان کو پتا ہی نہیں،تصور ہی کوئی نہیں ہے تو اس چیز سے پھر گناہ پھیلتے ہیں… قرآن کریم ہدایت دیتا ہے اور واضح بھی کرتا ہے کہ اس عمر کی یہ ہدایت اور اس عمر کی یہ ہدایت ہے۔ یہ نہیں کہ ہر چیز کو کھول کے بیان کر دیا اور پھر تفسیریں جو ہیں وہ ہر ایک کی عقل اور سمجھ کے مطابق آہستہ آہستہ انہی الفاظ میں سے نکلتی چلی آتی ہیں۔تو فرمایا ’’سو خدا کی وحی حضرت آدم سے تخم ریزی کی طرح شروع ہوئی اور وہ تخم خدا کی شریعت کا قرآن شریف کے زمانہ میں اپنے کمال کو پہنچ کر ایک بڑے درخت کی طرح ہو گیا۔‘‘… پھر فرمایا کہ’’چونکہ کامل کتاب نے آ کر کامل اصلاح کرنی تھی۔ضرور تھا کہ اس کے نزول کے وقت اس کے جائے نزول میں بیماری بھی کامل طور پر ہو تا کہ ہر ایک بیماری کا کامل علاج مہیا کیا جاوے۔ سو اس جزیرہ میں کامل طور سے بیمار …تھے اور جن میں وہ تمام روحانی بیماریاں موجود تھیں۔‘‘ یعنی عرب میں’’جو اس وقت یا اس کے بعد آیندہ نسلوں کو لاحق ہونے والی تھیں ‘‘… فرمایا کہ ’’یہی وجہ تھی کہ قرآن شریف نے کل شریعت کی تکمیل کی اوردوسری کتابوں کے نزول کے وقت نہ یہ ضرورت تھی۔ نہ ان میں ایسی کامل تعلیم ہے۔‘‘
سوال نمبر۴: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے’’قرآن کریم خداکاکلام ہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:قرآن کریم ہرگز کسی انسانی کلام کے مشابہ نہیں ہو سکتاآپؑ اس کو سمجھاتے ہوئے، مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’جب چند متکلمین انشاء پرداز اپنی اپنی علمی طاقت کے زور سے ایک ایسا مضمون لکھنا چاہیںکہ جو فضول اور کِذب اور حَشْو اور لغو اورہَزْل اور ہر یک مہمل بیانی اور ژَوْلِیدہ زبانی اور دوسرے تمام امور مخل حکمت وبلاغت اور آفات منافی کمالیت وجامعیت سے بکلّی منزہ اور پاک ہو۔‘‘…فرمایاکہ ’’اور سراسر حق اور حکمت اور فصاحت اور بلاغت اور حقائق اور معارف سے بھرا ہوا ہو تو ایسے مضمون کے لکھنے میں‘‘نہ صرف وہ پاک ہو بلکہ معارف سے بھرا ہوا بھی ہو۔ تو ایسے مضمون کے لکھنے میں ’’وہی شخص سب سے اوّل درجہ پر رہے گا کہ جو علمی طاقتوں اور وسعت معلومات اور عام واقفیت اور ملکہ علوم دقیقہ میں سب سے اعلیٰ اور مشق اور ورزشِ املاء و انشاء میں سب سے زیادہ ترفرسودہ روزگار ہو اور ہرگز ممکن نہ ہوگا کہ جو شخص اس سے استعداد میں، علم میں، لیاقت میں، ملکہ میں، ذہن میں،عقل میں کہیں فروتر اور متنزل ہے۔‘‘بہت نیچے گرا ہوا ہے۔’’وہ اپنی تحریر میں مِنْ حَیثُ الکمالات اس سے برابر ہو جائے۔‘‘…پس جبکہ من کل الوجوہ ثابت ہے کہ جو فرق علمی اور عقلی طاقتوں میں مخفی ہوتا ہے وہ ضرور کلام میں ظاہر ہوجاتا ہےاور ہرگز ممکن ہی نہیں کہ جو لوگ من حَیثُ العقل والعلم افضل اور اعلیٰ ہیں وہ فصاحت بیانی اور رفعت معانی میں یکساں ہوجائیں ‘‘علم و عرفان والے بہرحال اوپر رہیں گے۔وہ ایک عام آدمی کے برابر نہیں ہو سکتے۔ ’’اور کچھ مَابِہِ الامتیاز باقی نہ رہے۔ تواس صداقت کا ثابت ہونا اس دوسری صداقت کے ثبوت کو مستلزم ہے کہ جو کلام خداکا کلام ہو اس کا انسانی کلام سے اپنے ظاہری اور باطنی کمالات میں برتر اور اعلیٰ اور عدیم المثال ہونا ضروری ہے۔‘‘پس اس مثال سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام تو ان سب سے اعلیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہی تمام علوم کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اس جتنا علم تو کسی کو بھی نہیں ’’کیونکہ خدا کے علم تام سے کسی کا علم برابر نہیں ہوسکتا۔ اور اسی کی طرف خدا نے بھی اشارہ فرما کر کہا ہے۔ فَاِلَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَكُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اُنْزِلَ بِعِلْمِ اللّٰہِ ( ھود :۱۵) … یعنی اگر کفار اس قرآن کی نظیر پیش نہ کرسکیں اور مقابلہ کرنے سے عاجز رہیں تو تم جان لو کہ یہ کلام علمِ انسان سے نہیں بلکہ خداکے علم سے نازل ہوا ہے۔‘‘جب مثال پیش ہی نہیں کرسکتے تو پھر ظاہر ہے کہ انسان کا کلام نہیں یہ خدا کا کلام ہے۔’’جس کے علم وسیع اور تام کے مقابلہ پر علوم انسانیہ بے حقیقت اور ہیچ ہیں اس آیت میں برہانِ اِنِّی کی طرز پر اثر کے وجود کو مؤثر کے وجود کی دلیل ٹھہرائی ہے۔‘‘فرماتے ہیں’’جس کا دوسرے لفظوں میں خلاصہ مطلب یہ ہے کہ علم الٰہی بوجہ اپنی کمالیت اور جامعیت کے ہرگزانسان کے ناقص علم سے متشابہ نہیں ہوسکتا بلکہ ضرور ہے کہ جو کلام اس کامل اور بے مثل علم سے نکلا ہے وہ بھی کامل اور بے مثل ہی ہو اور انسانی کلاموں سے بکلّی امتیاز رکھتا ہو۔ سو یہی کمالیت قرآنِ شریف میں ثابت ہے۔‘‘
سوال نمبر۵: حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ’’قرآن کریم نےکمال ایجازسےتمام دینی صداقتوں پراحاطہ کیاہے‘‘کی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا: آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’فرقان مجید نے اپنی فصاحت اور بلاغت کو صداقت اور حکمت اور ضرورت حقّہ کے التزام سے ادا کیا ہے اور کمال ایجاز سے تمام دینی صداقتوں پر احاطہ کر کے دکھایا ہے۔ چنانچہ اس میں ہر یک مخالف اور منکر کے ساکت کرنے کے لئے براہین ساطعہ بھری پڑی ہیں اور مومنین کی تکمیلِ یقین کے لئے ہزارہا دقائق حقائق کا ایک دریائے عمیق و شفاف اس میں بہتا ہوا نظر آ رہاہے۔ جن امور میں فساد دیکھا ہے انہیں کی اصلاح کے لئے زور مارا ہے۔ جس شدت سے کسی افراط یا تفریط کا غلبہ پایا ہے اسی شدت سے اس کی مدافعت بھی کی ہے۔جن انواع اقسام کی بیماریاں پھیلی ہوئی دیکھی ہیں ان سب کا علاج لکھا ہے۔ مذاہب باطلہ کے ہر ایک وہم کو مٹایا ہے۔ہر ایک اعتراض کا جواب دیا ہے۔ کوئی صداقت نہیں جس کو بیان نہیں کیا۔کوئی فرقہ ضالّہ نہیں جس کا ردّ نہیں لکھا۔اور پھر کمال یہ کہ کوئی کلمہ نہیں کہ بلاضرورت لکھا ہو۔اور کوئی بات نہیں کہ بے موقع بیان کی ہو اور کوئی لفظ نہیں کہ لغو طور پر تحریر پایا ہواور پھر باوصف التزام ان سب امور کے فصاحت کا وہ مرتبہ کامل دکھلایا جس سے زیادہ تر متصور نہیںہو سکتا۔ ساری باتیں کوَر (cover) کرلیں اور مختصر طور پر کیں لیکن فصاحت و بلاغت اس سے زیادہ ہو ہی نہیں سکتی’’اور بلاغت کو اس کمال تک پہنچایا کہ کمال حسن ترتیب اور موجز اور مدلل بیان سے علم اوّلین اور آخرین ایک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا۔‘‘ پہلوں کے لیے بھی علم تھا۔ پہلے بھی مثال دے چکا ہوں۔ حضرت مسیح موعود ؑ نے فرمایا کہ عرب کے جو بدّو تھے جو گاؤں کے رہنے والے تھے ان کو بھی قرآن کریم سمجھ آ گیا اور وہ باخدا انسان بن گئے، تعلیم یافتہ انسان بن گئے، اور جو علم رکھنے والے تھے، ان کو اپنی عقل کے مطابق سمجھ آیا اور پھر ان تک نہیں اولین اور آخرین تک بھی سمجھ آ گیا۔ آخرین میں بھی قرآن کریم کی تعلیم ایسی ہے جس کی تفاسیر کے ہر لفظ سے ہرزمانے میں ایک نئے معنی نکلتے چلے جاتے ہیں جو اس زمانے کے لحاظ سے ہمیں پتا دیتے رہتے ہیں۔ فرمایا کہ ایک چھوٹی سی کتاب میں بھر دیا ’’تا کہ انسان جس کی عمر تھوڑی اور کام بہت ہیں بیشمار درد سر سے چھوٹ جائے اور تا اسلام کو اس بلاغت سے اشاعت مسائل میں مدد پہنچے اور حفظ کرنا اور یاد رکھنا آسان ہو۔‘‘
سوال نمبر۶: حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےقرآن کریم کےآخری کتاب ہونےکی بابت کیابیان فرمایا؟
جواب: فرمایا:آپؑ فرماتے ہیں کہ قرآن شریف ایسے زمانے میں آیا تھا کہ جس میں ہر ایک طرح کی ضرورتیں تھیں جن کا پیش آنا ممکن ہے پیش آ گئی تھیں یعنی تمام امور اخلاقی اور اعتقادی اور قولی اور فعلی بگڑ گئے تھے اور ہر ایک قسم کا افراط اور تفریط اور ہر ایک نوع کا فساد اپنے انتہا کو پہنچ گیا تھا۔ اس لیے قرآن شریف کی تعلیم بھی انتہائی درجہ پر نازل ہوئی۔ پس انہی معنوں سے شریعت فرقانی مختتم اور مکمل ٹھہری اور پہلی شریعتیں ناقص رہیں کیونکہ پہلے زمانوں میں وہ مفاسد کہ جن کی اصلاح کے لیے الہامی کتابیں آئیں وہ بھی انتہائی درجہ پر نہیں پہنچے تھے اور قرآنِ شریف کے وقت میں وہ سب اپنے انتہا کو پہنچ گئے تھے۔ بہت سے بچے یا نوجوانی میں قدم رکھنے والے لوگ سوال کرتے رہتے ہیں ان کے لیے جواب ہے کہ پہلے وہ باتیں انتہا کو نہیں پہنچی تھیں یہاں انتہا کو بھی پہنچ گئیں۔ اس لیے تعلیم بھی انتہا کو پہنچ گئی۔ اس لیے قرآن کریم نازل ہوا اور اس لیے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ سے اسلام کی بنیاد پڑی۔ پس اب قرآن شریف اور دوسری الہامی کتابوں میں فرق یہ ہے کہ فرمایا پہلی کتابیں اگر ہر ایک طرح کے خلل سے محفوظ بھی رہتیں پھر بھی وہ بوجہ ناقص ہونے تعلیم کے ضرور تھا کہ کسی وقت کامل تعلیم یعنی فرقان مجید ظہور پذیر ہوتا۔ ان کے سامنے بعض باتیں آئی ہی نہیں تھیں تو وہ بیان کس طرح کرتے۔ اس کی تعلیم ناقص تھی اس لیے قرآن مجید کا ظہور ہونا ضروری تھا۔ فرمایا مگر قرآن شریف کے لیے اب یہ ضرورت پیش نہیں کہ اس کے بعد کوئی اَور کتاب بھی آوے کیونکہ کمال کے بعد اَور کوئی درجہ باقی نہیں۔